Dead-Body-of-Pakistani-Politics

سیاست فاتحہ پر چل رہی ہے

سیانے کہتے ہیں کہ ”آغاز سے پہلے ایک نگاہ انجام پر بھی ڈال لینا انسان کے لیئے بہتر ہوتاہے اور اپنے کسی بہت ہی پیارے کے ساتھ مذاق کرنے سے قبل کم ازکم سو بار تو ضرور سوچ ہی لینا چاہئے کیونکہ تمام جھگڑے ہنسی مذاق کے بطن سے ہی جنم لیتے ہیں“۔ مگر چونکہ آج کل ہماری سیاست میں سیانے پائے ہی نہیں جاتے۔ لہٰذا سیاست کے متعلق یہ ہی سیانے کچھ یوں فرماتے ہیں کہ ”سیاست میں تمام مذاق ”سیاسی جھگڑے“ کے بطن سے پیدا ہوتے ہیں“۔یعنی دو سیاسی جماعتوں کے درمیان جتنے مضبوط اور قدیم سیاسی جھگڑے ہوں گے۔یقینا پھر سیاسی مذاق بھی اُتنا ہی واہیات اور ہنسا،ہنسا کر رلا دینے والا ہوگا۔ حیران کن طور پر سندھ کی سیاست کی حد تک تو سیانوں کی یہ بات اس بار بھی سوفیصد درست ثابت ہوئی ہے اور واقعی تازہ ترین ”سیاسی مذاق“ پاکستان پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم پاکستان کے دیرینہ ”سیاسی جھگڑے“ کی سنگینی،شدت اور طوالت کی پوری طرح سے عکاسی بھی کرتا ہے۔

تازہ ترین مذاقیہ خبریں کچھ یوں ہیں کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے ایک وفد نے سینیٹ کے اُمیدوار سید یوسف رضا گیلانی کی نشست پر سیاسی تعاون کرنے کی شرط پر ایم کیو ایم پاکستان کو دو نشستوں کے ہمراہ کراچی میں بلدیاتی اختیارات دینے کی پیشکش کی ہے۔جبکہ دوسری جانب پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایم کیو ایم پاکستان سے اپیل کی ہے کہ وہ کراچی کے حقوق کی جدوجہد پی ڈی ایم کے سیاسی پلیٹ فارم سے کریں گے تو انہیں ”سیاسی افاقہ“حاصل ہوگا۔ علاوہ ازیں ایم کیو ایم پاکستان کے ایک وفد نے گورنر سندھ عمران اسماعیل سے درخواست کی ہے کہ چونکہ سندھ حکومت نے اُ ن کے اراکین اسمبلی کے سیکورٹی فوری طور پر ختم کردی ہے،جس کی وجہ سے اُنہیں سنگین سیکورٹی خدشات لاحق ہیں۔لہٰذا انہیں وفاق کی جانب سے خصوصی سیکورٹی فراہم کی جائے۔یکے بعد چند لمحوں کے تفاوت سے میڈیا کی زینت بننے والی اِن خبروں سے آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ سینٹ کے انتخابات کو لے کر پاکستان پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان کے مابین ”سیاسی مذاق“ سنجیدگی کے کونسے آسمان پر پہنچ چکا تھا۔

بہرکیف سندھ کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان سیاسی تعاون کا منظر اس قدر مزاحیہ ہے تو عوام کے لیئے اصل فکر اور پریشانی کی بات تو یہ ہونی چاہئے کہ اگر خدانخواستہ اِن دونوں جماعتوں کے درمیان حقیقی سیاسی عدم تعاون شروع ہوجائے تو پھر سندھ کی سیاست کا پیش منظر کیا ہوگا؟۔یاد رہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کو سندھ میں صرف اپنے ووٹ ملتے تو اُس کی سینیٹ کی چھ نشستیں بنتی تھیں لیکن سندھ میں سیاسی مفاہمت کے تازہ ترین دور کا آغاز ہونے کا بعد یہ نیا بندوبست ہوا کہ پیپلزپارٹی کو سندھ سے چھ کے بجائے باآسانی سینٹ کی سات عدد نشستیں حاصل ہوگئیں ہیں۔یقینا یہ کمال وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی انتظامی صلاحیتوں کا ہی ہے کہ جنہوں نے بروقت تحریک انصاف کے اہم ترین رہنما حلیم عادل شیخ جیل کی چار دیواری تک پہنچا کر تحریک انصاف کی صفوں میں سراسیمگی پیدا کردی،جس کے باعث سندھ سے پیپلزپارٹی، چھ کے بجائے سات نشستیں کمال سیاسی مہارت و مفاہمت سے جیت جانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔

دوسری جانب پاکستان پیپلزپارٹی سینیٹ کی اضافی نشستوں کے حصول کے لیئے بلوچستان میں اُس غیرمعمولی سیاسی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکی، جس کے پیپلزپارٹی کی قیادت کی طر ف سے دعوی کیئے جارہے تھے۔ذرائع کے مطابق بلوچستان میں بھی پیپلزپارٹی کی سیاسی تمنائیں کماحقہ پورا ہونے سے اس لیئے رہ گئیں ہیں کہ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ)ابھی تک مقتدر حلقوں کی نظروں سے اس قدر نہیں گری ہے کہ اُس کے سارے ووٹ ہی پیسے کی طاقت سے خرید لئے جاتے۔ بلاشبہ باپ پارٹی کی اپنی زیادہ تر سینیٹ نشستیں جیت جانے کی وجہ سے سینیٹ کے ایوان میں تحریک انصاف کم ازکم معمولی سی سادہ اکثریت حاصل کرنے میں تو کامیاب ہو ہی گئی ہے۔ واضح رہے کہ وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کو سینیٹ میں ملنے والی سادہ اکثریت اپوزیشن جماعتوں کو ایوانِ بالا میں دیوار سے لگانے کے لیئے کافی و شافی ”سامانِ سیاست“ ہرگز مہیا نہیں کر سکی گی۔بلکہ اُلٹا اَب تو تحریک انصاف کو سینیٹ میں اپوزیشن جماعتوں کا دباؤ مسلسل برداشت کرناہوگا۔

تاہم سینیٹ انتخابات کے بعد سیاسی جماعتوں کا کھیل ختم نہیں بلکہ شروع ہوا ہے۔ خاص طور پر سندھ کی سیاست پر سینیٹ انتخابات کے ممکنہ نتائج کے انتہائی دوررس مثبت یا منفی سیاسی اثرات مرتب ہونے کی قوی امکانات پائے جاتے ہیں۔ کیونکہ اگر عمران خان سینیٹ کے ایوان میں سادہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے تو وہ سب سے پہلے اٹھارویں ترمیم میں ردو بدل یا پھر اُس کی تنسیخ کا اقدام ہی کرتے اور یہ اندیشہ اس لیئے بھی عین قرین قیاس لگتا تھاکہ گزشتہ تین برس کے دوران بطور وزیراعظم پاکستان عمران خان ایک سے زائد بار اس بات کا عندیہ دے چکے ہیں وفاقی حکومت کی مثالی انتظامی کارکردگی کی راہ میں سب سے بڑی رکاؤٹ اٹھارویں ترمیم ہے۔لہٰذاحالیہ سینیٹ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی جیت اٹھارویں ترمیم کی آئینی زندگی کے لیئے یقینی طور پر موت کا پروانہ ثابت ہوسکتی تھی اور اس بات کا بخوبی ادراک پاکستان پیپلزپارٹی کو قیادت کو بھی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی،اپوزیشن اتحاد میں شامل جماعتوں کے ساتھ مل کر سینیٹ کے ایوان میں تحریک انصاف کو اقلیتی جماعت میں بدلنے کا ناقابل یقین اَپ سیٹ کردکھایا۔یوں اَب اٹھارویں ترمیم کی متوقع آئینی موت کے خطرات بھی وقتی طور پر ٹل گئے ہیں۔علاوہ ازیں سینیٹ انتخابات میں اپوزیشن اتحاد کی کامیابی نے سندھ حکومت کے حوصلے بھی خوب بلند کردیئے ہیں۔جس کے مثبت اور منفی اثرات سندھ کے سیاسی منظرنامے میں جلد ہی ملاحظہ کے لیئے دستیاب ہوں گے۔

یاد رہے کہ حفیظ شیخ کی عبرت ناک شکست اور یوسف رضا گیلانی کی فقید المثال جیت نے جس طرح سے تحریک انصاف کی حکومت کے اعتماد کے پرزے پرزے کیئے ہیں،یقینا وہ مناظر پاکستانی سیاست میں مدتوں یادگار رہیں گے۔ کیونکہ گزشتہ تین برسوں کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے متحدہ اپوزیشن کو اپنے خلاف کسی ایک محاذ پر بھی جیت کامعمولی سا مزہ بھی چکھنے نہیں دیاتھا۔ مگر اتنی پے درپے سیاسی شکستوں کے بعد اچانک سے سینیٹ انتخابات میں ایک ناقابل یقین اور غیر معمولی فتح نے کم ازکم اس بات پر تو پوری طرح سے مہر تصدیق ثبت کردی ہے کہ اپوزیشن رہنماؤ ں کے پاس ”سیاسی تجربہ“ عمران خان سے کہیں زیادہ ہے۔مگر دوسری جانب حالیہ سینیٹ انتخابات میں نشستوں کی آزادانہ خرید و فروخت نے یہ تلخ حقیقت بھی عوام پر آشکار کر دی ہے کہ پاکستان میں سیاست کا بگڑا ہوا”سیاسی توازن“شاید اَب کبھی بھی درست نہیں ہوسکے گا۔بقول خورشید اکبر
لہو سے کھیلتے ہیں سب فرشتے
سیاست فاتحہ پر چل رہی ہے

حوالہ: یہ کالم سب سےپہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 05 مارچ 2021 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں