Climate

موسمیاتی تبدیلی ہماری زمین نگلنے لگی

ہمارے کرہ ارض کا موسم اگر اپنے وقت مقررہ پر بالکل ویسے ہی بدلتا رہے،جیسا کہ سینکڑوں برس سے تبدیل ہوتاآرہا ہے تو سمجھ لیجئے کہ کوئی خطرہ کی بات نہیں ہے۔لیکن اگر موسموں کی تبدیلی فطرت کے طے شدہ نظام اور مقرر کردہ وقت سے بہت پہلے یا پھر بہت ہی زیادہ تاخیر سے ہونا شرو ع ہوجائے تو اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ ہمارا کرہ ارض سخت خطرہ کی زد پر ہے اور ہم کلائمٹ چینچ یعنی موسمیاتی تبدیلی کے گرداب میں بُری طرح سے پھنس چکے ہیں۔

ایک تازہ ترین تحقیق کے مطابق 19ویں صدی سے زمین کے اوسط درجہ حرارت میں قریباً 1.2 ڈگری سیلسیئس تک اضافہ ہوا ہے جس سے کرہ ارض میں ہر جگہ موسمی کیفیات غیر معمولی تیز رفتاری کے ساتھ تبدیل ہونا شروع ہوگئی ہیں۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ اِس وقت دنیا کے بعض علاقوں میں آباد لوگ سردی کے موسم میں گرمی کی سختیاں جھیل رہے۔یعنی دسمبر کے مہینہ میں سرد ہوا کے جھونکے چلنے کا انتظار کررہے ہیں۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ جب ماہ دسمبر کے گرم ایّام میں سرد ی کا انتظار کرنے والوں پر اگلے چند دنوں میں سرد ہوائیں حملہ آور ہوں گی تو وہ اُن کی سوچ اور خیال سے بھی زیادہ سرد اور یخ بستہ ہوں گی۔ کیونکہ موسمیاتی تبدیلی کا سب سے بڑا نقصان ہی یہ ہے کہ زمین کے موسم اپنا فطری توازن کھو بیٹھتے ہیں اور یوں موسم ِسرما میں گرمی کے ہی نہیں بلکہ شدید سردی کے بھی نئے نئے ریکارڈ بننا شروع ہو جاتے ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلی، آب و ہوا کے بگاڑ اور تغیرات کی وجہ سے جہاں دنیا کے کئی ملکوں میں رواں برس سیلاب، ہیٹ ویوز، قحط اور شدید بارشوں کے کئی ریکارڈ ٹوٹے ہیں تو وہیں روس کے سرد ترین مقام سائبیریا میں بھی برف کے ذخائر جس قدر تیزی سے پگھل رہے ہیں وہ تیزی ماہرین کے اندازوں سے بھی کہیں زیادہ یعنی چار گنا تیز ہے۔ ماحولیاتی بگاڑ کے کچھ اثرات تباہ کن ہیں تو کچھ عجیب و غریب بھی ہیں۔ سائبیریا میں برفانی دور کے زمانے کی برف پگھلنے کے نتیجے میں ہریالی سے بھرے نئے میدانی علاقے پیدا ہو رہے ہیں۔نیز کچھ میدان علاقوں میں بڑے بڑے گہرے سوراخ اور گڑھے بھی بن رہے ہیں جن کے متعلق سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے برف پگھل گئی اور زیر زمین گیس کے چھوٹے چھوٹے ذخائر گرمی کی حدت سے پھٹ رہے ہیں جس سے زمین پر کنووں کی مانند انتہائی گہرے سوراخ جنم لے رہے ہیں۔جبکہ دنیا بھر میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کے مضر اثرات جنگلی حیات پر بھی بہت شدت سے پڑرہے ہیں جس کے نتیجے میں متعدد پرندوں کی نایاب اقسام معدوم ہوتی جارہی ہیں۔دراصل تیزی سے بدلنے والے موسمی حالات کی وجہ سے پرندوں کی رہائش کے مقامات بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ مساکن کی تبدیلی سے پرندوں کی کئی نسلیں معدوم ہوچکی ہیں اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ان کی افزائش میں نمایاں کمی بھی آرہی ہے۔ جب کہ چڑیا گھروں میں رکھے گئے جانوروں اور پرندوں کے انڈے اور بچے دینے کے سیزن میں بھی تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔

واضح رہے کہ جانور ایسی جگہ رہنا پسند کرتے ہیں جہاں خوراک اور رہائش ایک ساتھ میسر ہوں جب درجہ حرارت بڑھنے لگتا ہے تو وہ اپنا مقام تبدیل کرکے کسی ٹھنڈے مقام کا رخ کرلیتے ہیں۔لیکن بہت سے جانور ایسے ہیں جو صرف چند مخصوص جگہوں پر پائے جاتے ہیں اور اپنی جگہ کبھی نہیں چھوڑتے اور اگر اس جگہ کی آب و ہوا اچانک تبدیل ہونے لگے اور انہیں اپنی خوراک نہ مل رہی ہو تو پھر اس جانور کی نسل آہستہ آہستہ یکسر معدوم ہونے لگتی ہے۔ مثلاً، کچھ رینگنے والے جانور ایسے بھی ہیں جن کے انڈوں سے نکلنے والے بچوں کی جنس کا تعین ان انڈوں پر پڑنے والی گرمی سے طے ہوتی ہے۔جبکہ آسٹریلیا میں پائی جانے والی چھپکلی کی ایک قسم ”سینٹرل بیئرڈڈ ڈریگن“ درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے نر سے مادہ میں تبدیل ہو رہے ہیں کیونکہ انڈوں پر درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ان کی جنس تبدیل ہو رہی ہے۔ ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس نسل کے نر ڈریگن بتدریج کم ہو تے جائیں گے کیونکہ درجہ حرارت کتنی اقسام کے جانوروں کے ناپید ہونے کا سبب بنے گا، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

علاوہ ازیں ماہرین نے سراغ لگایا ہے کہ سمندروں کے پانی میں ماحول دشمن کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کی آمیزش بڑھنے سے مچھلیوں کے سونگھنے کی صلاحیت بھی ختم ہو رہی ہے۔انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این) کی خطرے سے دوچار جانوروں کی فہرست کے مطابق آئندہ چند برسوں میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے تقریباً 41ہزار سے زائد نایاب پرندوں اور جانوروں کے معدوم ہونے کا خطرہ ہے۔جبکہ ماحولیاتی تبدیلی کا ایک اور عجیب و غریب سائیڈ افیکٹ یہ بھی ہورہا ہے کہ ہماری زمین کی چمک دمک بھی ماند پڑ تی جارہی ہے۔ امریکی ریاست نیو جرسی میں بگ بیئر سولر آبزرویٹری کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ زمین پر سورج کی روشنی پڑنے کے بعد اس کا بیشتر حصہ خلاء میں واپس منعکس ہو جاتا ہے جس کا ایک حصہ چاند کے تاریک حصے پر بھی پڑتا ہے۔ ماضی میں اس منعکس ہونے والی روشنی کی وجہ سے زمین سے چاند کا تاریک حصہ بھی دیکھا جا سکتا تھا۔ زمین سے منعکس ہو کر چاند پر پڑنے والی اس شمسی روشنی کو ”ارتھ شائن“ یا Albedo کہا جاتا ہے۔ سائنس دانوں نے انکشاف کیا ہے کہ سمندروں کے گرم ہوتے پانیوں کی وجہ سے مشرقی بحر الکاہل (Pacific Ocean) پر بننے والی بادلوں کی تعداد، مقدار اور حجم بہت کم ہو چکا ہے۔ چونکہ یہ بادل ایک آئینے کی طرح کام کرتے ہیں اور سورج کی زمین پر پڑنے والی روشنی کو واپس خلاء میں منعکس کرتے ہیں، لہٰذا دن بہ دن ارتھ شائن یعنی زمین کی چمک دمک میں بھی کمی آ رہی ہے۔

دوسری جانب موسمیاتی تبدیلیوں سے خوراک کا عالمی بحران پیدا ہونے کے سنگین خطرات بھی منڈلانے لگے ہیں اور موسمی حالات براعظم افریقہ کے خوراک کے بحران کو ہرگزرتے دن کے ساتھ سنگین سے سنگین تر بناتے جا رہے ہیں۔رواں برس موسمیاتی تبدیلی کے باعث افریقہ کے بارانی علاقوں میں بارشوں میں 30 فیصد اضافہ جبکہ خشک علاقوں میں 20 فیصد کمی ہوئی ہے۔یاد رہے کہ افریقہ کے 95 فیصد کسانوں کا انحصار بارشوں پر ہے جبکہ اُن کے ہاں آبپاشی کا کوئی انتظام نہیں۔1999 سے پہلے افریقہ میں ہر پانچ یا چھ سال بعد کم بارشوں والا موسم آیا کرتا تھا۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پورے افریقہ میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے زرعی پیداوار میں 34 فیصد کمی آئی ہے۔ یہ شرح دنیا کے تمام خطوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ وسطی افریقہ کا خطہ بہت زیادہ متاثر ہوا ہے اور بعض افریقی ممالک ایتھوپیا، کینیا اور صومالیہ میں بارشوں کی کمی کم از کم گزشتہ 70 برسوں میں رونما ہونے والی بدترین کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔المیہ ملاحظہ ہو کہ اِن ممالک میں برسات کے مسلسل چار موسموں میں بارش نہیں ہوئی اور اگلے موسم میں بھی بارش ہونے کی امید نہیں ہے۔1981 کے بعد براعظم افریقہ میں بدترین خشک سالی اور قحط کے آثار دیکھنے میں آرہے ہیں۔

جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی شدید موسمی حالات کی وجہ سے اجناس اور فصلوں کو بھی نقصان ہو رہا ہے۔ صرف گندم، مکئی اور کافی جیسی فصلیں ہی بلکہ کھانے پینے کی دیگر چیزوں کی پیداوار بھی متاثر ہو رہی ہے۔ مثلاً، امریکی ریاست کیلیفورنیا میں قائم ہوائی فونگ فوڈز ہر سال سرخ مرچ سے بنی سریراچا ساس کی 2 کروڑ بوتلیں بناتی ہے۔ تاہم، رواں سال کمپنی نے اپنے صارفین کو خط لکھ کر خبردار کیا کہ امسال سرخ مرچوں کی کم پیداوار کی وجہ سے ساس کی پروڈکشن کم رہے گی۔ موسم سرما میں فرانس کے اسٹورز سے مسٹرڈ ساس کی بوتلیں غائب ہوگئیں، پتہ چلا کہ اس سال کینیڈا میں سرسوں کی پیداوار کم رہی جس کے باعث ساس کی پروڈکشن کم رہی۔ اگست میں فرانسیسی جوہری پاور پلانٹ کو بجلی کی پیداوار اس لئے بند کرنا پڑی کہ جوہری ری ایکٹر کو ٹھنڈا کرنے کیلئے فرانسیسی دریاؤں میں پانی ٹھنڈا نہیں تھا۔علاوہ ازیں ہمارے ملک میں رواں برس آنے والے ہول ناک سیلاب کو بھی موسمیاتی تبدیلی کا شاخسانہ قرار دیا جا رہا ہے اور یہ بات ایک حالیہ سائنسی تحقیق نے اپنے تجزیے میں ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔

واضح رہے کہ ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن ایک ایسا موسمیاتی تبدیلی کے جائزے کا ادارہ ہے جو بدترین موسمی حالات پر سائنسی تحقیق کرتا ہے۔ اس کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں معمول سے 50 سے 75 فیصد زیادہ بارش موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہوئی ہیں، جس کے بعد سیلابی صورت حال سے 1400 سے زائد اموات ہوئیں اور تین کروڑ سے زیادہ آبادی متاثر ہوکر رہ گئی۔یہ پہلی بار ہے کہ کسی سائنسی مطالعے میں بارشوں اور سیلابوں کی شدت سے موسمیاتی تبدیلی کے پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا ہو۔اس تحقیق میں 10 ممالک سے 26 ریسرچرز نے حصہ لیا، جنہوں نے سائنسی ماڈل اور تاریخی ڈیٹا کی مدد سے یہ جانچنے کی کوشش کی کہ ایسا شدید سیلاب تب بھی آتا اگر 1800 کے آخر سے دنیا کے درجہ حرارت میں 1.2 سینٹی گریڈ اضافہ نہ ہوا ہوتا۔اس سٹڈی میں دو ڈیٹا سیٹ استعمال ہوئے جس میں پاکستان کے سب سے بڑے دریا، دریائے سندھ میں جون اور ستمبر کے مہینوں میں 60 دنوں تک تیز بارشوں کا تجزیہ کیا گیا۔

دوسرے سیٹ میں پانچ دن کے دوران بارشوں کی شدت کا اندازہ سندھ اور بلوچستان میں لگایا گیا جو بدترین سیلابی صورت حال کا شکار ہوئے۔سندھ اور بلوچستان میں بارشوں کی شدت میں اضافہ 75 فیصد تک پایا گیا جبکہ 60 دنوں تک ریکارڈ کی گئیں بارشوں کی شدت میں 50 فیصد تک اضافہ دیکھا گیا۔ مطالعے میں یہ بھی سامنے آیا کہ پاکستان بھر میں اس سال اگست میں تین گنا زیادہ بارشیں دیکھنے میں آئیں جبکہ سندھ اور بلوچستان میں بالترتیب سات اور آٹھ گنا زیادہ ماہانہ بارشیں دیکھنے کو ملیں۔دراصل اس وقت دنیا کو موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والی بہت سی مشکلات اور چیلنجز درپیش ہیں اوراس مسئلے کے فوری حل کے لیے دنیا کے تمام ممالک کو متحد ہو کر لفاظی کے بجائے عملی اقدامات کرنے ہوں گے، صرف اسی صورت میں ہی ہماری زمین،موسمیاتی تبدیلی کا تر نوالہ بننے سے بچ سکے گی۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 12 دسمبر 2022 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں