Negative Criticism

بچہ پر سختی نہیں پیار

ایک دن میرے ایک دوست نے مجھے کہا کہ ”میں اپنے بچہ کے حوالے سے بہت پریشان ہوں
میں نے دریافت کیا ”ایسی کونسی بات ہے جو تمہیں پریشان کر رہی ہے،آخر کیا ہوگیا ہے آپ کے بچہ کو؟
میرے دوست نے روہانسی سے صورت بنا کر کہا کہ”میرا بچہ کچھ دنوں سے مجھ سے دور،دور رہنے لگا ہے،نئے نئے دوست بنا رہا ہے، ہر وقت عجلت میں نظر آتا ہے،رات کو دیر تک جاگتا رہتا ہے گھر بھی اکثر دیر سے آتا ہے،ہر بات پر گھر کے دیگر افراد سے بحث کرتا ہے،اپنی رائے حتمی انداز میں پیش کرتا ہے،موسیقی تیز آواز میں سنتا ہے اور سب سے بڑھ کر موٹر بائیک بھی تیز چلانے لگ گیا ہے“۔
میں نے اپنے دوست کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ”اس میں پریشان ہونے والی نہیں بلکہ خوش ہونے والی بات ہے کیونکہ تمہاری بیان کر دہ علامات کے مطابق تو تمہارا بچہ تمہاری توقع کے بر خلاف جوان ہوگیاہے“۔
صرف ایک میرے دوست پر ہی موقوف نہیں ہے بلکہ ہم میں سے ہر شخص اپنی نوجوان نسل کے بارے میں عجیب،عجیب خیالات اور شکایات رکھتا ہے لیکن اگر ایمانداری سے جائزہ لیا جائے تو 13 سے 19 سال کی عمر کے نوجوان جس طرح کے رویوں کا اظہار کرتے ہیں اُس میں وہ اتنے قصور نہیں ہوتے جتنا اُن کو ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے کی طرف سے نوجوانوں کو بات،بات پر نصحیت،بے جا روک ٹوک اور ڈانٹ ڈپٹ کرنا کوئی ایسا قابلِ فخر رویہ نہیں کہ جس کا اچھا اثر ہمارے نوجوانوں کی شخصیت پر مرتب ہوتا ہو۔
نوجوان اور معاشرے کے آپسی تعلقات کی تفہیم کے بارے میں ایک دانشور نے بڑی خوبصورت بات کہی تھی کہ”جنریشن گیپ کی تعریف یہ نہیں ہے کہ دوجنریشن یعنی نسلوں کے افراد آپس میں بات نہ کرتے ہوں بلکہ درست تعریف یہ ہے کہ وہ بات تو ایک دوسرے سے بہت کریں مگر اپنی بات ایک دوسرے کو سمجھا نہ سکتے ہوں“۔کچھ اسی طرح کی صورت حال ہمارے معاشرے میں بھی جا بجا نظر آتی ہے۔نوجوانوں اور معاشرے کے درمیان اس تیزی سے بڑھتی ہوئی خلیج کو پاٹنے کے لیئے ہمیں سب سے پہلے اپنے نوجوانوں کے دماغ کو پڑھنا ہوگاکہ آخر ہمارے نوجوانوں کے دماغ میں چل کیا رہا ہے؟کیا ہمارے نوجوانوں کی سیکھنے کی رفتار اپنے بڑوں سے زیادہ ہوچکی ہے؟ اور کیا آج کے نوجوان غیر معمولی آئی کیو لیول رکھتے ہیں؟ اور ان تمام سوالوں سے بھی اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی اپنے نوجوانوں کے دماغ کو پڑھ سکتے ہیں؟خوش قسمتی سے اس کا جواب ہاں میں ہے کئی دہائیوں کی تحقیقات و تجربات نے انسانی نفسیات اور نیورو سائنس کو اس قابل کر دیا ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کے گنجلگ دماغ کے پراسرار رازوں کو جان سکیں۔
ہمیں یہ مان لینا چاہیئے نوجوانوں کا غیرمتوقع رویہ دماغ کے نہاں خانے کی کرشمہ سازی ہے۔دوسرے لفظوں میں آج کا نوجوان بے چارہ نیورون کے رحم وکرم پر ہے۔مزید یہ کہ محقیقین نے نوجوانوں کی حیران کن صلاحیتوں کی کچھ ایسی گرہیں بھی کھول کر رکھ دی ہیں جو اس سے پہلے ہر کس و ناکس کی نظروں سے پوشیدہ تھیں۔
جدید تحقیقات کے مطابق نوجوان کو کسی بھی عمل پر اُکسانے یا سیماب صفت رویہ سازی میں دماغ کا جو حصہ سب سے زیادہ ذمہ دار ہوتا ہے اُسے لیمبک سسٹم کہا جاتا ہے جو دماغ کے عین درمیان کانوں کے پیچھے واقع ہوتا ہے۔یہ عجیب و غریب ساخت کا مجموعہ عام طور پر جذبات،احساسات اُس وقت پیدا کرتا ہے جب ہم کسی وقت کسی چیز سے لطف یا حظ اُٹھاتے ہیں یہ بلوغت کے یعنی 10 سے 20 سال کی عمر کے وقت تیزی سے مکمل ہونا شروع ہوتا ہے۔اس وقت اس منسلک اعصابی خلیہ میں ایک لیس دار پرت چڑھنا شروع ہو جاتی ہے جسے میلائن  کہتے ہیں۔یہ لیس دار پرت لیمبک سسٹم کو تیزی سے فروغ دینا شروع کردیتی ہے۔یہ اسی کا کمال ہوتا کہ اس عمر میں نوجوان اپنے اندر بہت زیادہ جذباتی توانائی کا خزانہ محسوس کرتے ہیں اور اپنے جذبات اور احساسات بلا روک ٹوک لوگوں کے سامنے کسی بھی انجام کی پروا کیئے بغیر بیان کرنا شروع کردیتے ہیں۔
ڈاکٹر ادرینا گیلون جو کہ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا،لااینجلس میں بطور ماہر نفسیات دماغی تحقیق کے اس خصوصی پروگرام سے منسلک ہیں نے نوجوانوں اور بالغ افراد میں عمل کے بنیادی فرق کو سمجھنے اور غیر معمولی طور پر خود کو خطرے میں ڈالنے کی اس عادت کا سراغ لگانے کے لیئے بالغ اور نوجوانوں پر مشتمل دو گروہ لیئے جنہیں ایک ”اسپینر مشین“ پر جواء کھیلنے کے لیئے کہا گیا جس میں انہیں ایک دوسرے سے شرط لگا کر یا تو رقم جیتنی تھی یا ہارنی تھی اور اس پورے کھیل کے دوران شرکاء کے دماغ کو ایک ایم آر آئی اسکینر سے منسلک کر دیا گیا۔اس تجربے کے دوران جو بات پایہ ثبوت کو پہنچی وہ یہ تھی کہ جیسے جیسے جوئے کی رقم بڑھتی تھی بالغ افراد کے مقابلے میں نوجوان زیادہ شدو مد اور تیزی کے ساتھ بغیر ہار کی پروا کیئے بڑی بڑی رقمیں لگا دیتے تھے جب کے بالغ افراد فیصلہ کرنے میں بہت زیادہ وقت لیتے تھے اس تمام مشق کے دورانِ ایم آر آئی اسکینر صاف دکھا رہا تھا کہ نوجوانوں کا لیمبک سسٹم بہت تیزی سے میلائین کا اخراج کر رہا ہے جبکہ بالغ افراد کے گروہ میں اس کی رفتار سست ترین سطح پر تھی۔ڈاکٹر گیلون نے بتایا کہ اس تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بالغ افراد بہت زیادہ احتیاط پسندی کا مظاہرہ کیوں کرتے ہیں جبکہ اُن کی کے مقابلے نوجوان سیکنڈ کے ہزارویں حصہ جتنا وقت بھی نقصان کے بارے میں سوچنے میں کیوں صرف نہیں کرتے۔حیران کن بات تو یہ تھی کہ رسک لینے کے باوجود بھی نوجوانوں کی رقم جیتنے کی شرح بالغ افراد کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی اور یہ سب لیمبک سسٹم کے بہت زیادہ متحرک ہونے کی باعث ہی تھا یہ لیمبک سسٹم کا سحر ہی ہے کہ نوجوان بالغ افراد کے مقابلے میں نئے نئے رشتے بنا نا،نئی جگہوں پر جانا اور نئے سماجی رابطوں کو تشکیل دینابہت شدت کے ساتھ پسند کرتے ہیں۔
نوجوان صرف خطروں میں پڑنا ہی پسند نہیں کرتے بلکہ نئی چیزوں کو سیکھنے کی خواہش کا بھی ایک پورا سمند اپنے اندر موجزن رکھتے ہیں۔آج نوجوان اپنا بیشتر وقت سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس پر گزارنا پسند کرتے ہیں شاید یہ جاننا بھی ایک بہت ہی حیران کن مرحلہ ہو کہ جب نوجوان کچھ سیکھ رہے ہوتے ہیں تو اُن کے دماغ میں کیا چل رہا ہوتا ہے؟۔اس سلسلے میں گیلون کا کہنا ہے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ نوجوان بالغ افراد کے مقابلے میں کمپیوٹر پر بہت جلد نئی چیزیں سیکھ لیتے ہیں اور اس چیز کاذمہ دار ہیپوکیمپس  ہے۔یہ دماغ کا وہ بنیادی حصہ ہے جو نوجوانوں کو سیکھنے میں بہت مدد فراہم کرتا ہے۔اگر نوجوانوں کو رات وقت پر نیند نہیں آتی تو اس میں بھی نوجوانوں کو قصور وار نہیں ٹھرایا جاسکتا کیونکہ میلاٹونین نامی ایک ہارمون جو ہمیں سونے میں مدد کرتا ہے۔یہ بالغ افراد کے مقابلے میں نوجوانوں میں زیادہ متحرک نہیں ہوتا جس کی وجہ سے نوجوانوں کے لیئے جلد سونا ایک مشکل امرہوتا ہے یہ ہارمون عموماً نوجوانوں میں رات 10 بجے کے بعد متحرک ہونا شروع ہوتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دوران اگر نوجوان پڑھنے لکھنے یا کچھ نیا سیکھنے میں اپنا وقت گزاریں تو ان کے لیئے بہترین ہوگا کیونکہ نوجوانوں کے لیئے سیکھنے کے لیئے بہت اچھا وقت ہوتا ہے۔مصیب تب ہوتی ہے کہ جب نوجوان اس وقت کو سیکھنے یا دماغ میں ڈیٹا محفوظ کرنے کے بجائے فضولیات یا دماغ میں پہلے سے موجود مواد یا ڈیٹاکو ضائع کرنے میں صرف کر دیتے ہیں۔
یہ یا اس طرح کی دیگر مطالعاتی تحقیقات ثابت کرتی ہیں کہ نوجوان بیچارے مجبور ِمحض ہیں یعنی اگر نوجوان 12 سے 18 سال کے درمیان جس طرح کے بھی پسندیدہ یا ناپسندیدہ رویوں کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں تو اُس کا انہیں براہ راست ذمہ دار قرار دینا زیادتی ہے کیونکہ اُنکے رویوں یا عادتوں کی اصل ذمہ دار تو دماغ میں رونما ہونے والی مختلف قسم کی کیمیائی تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ جیسا کہ امامِ علم و حکمت حضرت علی ؓ نے ارشاد فرمایا تھا کہ”اے لوگو! کبھی بھی اپنی اولاد کو اپنے جیسا بننے پر مجبور نہ کرو کیونکہ یہ اپنے زمانے کے لیئے پیدا کیئے گئے ہیں اگر انہیں بھی تمہاے جیسا بنانا ہی قدرت کا منشا ہوتا تو پھر وہ انہیں پیدا ہی کیوں کرتا اس کے لیئے تو تم لوگ ہی کافی تھے“۔ کیونکہ ہم ”دماغی عمر“ کے مختلف ادوار سے گزرتے ہیں اس لیئے ہم جو کرتے وہ دراصل ہم نہیں کرتے یہ سب ہمارے دماغ کی کارستانی ہوتی ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ کیا کرنا ہے اور کب کرنا ہے اس کا اختیار ہمارے پاس ہے مگر کیسے کرنا ہے یہ فیصلہ دماغ کرتا ہے۔اس لیئے شاید علامہ اقبال نے کہا تھا کہ
اچھا ہے دل کے پاس رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ 23 ستمبر 2017 کی اشاعت میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں