President Escort

پروٹوکول اور سیکورٹی کا فرق

مثل مشہورہے کہ چھاج کا جلا دودھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے تو پھر ایسے میں اگر ہم بیچارے پاکستانیوں کو ”سیکورٹی“ کی رسی بھی ”پروٹوکول“ کاسانپ دکھائی دے تواسے کور چشمی نہ کہیں تو اور کیا کہیں۔ہماری عوام نے گزشتہ چند دہائیوں سے ”پروٹوکول“ کے ایسے ایسے مناظر ملاحظہ کیئے ہیں کہ اب تو اِن کے نزدیک ”سیکورٹی“ اور ”پروٹوکول“کا فرق ہی ختم ہوکر رہ گیا ہے۔حالانکہ پروٹوکول اور سیکورٹی میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔عام فہم زبان میں ”پروٹوکول“ اُس سرکاری یا غیر سرکاری اہتمام کو کہا جاسکتا ہے جس کے ذریعے حب جاہ کے دلدادہ حکمران ”عوام النّاس“ کو ڈرا دھمکا کر احساس کمتری میں مبتلا کرنے کا مذموم کام لیتے ہیں جبکہ ”سیکورٹی“ اُس سرکاری یا غیر سرکاری انتظام کو کہا جاتا ہے،جو اپنے بدطینت دشمنوں پر دھاک بٹھا کر اُنہیں کسی بھی قسم کے مذموم اقدام سے باز رکھتا ہے۔آج کی جدیددنیا میں ”پروٹوکول“ کو جتنا قابلِ مذمت اور غیر ضروری سمجھا جاتا ہے اُس کے مقابلے”سیکورٹی“کو اُتنا ہی ضروری اور لازمی گرداناجاتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے ”پروٹوکول“ کچھ اس طرح سے ہمارے اعصاب پر چھا گیا ہے کہ اب ہم مکمل طور ”سیکورٹی بلائنڈ“ ہوتے جارہے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ چند دنوں سے ملک بھر میں وزیراعظم کی”سیکورٹی“ کے حوالے سے ایک ہنگامہ برپا ہے اور یہ سب کچھ”پروٹو کول“ کی آڑ لے کر کیا جارہا ہے اور”پروٹوکول“بھی وہ جسے وزیراعظم پاکستان عمران خان اپنی پہلی ہی تقریر میں رضاکارانہ طور پر چھوڑدینے کا اعلان کرچکے ہیں لیکن یہ اعلان ہی وزیراعظم پاکستان عمران خان کا سب سے بڑا گنا ہ بن چکا ہے اور اب اس گنا ہ کی پاداش میں اُن کے مخالف اُن کی ضروری ”سرکاری سیکورٹی“ کو بھی”پروٹوکول“ قرار دے کر چھیننا چاہتے ہیں تاکہ جس کھلاڑی وزیراعظم کو وہ ”ووٹ کی طاقت“ سے آؤٹ نہیں کرسکے اب اُسے نہتا کرکے”دہشت گردانہ باؤنسر“ مار کر ”ریٹائرہرٹ“ کر کے اقتدار کے میدان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے چلتا کیا جائے۔اس مقصد کے فوری حصول کے لیئے نت نئے جواز اور نظریے تراشے جارہے ہیں اور پورے شد و مد کے ساتھ سادہ لوح عوام کو یہ باور کروایا جارہا ہے کہ سرکاری سیکورٹی کا اسلام میں کوئی جواز موجود نہیں، اور اس کے حق میں قرونِ اولیٰ کی اسلامی تاریخ سے مختلف واقعات پیش کرکے اُن کی ایسی ایسی جدید تاویلیں و تفسیریں کی جارہی ہیں جن کو سُن کر اور پڑھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے مثلاً سوشل میڈیا پر پوسٹیں لگائی جارہی ہیں کہ خلیفہ راشد حضرت عمر ؓ سے جب کسی دوسرے ملک کا نمائندہ ملنے آیا تو وہ کھجور کے درخت نیچے اینٹ کو سرہانا بنائے سورہے تھے لہٰذا وزیر اعظم عمران خان کو بھی ترکِ دنیا کی کوئی ایسی مثال ضرور قائم کرنی چاہیئے مگر تاریخ اسلام کے واقعات کی شرح کرنے والے جدید مفسرین یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے خلفائے راشدین ؓمیں سے تین خلفاء کو اقتدار میں ہوتے ہوئے شہید کیا گیا۔فرض کریں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو ہمارے نزدیک نبی اکرم ﷺ سے تربیت پانے والے نمایاں ترین اصحاب میں سے ایک تھے اورجن کی انتظامی و سیاسی اصلاحات کی آج تک ایک دنیا معترف ہے۔ اگر وہ اسلام دشمن گروہ کی سازش سے بچ جاتے اور شہید نہ ہوتے تو اسلام کی سلطنت اطراف و اکناف میں کتنی پھیلتی اوروہ مزید کتنے بہتر قوانین اس دنیا کو دے کر جاتے۔نیز یہ کہ اگر دیگر خلفائے راشدینؓ بھی خارجیوں کے ہاتھوں شہید ہونے سے بچ جاتے تو شاید دنیائے اسلام کا نقشہ آج کچھ اور ہی ہوتا اور یہ خیال صرف ہمارا ہی نہیں ہے بلکہ خلفائے راشدینؓ کے بعد آنے والے ہر مسلم حکمران نے ان خطوط پر نہ صرف سوچا بلکہ اپنی سرکاری سیکورٹی کو بہتر بنانے کے خاطر خواہ اقدامات بھی کیئے جبکہ اس حوالے سے مسلم فقہائے کرام نے بھی لازوال علمی و تحقیقی کام کیا اور قرآن کریم کی نصوص سے ثابت کیا کہ مسلم حکمران کے لیئے ”سرکاری سیکورٹی“ کا نتظام و انصرام کرنا منشائے الہائیہ کے عین مطابق ہے اس حوالے سے سورہ النساء کی آیت نمبر 102 کو بطورِ حوالہ پیش کیا جاسکتا ہے جس میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے کہ ”اور (اے پیغمبر ﷺ) جب تم اِن میں ہو اور نماز پڑھانے لگوتو چاہئے کہ اِن کی ایک جماعت تمہارے ساتھ مسلح ہو کر کھڑی رہے،جب وہ سجدہ کرچکیں تو پرے ہوجائیں پھر دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی آئے اور ہوشیار اور مسلح ہوکرتمہارے ساتھ نماز ادا کرے۔کافر اس گھات میں ہیں کہ تم اپنے سامان اور ہتھیار سے غافل ہوجاؤ کہ تم پر یکبارگی حملہ کردیں۔اگر تم بارش کے سبب تکلیف میں ہو یا بیمار ہو تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ ہتھیار اُتار رکھو مگر ہوشیار ضرور رہنااللہ نے کافروں کے لیئے ذلت کا عذاب تیار رکھا ہے“۔
یہ فرمانِ خدواندی واضح کرتا ہے کہ حالتِ جنگ میں ”سیکورٹی“ کی ضرورت اس قدر اہم ہے کہ آپ نماز کی ادائیگی بھی بغیر حفاظتی حصار کے نہیں کر سکتے۔کیا اس آیت کا اطلاق پاکستان کے موجودہ حالات پر نہیں کیا جاسکتا؟جبکہ ہر ذی شعور اچھی طرح باخبر ہے کہ پاکستان گزشتہ کئی سالوں سے حالتِ جنگ میں ہے اور جنگ بھی کوئی عام جنگ نہیں جو کسی مخصوص میدان،وقت یا قاعدے تک محدود ہو کر لڑی جارہی ہو بلکہ ہمیں ایک عجیب و غریب قسم کی ”پراکسی وار“ کا سامنا ہے۔جس میں ہمارادشمن ہی اپنی مرضی و سہولت سے جگہ، وقت اور ہدف کا انتخاب کرتاہے۔کیا اِن حالات میں ہم اپنے ملک کے اہم ترین رہنما ؤں کی سیکورٹی سے اس قدر لاپرواہی کے متحمل ہوسکتے ہیں کہ اُنہیں ”پروٹوکول“ کے نام پر ہر طرح کی سیکورٹی سے اجتناب کرنے کے مشورے اعلانیہ دیں سکیں۔ بظاہر یہ ایک جاہلانہ سی بات نظر آتی ہے لیکن حقیقت یہ ہی ہے کہ وزیراعظم پاکستان کے قریب موجود ہر شخص اُنہیں ”سرکاری سیکورٹی“ ترک کرنے کا ہی مشورہ دے رہا اور بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ خود وزیراعظم پاکستان بھی سیکورٹی اداروں کی عرضداشت کو اہمیت دینے کے بجائے اپنے نام نہاد قریبی دوستوں کی ہی بات پر کان دھرتے نظر آرہے ہیں۔اس تمام تر صورت حال میں عمران خان کے قریب موجود اہلِ دانش و بنیش اور ملت کا درد رکھنے والے افراد کی کڑی ذمہ داری ہے کہ وہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کو قائل کرنے کی کوشش کریں کہ بدلتے ہوئے عالمی حالات کے تناظر میں صرف وزیراعظم پاکستان ہی نہیں بلکہ چیف جسٹس آف پاکستان،نیب کے چیئر مین اور سیکورٹی اداروں کے سربراہوں سمیت ملک کے تمام کلیدی عہدوں پر فائز شخصیات کو بھی ”سرکاری سیکورٹی“ کی ضرورت ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔لہٰذا ”سیکورٹی“ اور ”پروٹوکول“ کے مابین امتیاز کرتے ہوئے اہم ترین رہنماؤں کی بھرپور سیکورٹی کا بندوبست کیاجائے تاکہ ملک دشمن قوتوں کو ”نئے پاکستان“ کی تعمیر روکنے کا ہلکا سا موقع بھی میسر نہ آسکے۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 05 ستمبر 2018 کی اشاعت میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں