Mariam-Nawaz-And-Bilawal-Bhutto

بلاول بھٹو اور مریم نواز کا سیاسی تصفیہ

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری اور مسلم لیگ (ن) کی نائب صدرمریم نواز کے درمیان جاتی امرا میں ہونے والی ملاقات پر عدیم ہاشمی سے انتہائی معذرت کے ساتھ اُن کے دو اشعار میں اپنی جانب سے تھوڑا سا”تجاہلانہ تصرف“ کرتے ہوئے پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔

رابطے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھاجس کے،وہ کبھی اُس کا نہ تھا
آج مصلحت نے آشنا، دونوں کو بنا دیا عدیم
ورنہ کبھی اِک دوسرے کو انہوں نے پہچانا نہ تھا

اُمید ہے کہ عدیم ہاشمی اپنے اچھے بھلے اشعار کا اِس قدر حال سے بے حال ہوجانے پر بالکل بھی بُرا نہیں منائیں گے۔ ویسے ہی جیسا کہ گزشتہ 70 برسوں سے پاکستان کی غریب و مقہور عوام مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کے بزرگوں کے”کرپشن زدہ ہاتھوں“ بار بار وطن عزیز پاکستان کے وسائل کا حلیہ خراب کرنے پر ذرا برابر بھی بُرا نہیں مناتے۔جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ملک کی دونوں بڑی جماعتوں کے لاکھوں کارکنان کے نزدیک آج بھی غریبوں کی اصل ترجمانی اور حقیقی نمائندگی کرنے کے تمام ترجملہ حقوق میاں محمد نواز شریف اور آصف علی زرداری کے بعد اُن کے لاڈلے بچوں بالترتیب مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کو مشترکہ طور پر تاحیات تفویض شدہ ہیں۔کسی کی کیا مجال ہے کہ جو پاکستان کے اِن امیر ترین بچوں سے غریبوں پر حقِ حکمرانی کرنے کے اختیار پر نقطہ اعتراض اُٹھا سکے۔مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کے بیچ اگر تھوڑا بہت اختلاف ہے تو وہ بس اتنا سا ہے کہ غریبوں پر حکمرانی کا زیادہ حق کس کا ہے۔ شاید اِسی تنازعہ کے”سیاسی تصفیہ“کے لیئے کہ مستقبل قریب میں پاکستان کی غریب اور لاچار عوام پر حکومت کرنے کا”جمہوری فارمولا“کیا ہوگا،مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری ایک دوسرے سے بار بار ملاقات کررہے ہیں۔



مظلوموں کی نجات دہندہ مریم نواز، اپنے مہمان بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ ظہرانہ نوشِ جاں فرماتے ہوئے شاید یہ بھول گئی تھیں کہ آج سے ٹھیک پانچ سال قبل17 جون2014 کو اُن کے قابلِ احترام چچا جان میاں محمد شہباز کے دورِ وزارتِ اعلیٰ میں ہی ماڈل ٹاؤن لاہورمیں تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ اور ڈاکٹرطاہرالقادری کی رہائش گاہ کے سامنے سے سیکیورٹی بیئررزہٹائے جانے کے لئے آپریشن کے دوران پولیس کی فائرنگ سے 2 خواتین سمیت 14 افراد جاں بحق جبکہ درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔ اس واقعے کے چند روز بعد مقامی پولیس کی مدعیت میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر درج ہوئی جس کا نمبر 510 تھا۔14 افراد کی ہلاکت اور زخمیوں کو انصاف کے حصول کے لئے عوامی تحریک نے لاہور سے اسلام آباد تک مارچ کیا، اسلام آبادمیں طویل دھرنا دیا گیا۔ جس کے نتیجے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی ہدایت پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایک اورایف آئی آر نمبر696 درج کی گئی جس میں اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نوازشریف، شہبازشریف، خواجہ سعدرفیق، اس وقت کے آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا، اس وقت کے ڈی سی او لاہور کیپٹن(ر) محمدعثمان سمیت کئی حکومتی شخصیات اورافسران کو نامزدکیاگیا تھا۔ مگرکسی بھی نامزدملزم کی گرفتاری تاحال عمل میں نہ آسکی۔اگر بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز کی ملاقات کے اختتام پر جاری کیئے جانے والے مشترکہ اعلامیہ میں ایک ہلکا سا ذکر ماڈل ٹاؤن کے ”مظلوموں“ کا بھی ہوجاتا تو کتنا ہی اچھا ہوجاتا۔کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ماڈل ٹاؤن لاہور کے متاثرین مریم نواز کی”سیاسی لغت“میں مظلوم کے بجائے ظالم کی ذیل میں درج کردیئے گئے۔

مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کی ملاقات کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ کے مطابق آئی ایم ایف بجٹ عوام اور ملک دشمن ہے،جسے کسی بھی صورت منظور نہیں ہونے دیا جائے گا۔میرے خیال یہ وہ واحد تحفہ جو یہ دونوں رہنما اگر چاہیں تو باآسانی حکومت کے ہاتھوں سے چھین کر اپوزیشن کی جھولی میں ڈال سکتے ہیں لیکن اِس کے لیئے ضروری ہے کہ مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری اپنے کہی گئی بات پر نہ صرف قائم رہیں بلکہ اِ س کو ثابت کرنے کے لیئے قومی اسمبلی میں کچھ تحرک بھی پیدا کریں۔ کیونکہ سب جانتے ہیں کہ خالی خولی سیاسی بیانات سے بجٹ کو پاس ہونے سے نہیں روکا جاسکتا۔ جبکہ مریم اور بلاول نے اعلامیہ میں ایک جگہ حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لیئے اپوزیشن جماعتوں سے روابط استوار کرنے کا بھی اعادہ کیا ہے۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ اپوزیشن گزشتہ چھ ماہ سے مسلسل رابطوں پر رابطے ہی تو کررہی ہے اور اپوزیشن کا شاید ہی کوئی ایسا رہنما ہو، جو اِن چھ ماہ میں ایک دوسرے سے مل نہ چکا ہو۔کبھی اپوزیشن مولانا فضل الرحمن کے گھر جمع ہوتی ہے، کبھی زرداری ہاؤس میں ایک دوسرے کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھ جاتی ہے اور کبھی دعوتِ افطار کے دسترخوان پر جمع ہو کر ایک بار پھر سے جمع ہونے کا اعلان کرنے کے بعد تتر بتر ہوجاتی ہے۔اس کے علاوہ اپوزیشن رہنما قومی اسمبلی میں تو آئے روز ہی جمع ہوتے رہتے ہیں۔حیرت ہے کہ اپوزیشن کے درمیان اتنے گہرے سیاسی رابطے ہونے کے باوجود بھی نہ جانے کون سے ایسے سیاسی رابطوں کا خواب دیکھا جار ہے کہ جس کے بعد حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا جاسکے۔

جاتی امراء میں مریم نواز سے دو بدو طویل ملاقات کے بعد بلاول بھٹو زرداری نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ ”اُمید ہے کہ مریم نواز سچائی سے چلیں گی“۔شاید ایسی ہی کوئی بات بلاول بھٹو زرداری کے بارے میں مریم نواز کے دل میں بھی چوری چوری پرورش پارہی ہو۔ بہرحال بلاول بھٹو زرداری کے اِس چھوٹے سے ایک جملہ سے آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ میثاقِ جمہوریت کے دو نئے کسٹوڈین ایک دوسرے سے متعلق کس درجہ کمال کی خوش گمانیوں میں مبتلا ہیں۔شاید بلاول بھٹو زرداری کو اندیشہ ہے کہ مریم نوا ز اُن کا سیاسی کندھا استعمال کرتے ہوئے اپنے والد محترم میاں محمد نواز شریف کے لیے لندن کا ٹکٹ ہی نا حاصل کرلیں جبکہ مریم نواز کو بھی کم یا زیادہ یہ وہم تو ضرور ہی ہوگا کہ کہیں بلاول اُن کے”دستِ سیاسی“ کی بدولت اپنے والد اور پھوپھو کے لیئے ڈھیل اور ڈیل ہی نہ لے لیں۔اب آپ خود سوچ سکتے ہیں جہاں دو ملنے والوں کے بیچ ایک دوسرے سے متعلق اتنے زیادہ ابہام اوراندیشے ہوں، وہاں حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا خواب خاک پورا ہوگا۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور میں 27 جون 2019 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں