flood

سیلاب زدگان کے نام پر اپنا جہنم بھرنے والے

پاکستان میں حالیہ تباہ کن بارشوں اور اس کے نتیجہ میں آنے والے سیلاب نے کم ازکم 3کروڑ افراد کو شدید متاثر کیا ہے۔ ملک بھر میں سیلاب اور بارش سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 1300 تک پہنچ چکی ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد ساڑھے بارہ ہزار سے زیادہ ہے۔نیز سیلاب اور بارش سے متاثر ہونے والے علاقوں میں 10 لاکھ سے زیادہ مکانات مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں یا انہیں جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے۔ جبکہ ملک کا 70 فیصد انفراسٹرکچر، جیسا کہ پل، سڑکیں، ریلوے کی پٹریاں، شاہراہیں، کمرشل جائیدادکی تباہی کی وجہ سے اشیا کی نقل وحمل میں غیر معمولی خلل واقع ہوا ہے۔حالیہ سیلاب میں ملک کی زبوں حال معیشت کو ہونے والے نقصان کا فی الحال تخمینہ دس ارب ڈالر لگا یا جارہا ہے۔اگر آنے والے ایاّم میں خدانخواستہ بارش یا سیلاب کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے تو نقصان کا یہ تخمینہ کئی گنا بڑھ بھی سکتاہے۔

غیر معمولی آفت کی اس گھڑی میں سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ سول انتظامیہ تینوں مسلح افواج اور دوسرے امدادی اداروں کی دن رات کوششوں کے باوجود سیلاب سے متاثرہ ہزاروں علاقے ایسے ہیں جہاں سڑکیں اور ریلوے لائنیں پانی میں ڈوبنے کی وجہ سے امدادی سامان زمینی راستوں سے نہیں پہنچ پارہا۔بظاہر حکومتِ پاکستان کی جانب سے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے سے اشیائے خوردونوش،سیلاب میں پھنسے افراد تک پہنچانے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ یہ مشکل اور خطرناک عمل بھی زیادہ موثر ثابت نہیں ہوپارہا اور نامساعد موسمی و معروضی حالات کے باعث فضائی ذرائع سے سیلاب متاثرین تک پہنچائی جانے والے اشیائے خوردنوش کا سامان زیادہ تر ضائع ہورہا ہے اور سیلاب میں پھنسے کسی متاثرہ فرد کے ہاتھ تو بہت کچھ لگ جاتا ہے اور کسی کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آپاتا۔

دوسری جانب،ویسے تو سیلاب زدہ علاقوں میں بوڑھے،نوجوان اور بچے سب ہی شدید طرح سے متاثر ہوئے ہیں لیکن حالیہ سیلاب میں باپردہ گھریلو خواتین کی حالت توبہت زیادہ دگرگوں اور انتہائی سنگین ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق سیلاب زدہ علاقوں میں ایک لاکھ 28ہزار تو صرف حاملہ خواتین ہیں،جو زچگی اور ابتدائی طبی امداد کے لیئے لیڈی ڈاکٹرز کی منتظر ہیں،جبکہ 42ہزار خواتین کے ہاں اگلے 3ماہ میں پیدائش متوقع ہے۔شاید ہم اگر چاہیں بھی،تب بھی اندازہ نہیں کرسکتے کہ ایک باپردہ گھریلو خاتون کے لیئے کھلے آسمان تلے اور سیلابی پانی کے عین بیچ میں اپنی عفت و حیا کی حفاظت کرپانا، کس قدر دشوار ہورہا ہوگا۔ اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کے مطابق سیلاب میں گھری اکثر خواتین شدید بیمار ہیں اور انہیں علاج معالجہ کے لیئے ادویات تک بھی میسر نہیں ہیں۔

بظاہر سوشل میڈیا اکاؤنٹس سیلاب زدگان کی امداد کرنے والے نام نہاد،فلاحی اداروں اور مخیر حضرات کی وائرل پوسٹوں، تصاویر اور ویڈیو ز سے لبالب بھرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ جو امدادی سرگرمیاں عارضی شہرت کے بھوکے مخیر حضرات اور نام نہاد فلاحی تنظیموں کے نام سے سوشل میڈیا پر نظر آرہی ہیں،اُس کا ایک فیصد بھی سیلاب زدگان تک نہیں پہنچ پارہا ہے۔ دراصل چند ہ جمع کرنے کی بُری لت میں مبتلاء نام نہاد تنظیمیں اور اُن سے وابستہ افراد نے حالیہ سیلاب کو اپنے بنک اکاؤنٹس کا ”جہنم“ بھرنے کا ایک آسان سا، ذریعہ سمجھ لیاہے۔ حد تو یہ ہے کہ بعض نام نہاد فلاحی ادارے تو سیلاب زدگان کے نام پر ملنے والی امدادی رقم سے لاکھوں،کروڑوں کی ذاتی اشتہاری مہم بھی چلارہے ہیں تاکہ پریشان حال سیلاب زدگان کے نام پر امداد مانگنے کی آڑ میں زیادہ سے زیادہ مال سمیٹنے کے ساتھ ساتھ اپنی شخصی تشہیر بھی خوب اچھی طرح سے کرلیں۔

المیہ ملاحظہ ہو کہ گزشتہ ایک ہفتہ سے انٹرنیٹ پر ایک بہت بڑی فلاحی تنظیم کا سیلاب زدگان کے لیئے امداد کی اپیل کا اشتہار چل رہا ہے اور مذکورہ اشتہار کے 70 فیصد حصہ میں اُس فلاحی تنظیم کے سربراہ کی لباس فاخرہ میں ہنستی مسکراتی، سر سبز وشاداب تصویر چسپاں ہے۔ اشتہار دیکھ کر فیصلہ ہی نہیں ہو پاتا کہ انسان پہلے سیلاب زدگان کے بھوکے لوگوں کے خوراک کے لیئے فلاحی تنظیم کو چندہ دے یا پھر اشتہار میں دکھائی دینے والے شخص کی شہرت کی بھوک کو مٹانے کے لیئے بھیک دے۔قصہ مختصر یہ ہے کہ سیلاب زدگان کی امداد کے نام پر”ڈونیشن“ کی بہتی گنگا میں بڑی بڑی فلاحی تنظیمیں خوب جی بھر کے ہاتھ دھو رہی ہیں۔

شاید یہ وجہ ہے کہ سندھ ترقی پسند پارٹی کے سربراہ،جناب ڈاکٹر قادر مگسی بھی ایک فلاحی تنظیم کا نام لے کر دہائی دینے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ”جتنی تشہیر سیلاب زدگان کے نام پر سامان جمع کرنے کے لیئے کی جارہی ہے،اتنا ڈیلوری کا کام کہیں نظر نہیں آرہا۔سوشل میڈیا پر دکھایا جارہا ہے کہ آج سامان سے بھرے ہوئے 100 ٹرک نکلے،کل 200 اور پرسوں 500 نکلے تھے۔ لیکن یہ سامان کہاں اور کس کے پاس پہنچ رہا ہے کوئی بندہ بشر نہیں جانتا، کم ازکم ہم نے حیدرآباد میں تو مذکورہ فلاحی تنظیم کا ایک بھی ٹرک یا امدادی کیمپ نہیں دیکھا“۔ سیلاب زدگان کے نام پر امدادی سامان جمع کرنے والی فلاحی تنظیموں کے بارے میں جو سوالات ڈاکٹر قادر مگسی نے اُٹھائے ہیں،حکومت سندھ کو چاہیئے،اُن کی شفاف تحقیقات کروائے اور سیلاب زدگان کے لیئے امدادی سامان جمع کرنے والوں کی کڑی ”انتظامی نگرانی“ کو یقینی بنائے۔

دوسری جانب پاکستانی عوام کو بھی سیلاب زدگان کے نام پر امداد مانگنے والوں کی اچھی طرح سے چھان پھٹک کرلینا چاہیئے۔ تاکہ اُن کی عطیہ کی گئی حلال کی رقم صرف اور صرف مستحقین تک ہی پہنچے ناکہ غیر مستحق کے بنک اکاؤنٹ کا دوزخ بھرنے کا فریضہ انجام دے۔ ہماری دانست میں زیادہ مناسب یہ ہوگا کہ سیلاب زدگان تک اپنی امداد پہنچانے کے خواہش مند افراد اپنی حلال کی کمائی، ترجیحی طور پر،ریاستی اداروں کی جانب سے تشہیر کردہ بنک اکاؤنٹس میں جمع کروائیں یا پھر ایسی معروف فلاحی تنظیمات تک اپنے عطیات پہنچائیں، جو ملک بھر میں انتہائی منظم اور شفافیت کے ساتھ فلاحی اُمور انجام دینے کا وسیع تجربہ اور شاندار ماضی بھی رکھتی ہوں۔ مثال کے طور پر عبدالستار ایدھی مرحوم کی ”ایدھی فاؤنڈیشن“،ڈاکٹر امجد ثاقب کی ”اُخوت“،شیخ عبدالستار حفظ اللہ کی ”بی ڈبلیو ٹی“، اور جماعت اسلامی کی ”الخدمت فاؤنڈیشن“ایسی نامور اور اچھی شہرت کی حامل فلاحی انجمنیں ہیں۔ جنہیں آنکھ بند کرکے کامل اعتماد کے ساتھ سیلاب زدگان تک پہنچانے کے لیئے ہر طرح کی امداد عطیہ کی جاسکتی ہے۔
گواہی ایک ہو، خالی خدا کی
کسی کاسہ میں جب امداد رکھنا

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 12 ستمبر 2022 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں