shershahbridge_collapse

کرپشن کا پُل

یہ اگست 2007 کی بات ہے کہ کراچی کے معروف کاروباری علاقے شیر شاہ میں بھاری ٹریفک کی آمدورفت کے مسائل سے نمٹنے کے لیئے ساڑھے تین بلین روپے لاگت سے ایک شاندار پُل کا افتتاح کیا گیا۔مگر یہ بدقسمت پُل اپنے افتتاح کے ٹھیک ایک ماہ بعد ہی ستمبر2007 کی بدقسمت دوپہر کو اچانک ہی گر پڑا۔کراچی نادرن بائی پاس کے اس پُل کے منہدم ہونے سے چھ افراد ہلاک ہوئے اور کئی قیمتی گاڑیاں اس پُل کے ملبہ تلے تب گئیں۔سندھ میں کرپشن سے ہونیوالا یہ پہلا بڑا جانی نقصان کہا جاسکتاہے۔بتایا جاتا ہے کہ اس پُل کے گرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس کی تعمیر میں سیمنٹ اور سریہ مقررہ مقدار سے کم استعمال کیا گیا تھا جبکہ کسی بااثر کاروباری شخصیت کو فائدہ دینے کے لیئے اس پُل کو مقررہ ڈیزائن سے ہٹ کر بھی بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک ماہر تعمیرات نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ”آر سی سی طرزِ تعمیر ایک جدید سائنسی طریقہ ہے جو بہت عمدہ ہے جب کہ وہ لائق اور تجربہ کار لوگوں کے ہاتھ میں ہو مگر اس وقت یہ جدید سائنسی طریقہ خطرناک ہوجاتاہے۔جب اس کو استعمال کرنے والے نااہل انجینئر اور ٹھیکیدار ہوں“۔ بظاہر یہ ایک درست اور خوب صورت بات معلوم ہوتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کے اندر ایک سیاسی مغالطہ پنہاں ہے۔یہ سیاسی مغالطہ اُس وقت بالکل رفع ہوجاتاہے جب ہم نااہل یعنی Incompetent کی جگہ بدعنوان یعنی Corrupt کا لفظ رکھ دیں،کیونکہ ہمارے ملک میں اس قسم کے مسائل بدعنوانی یا کرپشن کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں نہ کہ فنی مہارت میں کسی کمی کے باعث۔مذکورہ بالا پُل بھی جس تعمیراتی کمپنی نے بنایا تھااُس کی متعلقہ میدان میں فنی مہارت پر ایک لفظ بھی نقطہ اعتراض کے طور پر نہیں کہا جاسکتالیکن اُس کے باوجود اتنے بڑے سانحہ کا ہوجانا کرپشن کے انتہائی ضرر رساں ہونے کا ایک چھوٹا سا نمونہ تھا۔دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اس حادثہ کے ذمہ دار تمام مرکزی کرداروں کو سیاسی اثرورسوخ کی بناء پر صاف بچالیا گیا تھا کیونکہ ہمارے ہاں عام چلن ہے کرپشن کو ہمیشہ سے ہی کسی نہ کسی پردے میں چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کبھی کرپشن پر جمہوریت کا پردہ ڈال کر ڈرایا جاتاہے کہ اگر کرپٹ یا بدعنوان لوگوں پر ہاتھ ڈالا گیا تو جمہوریت کی بساط لپٹ جائے گی اور کبھی کرپشن کو لسانی تعصب کے پردے میں ملفوف کر کے کہا جاتاہے اگر ہمارے خلاف کسی احتسابی کارروائی کا آغاز کیا تو شہر شہر انارکی پھیل جائے گی۔

حالیہ دنوں میں ملک کے طول وعرض خاص طور پر سندھ میں ہونے والی کرپشن کی جو داستانیں کثرت سے سامنے آرہی اُنہیں سننے کے بعد لگ یہ رہا ہے کرپشن کرنے والوں نے کرپشن جیسے مذموم کاروبار کو بھی اپنی دانست میں ایک آرٹ کا درجہ دے دیا ہے۔یعنی گزشتہ چند سالوں میں کرپشن کرنے کے ایسے ایسے انوکھے طریقے ایجاد کیئے گئے ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے اورکرپشن کی ضرر رسانی جاننے کے باوجود بھی کرپشن کے پروردہ لوگوں کو کرپشن کرنے کے اِتنے نازک ترین طریقے دریافت کرنے پر بے ساختہ داد دینے کو دل چاہتاہے۔ اس وقت میڈیا میں آنے والی خبروں کے مطابق میگا منی لانڈرنگ اور جعلی اکاؤنٹس کیس میں جے آئی ٹی رپورٹ نے زرداری گروپ اور اومنی گروپ کو ذمہ دار قرار دے کر زرادری گروپ، اومنی گروپ اور بحریہ ٹاؤن گروپ کی جائیداد کی خریدو فروخت اور منتقلی پر مکمل طور پابندی عائد کردی ہے۔میگا منی لانڈرنگ کیس میں جے آئی ٹی رپورٹ کے تہلکہ خیز انکشافات نے ہر خاص و عام کو حیران بلکہ پریشان کردیا ہے اور عام آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ کیا کرپشن ایسے بھی کی جاسکتی ہے؟۔ جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق کرپشن کی نازک اندامی ملاحظہ فرمائیے کہ بلال ہاؤس لاہور بھی زرداری گروپ کی ملکیت نکلا،جب کہ جعلی بینک اکاؤنٹس سے آصف علی زرداری،بلاول بھٹو اور بلاول ہاؤسز کے ذاتی اخراجات کی ادائیگیاں کی گئیں۔ایک کروڑ 20 لاکھ سے ایک کروڑ 50 لاکھ کا خرچ جعلی بینک اکاؤنٹس سے ادا کیا جاتا رہا۔ بلاول ہاؤس کے کتے کا کھانااور 28 صدقے کے بکروں کے اخراجات بھی انہی اکاؤنٹس سے دئیے گئے۔پاکستانی عوام کو صدقے واری جانا چاہئے ایسی کرپشن کے جس میں صدقات دینے کا حتی المقدور اہتمام کیا جاتاہے،آخر کرپشن میں اُس دنیا کا بھی کچھ حصہ بنتاہے جس میں کرپشن کرنے والوں کو ایک نہ ایک دن ضرور لوٹ کر جانا ہوگا۔دین و دنیا کو ساتھ ساتھ رکھنے کی ایسی مذہبی سوچ اور خواہش پر کچھ لکھنے کے لیئے تو الفاظ بھی نہیں مل رہے۔ جے آئی ٹی رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ زرداری گروپ نے 53 ارب 40 کروڑ روپے کے قرضے حاصل کیے،جس میں سے24 ارب روپے کا قرض صرف سندھ بینک سے لیا گیا حالانکہ سندھ بینک زیادہ سے زیادہ 4 ارب روپے کا قرض دینے کا مجازتھا،جب کہ یہ ہی قرضہ اومنی گروپ نے اپنے گروپ کو 5 حصوں میں تقسیم کرکے حاصل کیا۔گویاسندھ بنک زرداری گروپ اور اومنی گروپ کے لیئے ہی بنایا گیا تھا۔

کیا حسنِ اتفاق ہے کہ 2007 میں کراچی نادرن بائی پاس پر ایک پُل کرپشن کی وجہ سے گر گیا تھا مگر 2018 میں تو سندھ کے سیاسی اُفق پر کرپشن سے بنا ہواایک جیتا جاگتا فلک بوس پل ہی سب کے سامنے آگیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ کرپشن کا یہ پُل جن کی قابلِ قدر کاوشوں سے عام آدمی کی نگاہوں کے سامنے آیا ہے وہ اِسے مسمار کب کرتے ہیں اور کرپشن کے اِس پُل کے ملبے تلے کون کون دبتا ہے؟

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 28 دسمبر 2018 کی اشاعت میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں