COAS Bajwa

ویل ڈن، جنرل باجوہ

مشہور مقولہ ہے کہ ”ناکامی لاوارث ہوتی ہے اور کامیابی کے ہزار، وارث نکل آتے ہیں“۔یہ ہی کچھ معاملہ آج کل پاکستان کے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے یا نہ نکلنے کے حوالے سے ہمیں درپیش ہے۔بظاہر فٹیف کے سربراہ کے اِس اعلان کے بعد کہ ”پاکستان نے گرے لسٹ نکلنے کے لیئے عائد کردہ تمام شرائط کو من و عن پورا کردیا ہے“۔پاکستان کے رواں برس، اکتوبر تک ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے روشن امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔ایک طویل عرصہ بعد عالمی ذرائع ابلاغ میں پاکستان کے حوالے سے سنائی دینے والی ایک حوصلہ افزا، خبر کے بعد ملک بھر میں یہ بحث شروع ہوچکی ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے باہر نکلنے کی فقید المثال کامیابی کا سہرا کس شخصیت کے سرپر باندھا جائے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کی تینوں بڑ ی سیاسی جماعتوں کی بھرپور کوشش ہے کہ پاکستان فٹیف کی گرے لسٹ سے نکالنے کا کریڈٹ صرف اور صرف اُن کی قیادت کو ہی ملے اور اِس حوالے سے ہر سیاسی جماعت کا میڈیا سیل، سوشل میڈیا پر بھرپور انداز میں پروپیگنڈا مہم بھی چلارہا ہے۔وزیراعظم پاکستان شہباز شریف سمجھتے ہیں کہ چونکہ یہ واقع اُن کے دورِ اقتدار میں ہوا ہے۔لہٰذا مسلم لیگ (ن) کے سر پر اِس کامیابی کا سہرا بندھنا چاہیئے۔جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی کا اصرار ہے کہ یہ کامیابی صرف اور صرف، وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی غیر معمولی سفارت کاری کی مرہونِ منت ہے۔یوں،یہ ٹرافی اُنہیں دے دی جائے۔ علاوہ ازیں سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان کا دعوی ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ نکلنے کے لیئے جتنی شرائط کا پورا کرنا ضروری تھا،وہ سب کی سب اُن کے دورِ حکومت میں پوری کی جاچکی تھیں۔ پس! یہ تمغہ پاکستان تحریک انصاف کے ماتھے پر کسی جھومر کی طرح سجنا چاہیئے۔

یاد رہے کہ کچھ عرصہ پہلے تک یہ ہی سیاسی جماعتیں پاکستان کا نام فٹیف کی گرے لسٹ میں ڈلوانے کے لیئے ایک دوسرے کو موردِ الزام قرار دیتی تھیں،مگر اَب جب کہ صورت حال یکسر تبدیل ہوچکی ہے اور فنانشل ٹاسک فورس نے پاکستان کا نام گرے سے وائٹ لسٹ میں ڈالنے کا عندیہ دے دیاہے تو تمام سیاسی جماعتیں داد طلب، حریصانہ نگاہوں سے عوام کی جانب دیکھ رہی ہیں۔ حالانکہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے پاکستان کو نکالنے کے لیئے، فٹیف کی مشکل ترین شرائط کو پورا کرنے کے غیر معمولی کام کا اصل بیٹرا تو پاک فوج بالخصوص عساکر پاکستان کے سربراہ جنرل قمر باجوہ نے اُٹھا یا تھا۔ مگر چونکہ الاماشاء اللہ ہماری سیاسی جماعتیں، وسیع تر ریاستی مفادات کو بھی اپنے مخصوص سیاسی اور گروہی فوائد کے تناظر میں ہی دیکھنے کی”عادی مجرم“ ہیں۔لہٰذا، ہر سیاسی جماعت کے سربراہ کی کوشش ہے کہ وہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ والی متوقع تاریخ ساز کامیابی پر بھی اپنے نام کی ”تختی“ کا فیتہ کاٹ ڈالے۔

سچ تو یہ ہے کہ آرمی چیف بننے کے بعد جنرل قمر باجوہ نے اپنا پہلا اور مرکزی ہدف ہی پاکستان کو فٹیف کی گرے لسٹ سے نکالنے کو بنایا تھا۔کیونکہ وہ اچھی طرح سے جانتے تھے کہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلے بغیر پاکستان کے لیئے معاشی بحرانوں سے نکلنا کم و بیش نا ممکن ہی ہوگا۔ چنانچہ انہوں نے اس معاملہ کو حل کرنے کے لیئے جی ایچ کیو کے اندر ایک باصلاحیت اور محنتی آفیسر میجر جنرل نعمان زکریا کی سربراہی میں ایک خصوصی سیل قائم کیا۔ اس خصوصی سیل کی بنیادی ذمہ داری ہی ایک ایسا جامع منصوبہ تیار کرنا تھا،جس پر عمل پیرا ہوکر جلدازجلد ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کا ہدف حاصل کیا جا سکے۔ مذکورہ سیل نے ملک کے مایہ ناز قانون ساز،بینکنگ ماہرین اور قابل ترین پارلیمانی نمائندوں کی ایک پوری ٹیم تشکیل دی۔

سب سے اچھی بات یہ تھی کہ مذکورہ ٹیم نے جو بھی تجویز پیش،اُس پر عمل درآمد کے لیئے دن رات کا لحاظ کئے بغیر جاں فشانی سے کام کیا گیااور اگر کبھی راہ میں کوئی مشکل یا رکاؤٹ حائل بھی ہوئی تو اُسے عساکر پاکستان کی قیادت نے ذاتی دلچسپی لے کر فوری طور پر حل کیا یا کروایا۔ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی اس سارے معاملے پر دلچسپی کا اندازہ صرف اس ایک بات سے لگایا جاسکتاہے کہ رواں ہفتے جس روز فٹیف کا جرمنی میں اجلاس ہورہا تھا تو جنرل قمر باجوہ نیٹو کے ہیڈکوارٹرز برسلز کے دورے کے بعد جرمنی میں ہی موجود تھے۔جبکہ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف اسلام آباد میں موجود تھے،وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری ایران میں اپنے ہم منصب سے ملاقات کررہے تھے اور سابق وزیراعظم پاکستان بنی گالہ میں اپنی اگلی احتجاجی تحریک حکمت عملی ترتیب دینے میں مصروف تھے۔

بہرکیف یہاں ہماری بات کا یہ مطلب ہرگز نہ لیا جائے کہ فٹیف کی گرے لسٹ سے نکلنے میں پاکستان کی سیاسی قیادت کا کردار بالکل بھی نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص ایسا سوچتا ہے تو وہ یقینا ایک بڑے فکری مغالطے اور غلط فہمی کا شکار ہے۔کیونکہ یہ بھی ایک بڑی خوب صورت حقیقت ہے کہ ہر پارلیمانی جماعت نے فنانشل ٹاسک فورس کی شرائط کوپورا کرنے کے لیئے ضروری قانو ن سازی کو پارلیمان سے پاس کروانے میں بھرپور حصہ لیا اور کسی بھی سیاسی جماعت نے قانون سازی کرنے کی راہ میں روایتی حیل و حجت کے روڑے اٹکانے سے کام نہیں لیا۔جس پر اُن کی پوری پوری ستائش کی جانی چاہیے۔لیکن فٹیف کے سارے معاملے پر جب بھی کسی ایک شخصیت کے مرکزی اور کلیدی کردار کی بات کی جائے گی تو پھر عساکر پاکستان کے سربراہ جنرل قمر باجوہ کا نام ہی لیا جائے گا اور مجھے قوی اُمید ہے کہ آج جو لوگ اُنہیں کریڈٹ دینے میں بخل سے کام لے رہے۔یقینا وہ بھی ایک نہ ایک دن ضرور پاکستان کو فٹیف کی گرے لسٹ سے نکلوانے کے لیئے آرمی چیف، جنرل قمر باجوہ کی خدمات کا کھلے دل سے اعتراف کرنے پر مجبور ہوں گے۔
اس کو ہمار ی ذات سے انکار بھی نہیں
لیکن وہ اعتراف کو تیار بھی نہیں

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 23 جون 2022 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں