arbab khandan

ارباب خاندان کی پیپلزپارٹی میں شمولیت

پنجاب میں جس طرح پاکستان پیپلزپارٹی کی بڑی،بڑی سیاسی وکٹیں تحریک انصاف اُڑاتی جارہی ہے اُس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو یہ بات اچھی طرح سمجھ آگئی ہے کہ 2018 کے الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی کو پنجاب کے سیاسی میدان سے کچھ خاص حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے اب اپنی توانائیاں پنجاب میں ضائع کرنے کے بجائے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اگلے الیکشن کے لیئے اپنی تمام ترسیاسی کامیابیوں کا انحصار سندھ کارڈ پر کیا جائے۔سندھ میں پیپلز پارٹی نے اپنے سندھ کارڈ کو مستحکم اور محفوظ بنانے کے لیئے اپنی سیاسی سرگرمیوں کو تیز تر کر دیا ہے۔پیپلز پارٹی کی طرف سے مختلف زیرک اور سینئر رہنماؤ ں کو یہ ٹاسک دیا گیا ہے کہ سندھ بھر میں اپنے تمام سیاسی مخالفین کو کسی بھی قیمت پر اپنے ساتھ ملانے کی بھر پور کوشش کی جائے تاکہ 2018 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی سندھ سے کلین سوئپ کر سکے، اپنے اس خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیئے سابق صدر ِ پاکستان آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپر نے اپنے مختلف سیاسی مخالفین سے پس پردہ سیاسی رابطوں کا آغاز کردیا ہے اس سلسلے میں پہلی بڑی کامیابی تھرپارکر کے اہم سیاسی خاندان اور سابق وزیر اعلیٰ سندھ ارباب رحیم کے بھتیجے ارباب امیر حسن کے بیٹے ارباب لطف اللہ کی پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت کی صورت میں حاصل ہوئی ہے۔

یہ مضمون بھی پڑھیئے: پرویز مشرف اور پیپلزپارٹی کے درمیان الزامات کی جنگ

ذرائع کے مطابق ارباب لطف اللہ نے فریال تالپر کے ساتھ تمام سیاسی معاملات طے کرلیئے ہیں جس میں ارباب لطف اللہ اور ان کے ساتھ پارٹی میں آنے والے دیگر ارباب خاندان کے سرکردہ افراد کو فوری طور پر ایک سینیٹر شپ، تحصیل ڈیپلو کی صوبائی نشست اور ٹاؤ ن کمیٹیوں کی چیئرمین شپ دی جائیں گی جبکہ تھرپارکر میں پیپلزپارٹی کی تنظیم میں بھی اہم ترین پوزیشنز بھی انہیں دی جائیں گی۔فریال تالپر کی طرف سے ارباب خاندان کے ساتھ کی جانے والی اس سیاسی ڈیل میں سابق ایم این اے ارباب ذکاء اللہ، سابق ضلع ناظم ارباب انور بھی شامل ہیں گو کہ ارباب ذکاء اللہ اور ارباب انور نے پیپلز پارٹی میں شمولیت کی کھل کر تصدیق نہیں کی ہے بلکہ رابطے کرنے پر بتایا ہے کہ ابھی تک ہم نے پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان نہیں کیا ہے جب شامل ہوں گے تو باضابطہ اعلان بھی کر دیں گے۔ارباب خاندان کی طرف سے واضح اعلان نہ کرنے کی وجہ سے ضلع تھر پارکر میں ارباب خاندان کے حامی سخت پریشان ہیں۔

جبکہ پیپلز پارٹی غیر متوقع طور پر حاصل ہونے والی اپنی اس سیاسی کامیابی پر بہت خوش ہے کیونکہ سابق وزیراعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم 2018 کے الیکشن سے پہلے سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف ایک وسیع تر سیاسی اتحاد بنانے کے لیئے کوشاں تھے۔جس کے لیئے انہوں نے کئی ماہ سے سندھ بھر میں پیپلز پارٹی مخالف رہنماؤ ں سے رابطے بھی استوار کر لیئے تھے۔اگر کسی نہ کسی طرح ارباب غلام رحیم پیپلز پارٹی مخالف یہ اتحاد تشکیل دینے میں کامیاب ہوجاتے تو عین ممکن تھا کہ اس بار پیپلز پارٹی کو اپنے سندھ کارڈ سے ہاتھ دھونا پڑ جاتا۔لیکن پیپلزپارٹی نے جس طرح بروقت تھرپارکر میں ارباب خاندان کے اہم ترین افراد کو اپنے ساتھ شامل کیا ہے اس سے اندرون سندھ میں پیپلز پارٹی مخالف اتحاد کی کوششوں کو سخت دھچکہ لگا ہے بلکہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے سب سے بڑے مخالف ارباب غلام رحیم کو بھی تھرپارکر میں پہلی بار سیاسی تنہائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو کسی بھی طرح آنے والے سیاسی منظر نامہ میں ارباب غلام رحیم کے سیاسی مستقبل کے لیئے نیک شگون ثابت نہیں ہوگا۔

دوسری طرف متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے 4 سال تک سندھ اسمبلی عارف مسیح بھٹی نے بھی پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ یہ اعلان عارف مسیح بھٹی نے پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو،سندھ کے سیکریٹری جنرل وقار مہدی،سیکریٹری اطلاعات سینیٹر عاجز دھامرا اور سینیٹر سعید غنی کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں کیا۔اس موقع پر عارف مسیح بھٹی نے کہا کہ”میں نے 22 اگست کو ہی ایم کیو ایم سے علحیدگی اختیار کر لی تھی،پیپلز پارٹی میں شامل ہونے پر نہ مجھ پر پریشر ہے اور نہ میں نے کسی لالچ کے تحت کوئی ڈیل کی ہے“۔جبکہ پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو نے کہ کہ”پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے میں عارف مسیح بھٹی کا خیر مقدم کرتا ہوں اور یہ یقین دلاتا ہوں کہ یہ ہمارے ہیں اور پیپلز پارٹی تمام قومیتوں کے افراد کو مسادی سیاسی اہمیت دیتی ہے وہ زمانہ چلا گیا جب ایم کیوایم میں جانا آسان اور نکلنا مشکل تھا،سیاسی مستقبل کا فیصلہ سب کا حق ہے،لوگ ووٹ پر ہی یقین رکھتے ہیں“۔

حالیہ دنوں میں پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ میں اپنے سیاسی مخالفین کوجس طرح اپنے ساتھ ملانے کا نیا سلسلہ شروع کیا ہے وہ اس بات کا اشارہ ہے کہ مستقبل میں پیپلزپارٹی سندھ کارڈ پہلے سے بھی زیادہ مضبوط پوزیشن میں کھیلنا چاہتی ہے۔پیپلز پارٹی کے اکثر رہنماؤ ں کا خیال ہے کہ جس طرح سندھ میں اس وقت ایم کیوایم شکست و ریخت کا شکار ہے اور مسلم لیگ فنکشنل اپنے خاندانی مسائل اور اختلافات میں الجھ کر سیاسی طور تقریباً معطل ہے یہ سنہری مو قع ہے کہ اگر پیپلز پارٹی ذرا سی محنت اور عقلمندی سے کام لے تو آنے والے الیکشن میں تاریخ ساز کامیابی حاصل کرکے اس پوزیشن میں آسکتی ہے کہ2018 کے الیکشن کے بعد پیدا ہونے والی ملکی سیاست میں سندھ کے ساتھ ساتھ وفاق میں بھی بطور پریشر گروپ زیادہ سے زیادہ سیاسی فوائد سمیٹ سکے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 22 جون 2017 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں