غالباً2018 کی انتخابی مہم کے دوران لاڑکانہ میں ایک جلسہ ئ عام سے خطا ب کرتے ہوئے محترمہ فریال تالپر نے فرمایا تھا کہ ”لاڑکانہ کے لوگوں اچھی طرح کان کھول کر سُن لو کہ تم نے ووٹ صرف تیر کو ہی دینا ہے“۔لاڑکانہ کے تمام لوگ محترمہ فریال تالپر کی اِس ”انتخابی دھمکی“ سے سہم کر رہ گئے اور انہوں نے ادی فریال کے حکم کے عین مطابق 2018 کے قومی انتخابی معرکہ میں ووٹ صرف تیر کو ہی دیئے۔ یوں لاڑکانہ بھر میں پیپلزپارٹی ماضی کی”انتخابی روایات“ کے عین مطابق2018کے قومی انتخابات میں باآسانی کلین سوئپ کرنے میں کامیاب ہوگئی۔حالانکہ اُس وقت سندھ میں حکومت بھی پاکستان پیپلزپارٹی کے بجائے ”عارضی نگرانوں“کے پاس تھی۔مگر گزشتہ ہفتے اسی پاکستان پیپلزپارٹی کے اُمیدوار جمیل سومرو ضمنی الیکشن میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس المعروف جی ڈے اے کے اُمیدوار معظم علی عباسی کے ہاتھوں تاریخی شکست سے دوچار ہوگئے۔جبکہ اِس وقت سندھ میں حکومت بھی پاکستان پیپلزپارٹی کی ہی ہے بس اگر کچھ کمی رہ گئی تھی تو وہ محترمہ فریال تالپر صاحبہ کے خطاب کی تھی جسے سننے کا شرف لاڑکانہ کی عوام کو نہ حاصل ہو سکا۔ منی لانڈرنگ کیس میں نیب کی حراست میں ہونے کی وجہ سے اِس بار محترمہ فریال تالپر صاحبہ لاڑکانہ کے لوگوں کے کان اچھی طرح سے نہ کھول سکیں،جس کا لاڑکانہ کی عوام نے یہ ناجائز فائدہ اُٹھایا کہ اُنہوں نے ضمنی الیکشن والے دن اپنے کانوں کے ساتھ ساتھ اپنی آنکھیں بھی بند کرلیں اور تیر پر مہر لگانے کے بجائے جی ڈی اے کے پھول کی فقط خوشبو سونگھ کر ہی اُس پر ایسی مہر لگائی کہ پاکستان پیپلزپارٹی کو اپنے ہوم گراؤنڈ پر بھی عبرتناک شکست کا اُترا ہوا منہ دیکھنا پڑگیا۔
اگر پاکستان پیپلزپارٹی لاڑکانہ کا یہ ضمنی الیکشن جیت جاتی تو یہ ایک عام سی انتخابی فتح ہوتی جسے نہ تو خود پاکستان پیپلزپارٹی نے کوئی اہمیت دینا تھی اور نہ ہی پاکستان کے میڈیا میں اِس جیت کے چرچے ہونے تھے۔زیادہ سے زیادہ الیکشن نتائج کے بعد پندرہ بیس منٹ تک پی پی پی اُمیدوار کی کامیابی کے نیوز چینلز پر چھوٹے سے ٹِکر چلنے تھے یا اخبارات میں اندرونی صفحات میں اِس متعلق دو یاتین کالمی خبر نے شائع ہوجانا تھا لیکن پیپلزپارٹی کی”اَپ سیٹ ہار“نے جی ڈے اے کی انتخابی فتح کو ”تاریخ ساز“ کی فقیدالمثال شہہ سرخی عنایت کردی ہے اور پاکستان کا سارا میڈیا اِس خبر کی سرخی سے رنگین نظر آرہاہے۔جی ڈے اے اپنی اِس فتح کو پیپلزپارٹی سے سندھ چھیننے کی سمت اپنا پہلا قدم قرار دے رہی ہے جبکہ معظم علی عباسی جنہیں کل تک جی ڈے اے کے مرکزی رہنماؤں سے ملنے کے لیئے وقت لینا پڑتا تھا آج اُسی معظم علی عباسی کو وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان سے دوبدو ملاقات کے لیئے ہنگامی طور پر گورنر ہاؤس سندھ بلاکر زبردست انداز میں شاباش دی گئی ہے۔ پیپلزپارٹی نے اِس شکست پر یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ”سندھ حکومت نے چونکہ ضمنی الیکشن میں کسی بھی کسی قسم کی سرکاری مداخلت نہیں کی ہے اِس لیئے اُسے ہار کا سامنا کرنا پڑا ہے“۔یعنی ثابت ہوا کہ اَب لاڑکانہ کے لوگ ووٹ کی پرچی پر ٹھپہ لگانے سے پہلے فقط تیر کے نشان کوہی نہیں دیکھتے بلکہ اُن کی نظریں تیر چلانے والے کے کرتوتوں کو بھی اچھی طرح سے دیکھتی ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 17 اکتوبر کو لاڑکانہ میں ضمنی الیکشن میں شکست کے دوسرے دن ہی18 اکتوبر کو پاکستان پیپلزپارٹی نے کراچی میں ایک بہت ہی عظیم الشان جلسہ کیا۔جلسہ اتنا بڑا تھا کہ لگ ہی نہیں رہا تھا کہ اتنی زیادہ عوام کو پنڈال میں جمع کرنے والی سیاسی جماعت پچھلی شام ہی اپنے سیاسی قلعہ لاڑکانہ میں تاریخی شکست سے دورچارہوچکی ہے۔ اپنے ہوم گراؤنڈ پر پیپلزپارٹی کی شکست کا سادہ سا مطلب یہ ہی لیا جاسکتا ہے کہ اَب پاکستانی سیاست میں بڑے جلسے کرنا،انتخابی سیاست میں کامیابی کی قطعی ضمانت نہیں رہا۔شاید جلسوں میں شریک ہونے والے کارکنوں نے اپنی اپنی سیاسی جماعت کی قیادت کو دل کھول کر بے وقوف بنانا شروع کردیاہے۔یعنی ہوشیار کارکنان جلسے،جلوسوں میں نعرے اپنے قائدین کے لگاتے ہیں،مزے مزے کے کھانے اپنی جماعت کے پلے سے کھاتے ہیں اور جب ووٹ دینے کا وقت آتا ہے تو دوسری جماعت کی جھولی میں ڈال کر اُسے کامیاب بنا دیتے ہیں۔سیاسی جماعتوں کے کارکنانِ کے اِس نئے اندازِ سیاست نے سیاسی جماعتوں کے قائدین کا بہت کچھ داؤ پر لگادیا ہے۔جس کا اگر بروقت تدارک نہیں کیا گیا تو آنے والے دنوں میں یہ صورت حال روایتی سیاست کرنے والے سیاست دانوں کے لیئے انتہائی مہلک ثابت ہوسکتی ہیں۔
کوئی مانے یا نہ مانے لیکن پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین جناب بلاول بھٹو زرداری کے لیئے یہ انتہائی مشکل سیاسی حالات ہیں۔ بطور ایک نوجوان قائد کے اُن پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی کہ وہ فوری طور پر کوئی ایسی سیاسی حکمت عملی ضرور وضع کریں۔جس سے پاکستان پیپلزپارٹی کو سندھ بھر میں نچلی سطح پر ہونے والے سیاسی نقصانات کا ازالہ ہوسکے۔اَب وقت آپہنچا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کواپنے جماعت کے انتخابی ٹکٹس جاری کرنے کے فیصلے خاندانی اثرو رسوخ کو ایک طرف رکھتے ہوئے مکمل طور پر میرٹ کے مطابق کرنا ہوں گے۔جبکہ بلاول بھٹو زرداری کو اِن لوگوں کو بھی جلدازجلد اپنی سیاسی جماعت سے دُور کرنا ہو گا جو عوام میں رہنے کے بجائے ہر وقت اِن کے اردگرد نورتن بن کر گھومتے رہتے ہیں اور اپنے اِسی طرزِ عمل کو سیاست کی معراج سمجھتے ہیں۔ فی الحال پیپلزپارٹی کو سندھ میں ایسے سیاسی چہروں کو آگے کرنے کی ضرورت ہے جو عوام میں رہنے اور اُن کا دل جیتنے کا ہنر خوب جانتے ہوں۔اگر ایسے لوگوں کو منتخب کرکے آگے نہیں کیا گیا تو سندھ بھر میں پاکستان پیپلزپارٹی کی غیر متوقع انتخابی شکستوں کا شروع ہونے والے یہ سلسلہ رکنے کے بجائے مزید دراز بھی ہوسکتاہے۔
حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 24 اکتوبر 2019 کی اشاعت میں شائع ہوا۔
- آزادی اظہار رائے کی آڑ میں -جون30, 2023
- عید قرباں کی حقیقی روح -جون27, 2023
- بلدیہ عظمی کراچی کا قلعہ پیپلزپارٹی نے کیسے فتح کیا؟ -جون19, 2023