Corruption in China

سُنتے ہو تو چین کی سُنیے

کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ جب بیلٹ اینڈ روڈ فورم2019 کی تین روزہ عالمی کانفرنس دنیا بھر کی مرکزنگاہ بنا ہوئی تھی،عین اُسی وقت پاکستانیوں کی ایک بڑی اکثریت الیکڑانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر اِس الجھی گتھی کو سلجھانے میں اپنی جان ہلکان کرنے میں لگی ہوئی تھی کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کا استقبال چینی صدر شی جن پنگ کے بجائے بیجنگ کی میونسپل کمیٹی کی ڈپٹی سیکریٹری جنرل نے کیوں کیا۔یعنی ”سیاسی چسکے“ کے شائق لوگوں کے لیئے بیلٹ اینڈ فورم کی تمام تر کامیابی کا دارمدار فقط اِس ایک بات پر آن ٹکا تھا کہ عمران خان کا استقبال کرنے کون آتا ہے۔ویسے تاریخی ریکارڈ کی درستگی کے لیئے بتاتے چلیں کہ بیلٹ اینڈ روڈ فورم کا اولین اجلاس جو کہ 2017 میں منعقد ہوا تھا میں اُس وقت کے وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے استقبال کے لیئے بھی بیجنگ میونسپل کمیٹی کے وائس چیئرمین ہی حاضر ہوسکے تھے اور یہ کوئی اتنی اچبھنے کی بات نہ تو اُس وقت تھی اور نہ ہی آج ہونی چاہیئے۔ کیونکہ تھوڑی بہت بھی عقلِ سلیم رکھنے والا شخص بخوبی سمجھ سکتا ہے ایک ایسی عالمی کانفرنس جس میں شرکت کے لیئے 37 ممالک کے سربراہ اور 49 عالمی تنظیموں کے منتظم شرکت کے لیئے آرہے ہوں،اِن حالات میں ہر سربراہ مملکت کا فرداً فرداًاستقبال کرنے کے لیئے چینی صدر شی جن پنگ کا بہ نفسِ نفیس ائیرپورٹ پر حاضر ہونا کس طرح ممکن ہوسکتاتھا۔بھلا اتنی ذرا سی بات سوچنے کی زحمت بھی عمران خان کے ازلی ناقدین کیونکر گوارا کرسکتے تھے جبکہ پروٹوکول کی فضول بحث نے بیلٹ اینڈ فورم 2019 میں ہونے والی کئی اہم ترین پیش رفت اور اُن سے متعلق اطلاعات سے ایک عام پاکستانی کو بے خبر رکھنے میں انتہائی مذموم کردار ادا کیا۔
”بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو“یعنی بی آر آئی جسے ”ون بیلٹ ون روڈ“کے نام سے بھی جانا جاتا ہے چین کی طرف سے رواں صدی کا سب سے بڑا ترقیاتی منصوبہ ہے جس کے تحت 66 سے زائد ممالک کو تجارتی سطح پر باہم جوڑا جا رہا ہے۔ یہ منصوبہ مستقبل میں دنیا کی دو تہائی آبادی کو آپس میں ملائے گا۔ اِس منصوبے کا باضابطہ اعلان صدر شی جن پنگ نے 2013 میں کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”یہ عظیم الشان منصوبہ زمانہِ قدیم کی شاہراہ ریشم کے نقش قدم پر بنایا جائے گا“۔ شاہرہِ ریشم کی مناسبت سے اس منصوبہ کے زمینی راستے کو ”سلک روڈ اکنامک بیلٹ“ کا نام دیا گیا ہے جو کہ چین کو سڑک اور ریل کی مختلف راہداریوں کے ذریعے ایشیا کے تقریباً تمام ممالک سے ملاتے ہوئے یورپ تک لے جاتا ہے۔ ان راہداریوں کا سب سے اہم حصہ پاک چین اقتصادی راہداری ہے، جسے عموماً سی پیک کے مختصر نام سے بھی پکارا جاتاہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ راہداری گوادر سے خنجراب تک62 ارب امریکی ڈالر کی خطیر رقم سے مکمل ہوسکے گی۔جبکہ اسی راہ داری کا دوسرا حصہ”میری ٹائم سلک روڈ“ ہے جو کہ پاکستان کے بحری راستے سے ہوتا ہوا، افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیا سمیت پوری دنیا میں بکھر جاتا ہے۔ 3.5 ملین مربع کلومیٹر پر پھیلا یہ سمندری حصہ دنیا کے چند بڑے بحری تجارتی راستوں میں سے ایک ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اِس اہم ترین تجارتی راستہ کا آغاز پاکستان کے علاقے گوادر سے ہوتا ہے اور چین مستقبل قریب میں اسی ”میری ٹائم سلک روڈ“ کو بطور اپنے بحری تجارتی راستہ کے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ گوادر سے شروع ہونے والے اِس تجارتی بحری راستہ کو استعمال کرنا دو وجوہات کی بناء پر چین کے لیئے ازحد ضروری ہے۔پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اِس وقت چین کا اسی فیصد تیل مڈل ایسٹ سے آبنائے ملاکہ یعنی ملاکہ سٹریٹ کے راستے سے آتا ہے۔ یہ بحری راستہ ہر وقت جنگ کے خطرات میں گھرا رہتا ہے،کیونکہ یہاں موجود جاپان، کوریا، تائیوان، فلپائن اور ویت نام چین کے سخت عسکری حریف ہیں اور انھی ممالک کو دفاع کا جھانسہ دے کر امریکہ بھی اپنا چھٹا بڑا جنگی بحری بیڑا یہاں لے آیا ہے۔ چین کو ڈر ہے کہ مستقبل میں کبھی بھی کوئی چھوٹا سا بہانہ بنا کر امریکہ اور اُس کے حریف ممالک آپس میں مل کر چین کا یہ تجارتی راستہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے بند کر سکتے ہیں۔ جبکہ اس کے مقابلے میں ”میری ٹائم سلک روڈ“ کا بحری راستہ پاکستان کی طرف سے گزرنے کے باعث سو فیصد محفوظ ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ آبنائے ملاکہ کا راستہ 9912 میل لمبا ہے۔ جبکہ پاکستان کی پورٹ گوادر سے سنٹرل چین تک کا راستہ صرف 3626 میل بنتا ہے۔ یوں چین کی سرحد تک یہ راستہ سمٹ کر فقط 2295 میل رہ جاتاہے۔یعنی اگر چین اپنی تیل کی صرف آدھی مقدار بھی گوادر کے راستے امپورٹ کرے تو اسے روزانہ ساٹھ لاکھ ڈالر کی صافی بچت ہو گی یعنی سالانہ دو ارب ڈالر۔سی پیک کے یہ دو منفرد فائدے ایسے ہیں جو چین کسی بھی دوسرے ذریعے سے نہیں حاصل کر سکتا۔
اپنی اِن ہی غیرمعمولی جغرافیائی خصوصیات کے باعث پاکستان اَب تک بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والا ملک ہے کیونکہ پاکستان کے بغیر یہ منصوبہ کسی بھی صورت پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔سچی بات تو یہ ہے کہ سی پیک نے بیلٹ اینڈ روڈ کی تعمیر میں سب سے اہم کردار ادا کیا ہے وگرنہ اِس سے پہلے دنیا کے نزدیک چین کا اِس منصوبہ کا قابلِ عمل ہونا کم و بیش ناممکن ہی خیال کیا جاتا تھا۔ون بیلٹ اینڈ روڈکے اس منصوبے نے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں تیز رفتار ترقی کی رفتار برقرار رکھنے میں خاصی معاونت فراہم کی ہے اور ملک کی مائیکرو اکنامکس صورتحال بہتر بنانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا ہے۔چائنا اکنامک نیٹ کی طرف سے شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران پاکستان کی کل قومی پیداوار(جی ڈی پی) میں اضافے کی شرح اوسطاً 4.77فیصد رہی،خاص طور پر2017-18میں پاکستان کی جی ڈی پی میں 5.8فیصد کا اضافہ ہوا جو گزشتہ 13برسوں کے دوران بلند ترین شرح پیداوار تھی، پاکستان کی سالانہ غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری 650 ملین امریکی ڈالر سے 2.2ارب امریکی ڈالر تک پہنچ گئی اورملک کی فی کس آمدنی 1334 امریکی ڈالر سے 1641امریکی ڈالر ہو گئی۔یہ سب کچھ سی پیک کے ابتدائی ثمرات کی ہلکی سی جھلک ہیں جبکہ اصل ثمرات کا آغاز آئندہ چند برسوں میں ہوا ہی چاہتا ہے۔ یعنی اگر دنیا کے تمام ممالک بھی ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ میں شامل ہوجائیں تب بھی سب سے زیادہ اس منصوبہ سے فائدہ اُٹھانے والا ملک پاکستان ہی ہو گا۔اِس منصوبہ میں پاکستانی کردار کے حوالے سے بھارت میں ایک کہانی بھی بڑی مشہور ہے۔جو کچھ یوں بیان کی جاتی ہے کہ”ایک بار امریکیوں نے چینیوں سے شکوہ کیا کہ ان کی غیر مشروط حمایت کے سبب پاکستان اتنا بگڑ گیا ہے کہ کسی کی نہیں سنتا تو پیپلز لبریشن آرمی کے جنرل ژینگ کوانگ کائی نے جواباً کہا”پاکستان چین کا اسرائیل ہے“۔شاید یہ بات بھارتیوں نے دل پر لے لی ہے،جب ہی تو چین کی باربار دعوت دینے کے باوجود بھی بھارت اِس منصوبہ میں شامل ہونے سے کنی کترا رہا ہے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور کے شمارہ 09 مئی 2019 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

سُنتے ہو تو چین کی سُنیے” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں