سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے میاں محمد نوازشریف کی تاریخ ساز نااہلی کے بعد پی پی پی کی مرکزی قیادت کو بھی آسمانِ سیاست پر سیاہ بادل نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔آسمانِ سیاست کے یہ سیاہ بادل اُس وقت اور بھی مزید گہرے ہوگئے جب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے نوازشریف کی نااہلی کو بطور یومِ تشکر مناتے ہوئے جلسہ عام میں یہ نعرہ بلند کیا کہ”احتساب کی اگلی باری،آصف علی زرداری“اس نعرہ کی گونج سندھ میں انتہائی شدت کے ساتھ دور دور تک محسوس کی گئی اور سندھ کی گلی گلی میں یہ بات زیرِ بحث ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد کیا واقعی سابق صدر آصف علی زرداری کی بچت کی تمام راہیں مسدود ہوگئی ہیں؟۔نوشتہ دیور صاف نظر آنے کے بعد سندھ میں اکثر سیاستدانوں کا خیال ہے کہ اگر شریف خاندان سے شروع ہونے والا احتساب کا سلسلہ سندھ تک دراز ہوتا ہے تو پھرپیپلز پارٹی کے اکثر رہنماؤں کے سیاسی مستقبل پربھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے سوالیہ نشان لگ سکتا ہے۔شاید اسی لیئے مختلف باخبر ذرائع سے اطلاعات یہ آرہی ہیں کہ پیپلز پارٹی کے بہت سے رہنماؤں نے ابھی سے اپنے سیاسی مستقبل کو کسی نہ کسی حد برقرار رکھنے کے لیئے ہاتھ پاؤں مارنا شروع بھی کردیئے ہیں جس سے سندھ کی سیاست میں اچانک پیپلزپارٹی مخالف سیاسی قوتوں کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔
یہ مضمون بھی پڑھیئے: زرداری اوراسد سکندرکے اختلافات سے پی پی پی کی صفوں میں بھونچال
اس بات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ پیپلزپارٹی کے کئی اہم ترین رہنماؤں نے خفیہ طور پرفنکشنل لیگ رہنما پیر پگارا اور سابق وزیراعلیٰ سندھ غلام ارباب رحیم سے ملاقاتیں بھی شروع کر دی ہیں۔ان خفیہ ملاقاتوں کا نتیجہ کس صورت میں سامنے آئے گا اس کا پتہ توآنے والے چند ہفتوں بعد ہی چلے گا۔ اسکے علاوہ اور بھی سندھ کے بہت سے اہم ترین رہنما جو آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کی مفاہمتی پالیسی کی وجہ سے بہت عرصہ سے سندھ کی سیاست میں عضو معطل بن کر رہ گئے تھے۔ جن میں الہٰی بخش سومرو،حمیدہ کھوڑو،غوث علی شاہ،حکیم بلوچ، غلام مصطفی جتوئی کا خاندان اور ٹھٹھہ کے شیرازی قابلِ ذکر ہیں دوبارہ سے سندھ کی سیاست میں متحرک نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔سندھ کے ان اہم ترین سیاست دانوں کا دوبارہ سے سندھ کی سیاست میں اچانک متحرک ہونا انتہائی معنی خیز ہے۔
