coronama-special-news-article-640x480

کورونامہ

ذرا سونگھ کر بتائیں نا! کیا آپ کو کورونا ہے؟
اَب تک کورونا وائرس اِس لحاظ ایک پراسرار اور خاموش وائرس ثابت ہوا تھا کہ اِس کے نتیجے میں لاحق ہونے والی بیماری کووڈ 19 کی کوئی ایک ایسی منفرد اور خاص علامت کے بارے میں علم نہیں ہوسکا تھا کہ جس کے ظاہر ہوتے ہی متاثرہ مریض کو یقین ہوجائے کہ اُس کے لیئے کورونا وائرس کا تشخیصی ٹیسٹ کروانا یاخود کو مکمل طور پر قرنطینہ کرلینالازم ہو چکا ہے۔ ابھی تک کورونا وائرس کی جن بھی علامات کے بارے میں بتایا جاتا رہا وہ چند ایسی عام سی علامات ہیں جو بیشتر دوسری بیماریوں میں بھی ظاہر ہوجاتی ہیں۔ اِس لیئے طبی ماہرین کو شدت کے ساتھ کورونا وائرس کی کم ازکم ایک ایسی منفرد علامت کی تلاش تھی، جسے کورونا وائرس کے مریض کے ساتھ کسی نہ کسی حد تک خاص کیا جاسکے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ آخر کار طبی ماہرین کورونا وائرس کے مریض میں بخار،کھانسی،ٹھنڈ لگنا اور سانس لینے میں دشواری جیسی علامات کے ساتھ ساتھ ایک اور علامت یعنی سونگھنے اور چکھنے کی صلاحیت کے ختم ہونے کا بھی سراغ لگا لیا ہے۔

اس حوالے سے برطانوی محققین کا کہنا ہے کہ اگر آپ سونگھنے اور چکھنے کی صلاحیت سے محروم ہو جائیں تو ہو سکتا ہے کہ یہ کورونا وائرس کی اہم ترین علامت ہو۔ کنگز کالج آف لندن میں ماہرین نے چار لاکھ سے زیادہ افراد پر کورونا وائرس کے ردعمل کو ایک جدید ترین ایپ کی مدد سے جانچا اور وہ لوگ جن میں کورونا وائرس کی ایک یا اس سے زیادہ علامات رپورٹ ہوئیں تھیں اُن کے متعلق تمام تر علامات کو ایک ایپ کی مدد سے اکھٹا کیا گیا۔ایپ پر مرتب کیئے گئے ان چار لاکھ افراد میں سے 1,702 نے کہا کہ انھوں نے کورونا وائرس کا ٹیسٹ کروایا ہے۔ ان میں سے 579 کا نتیجہ مثبت آیا تھا اور 1123 کا منفی رہا۔جن افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی تھی ان میں سے 59 فیصد سونگھنے اور چکھنے کی حس سے محروم ہو گئے تھے۔اس تحقیق سے طبی ماہرین پر پہلی بار انکشاف ہو اکہ سونگھنے اور چکھنے کی صلاحیت سے محرومی بھی کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کی ایک اہم علامات ہوسکتی ہے۔



اس کے علاوہ دیگر متعدد ممالک میں کی گئی طبی تحقیقات میں بھی کووڈ 19 کے مریضوں کے حاصل کیئے گئے ڈیٹا کے مطالعے سے بھی اِس جانب ٹھوس اشارہ ملتا ہے کہ اُن ممالک میں بھی کورونا وائرس کے بیشتر مریضوں کوکووڈ 19 مرض کی علامات کے دوران سونگھنے کی حس سے محرومی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔جبکہ بیشتر اوقات تو یہ سب سے پہلے نمودار ہونے والی علامت بھی ہوسکتی ہے۔ ماہرین کے خیال میں شواہد تو اِس طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ سونگھنے کے ساتھ ساتھ چکھنے کی حس سے محرومی بھی ایسے افراد میں بھی صاف نظر آئی جن میں کووڈ 19 کی دیگر علامات نظر نہیں آئیں تھیں، مگر ٹیسٹ میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوگئی تھی۔

شاید اسی لیئے محققین نے تجویز دی ہے کہ سونگھنے اور چکھنے کی حس سے محرومی کو بھی کووڈ 19 کی اسکریننگ کی علامات والی فہرست کا لازمی حصہ بنایا جائے، شاید اِس طرح مسائل نظام تنفس کی دیگر علامات نمودار ہوئے بغیر ہی مریض میں کورونا وائرس کی بروقت شناخت کرلی جائے۔جبکہ پروفیسر ٹم جو کہ کنگ کالج آف لندن، انگلینڈ میں ہونے والی اِس منفرد تحقیق کی سربراہی کر رہے تھے کا کہنا ہے کہ”ہماری جمع کی گئی معلومات کے مطابق جب وہ لوگ جن میں سونگھنے اور چکھنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے اور ساتھ ہی دوسری علامات بھی شامل ہو جاتی ہیں تو ان افراد میں بظاہر کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کا تین گنا زیادہ امکان یا اندیشہ ہوتا ہے۔لہٰذا ایسے لوگوں کو اس مرض کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سات دن تک ازخود تنہائی اختیار کرلینی چاہیے۔تاکہ یہ لوگ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب نہ بن سکیں“۔

کورونا کے خلاف روبوٹ نرسیں بھی میدان میں آگئیں
ایک رپورٹ کے مطابق اَب تک صرف اٹلی میں 4 ہزار سے زائد ہیلتھ ورکرز کوروناوائرس سے متاثرہ مریضوں کے علاج کے دوران وائرس کا شکار ہو چکے ہیں اور جن میں سے 66 ڈاکٹرز اپنی جانیں بھی گنوا چکے ہیں۔ اگر ڈاکٹر ہی کورونا وائرس کا شکار ہوجائیں تو پھر مریضوں کا علاج کون کرے گا؟یہ ایک ایسا تلخ سوال ہے جس کا جواب بالآخر اٹلی کے سائنس دانوں نے ڈھونڈہی لیااور اٹلی کے ایک اسپتال میں ایسی نرسوں نے کام شروع کر دیا ہے جنھیں کرونا وائرس لگنے کا کوئی خوف نہیں، یہ نرسیں بلا خوف و خطر کو وِڈ19 میں مبتلا مریضوں کے علاج میں ڈاکٹرز کی مدد کر رہی ہیں۔یعنی اَب ڈاکٹروں کو مریض کے قریب جانے کی ضرورت نہیں رہے گی، اٹلی کے علاقے لمبارڈی کے شہر وریز کے سرکولو اسپتال میں کرونا مریضوں کے علاج کے لیے مصنوعی ذہانت سے لیس روبوٹ نرسیں متعارف کرائی گئی ہیں۔یہ نرسیں نہ صرف مریض کا طبی معائنہ کریں گی بلکہ اسے دوا بھی کھلائیں گی، اور اس کا پورا طبی ڈیٹا بھی محفوظ کرتی جائیں گی، اس طرح طبی عملہ بھی وائرس کی منتقلی سے محفوظ رہے گا۔فی الحال صرف 6 ایسی روبوٹ نرسیں بنائی گئی ہیں، جو ڈاکٹرز کے ساتھ مل کر کرونا کے مریضوں کی جانیں بچا رہی ہیں، اور انھیں ماسک پہننے کی بھی کوئی ضرورت نہیں، یہ نرسیں مریضوں کا انسان نرس ہی کی طرح خیال رکھ سکتی ہیں۔ یہ روبوٹ نرسیں بچوں کے قد جتنی ہیں اور ان کے چہرے ٹچ اسکرین پر مبنی ہیں جس پر مریض ڈاکٹرز کے لیے اپنا پیغام بھی ریکارڈ کروا سکتے ہیں، ان میں سے ایک روبوٹ نرس کو ٹومی کا نام دیا گیا ہے۔اگر آپ بھی اِس ربورٹ نرس کو کووڈ 19 کے مریضوں کی تیمارداری کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں تو اِس مختصر سے لنک کو وزٹ کریں۔ https://youtu.be/BMLm_ol9N2c

پاکستان میں کورونا وائرس کا مکمل جینوم سیکونس تیار کرلیاگیا
پاکستانی سائنسدانوں نے نئے نوول کورونا وائرس کے حوالے سے اہم کامیابی حاصل کرتے ہوئے اس کا مکمل جینوم سیکونس تیار کرلیا ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے جمیل الرحمن سینٹر فار جینوم ریسرچ (جے سی جی آر) نے ایک مقامی مریض کی مدد سے کورونا وائرس کا مکمل جینوم سیکونس تیار کیا ہے، جس کے طبی تجزیے سے انکشاف ہوا کہ پاکستان میں یہ وائرس چین کے مقابلے میں کچھ مختلف ہے۔اس وائرس کے تجزیے کے حوالے سے تحقیقی ٹیم کے قائد ڈاکٹر اشتیاق احمد نے بتایا کہ اس کا نمونہ ایک ایسے مریض سے حاصل کیا گیا جو ایران کا سفر کرکے آیا تھا اور اسے علاج کے لیے ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں داخل کیا گیا، جبکہ نمونے کا تجزیہ کراچی یونیورسٹی کے مرکز میں ہوا۔انہوں نے بتایا کہ ”جب اس کا موازنہ چین کے شہر ووہان میں تیار ہونے والے سیکونس سے کیا تو جینوم کے مختلف حصوں میں 9 میوٹیشن (ڈی این اے میں تبدیلیاں) نظر آئیں،مگر اس کے باوجود یہ وائرس ووہان سے پھیلنے والے وائرس سے ہی جڑتا ہے، کیونکہ پروٹین اور انزائمے میں کوئی تبدیلیاں نظر نہیں آئیں۔ماہرین کے مطابق کورونا وائرس کے جنیوم سیکونس کا تعین ایک زبردست اقدام ہے، خاص طور پر کسی وبا میں، اس طرح کی تبدیلیوں کے اندر، شرح اور فطرت کو مانیٹر کرنا بہت اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس طرزِ تحقیق سے مستقبل میں ویکسین اور تھراپیز بنانے میں خاطر خواہ مدد حاصل ہوسکے گی۔

چین میں کتے اور بلی کا گوشت کھانے پر پابندی عائد
پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والے کورونا وائرس کے متعلق ابتداء سے ہی کہا جارہاتھا کہ یہ وائرس جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہواہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ اَب احتیاط کے طور پر چین کے شہر شینزن میں بلی اور کتے کا گوشت کھانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، جس کا اطلاق یکم مئی سے ہو گا۔شینزن شہر کے حکام کا کہنا ہے کہ بلی اور کتے پالتو جانور بھی ہیں جن سے انسان کو قریبی لگاؤ ہوتا ہے، ایسی صورت میں ان کا گوشت کھانا بھی مناسب نہیں ہے۔ اس کے بدلے مچھلی جھینگے کھانے کی عادت ڈالی جا سکتی ہے کیونکہ اُن سے انسان کو کورونا وائرس کا شکار ہونے کا بھی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا۔اس اقدام پر ہیومن سوسائٹی انٹرنیشنل برائے محکمہ وائلڈ لائف کے نائب صدر کا کہنا ہے کہ شینزن دنیا کا وہ پہلا شہر ہے جس نے عالمی وبا کورونا سے سبق سیکھتے ہوئے سنجیدگی سے قدم اٹھایا ہے۔ مگر کورونا وائرس جیسے خطرناک وبائی وائرس سے بچنے کے لیے کچھ تبدیلیاں مزید بھی درکار ہیں اور وہ یہ کہ دیگر جنگلی حیات کو کھانے کا رجحان بھی ترک کیا جائے“۔

مزے دار کورونا برگر
کورونا وائرس کے خوف کو دور کرنے کے لیے ویتنام کے ایک شیف نے صارفین کو انوکھی پیشکش کردی ہے۔ویتنام کے دارالحکومت ہانوئی کے ایک شیف نے کورونا وائرس تھیم کے برگر کی پیشکش کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اگر کورونا وائرس کو شکست دینی ہے تو آپ کو یہ کھانا ہوگا۔ہوانگ تنگ شیف کی ٹیم نے کورونا وائرس کی مائیکرواسکوپک تصویر کی طرح کا ایک مزے دار برگر تیار کیا ہے۔ جس کا نام”کورونا برگر“ ہے۔شیف کا کہنا ہے کہ ہم نے لوگوں میں کورونا کا ڈر ختم کرنے اور ان کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کے لیے یہ برگر بنایا ہے۔کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے ویتنام میں بھی تمام تر ریسٹورینٹس اور ہوٹل بند کیے جا چکے ہیں لیکن شیف ہوانگ تنگ یہ کورونا برگر ہوم ڈلیوری سروس کے تحت فروخت کر رہے ہیں۔خیال رہے کہ ویتنام میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 148 ہے جب کہ یہاں کورونا سے ایک بھی ہلاکت سامنے نہیں آئی ہے۔

پالتو جانور بھی کورونا وائرس کا شکار ہوسکتے ہیں
بلجیم میں ایک پالتو بلی کے کورونا میں متاثر ہونے کے بعد دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ مذکورہ بلی دنیا کا وہ پہلا جانور ہے جسے کسی انسان نے بیمار کیا۔بیلجیم میں بلی کے بیمار پڑنے کے بعد چینی ماہرین نے تحقیق کی تو اس میں یہ بات سامنے آئی کہ بلیاں، کتے، بطخیں اور دیگر گھریلو پالتو جانور بھی کورونا کا شکار ہو سکتے ہیں۔چین کے شہر ہاربن میں موجود جانوروں کی بیماریوں پر تحقیق کرنے والے ادارے ہاربن ویٹرنری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ماہرین کی جانب سے کم تعداد کے جانوروں پر کی جانے والی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ کورونا وائرس بلیوں، مرغے و مرغیوں، سور، بطخوں اور کتوں میں کورونا وائرس کی علامات پائی گئیں، تاہم ان میں مذکورہ وبا کی علامات شدید نہیں تھیں۔ماہرین کے مطابق بلیوں کو بھی ایک دوسرے سے کورونا وائرس لگ سکتا ہے اور وہ اچھی خاصی بیمار بھی ہوسکتی ہیں، تاہم بلیوں کے مالکان کو پریشان ہونی کی ضرورت نہیں کیوں کہ وہ انسانوں کی طرح شدید بیمار نہیں ہوں گی۔جبکہ کتوں میں بھی کورونا وائرس منتقل ہو سکتا ہے مگر وہ بلیوں کے مقابلے کم بیمار ہوسکتے ہیں اور عین ممکن ہے کہ ان میں شدید علامات بھی ظاہر نہ ہوں۔بہرحال چینی ماہرین نے جانوروں کے مالکان کو تسلی دی کہ وہ اپنے پالتو جانوروں کے بیمار پڑنے پر پریشان نہ ہوں کیوں کہ ان میں کورونا کی شدید علامات نہیں پائی جاتیں اور وہ کچھ عرصہ زیر علاج رہنے کے بعد ٹھیک ہو سکتے ہیں۔

لاک ڈاؤن کے دوران آن لائن کام کیسے انجام دیں؟
بظاہر سننے میں تو بہت ہی بھلا لگتا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران گھر پر بیٹھ کر آن لائن دفتری اُمور اور کاروباری معاملات کی انجام دہی کی جاسکتی ہے۔مگرچھوٹے اور درمیانے کاروباری اداروں میں کام کرنے والے افراد کس طرح بہتر طور آن لائن کام کرسکتے ہیں؟۔ عام طور پر اِس سوال کا جواب کوئی بھی نہیں بتاتااور لوگ اپنے تئیں خود ہی تصور کرلیتے ہیں کہ بس کمپیوٹر کو کھول کر اپنی آن لائن کاروباری خدمات دوسروں کو فراہم کی جاسکتی ہے۔ حالانکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے کیونکہ آن لائن کاروباری اُمور کی انجام دہی کے لیئے بھی کچھ بنیادی مبادیات کا سیکھنا اور قوائد و ضوابط کا جاننا اُتنا ہی ضروری ہے جتنا کسی دوسرے عملی کام کرنے کے طریقہ کار کا سیکھنا ہوتاہے۔ چونکہ ہمارے ہاں آن لائن کام کرنے کی تربیت حاصل کرنے کی طرف زیادہ توجہ اور دھیان نہیں دیا جاتا،لہٰذا ہم کسی کو ای میل بھیج دینے اور اُسے وصول کرلینے کو ہی آن لائن کام کرنا سمجھے ہوئے ہیں۔جبکہ آن لائن کام کرنا ایک بہت وسیع مفہوم کا حامل لفظ ہے۔اگر آپ بھی آن لائن کام کرنے سے متعلق بنیادی اُصول اور مبادیات سے متعلق آگاہی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اِ س کے لیے گوگل نے پاکستانیوں کی مدد کرنے کا بیڑا اُٹھایاہے اور نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے پھیلاؤ کے روکنے کے لیئے کیئے گئے حکومتی لاک ڈاؤن کو مفید اور کارآمد بنانے کے لیئے چھوٹے اور درمیانے کاروباری اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیئے مفت میں ورچوئل وکشاپس کا خصوصی اہتمام کیا ہے۔ یہ ورچوئل ورکشاپس جنہیں آپ آن لائن کام سکھانے والی تربیتی کلاسیں بھی کہہ سکتے ہیں۔اُن چھوٹے اور درمیانے کاروباری ادروں میں کام کرنے والے افراد کے لیئے تیار کی گئی ہیں جنہیں دنیا بھر میں اپنی کاروباری خدمات فراہم کرنے کی شدید خواہش یا ضرورت ہے۔ گوگل کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ریموٹ ورکنگ اور ڈیجیٹل میں تبدیلی کی غرض سے مفت ورچوئل ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا ہے جو گوگل کی جانب سے پاکستانی کاروباری اداروں کی مدد کے وعدے کا حصہ ہے۔یہ مفید کورس Grow with Google پروگرام کی ٹیم نے تیار کیا، جسے کووڈ 19 کی وجہ سے آن لائن کروایا جائے گا۔اِس کورس میں گوگل کی طرف سے ہینڈی ڈیجیٹل ٹولز کے استعمال کرنے سے متعلق بھرپور تربیت فراہم کی جائے گی اور اسی کے ساتھ ایسے چھوٹے کاروباری اداروں کے لیے مشورے اور ترکیبیں بتانے کی کوشش بھی کی جائے گی،جن کی مدد سے اس ورکشاپ میں شرکت کرنے والوں کو اپنے کسٹمرز اور ملازمین، دونوں کے ساتھ رابطے میں رہنا مزید آسان ہوجائے گا۔اِس کورس کے ہر سیشن کا دورانیہ ایک گھنٹہ ہے جس میں گوگل کے ماہر ٹرینرزتربیت دیں گے۔ ان سیشنز کو ریکارڈ نہیں کیا جا سکے گا، لہذااِس میں شرکت کے لیئے شیڈول کے مطابق گرو وتھ گوگل کی ویب سائٹ وزٹ کریں۔ ویب سائٹ کا مختصر لنک یہ ہے۔ https://bit.ly/2ROv9Z7 جبکہ وکشاپ کا شیڈول ذیل میں درج کیا جارہاہے۔
پہلا سیشن،بتاریخ: 30 اپریل صبح 11 سے 12 بجے تک، موضوع:آن لائن ہونا کیسا لگتا ہے؟
دوسرا سیشن،بتاریخ: 05 مئی صبح 11 بجے سے دوپہر 12 بجے تک، موضوع:آپ گوگل کے ساتھ آن لائن کیا کرسکتے ہیں؟
تیسرا سیشن، بتاریخ 08 مئی صبح 11بجے سے دوپہر 12 بجے تک، موضوع:گوگل کس طرح چھوٹے،درمیانے کاروباری اداروں کی مدد کرتا ہے؟
چوتھا سیشن، بتاریخ: 12 مئی صبح 11بجے سے دوپہر 12بجے تک، موضوع: کسی کو آن لائن گاہک کیوں بنایا جا ئے اور کیسے؟
کورونا وائرس کے دوران ہونے والے لاک ڈاؤن کے فرصت کے لمحات میں آپ Grow with Google کی ویب سائٹ سے مزید بے شمار فوائد بھی سمیٹ سکتے ہیں،مثلاً اِس ویب سائٹ پر کاروبار، مارکیٹنگ، مینیجمنٹ اور دیگر بہت سے موضوعات پر سینکڑوں اسباق موجود ہیں، جبکہ ذاتی ضرورت کے مطابق، اگلے اقدامات بھی تجویز کرتی ہے تاکہ آپ اپنی اسکلز کو درست انداز میں استعمال کر سکیں۔اس کے علاوہ، کاروباری ادارے یہاں سے مزید مشورے اور تجاویز بھی باآسانی تلاش کر سکتے ہیں جس کی مدد سے ان کو اپنے کاروبار کو ترقی دینے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس سے قطع نظر کہ آپ کا کاروبار کیا ہے،بس آپ اپنے کاروبار کی آن لائن ترقی کے لیئےGrow with Google کی اِس ویب سائٹ پر اعتماد کرسکے ہیں،اِس اُمید کے ساتھ کہ گوگل آپ کے کاروبار کو آن لائن پیش آنے والی مشکلات میں زبردست معاونت کرے گا۔ مزید بہتری اور فوئد کے لیئے Grow with Google کی یہ موبائل اپلی کیشن اپنے اسمارٹ فون کا حصہ بنانا بھی ازحد مفید ہوگا۔ جس مختصر لنک یہ ہے۔ https://bit.ly/2yjivdD

کورونا وائرس کے خلاف پہلی دوا کیا واقعی آنے کو ہے؟
نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے شکار افراد کے لیے تجرباتی دوا ریمیڈیسیور (Remdesivir) کے استعمال کے نتائج کو باالآخر طبی ماہرین نے کورونا وائرس کے خلاف علاج کے سلسلہ میں ایک انقلابی پیش رفت قرار دے دیا ہے۔شکاگو کے ایک ہسپتال میں ہونے والے طبی تجربات کے دوران گیلاڈ سائنز نامی کمپنی کی تیار کردہ دوا ”ریمیڈیسیور“کے اثرات کا مریضوں پر انتہائی باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد معلوم ہوا کہ اس دوا کے استعمال سے کووڈ 19 کے مریضوں کی تمام علامات بہت جلد ختم ہوگئیں اور ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں تمام مریضوں صحت یاب ہوگئے۔ابتدائی مرحلے میں کووڈ 19 کے 125 مریضوں پر ”ریمیڈیسیور“ دوا کو بطورِ علاج استعمال کیا گیا تھا۔واضح رہے اِن 125 میں سے 113 افراد میں کووڈ 19 بیماری کی شدت بہت زیادہ تھی لیکن اِس کے باوجود”ریمیڈیسیور“کے استعمال سے 123 مریض مکمل طور پر صحت یاب قرار دے کر ہسپتال سے روانہ کردیا گیا اور اَب ہسپتال میں صرف 2 مریض باقی رہ گئے ہیں، جن کی حالت بھی مستحکم ہے۔اس تجرباتی دوا کے دیگر مختلف ممالک میں بھی وسیع پیمانے پر طبی تجربات جاری ہیں جن میں کووڈ 19 کے خلاف اس دواکی افادیت کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ خصوصاً چین سے بھی بڑے پیمانے پر اِس دوا کے مثبت نتائج موصول ہونے کی اطلاعات ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک میں 152 مختلف کلینکل ٹرائلز کے دوران کورونا وائرس کے 24 سو مریضوں کا بھی اِس دوا سے علاج کیا جارہاہے،جن کے نتائج مئی کے پہلے ہفتہ تک موصول ہونے کی توقع کی جارہی ہے۔اگر سب نتائج ویسے ہی حوصلہ افزا حاصل ہوئے جیسا کہ شگاکو کے ہسپتال میں پائے گئے ہیں تو ہوسکتاہے کہ ” ریمیڈیسیور“ نامی اِس دوا کو طبی ماہرین کی طرف سے کورونا وائرس کے خلاف علاج کے لیئے عام استعمال کرنے کے لیئے باقاعدہ طور پر منظور کر لیاجائے۔ اِس خبر کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ مئی کے پہلے ہفتہ میں کورونا وائرس کے علاج کے لیئے سائنس دانوں کی طرف سے پہلی منظور شدہ دوا ”ریمیڈیسیور“ کے منظرِ عام پر آنے کے کافی روشن امکانات ہیں۔

سیکنڈوں میں کورونا وائرس کی تشخیص کرنے والا منفرد آلہ
کورونا وائرس کا ٹیسٹ کورونا وائرس کا ٹیسٹ ایک مہنگا سودا ہی نہیں ہے بلکہ وقت طلب کام بھی ہے۔ عموماً کورونا وائرس کے ٹیسٹ کے نتائج آنے کئی گھنٹوں یا ایک سے دو دن بھی لگ سکتے ہیں۔ شاید اِسی لیئے دنیا بھر کے طبی ماہرین کورونا وائرس کے ٹیسٹ کو ارزاں اور جلد ازجلد نتائج دینے والا بنانے کے لیئے کوشاں ہیں۔ اِس حوالے سے ایک بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے کہ ایران کے طبی ماہرین فقط پانچ سیکنڈ میں کورونا وائرس کی درست تشخیص کرنے والے منفرد آلہ ایجاد کرلیا ہے۔ مذکورہ آلہ متاثرہ شخص کو 100 میٹر کی دوری سے پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔جو کہ ایئرپورٹ یا ٹریفک حکام کے پاس گاڑیوں کو چیک کرنے والے اینٹینا کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ ایرانی پاسداران انقلاب نے مذکورہ آلے کو 15 اپریل کو ایک چھوٹی تقریب میں متعارف کرایا۔آلے کو متعارف کرانے والی تقریب میں ایرانی پاسدارن انقلاب کے کمانڈر جنرل حسین سلامی کا کہنا تھا کہ مذکورہ آلہ اپنی نوعیت کا منفرد اور اسٹیٹ آف دی آرٹ آلہ ہے جو کہ دنیا میں کسی اور ملک کے پاس نہیں۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ مذکورہ آلہ کورونا سے متاثرہ شخص کی نشاندہی 100 میٹر کی دوری سے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ساتھ ہی آلہ کسی بھی ایسے علاقے کی نشاندہی بھی کرنے کی اہلیت رکھتا ہے جہاں پر کورونا کی نمی موجود ہو۔جبکہ یہ آلہ محض 5 سیکنڈ میں نتائج دیتا ہے اور اس کے نتائج کورونا ٹیسٹ سے 80 فیصد ملتے جلتے ہیں یعنی آلہ 80 فیصد درست نشاندہی کرتا ہے۔اہم بات یہ ہے کہ جس شخص میں بھی تشخیص کے لیے یہ منفرد آلہ استعمال ہوگا پھر اُسے بلڈٹیسٹ سمیت دیگر کسی بھی ٹیسٹ کی ضرورت نہیں رہے گی۔ یہ آلہ کیس طرح سے اور کیسے کام کرتا ہے ملاحظہ کرنے کے لیئے مندرجہ ذیل لنک پرکلک کریں۔ https://youtu.be/GjiutzasHTY

ائیر کنڈیشنر بھی کورونا وائر س پھیلاؤ کا سبب بن سکتاہے
حال ہی میں چین میں ہونے والی ایک سائنسی تحقیق میں یہ انکشاف سامنے آیا ہے کہ جنوبی چین کے ایک ریسٹورنٹ میں جانے والے 3 خاندانوں کے 10 افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہونے پر اس حوالے سے کی گئی تحقیق سے ثابت ہوا کہ اِن تمام افراد میں کورونا وائرس کے وائرل ذرات کی منتقلی کا بنیادی سبب ائیرکنڈیشنرتھا۔گوانگزو سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن کی جانب سے ہونے والی اس تحقیق کے نتائج جریدے ایمرجنگ انفیکشنز ڈیزیز میں شائع کیے گئے جو کہ امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن کا اوپن ایسز جریدہ ہے۔تحقیق میں بتایا گیا کہ جنوری کے آخر میں گوانگزو شہر کے ایک ریسٹورنٹ میں ائیرکنڈیشنر سے ہوا کا مضبوط بہاؤ وائرل ذرات کو 3 میزوں تک پہنچایا۔محققین نے مشورہ دیا ہے کہ میزوں کے درمیان فاصلے کو بڑھانے اور ہوا کے اخراج کے نظام کو بہتر کرکے اس طرح کے وائرس انفیکشن کا خطرہ کم کیا جاسکتا ہے۔تحقیق کے مطابق ان 10 مریضوں میں سے ایک 23 جنوری کو ووہان سے واپس آیا تھا، یعنی وہ شہر جہاں سب سے پہلے یہ وائرس پھیلنا شروع ہوا۔اس مریض نے اگلے دن ریسٹورنٹ میں خاندان کے 3 افراد کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا، جس میں کھڑکی نہیں تھی بلکہ ہر منزل میں ایک ائیرکنڈیشنر موجود تھا۔جب کہ2 دیگر خاندان بھی ارگرد کی میزوں پر موجود تھے اور اِن کے درمیان ایک میٹر کا فاصلہ تھا جبکہ اوسطاً ایک گھنٹے تک وہ لوگ وہاں موجود رہے۔پہلے مریض میں اسی دن بخار اور کھانسی کی علامات سامنے آگئیں اور ہسپتال داخل ہوگیا۔ اگلے 2 ہفتے میں اس کے خاندان کے مزید 4 افراد، دوسرے خاندان کے 4 اور تیسرے خاندان کے 3 افراد نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے شکار ہوگئے۔تفصیلی تحقیقات کے بعد سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ دوسرے اور تیسرے خاندان میں اس وائرس کے پہنچنے کی وجہ ریسٹورنٹ میں موجود پہلا مریض تھا۔تحقیق کے مطابق وائرس کی ترسیل کے ممکنہ ذرائع کا جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ اس کی ممکنہ وجہ ائیرکنڈیشنر کے ذریعے وائرل ہونے والے کورونا وائرس کے ذرات ہی تھے۔ مزید تحقیقی تجزیے سے معلوم ہوا یہ وائرل ذرات ائیرکنڈیشنر کے وینٹی لیشن سے پھیلے تھے۔ واضح رہے کہ ہوٹل کی اسی منزل پر پہلے مریض کے ساتھ 73 مزید افراد بھی کھانا کھا رہے تھے مگر ان میں بیماری کی علامات 14 دن کے قرنطینہ میں ظاہر نہیں ہوئیں اور ٹیسٹ بھی نیگیٹو رہے، اسی طرح ریسٹورنٹ کے عملے میں سے بھی کوئی متاثر نہیں ہوا۔محققین کا کہنا تھا کہ یہ تحقیق ابھی محدود پیمانے پر ہوئی ہے، مگر اِس سے اتنا ضرور معلوم ہوگیاہے کہ ائیر کینڈیشنر بھی کورونا وائرس پھیلانے کا سبب بن سکتاہے۔

اَب آپ کے پاؤں بھی کورونا وائرس کا راستہ دکھاسکتے ہیں
جیسے جیسے نوول کورونا وائرس دنیا بھر میں پھیل رہا ہے، طبی ماہرین کی جانب سے اس وائرس کی وجہ سے لاحق ہونے والی بیماری کووڈ 19 کی نئی نئی ممکنہ علامات کو شناخت کیا جارہا ہے۔طبی ماہرین کورونا وائرس کی علامتوں پر خاص توجہ اِس لیئے بھی دے رہے ہیں تاکہ کووڈ 19 کے مریض کی بروقت شناخت کرکے اُسے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بننے سے روکا جاسکے۔ کیونکہ اَب تک ہوا یہ ہی ہے کہ جب تک کسی شخص کو اپنے جسم میں کورونا وائرس کے ہونے کا شبہ ہوتاہے،اُس وقت وہ شخص بے شمار افراد تک یہ وائرس پہنچانے کا سبب بن چکا ہوتاہے۔ اِس لیئے طبی ماہرین کی اولین کوشش یہ ہے کہ کورونا وائرس کی چند ایک ایسی علامات دریافت کرلی جائیں،جس کی بنیاد پر ہر شخص ابتدائی مرحلہ پر ہی کورونا وائرس کی خود ساختہ تشخیص کرنے میں کامیاب ہوجائے۔اچھی خبر یہ ہے کہ شاید طبی ماہرین باالاخر کورونا وائرس سے متاثرہ فرد میں وہ مخصوص علامت تلاش کرنے میں کامیاب ہوہی گئے ہیں اور وہ اہم ترین علامت ہے پاؤ ں کی رنگت یا ساخت میں اچانک تبدیلی یا نشان کا ابھر آنا۔امریکا کی پنسلوانیا یونیورسٹی کے اسکول آف میڈیسین کے ماہرین نے کورونا وائرس کے مریضوں میں اس علامت کی نشاندہی کی ہے جسے ”کووڈ ٹوئیز“کا نام دیا گیا ہے، جس میں مریض کے پیروں اور پیروں کی انگلیوں پر جامنی یا نیلے رنگ کے نشان یا زخم ابھر آتے ہیں۔طبی ماہرین کے مطابق یہ نئی ممکنہ نشانی اس لیے بھی ایک اہم ترین دریافت ہے کہ یہ خاص علامت کووڈ 19 کے ایسے مریضوں میں ہی نظر آرہی ہے جن میں کورونا وائرس کی دیگر علامات سامنے نہیں آتیں، بالکل اسی طرح جیسے سونگھنے اور چکھنے کی حس سے محرومی بھی اکثر ان افراد میں دیکھی گئی جن میں اس بیماری کی دیگر علامات کو نہیں دیکھا گیا۔یاد رہے کہ یہ علامت کورونا وائرس کے ابتدائی ایام میں ظاہر ہوتی ہے اوراِس علامت کے ظاہر ہونے کے بعد ہی کووڈ19 کی بیماری آگے کی جانب بڑھتی ہے، کئی بار تو یہ علامت کووڈ 19 کا پہلا سراغ ہوتا ہے خاص طور پر اس وقت جب دیگر علامات نمودار نہیں ہوتیں۔ ”کووڈ ٹوئیز“کچھ افراد میں ایک ہفتے سے 10 دن میں غائب ہوجاتی ہیں، مگر پھر نظام تنفس کی علامات نظر آنے لگتی ہیں۔ یہ نئی علامت بچوں اور نوجوانوں میں دیگر عمر کے افراد کے مقابلے میں زیادہ نظر آرہی ہے۔ اس علامت کو سب سے پہلے مارچ میں اٹلی کے ٖڈاکٹروں نے دریافت کیا تھا اور جب ماہرین نے اس عجیب علامت کی طرف توجہ دینا شروع کی تو امریکا میں اِس علامت کی زیادہ سے زیادہ کیسز میں شناخت ہونے لگی۔ماہرین کے مطابق ممکنہ طور پر 2 وجوہات ”کووڈ ٹوئیز“کا باعث بن سکتی ہے، ایک ممکنہ وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ کووڈ 19بیماری کے نتیجے میں ہونے والی سوزش اور ورم کے خلاف ردعمل کا اثر پیروں اور انگلیوں میں ہوتا ہے، جبکہ دوسری وجہ جسم میں شدید انفیکشن سے ہونے والے ورم سے خون کی ننھی رگوں میں چھوٹے لوتھڑے بننا بھی ہوسکتا ہے۔بہرحال یہ علامت خاص طور پر کورونا وائرس کے ان مریضوں میں بہت عام مشاہد ہ کی جارہی ہے جن میں سانس لینے میں مشکلات کا باعث بننے والے مرض اے آر ڈی ایس سامنے آتا ہے۔ایک بات اور اچھی طرح سے ذہن نشین رہے کہ ”کووڈ ٹوئیز“کی علامت ظاہر ہونے والے افراد میں زیادہ امکان اس بات کا ہوتا ہے کہ ان میں ٹیسٹ کے ذریعے وائرس کی تشخیص نہیں ہوسکے گی کیونکہ ابھی بیماری ابتدائی مراحل میں ہے،اِس لیئے طبی ماہرین کی سختی سے ہدایت ہے کہ جس شخص کو بھی اپنے پاؤں میں یہ علامت نظر آنے لگے،اُسے ازحد خود ہی اپنے آپ کو قرنطینہ کرکے اپنی اِس علامت پر گہری نظر رکھی چاہیے اور کورونا وائرس کی دیگر علامات محسوس کرنے کی صورت میں کورونا وائرس کا ٹیسٹ لازماً کروالینا چاہئے۔

چین کی پاکستان میں کووِڈ 19 ویکسین کے کلینکل ٹرائل کی پیشکش
چین کی ایک بڑی دوا ساز کمپنی چائنا سائینو فارم انٹرنیشنل کارپوریشن نے قومی ادارہ صحت (این آئی ایچ) اسلام آباد کو کووِڈ 19 کے لیے تیار کردہ ویکسین کا پاکستان میں کلینکل ٹرائل کرنے کی دعوت دے دی۔ اگر قومی ادارہ صحت اِس پیشکش کو قبول کرلیتا ہے تو اِس ویکسین کے کامیاب ٹرائل کے بعد پاکستان بھی خوش قسمتی سے اُن چند گنتی کے ممالک میں شامل ہوجائے گا،جنہیں کووڈ 19 ویکسین متعارف کروانے کا منفرد اعزاز حاصل ہوسکتاہے۔اِس ویکسین کے کلینکل ٹرائل کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ پاکستان اِسے ترجیحی بنیادوں پر خرید کر اپنے زیرِ استعمال لا سکے گا۔واضح رہے کہ چائنا سائینو فارم انٹرنیشنل کارپوریشن دنیا کے اُن چند مایہ ناز ادویات ساز اداروں میں سے ایک ہے،جس نے سب پہلے نوول کورونا وائرس کی ویکسین تیا رکی ہے۔ جبکہ اِسی کمپنی نے چین میں کووڈ 19 کے خلاف جنگ میں 80 فیصد سے زائد قوتِ مدافعت کی ویکسین تیار کر کے کورونا وائرس کو شکست دینے میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ چائنا سائینو فارم انٹرنیشنل کارپوریشن کا کہنا ہے کہ ”دنیا بھر میں ریگولیٹری اتھارٹیز نے کووڈ19 ویکسین جلد متعارف کروانے میں سہولت کے لیے ہنگامی پروٹوکولز بنائے ہیں اور چین میں اس عمل کو تیز کرنے کے لیے فیز ون اور فیز ٹو کے کلینکل ٹرائلز اکٹھے کیے جارہے ہیں۔لہذا اگر پاکستان کی طرف سے آمادگی کا اظہار کیا گیا تو سائنو فارم کی نمائندہ کمپنی ہیلتھ بی پروجیکٹس پرائیویٹ لمیٹڈ اور این آئی ایچ فوری طور پر فیز ون اور فیز ٹو کے اکٹھے ٹرائل کی منصوبہ بندی اور عملدرآمد کا آغاز کرسکیں گے۔جبکہ معاہدے پر دستخظ سے سائنو فارم کمپنی نہ صرف اس ویکسین کی ’منظوری، منصوبہ بندی کے حوالے سے مزید خفیہ معلومات فراہم نے کی پابند ہوگی بلکہ اِس متعلق دیگر مطلوبہ دستاویزات کی فراہمی، ٹرائلز کی تقسیم سے متعلق فنڈنگ، لاجسٹک کی منصوبہ بندی اور کلینکل ٹرائل کا ڈوزیئر ہیلتھ بی کے ذریعے فراہم کرنے کی پابند ہوگی“۔ اِس لحاظ سے دیکھا جائے تو کورونا وائر س خلاف جنگ لڑنے کے لیئے چین کی طرف سے پاکستان کو کی جانے والی یہ ایک بہت بڑی پیشکش ہے۔

مٹاپے کا شکار افراد کورونا وائرس کے نشانے پر ہیں
امریکی ریاست نیویارک کے سائنسی ماہرین نے کورونا کے پھیلاؤ اور اس کی روک تھام کے حوالے سے کیے گئے ایک مطالعے کے دوران کووڈ19 بیماری کا شکارہونے والے افراد کا ڈیٹا جمع کیا اور شواہد کی بنیاد پر یہ بات منکشف ہوئی ہے کہ موٹاپا بھی کورونا وائرس کے حوالے سے چوتھا خطرناک پہلو ہے۔ ماہرین کے مطابق پہلا خطرناک ترین پہلو عمر رسیدگی، دوسرا قوت مدافعت کی کمزوری، تیسرا ذیابیطس یا دل کے امراض، چوتھا موٹاپے کا مرض ہے۔یعنی اَب تک دنیا بھر میں کورونا وائرس کے متاثرہ مریضوں کا تیسرا حصہ زیادہ وزن والے افراد پر مشتمل ہے۔رپورٹ میں نیویارک یونیورسٹی کے سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کے جسم کا میس انڈیکس 25سے کم ہے وہ صحت مند قرار پاتے ہیں اور اُن لوگوں کے لیے کورونا وائرس زیادہ خطرناک ثابت نہیں ہوتا، البتہ 25 سے 29باڈی میس انڈیکس مٹاپے کے قریب ہوتا ہے جبکہ 30یا اس سے زیادہ میس انڈیکس مٹاپا شمار ہوتا ہے اور ایسے لوگوں میں کو رونا وائرس سے متاثر ہونے کے خطرات بہت ہی زیادہ ہوجاتے ہیں۔لہٰذا اگرمٹاپے کا شکار افراد اپنا وزن کم کرلیں تو کورونا وائرس کو باآسانی شکست دے سکتے ہیں۔

کورونا وائرس کے مریضوں کا سراغ لگانے کے لیئے ڈرون کا استعمال
امریکی ریاست کنیٹیکٹ کی پولیس عوامی مقامات پر کرونا وائرس کے مشتبہ مریضوں کا پتہ لگانے کیلیے وبائی ڈرون کا تجربہ کررہی ہے جو190 فٹ کی دوری سے انسانی درجہ حرارت پتہ لگا لیتا ہے۔ کورونا وائر س کے مشتبہ مریضوں کا سراغ لگانے کے لیئے بنائے جانے والے ڈرون میں ایسے سنسر نصب کیے گئے ہیں جس کی مدد سے وہ 190 فٹ کی دوری سے انسانی درجہ حرارت، سانس، چھینک اور کھانسی کا پتہ لگانے کی صلاحیت رکھا ہے۔اس وبائی ڈرون کا پہلا تجربہ نیویارک شہر کے کوویڈ 19 سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقے پر اڑاکر کیا گیا جس کے ذریعے یہ پتہ لگایا گیا کہ لوگ آپس میں سماجی دوری اختیار کررہے ہیں یا نہیں اور وائرس کی علامات کس کس میں ظاہر ہورہی ہیں۔کورونا وائرس کی شناخت کرنے کے لیئے یہ منفرد ڈرون بنانے والی کمپنی کینیڈا کی جس کے منتظمین کا کہناہے کہ”یہ ڈرون کسی بھی دیگر نجی معلومات کے حصول کے لیئے قطعی استعمال نہیں کیا جائے گا اور نہ یہ کسی کے چہرے کی شناخت یا انفرادی نوعیت کا ڈیٹا لینے کیلیے استعمال کیا جائے گا“۔ کمپنی اِس ڈرون کو اگلے چھ ماہ میں کورونا وائرس سے متاثرہ ممالک کو فراہم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ لیکن فی الحال نیورک شہر کی ویسٹ پورٹ پولیس اس کی تجرباتی جانچ کر رہی ہے۔تاکہ اِس کے فوائد اور ممکنہ نقائص سے آگاہی حاصل ہوسکے۔ مستقبل میں اس وبائی ڈرون کا استعمال دفاتر، ہوائی اڈوں، بحری جہاز، اولڈ ایج ہومز اور دیگر ہجوم والی جگہوں پر کورونا وائر س سے متاثرہ افراد کی نشاندہی کرنے کے لئے کیا جاسکے گا۔ اگر آپ اِس وبائی ڈرون کی آزمائشی پرواز کی دلچسپ ویڈیو ملاحظہ کرنے چاہتے ہیں تو اِس مختصر لنک پر وزٹ کریں https://bit.ly/3aCuz76

لاک ڈاؤن کے دوران نایاب پینٹنگ کی چوری
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیئے دنیا بھر میں لاک ڈاؤن ہوجانے کے بعد چھوٹی موٹے جرائم میں تو ہر جگہ ہی اضافہ ہوا تھا لیکن اَب خبر آرہی ہے کہ لاک ڈاؤن کا فائدہ اُٹھانے کے لیئے عالمی لٹیرے میں میدان عمل میں کود پڑے ہیں اور تازہ ترین خبر کے مطابق نیدر لینڈز کے دارالحکومت ایمسٹرڈیم کے سنگرلیرن میوزیم میں کورونا وائرس کے لیئے کیئے گئے لاک ڈاؤن کے دوران انتہائی قیمتی پینٹنگ چوری کرلی گئی ہے۔جس کی مالیت 2 کروڑ 60 لاکھ پاؤنڈ بتائی جاتی ہے۔ میوزیم انتظامیہ کیلیے انتہائی پریشان کن لمحہ ہے کیونکہ پہلے ہی کورونا وائرس کے باعث عجائب گھر کئی ہفتوں سے بند پڑا ہے اور اب یہ بیش قیمت پیٹنگ بھی چوری ہوگئی۔سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک چور ہتھوڑے کی مدد سے میوزیم کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوتا ہے اور پھر ونسنٹ وین گو کی بیش قیمتی پیٹنگ اٹھاکر لے جاتا ہے۔اس نایاب پینٹنگ کو مشہور ڈچ آرٹسٹ ونسنٹ وین گو نے 1884 میں بنائی تھی، جس کے 1887 میں ہونے والی ایک نیلامی میں ڈھائی کروڑ پاؤنڈز (آج کے تقریباً 6 کروڑ پاؤنڈز) قیمت لگ چکی تھی لیکن اُس وقت اِس پینٹنگ کو فروخت نہیں کیا گیا تھا۔ خیال رہے کہ سنگر لیرن انتظامیہ نے 12 مارچ کو 100 لوگوں سے زائد افراد کے ایک جگہ جمع ہونے سے متعلق حکومتی احکامات پر عمل درآمد کرتے ہوئے میوزیم مکمل طور پربند کردیا تھا۔اگر آپ نے اَب تک اِس پینٹنگ کو نہیں دیکھا تو اِس مختصر لنک کی مدد سے ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ http://dailym.ai/2VDOiPT

لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے پرکورونا مریض کے ساتھ رہنے کی سزا
دنیا بھر میں لاک ڈا ؤ ن کا نفاذ اِس لیئے کیا گیا ہے کہ تاکہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جاسکے۔ مگر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ بعض لوگوں کورونا وائرس کی عالمی ہلاکت خیزی دیکھنے کے بعد بھی لاک ڈاؤن کی افادیت کو سمجھنے سے انکاری ہیں اور لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے کے لیئے نت نئے طریقے اور بہانے استعمال کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ایسے ہی بگڑے ہوئے افراد کو راہِ راست پر لانے کے لیئے بھارتی ریاست تامل ناڈو کی پولیس نے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے والوں کو انوکھی سزا دینا شروع کردی ہے۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ ناکے پر کھڑے پولیس اہلکاروں نے موٹرسائیکل پر سوار تین نوجوانوں کو روکا۔نوجوانوں نے کورونا سے بچاؤ کا ماسک پہنا ہوا تھا اور نہ ہی سماجی دوری کے اُصول کو کسی خاطر میں لائے ہوئے تھے۔پس پولیس اہلکاروں نے ناکے پر اپنے ساتھ ایک نقلی ایمبولینس کھڑی کی ہوئی تھی جس میں ایک آدمی کو کورونا کا مریض بنا کر لٹایا ہوا تھا۔جب پولیس اہلکاروں نے نوجوانوں سے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کی وجہ پوچھی جس پر تینوں نوجوانوں میں سے کوئی بھی خاطر خواہ جواب نہ دے سکا توپولیس اہلکاروں نے تینوں نوجوانوں کو بتایا کہ اب انہیں ایک ایسی ایمبولینس میں بند کیا جائے گا جس میں کورونا کا مریض ہے۔ یہ جملہ سنتے ہی تینوں نوجوانوں کے اوسان خطا ہو گئے اور وہ وہاں سے بھاگنے کی کوشش کرنے لگے مگر ناکے پر کھڑے چاک و چوبند پولیس اہلکاروں نے انہیں قابو کر کے زبردستی ایمبولینس میں ڈال دیا۔جب نوجوانوں کو ایمبولینس میں زبردستی داخل کیا تو اندر موجود کورونا کا نقلی مریض اٹھ کر نوجوانوں کی طرف بڑھنا شروع ہوا جس پر وہ تینوں کھڑکیوں سے کود کر بھاگ نکلے۔ناکے پر کھڑے پولیس افسر نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے والے نوجوانوں کو اسی طرح ڈرایا جائے گا تاکہ انہیں کورونا وائرس کی حساسیت کا درست اندازہ ہوسکے۔
حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ ایکسپریس کے سنڈے میگزین میں 12 اپریل 2020 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں