Imran Khan

یہ اقتدار کی حرص ہے

قدیم زمانے میں جب نقل و حمل کے لیے جدید ذرائع ایجاد نہیں ہوئے تھے تو اُس وقت بیل گاڑی سفر کرنے کے لیئے ایک بہترین سواری سمجھی جاتی تھی۔یاد رہے کہ بیل گاڑی کے ذریعے سفر کا رواج دو،تین دہائیوں قبل ہماری دیہاتی زندگی کا بھی ایک ناگزیر حصہ ہوا کرتا تھااور دیہات اور قصبات سے تعلق رکھنے والے اکثر لوگ بیل گاڑیوں کو مال برداری اور سفر کے لیئے عام استعمال کیا کرتے تھے۔ عام طور پر بیل گاڑی کے ساتھ ایک کتا بھی ضرور ہوا کرتا تھا۔جو چلتی ہوئی بیل گاڑی کے نیچے تیزی کے ساتھ دوڑتا ہوا دکھائی دیتاتھا۔دلچسپ بات یہ ہے بیل گاڑی اور اُس کے زیر سایہ چلنے والے کتے کے حوالے سے حضرت امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ انسانی نفسیات کی وضاحت کرنے والا ایک لطیف نکتہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”چلتی بیل گاڑی کے نیچے چلنے والا کتا، اگر تھوڑی دیر کے لیئے بھی کہیں جاتاہے تو وہ فوراً بھاگ کر واپس بیل گاڑی کے نیچے ضرور آجاتاہے،کیونکہ بیل گاڑی کے نیچے چلنے والا کتا سمجھتاہے کہ یہ بیل گاڑی میری وجہ سے چل رہی ہے۔ اگر میں اِس کے نیچے سے تھوڑی دیر کے لیئے بھی اِدھر اُدھر ہوجاؤں گا تو یہ بیل گاڑی چلنا موقوف کردے گی“۔

یہ بات بیان کرکے امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ہم میں سے بعض انسان بھی بیل گاڑی کے نیچے چلنے والے کتے ہی کی خصلت رکھتے ہیں اور وہ بھی اِس خود ساختہ غلط فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ یہ دنیا اور اِس کا تمام نظام حیات اُ ن کے دم قدم سے ہی چل رہا ہے اور اگر اُن کی ذات بابرکات نہ ہو تو یہ دنیا اور اِس کا کاروبارِ زیست اگلے ہی لمحے یک لخت بند ہوجائے گا۔ اگر ہم اپنے اردگرد باریک بینی سے جائزہ لیں تو عین ممکن ہے کہ ہمیں بھی کئی ایسے لوگ دکھائی دے جائیں جن کی زبان سے صبح و شام بس یہ ہی گردان سننے کو ملتی ہوکہ ”اگر میں گھر میں نہیں ر ہوں گا یہ ٹوٹ کر بکھرجائے گا“۔”کوئی میرے بغیر ایک دن بھی کاروبار نہیں چلاسکتا“۔ ”اگر میں ملازمت چھوڑ دوں تو یہ کمپنی چار،دن میں بند ہوجائے گی“۔یہ اور اس جیسے تمام جملے صرف وہی شخص اپنی زبان سے باربار ادا کرسکتاہے، جسے دنیا کے فانی ہونے سے زیادہ اپنے لافانی ہونے کا یقین ہو۔ دراصل یہ ایک طرح کی”خبط عظمت“ کی بیماری ہے اور اِس مرض میں مبتلا شخص سب کچھ صرف اپنے آپ کو ہی سمجھتاہے۔لہٰذا، وہ شخص اپنی جان،مرتبہ اور حیثیت کی حفاظت کے لیئے اگر ضرورت پڑے تو اپنے آس پاس بسی ہوئی ساری دنیا کو بھی جلا کر بھسم کر سکتاہے۔ کیونکہ یہ شخص کامل ایمان رکھتا ہے کہ اُس کی ذات اعلیٰ صفات کے بغیر سب کچھ لایعنی، بے کار اور فضول ہے۔یوں اِس سوچ کے حامل فرد کے لیئے اپنا بسابسایا گھر، اچھی خاصی ملازمت اور چلتا ہوا کاروبار ملیامیٹ کرنا منٹوں کا کام ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ یہ مرض اگر گھر کے سربراہ کو لاحق ہو جائے تو اِس کی سزا،اُس کے پورے خاندان کو بھگتناپڑتی ہے،اگر یہ بیماری کسی کمپنی یا ادارے کے مالک کو اپنا شکار بنا لے تو اِس کا خمیازہ وہاں کام کرنے والے ہرشخص کو اداکرنا پڑتاہے اور خدانخواستہ اگر اِس مرض کا شکار کوئی قومی سطح کا سیاسی رہنما یا مذہبی مصلح ہوجائے تو پھر اُس کی قیمت پوری قوم، سماج اور معاشرہ کو سُود سمیت مدتوں دینا پڑتی ہے۔ بدقسمتی سے گزشتہ 75 برس میں ہمارے ملک میں کئی ایسے نام نہاد عوام دوست اور اسلام دوست رہنما سیاسی اُفق پر نمودار ہوئے، جو اِس سنگین بیماری میں مبتلا ہونے کی وجہ سے سمجھتے تھے کہ اُن کے بغیر پاکستان چلنا تو بہت دور کی بات ہے، رینگ بھی نہیں سکتااور اُن سب رہنماؤں کے وہم ِ قبیح کی بھاری قیمت پاکستانی قوم آج بھی سود سمیت ادا کررہی ہے۔المیہ ملاحظہ ہو کہ ابھی ہم من حیث القوم،خبط عظمت میں مبتلاء ماضی کے رہنماؤں کی جانب سے کی جانے والی ریشہ دوانیوں کے اثرات ِ بد سے پوری طرح چھٹکارا حاصل نہیں کر پائے تھے، کہ مرے کو مارے،شاہِ مدار کے مصداق، عمران خان کی صورت میں خبط عظمت کے ساتھ ساتھ خبط مسیحائی کے خوف ناک مرض کا شکاررہنما ملک کے سیاسی اُفق پر نمودار ہوگیا ہے۔ اگر ہم عمران خان کے بیانات، اقوال، نظریات اور افکار کا خلاصہ بیان کریں تو وہ بس اتنا سا بنتاہے کہ پاکستان کی بقا اور سالمیت کا انحصار فقط موصوف کی ذات بابرکات کا ہی مرہون منت ہے۔ لہٰذا، ریاست ِپاکستان ہی نہیں بلکہ پاکستانیوں کی زندگیوں سے بھی زیادہ قیمتی اور بڑھ کر اگر کوئی شئے ہے تو وہ صرف اور صرف عمران خان کی ذات ہے۔

یاد رہے کہ تاج و تخت اور اقتدار ہمیشہ کے لیئے تو کبھی بھی کسی ایک حکم ران کے پاس نہیں رہتا اور تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ بڑے بڑے بادشاہ اور حکم ران مسندِ اقتدار سے ایک بار نہیں بلکہ بار بار بھی محروم ہوتے رہے ہیں۔لیکن اپنے ساڑھے تین سالہ اقتدار جانے کا جتنا دُکھ اور صدمہ عمران خان کو پہنچا ہے۔ شاید اتنا دُکھ توآخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو بھی نہیں ہواہوگا، جن کے پرکھوں کی صدیوں پرانی بادشاہت کو انگریزسرکارنے ایک دن میں تاراج کر کے رکھ دیا تھا۔ عمران خان کا اقتدار کیا گیا،انہوں نے تو اِس معمول کے ایک جمہوری واقعہ پر ایسے واویلا کرنا شروع کردیا کہ جیسے وطن عزیز پاکستان کا اقتدار ِ اعلیٰ اُن کی جدی پشتی ذاتی جاگیر یا میراث ہو، جسے حزب اختلاف کی جماعتوں نے تحریک عدم کا کامیاب بنا کر اُن سے چھین لیاہے۔ خیر، اقتدار سے جمہوری انداز میں نکالے جانے کے بعد اُن کی جانب سے آہ و بکا اور سینہ کوبی کرنا تو بالکل بنتا تھا۔لیکن عمران خان جلد ازجلد واپس اقتدار حاصل کرنے کے لیئے اپنے احتجاج کے دیوتا کے آگے اپنی جماعت کے معصوم اور سادہ لوح کارکنان کی بھینٹ چڑھانا شروع کردیں گے۔ شاید اِس کا کسی نے خواب و خیال میں تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔ لیکن بدقسمتی سے عمران خان اقتدار پانے کی راہ میں سب کچھ روا سمجھتے ہیں۔ لہٰذا، علی بلال عرف ظل شاہ کی موت عمران خان کو ایوانِ اقتدار تک لے کرجانے والی پہلی قربانی تو ضرور ہے،مگر آخری بالکل بھی نہیں ہے۔کیونکہ عمران خان کواگر اقتدار تک پہنچنے کے لیئے بائیس کروڑ مجبور اور مقہور عوام کو بھی قربان کرنا کا موقع ملا تو یقین مانیئے! کہ موصوف ایک لمحہ سے کم وقت میں یہ بھی کرگزریں گے۔ کیونکہ عمران خان کو آخری درجہ کا ایمان ِ کامل ہے کہ وطن عزیز پاکستان اُن کے اقتدار کے بغیر چل نہیں سکتااور اگر کوئی چلانے کی کوشش کرے گا تو وہ اُسے چلانے نہیں دیں گے۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 16 مارچ 2023 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں