American-diversity-of-politics

امریکیوں کی سر پھٹول

عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق حالیہ امریکی انتخابات میں جوزف بائیڈن واضح برتری کے ساتھ انتخابی معرکہ جیت چکے ہیں جبکہ امریکی صدر اور ریپبلیکن اُمیدوار ڈونلڈ ٹرمپ شکست کھاچکے ہیں۔ لیکن ابھی تک ڈونلڈ ٹرمپ اپنی شکست تسلیم کرنے سے صاف انکاری ہیں اور اپنے حامیوں کو بھرپور انداز میں باور کروانے کی کوشش کررہے ہیں کہ حالیہ امریکی انتخابات کے اصل فاتح وہ ہیں نہ کہ جوبائیڈن۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ٹرمپ وائٹ ہاؤس نہ چھوڑنے کی دھمکی بھی دے رہے ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے انتخابی نتائج کو کھلے دل سے تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے امریکا شدید ترین داخلی بحران کا شکار ہوچکاہے۔اصل لمحہ فکریہ تو یہ ہی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی معاشرے میں اچانک سے در آنے والی اس بحرانی کیفیت کو اپنا اقتدار برقرار رکھنے کے لیئے استعمال کرسکتے ہیں نہیں بلکہ بخوبی کربھی رہے ہیں۔

جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ امریکی انتخابات کا اعلان ہونے کے بعد ایوانِ اقتدار میں متمکن امریکی صدر کے انتخابی اختیارات سلب کرنے کی بہت پرانی روایت رہی ہے۔ مگر صدر ٹرمپ حالیہ انتخابات کے بعد اپنے انتظامی اختیارات پہلے سے بھی زیادہ بھرپور انداز میں استعمال کررہے ہیں۔نیز وہ اہم ترین عہدوں پر تقرر و تبادلے بھی اُسی شان سے فرمارہے ہیں جیسے کے وہ انتخابات سے پہلے کیا کرتے تھے۔ بلکہ یہ کہا جائے تو بے جانہ ہوگے کہ امریکی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے زیادہ شدت اور بے حمی کے ساتھ صدارتی اختیارات کا استعمال کرنا شروع کردیاہے۔

یادرہے کہ یہ سکے کا صرف ایک رُخ ہے جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ سکے کا دوسرا رخ بھی کچھ خاص مختلف نہیں ہے اورٹرمپ کی مانند ڈیموکریٹ رہنما جوزف بائیڈن بھی اقتدار کے حصول کے لیئے آخری حد تک جانے پر پوری طرح سے آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔ذرائع کے مطابق جو بائیڈن نے بھی دنیا بھر میں تعینات ریپبلکن سفیروں کو خفیہ ہدایت جاری کردی ہے کہ وہ ٹرمپ انتظامہ کی طرف سے جاری ہونے والے سرکاری احکامات کی مختلف حیلے بہانوں سے مزاحمت کرنا شروع کردیں اور آخری اطلاعات آنے تک جوبائیڈن کی منشاء اور ہدایت کے مطابق ریپبلکن سفیروں نے بھی اپنے رنگ، ڈھنگ چوکھے سیاسی انداز میں دکھانے شروع کردیئے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس وقت ٹرمپ انتظامیہ کو دنیا بھر میں اپنی پالیسیاں کو جاری رکھنے،منوانے یا تبدیل کروانے میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔

یوں سمجھ لیجئے کہ امریکا کی دونوں سیاسی جماعتیں اقتدار کی جنگ میں ایک دوسرے پر سبقت پانے کے لیئے داخلی انتشار کو ہوا دے رہی ہیں۔اَب یہ کوشش دانستہ ہو یانادانستہ بہرحال اس کی قیمت امریکی عوام کو ہی ادا کرنا ہوگی۔ کبھی کبھار تو ایسا محسوس ہوتاہے کہ جیسے امریکا جس قدر آج تقسیم ہے شاید ہی کبھی ماضی میں ہوا ہو۔ خاص طور پر روز بروز بڑھتے ہوئے سیاسی اختلافات اور سڑکوں پر سنائی دینے والی عوامی احتجاج کی بازگشت نے صرف امریکیوں کو ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی دیگر اقوام کو بھی شدید تشویش اور پریشانی میں مبتلاء کردیا ہے۔ زیر مضمون میں ریاست ہائے متحدہ امریکا کی پرتشدد سیاسی تاریخ کا ایک مختصر سا جائزہ پیش کیا جارہا ہے،تاکہ قارئین جان سکیں کہ امریکا کی سیاست میں بھی سب کچھ ممکن ہے۔

کانگریس کے بیس بال پریکٹس شوٹنگ
سیاسی رہنماؤں کے تشدد پر اکسانے والے بیانات سیاسی کارکنان کے درمیان نفرت پھیلانے کا باعث بنتے ہیں اور کبھی کبھار یہ سیاسی نفرت کسی سادہ لوح کارکن کو مخالفین کی جان لینے پر بھی آمادہ کردیتی ہے۔ ایسا ہی ایک سیاسی تشدد کا واقعہ امریکا میں 14 جون، 2017 کو، کانگریس کے بیس بال کی پریکٹس میچ کے دوران پیش آیا۔سیاسی تشدد کے اس بدقسمت واقعہ میں ڈیموکریٹ جماعت سے تعلق رکھنے والے کارکن جیمزہوڈکنسن نے کانگریس بیس بال ٹیم ریبلیکن جماعت کے آتشی اسلحے سے فائرنگ کردی۔ جیمز بیس بال ہال میں 10 منٹ تک مسلسل فائرنگ کرتا رہا اور اس نے کم و بیش 100 سے زائد سیدھی گولیاں اُن کھلاڑیوں پر چلائی جن کے بارے میں اُسے یہ گمان تھا کہ یہ سب کے سب ریبلیکن جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔جیمز ہوڈکنسن کی فائرنگ کے نتیجے میں دو درجن سے زائد افراد شدید زخمی ہوگئے اور پولیس کے فائرنگ کے تبادلے کے نتیجے میں بندوق بردارجیمز ہوڈکنسن ہلاک ہوگیا۔

تشدد کے اس ہول ناک واقعہ کے بعد جب مقامی پولیس نے اپنی تفتیش کا آغاز کیا تو جیمز کی سوشل میڈیا پر کی گئی پوسٹوں کی بنیاد پر معلوم ہوا کہ جیمز ہوڈکنسن ڈیموکریٹک جماعت کا ایک سرگرم کارکن تھا اور یہ ریپبلکن کے سخت ترین مخالف تھا۔نیز اس نے برنی سینڈرس کی صدارتی مہم میں بھی بھرپور انداز میں اپنی رضا کارانہ سیاسی خدمات انجام دی تھیں۔جیمز ہوڈکنسن نے بیس بال ٹیم کے پریکٹس میچ میں ریبلیکن جماعت سے تعلق رکھنے والے کھلاڑیوں کو کیوں نشانہ بنایا تھا؟۔اس سوال کے جواب میں مقامی پولیس تفتیش کاروں کا کہنا تھا کہ ”ڈیموکریٹک رہنماؤں کی ریپبلکن مخالف تقاریر سن سن کر جیمز ذہنی طور پر ریپبلکن سے سخت نفرت کرنے لگا تھا اور جیمز گزشتہ کئی ہفتوں سے ریپبلکن جماعت سے تعلق رکھنے افراد کو قتل کرنے کا منصوبہ بنارہا تھا۔بدقسمتی بیس بال کے میچ کے دوران اُسے وہ موقع دستیاب ہوگیا اور اُس نے بیس بال کے کھلاڑیوں پر اس لیئے سیدھی گولیاں چلادیں کہ جیمز کے نزدیک وہ سب کے سب ریبلیکن جماعت سے تعلق رکھتے تھے“۔

پائن ایپل انتخابات
اکثر ماہرین سیاسیات1928 میں شکاگو میں ہونے والے ریپبلکن پرائمری انتخاب کو امریکا کی سیاسی تاریخ کے سب سے زیادہ پر تشدد انتخابات میں سے ایک قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ اس انتخاب کے دوران سیاسی جماعتوں اور اُمیدواروں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف بڑی تعداد میں دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا تھا، خاص طور پر دستی بموں کے زبردست استعمال کے باعث اس انتخابی معرکہ کو ”پائین اپیل“انتخابات کے نام سے بھی یاد کیا جاتاہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انتخابی جیت کے معاملے پر ایک چھوٹے سے احتجاج سے شروع ہونے والے یہ پرتشدد فسادات پورے چھ ماہ تک جاری رہے اور اِن فسادات میں شکاگو شہر میں مختلف مقامات پر علحیدہ علحیدہ 62 بم دھماکے ہوئے، کم ازکم دو سیاسی رہنما ان پرتشدد واقعات میں ہلاک ہوگئے تھے،جبکہ سینکڑوں عام لوگ شدید زخمی ہوگئے تھے۔علاوہ ازیں جرائم پیشہ عناصر کی جانب سے اِن واقعات کی آڑ میں کیے گئے منظم جرائم سے شکاگو شہر میں عوام کی املاک کا بھی خوب نقصان ہوا۔

دراصل یہ وقت تھا، جب پورے امریکا میں جرائم پیشہ عناصر نے ہر ریاست کے اندر اپنی ایک خود ساختہ ریاست قائم کی ہوئی تھی اور یہ ہی جرائم پیشہ افراد امریکی سیاست میں بھی بھرپور انداز میں متحرک تھے۔ چونکہ شکاگو اُس وقت جرائم کا ایک گڑھ بن چکا تھا،اس لیئے ہر جرائم پیشہ گروہ کی پوری کوشش تھی کہ وہ شہر میں ہونے والے ریپبلکن پرائمری انتخاب میں کامیاب ہوکر اپنے جرائم کو سیاسی تحفظ اور طاقت فراہم کرے۔یاد رہے پائین ایپل انتخابات میں ہونے والے فسادات کی تحقیقات کے لیئے بنائے جانے والے شکاگو کرائم کمیشن کے سربراہ فرینک لوش نے پرتشدد فسادات کا بنیادی محرک اور ماسٹر مائنڈ بدنام زمانہ امریکی اسمگلر ال کیپون کو قرار دیا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے ال کیپون تحقیقاتی کمیشن کی جانب سے ملزم نامزد کیئے جانے کے باوجود بھی کسی بھی قسم کی کوئی قرار واقعی سزا نہ دی جاسکی۔کیونکہ حکومت وقت کا خیال تھا کہ ال کیپون جرائم کی دنیا کا بے تاج بادشاہ ہے لہٰذا اس کو گرفتار کرنے سے شکاگو کو اَمن مکمل طور پر تہہ و بالا ہوسکتا ہے۔اس لیئے حکومت نے ال کیپون سے مذاکرات کیئے اور اس سے یہ وعدہ لیا کہ وہ آئندہ کسی پرتشدد فساد میں ملوث نہیں ہوگا۔ ال کیپون کی یقین دہانی کے بعد ال کیپون کو امریکا کے اگلے قومی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے دی گئی۔صرف یہ ہی نہیں شکاگو کرائم کمیشن کے سربراہ فرینک لوش نے ال کیپون سے ہونے والے حکومتی معاہدہ کے بارے میں کہا کہ ”یہ چالیس برسوں میں شکاگو کی سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا اور کامیاب ترین دن ہے“۔

1874 کا انتخابی دنگل
یہ وہ سنہری وقت ہے جب امریکا سے خانہ جنگی کا مکمل خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے،امریکا کی تمام ریاستوں میں سیاسی و جمہوری نظا م کا نفاذ یقینی بنانے کے لیئے اقدامات کا آغاز کردیا گیا ہے اور امریکی ریاست الاباما کی کاؤنٹی باربر میں 3 نومبر 1874 کو سیاسی جماعتوں کے مابین انتخابی عمل پورے زور و شور کے ساتھ جاری ہے۔ اس علاقے میں ریبلیکن جماعت بہت زیادہ مضبوط ہے کیونکہ انہوں نے نئے آزاد ہونے سیاہ فام افراد کوحق رائے دہی کی اجازت دے کر اپنے ساتھ ملالیا ہے۔جبکہ ریبلیکن کی مخالف سیاسی ڈیموکریٹس سیاہ فام افراد کو ووٹ کا حق دینے کے سخت مخالف ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ سیاہ فام افراد اگر ووٹ ڈالیں گے تو ریبلیکن جماعت کو اس علاقہ میں شکست دے پانا کم وبیش ناممکن ہوجائے گا۔ باربر کاؤنٹی میں ڈیموکریٹ جماعت نے سفید فام نسل سے تعلق رکھنے والے افراد کے سیاسی مفادات کے تحفظ اور فروغ کے لیئے ”وائٹ لیگ“ کے نام ایک نیم فوجی دستہ تشکیل دیا ہوا ہے،جسے اس انتخاب میں بنیادی وظیفہ یہ تفویض کیا گیا ہے کہ وہ پولنگ بوتھ پر ریپلیکن رائے دہندگان کو ووٹ ڈالنے سے باز رکھیں۔

واضح رہے کہ 3 نومبر کو جیسے ہی انتخابی عمل شروع ہوتا ہے بابرا کاؤنٹی کے مختلف پولنگ بوتھوں پر ”وائٹ لیگ“ کی جانب سے ہنگامہ آرائی کی خبریں موصول ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ یوفاؤلا نامی قصبے میں ہونے والے ہنگامے میں آٹھ فراد ہلاک اور 80 سے زائد افراد زخمی ہوجاتے ہیں،جن میں بیشتر سیاہ فام اور ریپبلکن ہوتے ہیں۔نیز اسپرنگ ہل میں ”وائٹ لیگ“ کئی پولنگ بوتھ پر دھاوا بول کر بیلٹ باکس اُٹھا کر لے جاتے ہیں اور ریپبلکن جج،ایم کییلز کے بیٹے کو مجمع عام کے سامنے بے دردی سے ہلاک کردیتے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی انتخابات کے اختتام پر جب ووٹوں کی گنتی مکمل ہوتی ہے تو اس میں ریپبلکن واضح برتری کے ساتھ انتخاب جیت جاتے ہیں۔ لیکن ڈیموکریٹس ووٹوں کی گنتی اور نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کرکے ایک بار پھر کاؤنٹی بھر میں ہنگامہ آرائی اور جلاؤ گھیراؤ شروع کردیتے۔اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ اگلے کئی برسوں تک کاؤنٹی باربر میں انتخابی عمل تعطل کا شکار ہوجاتاہے۔دراصل ڈیموکریٹ کا بنیادی مقصد بھی یہ ہی ہوتا ہے کہ وہ اس علاقے میں ریپبلیکن کو دھونس،دھاندلی اور پرتشدد ہنگامہ آرائی کے بل بوتے پر سیاسی عمل سے یکسر باہر رکھیں۔

امریکی نمائندہ گان کی آپسی مارکٹائی
ترقی پذیر اور غریب ممالک کے سیاسی ایوانوں میں تو اکثر و بیشتر سیاست دانوں کے ایک دوسرے خلاف گالم گلوچ اور مارکٹائی کی خبریں عالمی ذرائع ابلاغ کی زینت بنتی ہی رہتی ہیں۔ لیکن ترقی یافتہ ممالک خاص طور پر امریکا کے بارے میں دنیا بھر میں یہ ہی سمجھا جاتا ہے کہ امریکی ایوانِ نمائندگان میں سیاسی بحث و مباحثہ تو ہوسکتاہے لیکن گالم گلوچ اور دھینگا مشتی کی کوئی غیر سیاسی روایت سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ اچھی طرح سے ذہن نشین رہے کہ امریکی سیاست کے بارے میں یہ دعویٰ بالکل لغو اور حقائق کے یکسر خلاف ہے۔ کیونکہ 22 مئی 1856 میں امریکی سینٹ میں بھی دو سیاسی نمائندہ گان پریسٹن بروکس اور سینیٹر چارلس سمنرکے درمیان دھکم پیل اور مارکٹائی کا ایک انتہائی افسوسناک واقعہ پیش آچکا ہے۔

جس کی مختصر تفصیل کچھ یوں ہے کہ ریپبلیکن جماعت سے تعلق رکھنے والا سینیٹر چارلس سمنرایک سخت مزاج اور بد زبان سیاسی رہنما کے طور پر شناخت رکھتا تھا اور وہ اکثر وبیشتر امریکی سینٹ کے جاری اجلاس میں ڈیموکریٹک سینیٹرز کے خلاف رکیک سیاسی جملوں کا استعمال کرتا رہتا تھا۔خاص طور پر اسٹیفن ڈگلس،پریسٹن بروکس اور اینڈریو بٹلرکو نیچا دکھانے کا وہ کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بریسٹن بروس اور اسٹیفن ڈگلس نے چیئرمین سینٹ سے سینیٹر چارلس سمنر کے معاندانہ رویے اور جملہ بازی کے خلاف شکایت بھی کی،جس پر اُسے سینٹ کے جاری اجلاس میں سینٹ کی چیئرمین کی جانب سے تنبیہ بھی کی گئی لیکن چارلس سمنر پھر بھی باز نہ آیا اور اپنے مخالف سینیٹرز کے خلاف اخلاق باختہ جملے اپنی تقریروں میں استعمال کرتا رہا۔بالآخر پریسٹن بروکس نے چارلس سمنر کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا اور ایک دن اُس نے سینٹ کا اجلاس ختم ہونے کے بعد غیر متوقع طور پر چارلس سمنر کو پیچھے کی جانب سے دھکا دے کر نیچے گرا اور ایک موٹی چھڑی سے اُسے پیٹنا شروع کردیا۔

کہا جاتاہے کہ سینٹ ہال میں موجود دیگر سینٹرز کو صورت حال کی سنگینی سمجھنے میں کم و بیش پانچ منٹ لگے اور اُس وقت تک بروکس، دیوانہ وار چارلس سمنر کو چھڑی سے پیٹتا ہی رہا۔ اس غیر پارلیمانی اور غیر اخلاقی حرکت کی پاداش میں بروکس پر آج کے حساب سے آٹھ ہزار ڈالر کا جرمانہ بطور سزا عائد کیا گیا،جسے بروکس نے خوشی خوشی ادا کردیا لیکن چارلس سمنر کو شدید چوٹیں آئیں اور اُسے پورے دوماہ تک اپنا علاج کروانا پڑا۔تب کہیں جاکر اُس کی جسمانی صحت بحال ہوئی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس واقعے کے بعد چارلس سمنر شدید خوف زدہ ہوگیا اور اُس نے اگلے تین برس تک سینٹ کے ایوان میں قدم تک نہیں رکھا۔صرف یہ ہی بلکہ اُس نے واقعہ سے سبق سیکھتے ہوئے اپنی باقی زندگی کسی کے خلاف ایک لفظ بھی کہنے کی جسارت نہیں کی۔

نیو یارک سٹی کے”ڈرافٹ فسادات“
جمہوریت میں آئین و قانون عوام کی فلاح و بہبود اور سہولیات کو پیش نظر رکھ کر بنائے جاتے ہیں لیکن ہر بار ایسا نہیں ہوتا،کیونکہ کئی بار نام نہاد جمہوری رہنما اقتدار کے خمار میں آکر جمہوریت کے نام پر ایسے ایسے متعصبانہ اور متنازعہ قوانین بنانے کی کوشش کرگزرتے ہیں کہ اگر اِن قوانین کو آمر بھی ایک نظر دیکھ لے تو شرم سے پانی پانی ہوجائے۔ جمہوریت میں ”آمرانہ قوانین“ کا نفاذ انارکی اور پرتشدد فسادات کو ہوا دیتا ہے۔اَب یہ غیر جمہوری طرز عمل ترقی پذیر ممالک میں اختیار کیا جائے یا پھر ترقی یافتہ ممالک۔بہرکیف اس کے نتائج بھیانک ہی نکلتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ متعصب مسودہ قانون کی وجہ امریکا کی سیاسی تاریخ میں بھی کئی بار سخت ہلچل ہوچکی ہے۔ لیکن کسی مسودہ قانون کی وجہ سے جو ہنگامہ ایک بار نیویارک میں دیکھنے کو ملا تھا،ایسے کوئی دوسری مثال کم ازکم امریکا کی جمہوری تاریخ میں ڈھونڈ پانا سخت مشکل ہوگا۔

ایک مسودہ قانون کے نفاذ کی وجہ سے ہونے والے اِن پرتشدد فسادات کی تلخ یادوں کو نہ صرف آج بھی یاد کیا جاتاہے بلکہ نیویارک کی عوام کچھ عرصہ قبل تک ہر سال باقاعدگی سے ”ڈرافت ویک“یعنی ”مسودہ فسادات کا ہفتہ“منایا بھی کرتی تھی۔ دراصل ہفتہ 11 جولائی 1863 میں نیویارک شہر کے لیئے ایک سخت مسودہ قانون کے نفاذ کا فیصلہ کیا گیا۔جس کے مطابق کوئی بھی شہری 300 ڈالر کی ادائیگی کر کے اپنا نام اُس وقت کی امریکی فوج یعنی یونین آرمی کی فہرست سے اپنا نام قانونی طور پر خارج کرواسکتاتھا۔ اس قانون کا التزام اس لیئے کیاگیا تھا کہ نیویارک کے متمول اور امیر افراد، خاص طور سفید فام امریکی یونین آرمی کی لازمی سروس اختیار کرنے سے بچ سکیں۔جبکہ امریکا کے سیاہ فام افراد کو ملک میں جاری خانہ جنگی کا ایندھن بنایا جاسکے۔ اس متنازعہ قانون کے نفاذ کے خلاف نیویارک بھر میں زبردست فسادات پھوٹ پڑے اور دیکھتے ہی دیکھتے عوام کے جتھوں نے سرکاری و فوجی عمارتوں کا گھیراؤ کرکے اُنہیں نذرِ آتش کرنا شروع کردیا۔جس کے بعد پولیس اہلکاروں اور مظاہرین کے درمیان جھڑپین ہونا شروع ہوگئیں۔جو کئی روز تک مسلسل جاری رہیں۔ بعدازاں حکومت کی جانب سے یہ متنازعہ قانون واپس لینے کا اعلان کردیا گیا لیکن اُس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی اور متعدد سیاہ فام افراد ہلاک ہوچکے تھے جبکہ سینکڑوں سرکاری و نجی املاک کو جلادیا گیا تھا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ قانون کے ایک مسودے نے نیویارک شہر کو جہنم میں بدل دیا تھا۔

بروکس اور بیکسٹر کا انتخابی معرکہ
امریکی ریاست ارکنساس میں 1872 کے انتخابات کے نتائج آنے کے بعد انتخابی اُمیدوروں جوزف بروکس اور الیشا بیکسٹر کے مابین ہونے والی ہار جیت کی انتخابی جنگ اور آج کل جوزف بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے مابین جاری سیاسی کشمکش سے کافی مشابہت پائی جاتی ہے۔ جیسے اُس وقت کے ارکنساس کے انتخابی نتائج میں جوزف بروکس کی فتح کا اعلان کردیا گیا تھا لیکن مخالف اُمیدوار الیشا بیکسٹر نے یہ کہہ کر انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کردیا کہ اُنہیں دھاندلی کر واکر ہروایا گیا ہے“۔ حیران کن طور پر قانونی نوٹیفیکیشن میں بروکس کے برعکس بیکسٹر کو فاتح قرار دے دیا گیا کیونکہ انتخابات کروانے والے انتخابی کمیشن اور حکومت میں بیکسٹر کی جیت کی خواہش رکھنے والا کا غلبہ تھا۔یوں بیکسٹر نے انتخابی ہار کے باوجود بطور گورنر حلف اُٹھالیا۔ جس کے جواب میں جوزف بروکس اور اس کے کارکنان نے متعدد عدالتوں میں بھرپور قانونی لڑائیوں کا آغاز کردیا۔

زیادہ تر عدالتوں میں بروکس کے خلاف ہی فیصلہ آیا لیکن خوش قسمتی سے ایک عدالت میں ایک ایسا جج مل گیا جس نے بیکسٹر کی جیت کو کالعدم قرار دے کر بروکس کے حقِ حکمرانی کا فیصلہ سنادیا۔صرف یہ ہی نہیں بلکہ جج جان واناک نے بروکس سے بطور گورنر حلف بھی لے لیا۔ حالانکہ اُسے یہ سب کرنے کا قانونی اختیار حاصل نہیں تھا۔ بہرحال بروکس گورنر کا حلف لینے کے فوراً بعد 20 سے زائد مسلح افراد کے ساتھ گورنر ہاؤس جا پہنچا اور بیکسٹر سے اُس کا دفتر چھیننے کی کوشش کی۔جس کے نتیجے میں بروکس اور بیکسٹر کے ساتھ موجود لوگوں کے درمیان گھمسان کی لڑائی شروع ہوگئی۔بعد ازاں اس لڑائی میں شہر کے ہزاروں افراد بھی شامل ہوگئے،یوں اقتدار کی اس رسہ کشی کا آخری نتیجہ سینکڑوں معصوم اور بے گناہ افراد ہلاکت کی صورت میں برآمد ہوا۔لمحہ بہ لمحہ بگڑی ہوئی صورت حال کے پیش نظر بالآخر ریاستی اداروں کو مداخلت کرنا پڑی اور بروکس کے حق میں غیر قانون فیصلہ کرنے والے جج کو اپنا فیصلہ واپس لیناپڑا۔ جس کے بعد بیکسٹر کو قانونی گورنر قرار دے کر جوزف بروکس کو خاموش کے ساتھ گھر جانے پر مجبور کردیا گیا۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ ایکسپریس کے سنڈے میگزین میں

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں