China Sees at Least One Winner Emerging From Ukraine War

روس اور یوکرین جنگ میں چین کا کردار؟

یوکرین پرروسی افواج کے حملے کے فوری بعد امریکا اور مغربی ممالک نے روس پر سخت معاشی پابندیوں کا اطلاق تو ضرور کردیا تھا لیکن اِن اقتصادی پابندیوں کے ابھی تک وہ نتائج برآمد نہیں ہوسکے، جن کی توقع امریکا اور مغربی ممالک کو تھی۔شاید اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکا اور مغربی ممالک نے روس پر عجلت میں غیر معمولی معاشی پابندیوں کا اطلاق کرتے ہوئے ایک بار بھی یہ نہیں سوچا تھاکہ اگر یہ فارمولا ماسکو کو دباؤ میں نہیں لا سکا تو پھر روس کو جنگ بندی پر آمادہ کرنے کے لیئے دوسرا راستہ کونسا اختیار کیا جائے گا؟۔المیہ ملاحظہ ہو کہ یوکرین میں جنگ کا آغاز ہوئے ایک ماہ ہونے کو آرہا ہے لیکن امریکا اور اُس کے اتحادی ابھی تک ماسکو پر چند اقتصادی پابندیاں لگانے کے سوا کچھ بھی تو نہیں کرسکے ہیں۔بعض معاشی تجزیہ کاروں کا تو یہ بھی خیال ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی معاشی ٹیم ماسکو پر عائد ہونے والی عالمی معاشی پابندیوں سے نبٹنے کے لیئے بہت پہلے ہی ایک جامع منصوبہ بناچکی تھی اور اَب وہ اور اُن کی معاشی ٹیم اپنی ترتیب دی گئی حکمت عملی کے عین مطابق انتہائی کامیابی کے ساتھ امریکا اور مغربی ممالک کی جانب سے عائد ہونے والی معاشی پابندیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کررہی ہے۔

دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ماسکو پر عائد کی جانے والی اقتصادی پابندیاں،اتنی سخت نہیں ہیں، جتنا کہ مغربی ذرائع ابلاغ میں تاثر دیا جارہا ہے۔مثلاً یورپی ممالک بظاہر تمام روسی بینکوں سے ساتھ کاروباری لین مکمل طور پر ختم کرنے کا اعلان کرچکے ہیں لیکن اس کے باوجود یورپی ممالک،دو عدد روسی بینکوں کے ساتھ بدستور گیس اور تیل کی ادائیگیوں کا نظام برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ جبکہ یورپ کے کئی ممالک جن میں جرمنی سرفہرست ہے نے واضح طور پر اعلان کردیا ہے کہ وہ ماسکو کے ساتھ گیس اور تیل کی خریداری کے کسی بھی پرانے معاہدے کو منسوخ کرنے کا قطعی کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ یعنی روس تیل اور گیس کی تجارت جس طرح یوکرین جنگ شروع ہونے سے پہلے جاری رکھے ہوئے تھا، اُس میں ذرہ برابر بھی تعطل نہیں آیا بلکہ جنگ کے بعد تیل اور گیس کی قیمتیں بڑھ جانے سے اَب روس اپنے قدرتی ذخائر یورپ کو پہلے سے بھی زیادہ مہنگے داموں یورپ کو بیچ رہا ہے۔

دراصل روس، رقبے کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا مُلک ہے اور اس کا لینڈ ماس دنیا کا دسواں حصّہ مانا جاتا ہے، جس کے گیارہ ٹائم زونز ہیں۔ یہ مشرقی یورپ سے مغربی ایشیا تک پھیلا ہوا ہے، یوں یہ ایک بین البراعظمی مُلک ہے۔وسیع و عریض رقبہ کے مقابلے میں روس کی آبادی بہت کم یعنی صرف ساڑھے 14 کروڑ ہے۔نیزاپنی غذائی ضروریات اور قدرتی ذخائر کے لحاظ سے ایک مکمل طور پر خود کفیل ملک ہے اور اسے اپنی عوام کے لیئے غذائی اجناس خریدنے کے لیئے ایک دھیلہ بھی خرچ نہیں کرنا پڑتا۔ اُلٹا اکیلا روس، پورے یورپ کو تیل،گیس گندم اور دیگر دھاتیں مہیا کرتاہے۔ اس تناظر میں امریکا اور مغربی ممالک کی جانب سے ماسکو پر نافذ کی جانے والی معاشی پابندیاں مستقبل قریب میں یورپی ممالک کے لیئے ایک بڑے معاشی بحران کا سبب بن سکتی ہیں۔ چونکہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اپنی معاشی طاقت اور یورپ کی معاشی کمزوریوں سے پوری طرح باخبر ہے۔ اس لیئے وہ اطمینان کے ساتھ یوکرین میں جنگ جاری رکھے ہوئے اور اُس وقت تک اس جنگ کو جاری رکھے گا جب تک وہ مغرب سے اپنی تمام شرائط تسلیم نہیں کروالیتا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ عالمی اقتصادی پابندیاں عائد ہونے کے بعد روس کو غیر معمولی معاشی و سیاسی مدد چین سے بھی تسلسل کے ساتھ دستیاب ہو رہی ہے۔ ابتداء میں چین کی جانب سے روس کو ملنے والی معاشی امداد کی بابت فقط قیاس آرائیاں ہی کی جارہی تھیں لیکن اَب آہستہ آہستہ پوری دنیا پر واضح ہوتا جارہا ہے کہ روس اور یوکرین جنگ میں ماسکو کے ساتھ کوئی اور ملک کھڑا ہو یا نہ ہو لیکن چین ضرور ہمراہ کھڑا ہے۔ خیال رہے کہ چین نے اب تک روسی حملے کی کسی بھی فورم پر مذمت کرنے سے گریز کیا ہے اور ہمیشہ روس اور یوکرین کے مابین جاری جنگ کے متعلق یہ ہی کہا ہے کہ”عالمی برادری کو ماسکو کے ”جائز سیکیورٹی خدشات“ کو سنجیدگی سے لیناچاہیے“۔نیز چین کے سرکاری میڈیا میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ”روس کا یوکرین پر حملہ صرف ایک’’اسپیشل ملٹری آپریشن“ ہے نہ کہ قبضہ،اور اس آپریشن کا مقصد ماسکو پر منڈلانے والے غیرمعمولی اور مہلک سیکورٹی خدشات کا خاتمہ کرنا ہے“۔

شاید یہ ہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں امریکا کی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے چین کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”اگربیجنگ نے یوکرین پر حملے میں ماسکو کی مدد کی تو اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا ہوگا اور ایسے ملک کسی بھی میدان میں آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ کیونکہ امریکا دنیا کے کسی بھی ملک کو ایسی اجازت نہیں دینا چاہتا کہ وہ روس پر معاشی پابندیوں کے خلاف ماسکو کی ”لائف لائن“ بنیں“۔تاہم واشنگٹن میں چین کے سفارت خانہ کے ترجمان لی پینگو نے امریکی میڈیا کومذکورہ بیان اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ”وہ روس کی جانب سے کی گئی ایسی درخواست سے بے خبر ہیں اور اس وقت چین کی اعلیٰ ترجیح یہ ہے کہ کشیدہ صورتحال کو بڑھنے یا قابو سے باہر ہونے سے روکا جائے“۔ دوسری جانب متعدد ممالک نے چین پر زور دیا ہے کہ وہ روس کو یوکرین میں جنگ بندی کروانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔ ایسا لگتا ہے کہ چین پر دباؤ ڈالنے کی یہ ایک امریکی حکمت عملی ہے کہ یا توبیجنگ، ماسکو کی مدد کرنے والی بات کی تصدیق کرے یا اس سے انکار کردے۔

اَب آنے والے ایام میں دیکھنا یہ ہوگا کہ چین امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کے سیاسی و معاشی دباؤ کا کس طرح سے مقابلہ کرتا ہے۔کیونکہ روس کا ساتھ دینے والے ممالک کو معاشی پابندیوں کے شکنجے میں کسنے کی دھمکی دینا، صاف اشارہ ہے کہ امریکا روس اور یوکرین جنگ سے فائدہ اُٹھا کر چین پر بھی معاشی پابندیاں عائد کرنے کا پختہ ارادہ کرچکا ہے۔ ہماری دانست میں اگر امریکا واقعی ماسکو کے بعد بیجنگ پربھی سخت معاشی پابندیوں کا اطلاق کرتا ہے تو یہ ایک بہت بڑی سفارتی غلطی ہوگی،جس کا خمیازہ امریکا کو آئندہ کئی دہائیوں تک بھگتنا پڑ سکتاہے۔ ویسے بھی جو معاشی پابندیاں ماسکو کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکیں،وہ بھلا بیجنگ کی معیشت کا کیا بگاڑ سکتی ہیں۔ بہرکیف اگر اس جنگ میں یورپی یونین اور امریکا یوکرین کی مدد کرتے ہیں اور چین روس کی دامے، ورمے، سخنے مدد کے لیئے اعلانیہ نکل پڑتاہے تو پھر دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی لپیٹ میں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 17 مارچ 2022 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں