جرمنی میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں چانسلر انجیلا مرکل کی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین اور دیگر اتحادیوں نے میدان مار لیا۔جس کے باعث انجیلا مرکل نے چوتھی بار جرمن چانسلر منتخب ہونے کا منفرد اعزاز حاصل کرلیا ہے۔انجیلا مرکل کی کامیابی جہاں جرمنی میں مقیم تارکین وطن اور پناہ گزینوں کے لیئے خوشی کی خبر ہے وہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیئے ایک بری خبر ہے۔سیاسی تجزیہ کاروں کے نزدیک انجیلا مرکل کی کامیابی سے امریکہ اور یورپ کے درمیان پہلے سے قائم سیاسی خلیج مزید گہری ہوگی کیونکہ انجیلا مرکل ٹرمپ پالیسیوں کی سخت ناقدتصور کی جاتی ہیں۔ جرمن پارلیمانی انتخابات کے ابتدائی نتائج کے مطابق حکمران جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین اور کرسچن سوشلسٹ یونین کے اتحاد کو 33.3 فیصد ووٹروں کی حمایت حاصل ہوئی۔سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے 20.5 فیصد ووٹ لے کر دوسری پوزیشن حاصل کی یہ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی تاریخ کی سب سے خراب ترین اور شرمناک کارکردگی ہے۔
یہ مضمون بھی پڑھیئے: جب افغانستان بنا بھارتی مفادات کا قبرستان
جبکہ مسلمانوں، تارکین وطن، شامی پناہ گزینوں کی آمد کی سخت مخالف دائیں بازو کی قوم پرست جماعت اے ایف ڈی کو 13.2 فیصد ووٹ ملے جس کے باعث موجودہ انتخابات میں اے ایف ڈی جرمنی کی تیسری بڑی سیاسی قوت اُبھر کر سامنے آئی۔اے ایف ڈی جس نے اپنی تمام انتخابی مہم کے دوران شامی پناہ گزینوں اور تارکین وطن کی جرمنی آمد کے مسئلے کو انتہائی شدو مد سے اُٹھایا اور ملک بھر میں قوم پرستانہ جذبات پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن انتخابی نتائج نے ثابت کردیا کہ یورپی عوام کی اکثریت اسلام مخالف کسی بھی مہم جوئی کی حامی نہیں ہیں۔جرمنی کے حالیہ انتخابات کے نتائج اس لیے بھی انتہائی اہمیت کے حامل ہیں کہ ان نتائج سے دیگر یورپی ممالک میں بھی اسلام مخالف رائے عامہ ہموار کرنے والی تمام قوم پرست جماعتوں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔
انجیلا مرکل کو اپنے نئے دورِ حکومت میں بہت سے نئے چیلنجزز کا سامنا کرنا ہوگاجن میں سے ایک نئی معاشی پالیسی کا نفاذ ہوگا کیونکہ آنے والے دنوں میں جرمنی کو افرادی قوت میں سخت کمی کا سامنا ہوگا۔اس حوالے سے جرمنی کے معاشی پالیسی ساز وں میں کافی تشویش پائی جاتی ہے۔ہنر مند افراد کی کمی جرمنی کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس کا حل انہوں نے اگر بروقت پیش نہ کیا تو ان کے ملک کو تاریخ کی بدترین معاشی ابتری کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ افرادی قوت میں تیزی سے ہونی والی کمی کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ 1900 میں صرف زرعی شعبہ میں کام کرنے والے مزدورں کی تعداد 38 فیصد تھی جو 2000 میں کم ہوکر صرف 2 فیصد کی کم ترین سطح پر آگئی ہے۔اس لیئے مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے حالیہ انتخابی مہم کے دوران یہ تجویز بھی پیش کی گئی تھی کہ ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھا کر 70 سال تک کردی جائے اور لوگوں کو یہ ترغیب دی جائے کہ اگر وہ اس عمر تک کام کریں گے تو انہیں اضافی پنشن بھی دی جائے گی۔لیکن جرمنی کے معاشی پالیسی ساز اس منصوبہ کو ناقابل عمل قرار دیتے ہیں۔ اُن کا موقف ہے کہ 70 سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے انسان جسمانی طور پر اس قابل ہی نہیں رہ پاتا کہ وہ دوسروں کے لیئے کسی بھی طرح کی خدمات انجام دے سکے کیونکہ اس عمر میں تو خود اسے خدمت اور نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور مسئلہ جسے نئی حکومت نے حل کرنا ہے وہ گلوبلائزیشن کا ہے۔جرمنی کی خواہش ہے دنیا بھر کی کمپنیاں اُسکے ہاں کا م کریں تاکہ ٹیکسس کی مد میں اُسے خاطر خواہ معاشی فوائد حاصل ہوسکیں اس کے لیئے امیگریشن قوانین میں تبدیلی اور افرادی قوت کے لیئے تارکین وطن کو اپنے ملک میں آنے کی ترغیب دینا آنے والے دنوں میں وہ ممکنہ ہدف ہوسکتے ہیں جن کے حصول کے لیئے انجیلامرکل کو کئی مشکل فیصلے اور اقدامات کرنے پڑ سکتے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیرس معاہدہ سے یک طرفہ علحیدگی کے اعلان کے بعد ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے مؤثر پالیسی سازی کرنا بھی ایک ایسا مسئلہ ہے جو نئے دورِ حکومت میں انجیلا مرکل کے لیئے ایک مشکل ہدف ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ جرمنی دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے جو مستقبل میں گلوبل وارمنگ کا سب سے زیادہ شکار ہوسکتے ہیں۔ماحولیاتی آلودگی کے ممکنہ خطرات سے بچنے کے لیئے جرمنی پہلے ہی سے دیگر یورپی ممالک کے ساتھ ملکر ماحولیاتی تبدیلی کے کئی معاہدوں پر کام کر رہا ہے۔اس لیئے جرمنی کی شدید خواہش ہے کہ پیرس ماحولیاتی معاہدہ ہر صورت کامیابی سے ہمکنار ہو۔اس حوالے سے جرمنی یورپین یونین میں اس بات کا بھی حامی ہے کہ اس معاہدہ کو مزید نتیجہ خیز بنانے کے لیئے چین کو بھی اس معاہدہ کا حصہ بنالیا جائے،تاکہ امریکہ کے اس معاہدے سے نکلنے کے بعد اخراجات میں کمی کے مسئلہ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
آخری اورسب سے بڑا چیلنج جو انجیلا مرکل کی نئی حکومت کو درپیش ہوگا وہ یورپین یونین کو اپنی اصلی حالت میں بدستور قائم رکھنا ہے۔جرمنی کی خواہش ہے کہ برطانیہ کی یورپی یونین سے علحیدگی کے بعد سے یورپی یونین جس بحران سے گزر رہا ہے اُس سے جلد از جلد باہر نکل آئے۔اس کے لیئے جرمن چانسلر انجیلامرکل چاہیں گی کہ یورپی یونین کے تمام ممالک ایک مشترکہ ڈیفنس سسٹم اور سیکورٹی پالیسی جلد ازجلد ترتیب دے لیں تاکہ یورپ پر حملہ آور دہشت گردی کے عفریت سے مقابلہ کرنے کے لیئے انہیں دنیا کے کسی اور ملک خاص طور پر امریکہ کی طرف نہ دیکھنا پڑے۔
حوالہ: یہ مضمون سب سےپہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 5 اکتوبر2017 کے شمارے میں شائع ہوا۔
- آزادی اظہار رائے کی آڑ میں -جون30, 2023
- عید قرباں کی حقیقی روح -جون27, 2023
- بلدیہ عظمی کراچی کا قلعہ پیپلزپارٹی نے کیسے فتح کیا؟ -جون19, 2023