پیپلزپارٹی کے لیئے سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ ان تمام سیاسی شخصیات کو دوبارہ سے سندھ کی سیاست میں متحرک کرنے میں پیپلزپارٹی مخالف غیر سیاسی قوتوں کے علاوہ درپردہ پیپلزپارٹی سے وابستہ بہت سے اہم ترین رہنماؤں کا بھی ہاتھ شامل ہے۔اس وقت پیپلز پارٹی کے بہت سے مقامی رہنما اپنے سیاسی مستقبل کو محفوظ بنانے کی آڑ میں درپردہ پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت کے ساتھ ڈبل گیم کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔جس طرح مسلم لیگ(ن) کو اس شرمناک مقام تک پہنچانے میں اُس کی جماعت کے بہت سے لوگوں کا کردار پیش پیش رہاہے۔بالکل اسی طرح اگر سندھ میں پیپلزپارٹی کی سیاسی کشتی کو کرپشن کے بھنور میں ڈوبانے کی کوئی مہم جوئی کامیاب ہوتی ہے تو اس میں بھی پیپلزپارٹی کے بہت سے کرمفرماؤں کا مرکزی کردار ہو گا۔
سندھ میں مختلف سیاسی محاذوں پر کوشش کی جارہی ہے کہ 2018 کے انتخابات سے پہلے پہلے پیپلزپارٹی مخالف تمام قوتوں کے ایک پلیٹ فار م پر اکٹھا کر لیا جائے تاکہ اگلے الیکشن میں پیپلزپارٹی کو تن تنہا سندھ کارڈ کھیلنے سے روکا جاسکے۔مگرسیاسی پنڈتوں کا یہ بھی کہنا ہے صرف سیاست کے بل بوتے پر کم ازکم سندھ میں پیپلزپارٹی کو مکمل طور پر ختم کرنا اور وہ بھی اُس صورت میں جبکہ گزشتہ دس برسوں سے سندھ میں پیپلزپارٹی بلاشرکت غیرے حکمران ہے ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ہاں اگر اس ہدف کو حاصل کرنا توپھر اس کے لیئے یہ انتہائی ضروری ہے پیپلزپارٹی کے چندرہنماؤں کے سروں پر احتساب کی بے رحم تلوار ضرور چلے اگر ایسا ہو گیا تو پھر سندھ کے آنے والے سیاسی منظرنامے سے پیپلزپارٹی کو سیاسی منظر نامہ سے ہٹانا بہت سہل ہوجائے گالیکن اگر احتساب کی ہوا آنے والے الیکشن سے پہلے سندھ تک نہیں پہنچ سکی تو پھر شاید پیپلزپارٹی کے ہاتھوں سے سندھ کارڈ کسی کے لیئے بھی چھیننا آسان نہ ہوسکے گا۔
لیکن ایک بات جو سندھ میں پیپلزپارٹی مخالف قوتوں کے حق میں نہیں جاتی وہ تحریک انصاف کا سندھ کے شہروں میں متحرک نہ ہونا ہے۔جس کا مستقبل میں براہِ راست فائدہ پیپلزپارٹی کو جاسکتا ہے، گو کہ سندھ کے عوام اپنی مقامی سیاسی رہنماؤ ں کارکردگی سے بہت زیادہ مطمئن نہیں ہیں مگر کیا کریں ان کے سامنے پیپلزپارٹی کے متبادل کوئی اور متحرک جماعت بھی تو نہیں ہے۔اور کچھ ایسی ہی صورت حال متحدہ قومی موومنٹ کے حوالے سے بھی درپیش ہے۔الطاف حسین سے اعلان ِ لاتعلقی کے بعد سے لے کر اب تک فاروق ستار اینڈ کمپنی بھی سندھ کی عوام کو کوئی ایسا واضح سیاسی لائحہ عمل نہیں دے سکی جس سے سندھ کی عوام الطاف حسین کی وطن دشمن اور ان کی حالیہ سیاست میں کوئی واضح فرق محسوس کر سکیں۔جبکہ دوسری طرف مصطفی کمال کی پاک سرزمین پارٹی سندھ کے شہری طبقہ کے لیئے ایک پرکشش سیاسی انتخاب کی تمام تر صلاحیتں رکھنے کے باوجود نہ جانے کیوں صرف ٹاک شوز اور پریس کانفرنسوں کی حد تک محدود ہوکر رہ گئی ہے اور بار بار کے اعلانات کے بعدبھی عوامی رابطہ مہم کا آغاز نہیں کر پارہی۔بہرحال ایک بات طے ہے کہ آنے والے دنوں میں پانامہ فیصلہ کے آفڑ شاکش سندھ میں بہت دیر تک محسوس کیئے جاتے رہیں گے۔
حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 10 اگست 2017 کے شمارہ میں شائع ہوا
- آزادی اظہار رائے کی آڑ میں -جون30, 2023
- عید قرباں کی حقیقی روح -جون27, 2023
- بلدیہ عظمی کراچی کا قلعہ پیپلزپارٹی نے کیسے فتح کیا؟ -جون19, 2023