ہمارے ہاں عام طورپر جس طرح بہت زیادہ حبس زدہ کیفیت کو موسلادھار بارش ہونے کی ایک علامت مان لیا جاتا ہے بلکہ ایسے ہی سیاست کے اُفق پر اگر سیاسی گو مگو،بے یقینی اور اضطراب کی گھنگھور کالی گھٹائیں اچانک سے چھاجائیں تو ہماری دانست میں اِس کا سادہ سا مطلب یہ ہی لیا جاسکتاہے کہ بہت جلد آسمانِ سیاست سے یقین و استحکام کا”سیاسی ابرِ رحمت“کھل کر برسنے کو ہے اور سب اہلِ وطن کو یقین رکھنا چاہیئے کہ متوقع سیاسی بارش کے بعد تمام کا تمام سیاسی منظر نامہ دُھل کر یکسر صاف اور اُجلا ہوجائے گا۔ یہ صرف میری ذاتی رائے ہے جو بہت سوچ سمجھ کر اور پاکستانی سیاست کے گہرے تاریخی تجزیے کے بعد قائم کی گئی لیکن اِس رائے کے مقابل بے شمار سیاسی تجزیہ کار وں یہ کہنا کہ”آج کل پاکستانی سیاست جس مدوجذر سے گزر رہی ہے اُس کے باعث پاکستان کا سیاسی منظرنامہ مزید عدم استحکام اور ابتری کا شکار ہوگا“۔ بظاہر میں اِس طرح کی آراء سے شدید علمی اختلاف رکھتا ہوں لیکن اس کے باوجود مجھے یہ تسلیم کرنے میں بھی کوئی عار نہیں ہے کہ پاکستانی عوام کی ایک بڑی اکثریت موٗخر الذکر رائے سے ہی نہ صرف مکمل طور پر اتفاق کرتی ہے بلکہ اُس کے حق میں ہر جگہ خوب مزے لے لے کر گفتگو کرنا بھی اپنا اولین فرضِ منصبی سمجھتی ہے۔ اَب پاکستان کا آنے والا سیاسی منظرنامہ کس”تجزیاتی رائے“کو درست ثابت کرتا ہے، اِس کے لیئے سب کو مکمل صبرو تحمل کے ساتھ تھوڑا سا انتظار تو ضرور ہی کرنا ہوگا۔
جبکہ حقیقتِ احوال تو یہ بھی ہے کہ سیاسی بے یقینی کے اندیشوں کے بڑھاوا دینے میں سب سے زیادہ عمل دخل خود حکومتِ وقت کے ترجمانوں اور مشیروں با تدبیروں کا بھی ہے۔تحریک انصاف کے ڈیڑھ سالہ دورِ حکومت میں خوش قسمتی سے شاید کوئی ایک آدھ ہی مشیر ایسا گزرا ہو گا، جس نے حکومتی معاملات پر بہت زیادہ بولنے سے پہلے تھوڑا بہت سوچنے کی بھی زحمت گوارا کی ہو۔ وگرنہ تو حکومت کے جس مشیر نے بھی لب کشائی کی کوشش فرمائی ہے اُس نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کی کارکردگی پر جھاڑو پھیرنے میں اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ حالانکہ ہمیں قوی اُمید تھی کہ تحریک انصاف کی حکومت اپنے پیشرو حکمرانوں سے قدرے مختلف قسم کے مشیروں کو متعارف کروائے گی مگر شومئی قسمت کہ تحریک انصاف کی حکومت بھی اپنی ترجمانی کے لیئے ڈھنگ کے دو،چار مشیر بھی نہ ڈھونڈ سکی۔ جس کا سب سے بڑا سیاسی نقصان وزیراعظم پاکستان عمران خان کو یہ ہوا کہ اپنی حکومت کی کارکردگی کو بیان کرنے کے لیئے اُنہیں خود ہی بار بار میڈیا کے سامنے پیش ہونا پڑتا ہے۔ جب کہ حکومتی مشیروں کی نااہلی کی تازہ ترین مثال آرمی چیف جناب قمر جاوید باجوہ کی توسیع کا وہ نوٹیفکیشن ہے۔ جسے چیف جسٹس،سپریم کورٹ آف پاکستان جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بے شمارقانونی سقم کے باعث معطل کردیا ہے۔ حکومت کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن سے متعلق سپریم کورٹ کی طرف سے جس قسم کے قانونی سقم کی نشاندہی کی گئی ہے، اُنہیں پڑھ کر قطعاً یہ نہیں لگتا کہ یہ نوٹیفکیشن وزیرقانون جناب فروغ نسیم صاحب نے قانون کی کسی کتاب کو پیش نظر رکھ کر ترتیب دیا ہوگابلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اِس نوٹیفکیشن کو جاری کرتے ہوئے انتہائی عجلت سے کام لیا گیا ہے۔ حالانکہ چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جناب آصف سعید کھوسہ کی قانون بین نگاؤں کے سامنے ”حکومتی نوٹیفکیشن“ کے آنے کے بعد جس طرح سے وزارتِ قانون اور وفاقی کابینہ نے نوٹیفکیشن کے تمام قانونی سقم دُور فرماکر اِسے منظوری کے لیئے صدرِ مملکت جناب عارف علوی کو بھیجاہے۔ حکومت کے اِس طرزِ عمل سے یہ تو یہ ہی ظاہر ہوتا ہے کہ فی الحال اچانک بگڑ جانے والے معاملہ کو خوش اسلوبی کے ساتھ سنبھال لیا گیا ہے۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے ”حکومتی نوٹیفکیشن“ کے معطل ہونے کے بعد وزیراعظم پاکستان عمران خان کو ملک کے اندر اور بیرونِ ملک جس ”سیاسی سبکی“ کا سامنا کرنا پڑا ہے اِس کی ذمہ داری آخر کس پر عائد ہوتی ہے؟۔کیا وزیر قانون فروغ نسیم کا استعفا اِس بات کی ضمانت بن سکے گا کہ آئندہ حکومتی وزراء ہم ترین ریاستی معاملات میں بلاوجہ کی جھک مارنے کی کوشش نہیں کریں گے؟۔ بہرحال ایک بات تو طے ہے کہ اِس سیاسی ہزیمت کے پیچھے اپوزیشن کا کوئی کردار نہ تو ہے اور نہ ہی ہوسکتا تھا۔ مصیبت تو یہ ہے کہ جس طرح اچانک سے حکومتی مشیروں کی قانونی مہارت کا بھانڈا بیچ چوراہے میں پھوٹا ہے اس کے بعدتو حکومتی لوگ اِس ”نوٹیفکیشن“ کو کسی”تبدیلی دشمن“ کی ساز ش بھی قرار بھی نہیں دے سکتے کیونکہ اگروہ ایسا کہتے ہیں تو پھر اِس کا مطلب یہ ہی لیا جائے گا کہ تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تمام سازشی تانے بانے بھی حکومت کے اپنے ہی لوگ بننے میں لگے ہوئے ہیں۔ اِس عجیب و غریب واقعہ نے جہاں وزیراعظم پاکستان کو ایک قدم پسپائی پر مجبور کیا ہے وہیں ”حکومتی نوٹیفکیشن“ کی جگ ہنسائی نے ایک بار پھر سے اپوزیشن کو پورے قد کے ساتھ عمران خان کے سامنے کھڑے ہونا کانادر موقع بھی فراہم کردیا ہے۔
اِس سارے شور شرابے میں تحریک انصاف کی حکومت کے لیئے خیر کا پہلو بس ایک یہ ہی نظر آتا ہے کہ اَب بہت سے ”سیاسی معاملات“ انتہائی سرعت کے ساتھ نہ صرف درست کرلیئے جائیں گے بلکہ آنے والے دنوں میں اُن چھپی ہوئی ”سیاسی و قانونی غلطیوں“ کو بھی تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گا،جو مستقبل میں حکومتِ وقت کے لیئے کسی بڑے مسئلہ کا پیش خیمہ بن سکتیں ہیں۔ بلاشبہ باربار غلطی کرنا انسان کی عادت بھی ہے اوراِسے درست کرلینا انسان کا شرف بھی لیکن اپنی غلطی پر اَڑ جانا اور اُس کودرست نہ کرنے پر اصرار کرنا ایک شیطانی فعل ہے،جس سے حتی المقدور ہر شخص کو بچنا چاہیے۔اچھی بات یہ ہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان،ماضی کے حکمرانوں کے برعکس نہ تو اپنی غلطی پر بے جا اصرار کرتے ہیں اور نہ ہی اپنی غلطی کو درست کرنے میں کوئی عار محسوس کرتے ہیں۔یقینا اِسی”خوبی حکمرانی“ کی بدولت پاکستانی سیاست کا مکدر چہرہ صاف و شفاف کیا جاسکتاہے۔
حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور میں 05 دسمبر 2019 کے شمارہ میں شائع ہوا۔
- آزادی اظہار رائے کی آڑ میں -جون30, 2023
- عید قرباں کی حقیقی روح -جون27, 2023
- بلدیہ عظمی کراچی کا قلعہ پیپلزپارٹی نے کیسے فتح کیا؟ -جون19, 2023