Domiciles Dont forget your place

ڈومیسائل اور بے چارے سائل

جس خبر کو سننے کے لیئے صوبہ سندھ کی عوام ایک مدت سے منتظر تھے،وہ خوش کن خبر سننے کو ملی بھی تو وزیراعلیٰ پنجاب کے دفتر سے اور وہ بھی صرف پنجاب کی عوام کے لیئے۔خبر کچھ یوں ہے کہ پنجاب حکومت نے صوبہ بھر میں ڈومیسائل ختم کرنے کا حتمی فیصلہ کرلیا ہے،جس کا جلد ہی باقاعدہ سرکاری نوٹی فکیشن بھی جاری کردیاجائے گا اور پورے پنجاب میں ڈومیسائل ختم ہونے کے بعد، قومی شناختی کارڈ پر درج مستقل پتا ہی آئندہ سے ڈومیسائل تصور کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ پنجاب حکومت نے یہ فیصلہ ڈومیسائل کے حصول میں رشوت ستانی،جعل سازی اور بے قاعدگیوں کی روز بروز بڑھتی ہوئی شکایات موصول ہونے پر کیا ہے۔

یہاں اہم ترین سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا ہی مستحسن انتظامی فیصلہ وزیراعلی سندھ جناب سیدمراد علی شاہ، صوبہ سندھ کی عوام کے بھلے کے لیئے کبھی کرنا چاہیں گے؟۔ کیونکہ ڈومیسائل کے حصول میں صوبہ سندھ کی عوام کو رشوت ستانی،جعل سازی سے بڑھ کر بھی کئی سنگین نوعیت کے مسائل درپیش میں ہیں۔ جس میں سب مہلک اور موذی عذاب ڈومیسائل جیسی سرکاری دستاویز کا طبقاتی اور متعصبانہ استعمال بھی ہے۔ جی ہاں! صوبہ پنجاب،خیبر پختونخواہ، بلوچستان میں تو ڈومیسائل فقط سیدھا سادا ڈومیسائل ہی ہوتاہے مگر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ صوبہ سندھ میں ڈومیسائل کے ساتھ ”دیہی“ اور ”شہری“ کی پخ بھی لگتی ہے۔جبکہ سندھ کی عوام کو ڈومیسائل کے ہمراہ ”پی آر سی“ اور ”پی آر ڈی“کے دو عدد اضافی شناخت نامے بھی بنوانے پڑتے ہیں۔

اَب یہ تو یقینی سی بات ہے کہ جب ڈومیسائل کے ساتھ دیگر کاغذی لوازمات کا اضافہ شامل ہوجائے گا تو پھر رشوت کا ریٹ بھی دیگر صوبوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوگا اور سرکاری دفاتر کے چکر بھی ڈومیسائل کے حصول کے لیئے سائل کو دیگر صوبوں کے سائلین کے مقابلے میں زیادہ ہی لگانا پڑیں گے۔لیکن المیہ تو یہ ہے کہ اگر سائل بھاری رشوت اور ذلت آمیز خواری کی نقد ادائیگی کے بعد ڈومیسائل،پی آر سی اور ڈی فارم بنوا بھی لے تب بھی نوکریاں تو جعلی ڈومیسائل رکھنے والے سفارشی افرادہی لے اُڑتے ہیں۔

قومی ذرائع ابلاغ میں تواتر سے شائع ہونے والی مختلف رپورٹس کے مطابق صوبہ سندھ کے سرکاری محکموں کے گریڈ ایک تا 21 کے کراچی میں ساڑھے 30 ہزار سے زائد اور حیدرآباد میں ساڑھے 5 ہزار سے زائد ایسے افسران و لوئر گریڈ ملازمین خلاف ضابطہ شہری علاقوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں جو دیہی اضلاع کے ڈومیسائل کے حامل ہیں اور ان کی بھرتیاں بھی دیہی سندھ کے ڈومیسائل کوٹے پر ہی ہوئیں تھیں۔ تاہم سیاسی اثر و رسوخ کے باعث ان کی تقرریاں شہری ڈومیسائل کراچی اور حیدرآباد کی اسامیوں پر کردی گئیں جس کی وجہ سے شہری علاقوں کا ڈومیسائل رکھنے والے افسران و ملازمین کی اسامیوں پر خاموشی کے ساتھ ہاتھ صاف کردیا گیا۔واضح رہے کہ جعلی ڈومیسائل کے سلسلے میں بعض سیاسی جماعتوں نے عدالت سے رجوع کر رکھا ہے۔ جبکہ جون 2020 میں وفاق کی جانب سے سندھ میں جعلی ڈومیسائلز کے سلسلے چیئرمین نیب کو بھی خط لکھ کر اس معاملے کی منصفانہ تحقیقات کرنے کا کہا گیا تھا۔یقینا عدالت عالیہ اور نیب کے پاس تحقیقات کے چلے جانے سے شہری ڈومیسائل اور دیہی ڈومیسائل کے مدت پرانے مسائل تو کافی حد تک حل ہو ہی جائیں گے۔

لیکن اگر سندھ میں ڈومیسائل اور اس کے خانے میں شہری و دیہی کی تفریق بدستور برقرار رہتی ہے تو نہ جانے مستقبل قریب میں کتنے لایعنی قسم کے تنازعات اور مسائل سندھ کی عوام کے لیئے باعثِ آزار بنتے رہیں گے۔ حالانکہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں کمپیوٹرائز شناختی کارڈ کا اجراہونے کے بعد ڈومیسائل کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟۔ پاکستان میں بھی ڈومیسائل ”دی پاکستان سیٹزن شپ ایکٹ 1951کی سیکشن 17اور رول 23کے تحت درکار شرائط و ضوابط کے تحت تیار کیا جاتاہے۔ یہ قانون پاکستان قائم ہونے کے چار سال بعد اس وقت کے انتظامی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے لاگو کیا گیا تھا،جب وطن عزیز پاکستان میں ہندوستان سے ہجرت کر کے بھی بہت سے لوگ ملک کے مختلف علاقوں میں آباد ہو رہے تھے۔اُس زمانے میں ڈومیسائل کے حصول کے لیے دیگر رہائشی و شناختی دستاویزی ثبوت کے ساتھ فارم P & P1 سٹیزن شپ رولز 1952درکار ہوتا تھا،جن کو پر کر کے دینا ہوتاہے فارم Pمکمل طورپر ان معلومات اور یقین دہانیوں کے متعلق ہے کہ آپ کب ہندوستان سے ہجرت کرکے آئے اوراب آپ کا مستقل طورپر پاکستان میں آباد ہونے کا ارادہ ہے اورفارم P1جس پر ڈومیسائل تیار کر کے دیاجاتاہے اس پر ڈومیسائل کی جگہ پر رہائش پذیر ہونے کی تاریخ درج کرنا مقصود ہوتی تھی۔

اگر اس قانون کا بنظر غائر جائزہ کیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ کسی بھی جگہ پر ایک خاص مدت تک رہنے سے آپ وہاں کا ڈومیسائل حاصل کر سکتے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ قومی شناختی کارڈ بنوانے کے لیے ہر شخص کو اپنی تمام سکونتی، ذاتی اور خاندان کے متعلق معلومات، ”نادرا“کو فراہم کرنا ہوتی ہیں۔ جبکہ نادرا کے قیام کا بنیادی مقصد ہی ملک میں بسنے والے تمام اشخاص کی رجسٹریشن اور اس کا ڈیٹا بیس ریکارڈ ر اپنے پاس محفوظ رکھنا ہے۔ علاوہ ازیں نادرا، نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی آرڈنینس2000کے تحت وجود میں آیا اور پاکستانی شہری کی تمام معلومات شناختی کارڈ کے اوپر درج ہوتی ہیں۔مثلاً شناختی کارڈ کا نمبر 13ہندسوں پر مشتمل ہوتاہے اوراس کا ہر حصہ ایک ترتیب سے آپ کو کچھ بنیادی معلومات فراہم کررہاہوتاہے۔

شناختی کارڈکے پہلے پانچ ہندسے کارڈ ہولڈر کے علاقہ کی نشاندہی کر رہے ہوتے ہیں۔جیسے پہلا ہندسہ صوبہ دوسرا ہندسہ ڈویژن تیسرا ہندسہ ضلع،چوتھا ہندسہ تحصیل اور پانچوں ہندسہ یونین کونسل کو ظاہر کرتاہے۔اگر پہلا ہندسہ کارڈ کا 1ہے تو وہ شخص خیبر پختونخواہ، 2فاٹا، 3پنجاب، 4سندھ، 5بلوچستا ن،6اسلام آباداور 7گلگت بلستان کا رہائشی ہے اس کے بعد درج 7نمبرنادرا، کی اپنی ترتیب و انتظام کے لیے مختص کیے گئے ہیں اور آخری ہندسہ طاق (1,3,5,7,9) ہے تو وہ کسی مرد کا کارڈ ہے اور اگر جفت (2,4,6,8)یا اسکے آخر میں 0آتا ہے تو وہ عورت کا کارڈ ہے۔نیز ہر شناختی کارڈ پشت پر اس شخص کا عارضی اور مستقل پتہ دونوں درج ہوتے ہیں۔حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان میں پاسپورٹ جیسی بین الاقوامی شناختی دستاویز بنوانے کے لیے ”شناختی کارڈ“ کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ ”ڈومیسائل“ کی۔ قصہ مختصر یہ ہوا کہ جب قومی شناختی کارڈ جیسی اہم دستاویز موجود ہے تو پھر الگ سے ڈومیسائل بنا کر عوام کی پریشانی میں اضافہ کرنا کہاں کی سرکاری عقل مندی ہے۔سب سے بڑھ کر جب ڈومیسائل کو بطور شناختی دستاویز ترک کرنے کا فیصلہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب لینے جارہاہے تو کیا اِس کی پیروی اور تقلید دیگر صوبوں کی نہیں کرنی چاہئے؟۔اس سوال کا جواب سیاست کو ایک طرف رکھ کر صرف اور صرف عوامی بہبود کو پیش ِ نظر رکھ کر تلاش کیا جانا چاہئے۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 25 نومبر 2021 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں