amazing-treasure-hunts-around-the-world

خزانے کی تلاش

بلاشبہ”شیروں والی حویلی“ کاشمار ہمارے شہر کی قدیم ترین عمارت کی فہرست میں میں کیا جاسکتاتھا۔ کم وبیش ایک ایکٹر کے وسیع رقبہ پر تعمیر شدہ اس پرشکوہ عمارت کو ”شیروں والی حویلی“ اس لیئے نہیں کہا جاتا تھے، کہ اس میں شیر وں کا بسیرا تھا۔بلکہ ”شیروں والی حویلی“ کی وجہ تسمیہ اس عمارت کے مرکزی دروازے کے عین اُوپری حصے پر دو ہیبت ناک قسم کے شیروں کا بنا ہونا تھا۔ یہ مجسماتی شیر دورسے تو بالکل حقیقی دکھائی دیتے تھے کہ جیسے واقعی حویلی کے اُوپر دو شیر سستانے کے لیئے بیٹھے ہوئے ہیں۔ جبکہ شیروں کی شبیہ کی عین نیچے بڑے بڑے حروف میں خوب صورت اینٹوں سے لکھا تھا ”گردھاری لعل 1840“۔ عمارت پر درج اس مختصر سی تحریر سے شہر بھر نے ازخود ہی فرض کرلیا تھا کہ یہ عمارت گردھاری لعل نے 1840 میں اپنی رہائش گاہ کے طور پر تعمیر کروائی تھی اور قیام پاکستان کے وقت اِس کے اصل مکین اور مالک یعنی گردھاری لعل،مع اپنے خاندان،بھارت ہجرت کرگئے اور یوں یہ قدیم عمارت کلیم میں چوہدی فیروز دین اور اس کے اہل خانہ کو الاٹ ہوگئی۔مگر یہاں ہمارا مقصود اپنے قارئین کو ”شیروں والی حویلی“ کی تعمیر کی جھوٹی،سچی داستان سنانے کے بجائے اس عمارت کے انہدام کا عجیب وغریب سچا واقعہ گوش گزار کرنا ہے۔

چند برس قبل اس عمارت کے مکینوں نے خستہ حال عمارت کو ڈھا کر اس کی جگہ جدید طرز کی بنگلہ نما کوٹھی بنانے کا فیصلہ کیا تو، اس خبر کو سُن کر مجھ سمیت اس عمارت کے اردگرد رہنے والے ہرشخص نے یہ ہی خیال کیا کہ اَب عمارت کو توڑنے کے لیئے مزدور بلائے جائیں گے جو چند ہفتوں میں عمارت کو منہدم کرکے زمین برابر کردیں گے۔ مگر اُس لمحہ حیرت کی انتہا نہیں رہی کہ جب ایک صبح چوہدری فیروز دین کے خاندان پر مشتمل دو درجن سے زائد افراد اپنے ہاتھوں میں ہتھوڑے، بیلچے،ریتی اور تیشے پکڑے”اپنی مدد آپ کے تحت“ حویلی کے درودیوار کو توڑتے ہوئے نظر آئے۔ جبکہ اس سارے عمل کی نگرانی دو لحیم شہیم اسلحہ بردار گارڈ ز کی ہمراہ 75 سالہ چوہدری فیروز دین، وہیل چیئرپر تشریف فرما ہوکر بہ نفس ِ نفیس خود فرمارہے تھے۔

بعدازاں تحقیق کرنے سے معلوم ہوا کہ چوہدری فیروز صاحب اور ان کے اہل خانہ سمجھتے ہیں اس حویلی میں کہیں نہ کہیں ضرور گردھاری لعل کا عظیم الشان خزانہ دفن ہے۔ لہٰذا انہوں نے پوری عمارت گرانے کا کام فقط اس لیئے اُجرتی مزدوروں کے حوالے کرنا مناسب نہ سمجھا کہ کہیں اُن کی عمارت میں دفن قیمتی خزانہ میں کسی کو اجنبی شریک نہ کرنا پڑ جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چوہدری صاحب کے خاندان کو یہ عمارت منہدم کرنے میں پورے آٹھ ماہ کا عرصہ لگا اور انہوں نے خزانے کی تلاش میں صرف عمارت ہی نہیں بلکہ اُس کی بنیادیں بھی تک کھود ڈالی لیکن بدقسمتی سے خزانہ برآمدنہ ہوسکا۔ البتہ شہر بھر کو یہ ضرور معلوم ہوگیا کہ انسان خزانے کے حصول کے لیے کس حد تک جا سکتا ہے۔

یقینا بچپن سے لے کر آج تک خزانے کی تلاش کے موضوع پر بے شمارکہانیاں اور داستانیں تو آپ نے بھی ضرور پڑھی یا سنی ہوں گی۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا آج کے جدید دور میں بھی ایسی جگہیں پائی جاتی ہیں،جہاں واقعی قیمتی خزانے مدفون ہوں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ لوگ اُن کی تلاش و دریافت کے لیئے سرگرداں بھی ہوں۔ زیر نظر مضمون میں چند ایسے گم گشتہ خرانوں اور پراسرار مقامات کا احوال پیش خدمت ہے،جہاں سے ممکنہ طور پر آج بھی خزانہ تلاش کیا جاسکتاہے۔

”ساؤجواؤ“ بحری جہاز کا خزانہ
یہ بات 8 جون 1552 کی ہے کہ مال و اسباب سے بھرا ہوا یک پرتگالی بحری جہاز،جس کا نام ”ساؤ جواؤ“(Sao Joao) تھا، اپنی منزل مقصود کی جانب محو سفر تھا کہ ”ام زیموبو“(Umzimvubu) دریا کے مقام پر بحری قزاقوں کی یلغار کی نذر ہوگیا تھا۔ یاد رہے کہ یہ علاقہ آج کل سینٹ جانس بندرگا کے نام سے معروف ہے اور جنوبی افریقہ کے مغربی کیپ صوبہ میں واقع ہے۔کہا جاتاہے کہ ”ساؤ جواؤ“ نامی یہ بحری جہاز اپنے وقت کا مہنگا ترین کارگو بحری جہاز تھا جو اربوں روپے مالیت کے تجارتی ساز و سامان سے لدا ہو اتھا۔ جس میں ایک ملین ڈالر کی مالیت کا خالص سونا،دو ملین ڈالر کے بیش قیمت جواہرات اور لاکھوں ڈالر مالیت کا دیگر قیمتی سامان بھی موجود تھا۔نیز جہاز میں 600 مسافروں سمیت عملے کے 100 افراد میں بھی سوار تھے۔بحری قزاقوں نے سب سے پہلے چند چھوٹے جہازوں سے ”ساؤ جواؤ“ بحری جہاز کو گھیرے میں لیا اورپھر اچانک لوٹ مارکے لیئے جہاز کے عرشے پر ہلہ بول دیا۔بحری قزاقوں نے بے شمار مسافروں کے تہہ تیغ کردیا جبکہ کئی ایک کو غلام بنا کر اپنے چھوٹے جہازوں پر منتقل کردیا۔
بعد ازاں نے ”ساؤ جواؤ“ جہاز میں موجود قیمتی اسباب کو اکھٹا کرنا شروع کیا تو قزاقوں کو احساس ہوا کہ سامان اس قدر زیاد ہ ہے کہ اُن کے پاس موجود چھوٹی کشتیوں پر پوری طرح سما نہ سکے گا۔

لہٰذا قزاقوں نے ”ساؤجواؤ“ کو قیمتی سامان سمیت ہی اپنی محفوظ پناہ گاہ کی جانب لے جانے کا فیصلہ کیا۔ مگر شومئی قسمت کہ رات کو سمندر میں خوف ناک طوفان آگیا، جس کی زد پر آکر نہ صرف ”ساؤجواؤ“ بحری جہاز بلکہ قزاقوں کے چھوٹی کشتیاں بھی سمندر کے گہرے پانیوں میں غرق ہوگئیں۔ خوش قسمتی سے ”ساؤجواؤ“ جہاز پر سفر کرنے والے 21 افراد کسی نے کسی طرح اپنی جان بچانے میں کامیاب رہے۔ چونکہ یہ افراد بحری جہاز کے ڈوبنے کے چشم دید گواہ بھی تھے۔اس لیئے انہوں نے بتایا کہ بحری قذاق لوٹا ہو ااسباب اپنے ہمراہ نہیں لے جاسکے تھے۔اس لیے خالص سونے اور قیمتی ہیرے جواہرات سے بھرے ہوئے تمام بکسے بھی سمندر برد ہوگئے تھے۔ دلچسپ با ت یہ ہے کہ ٹریزر ہنٹر(Treaser Hunter) یعنی خزانے کے شکاری ایک مدت سے ”ساؤجواؤ“ بحری جہاز کے خزانے کی تلاش کر رہے ہیں۔نیز کچھ ٹریزر ہنٹر نے جہاز غرقابی کے مقام سے قیمتی موتی اور سونے کے کنگن ملنے کا دعوی بھی کیا تھا۔ مگر اصل خزانہ شاید ابھی تک زیر سمندر ہی موجود ہے۔

بادشاہ کیمامہ کا خزانہ
اگر دنیا کے بہترین اور پرفزا سیاحتی مقامات کی ایک فہرست مرتب کی جائے تو بلاشبہ ”ہوائی“(Hawai) کا سیاحتی مقام سرفہرست ہوگا۔ کیونکہ خوب صورت جزیروں، قدرتی دلکشی اور اپنے سر سبز شاداب علاقوں کی وجہ سے”ہوائی“ دنیا بھر کے سیاحوں کے لیئے ارضی جنت کی حیثیت رکھتاہے۔ لیکن”ہوائی“ صرف ایک سیاحتی مقام ہی نہیں بلکہ مدفون خزانے کے متلاشی افراد کے لیئے اہم ترین پڑاؤ بھی ہے۔ یاد رہے کہ ٹریزر ہنٹر ز یعنی خزانے کے شکاریوں کا ماننا ہے کہ ”ہوائی“کی سرزمین میں کئی قیمتی خزانے دفن ہیں۔خاص طور پر 1819 میں ہلاک ہونے والے بادشاہ کیمامہ (Kamehameha) کے مقبرے کے متعلق مشہور ہے کہ یہاں بادشاہ کا سارا خزانہ جس میں بیش قیمت ہیرے، سونے کے بنے ہوئے لاکھوں سکے اور ہزاروں مجسمے، جواہرات سے مرصع شاہی لباس اور دیگر سازو سامان شامل ہے۔

بعض تاریخی دستاویز کے مطابق کیپانی وائی (Kepaniwai) جنگ کے دوران بادشاہ کیمامہ اور موآئی جنگجوؤں کے درمیان گھمسان رَن پڑا۔ جس میں دونوں جانب سے ہزاروں کی تعداد سپاہی اور عام افراد لقمہ اجل بن گئے۔ لیکن فتح بالآخر بادشاہ کیمامہ کو حاصل ہوئی۔اس جنگ میں فاتح بادشاہ کو موآئی جنگجوؤں سے خاؒص سونے اور ہیرے جواہرات کی وافر مقدار مالِ غنیمت میں حاصل ہوئی تھی۔خزانے کے متلاشی افراد سمجھتے ہیں کہ بادشاہ کیمامہ کا سارا خزانہ اُس کی وصیت کے مطابق اُس کی لاش کے ہمراہ مقبرے کے نزدیک کسی غار میں خفیہ طور پر دفن کردیا گیا تھا۔ گمان ہے کہ اس بیش قیمت خزانہ کو پالینو وپوئنٹ کے کہیں دفن ہوسکتاہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس خزانے میں جو سونا اور چاندی ہے صرف اُس کی مالیت ہی 5 ملین ڈالر ز کی قریب بتائی جاتی ہے۔ بہرحال یہ خزانہ ابھی تک مکمل طور پر گم شدہ ہی ہے حالانکہ اس کی تلاش میں دنیا بھرکے کئی ٹریزر ہنٹرز کئی برسوں سے مہم جوئی میں مصروف ہیں لیکن ابھی تک کسی کو بھی بادشاہ کیمامہ کے خزانے تلاش میں کامیابی نہیں نصیب ہوسکی۔

پال کرگر کا خزانہ
جنوبی افریقہ اور برطانیہ کے درمیان ہونے والی جنگ بالآخر جنوبی افریقہ کی شکست پر جاکر منتج ہوئی اور قریب تھا کہ برطانوی سپاہی اُس وقت کے جنوبی افریقہ کے صدر ”پال کرگر“(Paul Kruger) گرفتار یا قتل کردیتے کہ پال کرگر نے یورپ میں جلاوطن ہونے کا بروقت فیصلہ کرلیا اور اُس نے 29 مئی 1900 کو پایہ تخت پریٹوریا کو خیر باد کہہ کر خاموشی کے ساتھ ”مشاڈوڈور“(Machadodorp) پہنچا اور بعدا زاں 4 جون کو بذریعہ ریل گاڑی موزمبیق کے سرحدی علاقے میں چھپ گیا۔ جہاں سے ایک نجی جہاز کے ذریعے جنیوا، سوئزرلینڈ میں سیاہ پناہ حاصل کرکے رہنے لگا اور یہیں جلاوطنی کے دوران اُس کی موت واقع ہوگئی۔

پال کرگر کی موت کے بعد خبر گردش کرنے لگی کہ یہ جب جنوبی افریقہ سے روانہ ہوا تھا، اس کے پاس سونے کی اینٹوں اور سکے کے بھرے ہوئے بے شمار بڑے بڑے بکسے بھی تھے،جو اس نے بلیو ریور کے علاقے میں چھپا دیے تھے۔ یاد رہے کہ آج کل یہ جگہ ”ایمپومالنگا“(Mpumalnga Province) کے نام سے معروف ہے۔ پال کرگر کے خفیہ خزانے کی خبر اُس وقت او ربھی زیادہ اہمیت اختیار کر گئی جب1900 میں برطانوی گورنر لارڈ الفریڈ ملنر (Lord Alfred Milner) نے تصدیق کی کہ اُس نے پال کرگر کی طرف سے جنوبی افریقہ کے قومی بنک اور کرنسی چھاپنے اور سکے ڈھالنے والی ٹکسال سے سونے کی اینٹیں، سکے اور کرنسی نوٹ وسیع پیمانے پر غائب پائے گئے ہیں۔جبکہ لارڈ الفریڈ ملنر کا اپنے ذرئع کے حوالے سے یہ بھی کہنا تھا کہ ”یہ سب کچھ ”مشاڈوڈور“ سے ”موزمبیق“ بذریعہ ریل گاڑی منتقل کرنے کی کوشش کی گئی تھی،لیکن یہ خزانہ اپنی منزل مقصود تک پہنچنے سے پہلے ہی غائب کردیا گیا“۔کہاں؟ اس بابت، لارڈ الفرید ملنر اور برطانوی حکومت کچھ بھی نہیں جانتی تھی۔ لیکن خزانے کی تلاش کرنے میں اپنی زندگیاں کھپانے والے بعض گروہوں کا دعوی ہے کہ پال کرگر کا یہ بیش قیمت خزانہ جس کی مالیت 500 ملین ڈالر سے بھی زیادہ بتائی جاتی ہے،ممکنہ طور پر بلیو ریور کے آس پاس ہی کہیں دفن ہونا چاہئے۔بہرحال جگہ کی درست نشاندہی کا اندازہ ہونے کے باوجود بھی پال کرگر کا خزانہ ہنوز گم شدہ ہی ہے۔ ہاں! اتنا ضرور ہے کہ فروری 2021 بعض مقامی اخبارات کئی مضامین شائع ہوئے تھے جن میں پال کرگر کے سونے چاندی سے بھرے ہوئے دو درجن سے زائد بکسوں میں سے ایک بکسے کے دریافت ہونے کا تذکرہ کیا گیا تھا۔

اولیولیواسیر کا خزانہ
مشہور فرانسیسی قزاق اولیو لیواسیر کا خزانہ بھی ان شہرہ آفاق خزانوں میں سے ایک ہے جنہیں ابھی تک تلاش نہیں کیا جاسکا ہے۔ اولیویر کو جب 17 جولائی 1730 کی ایک صبح جب سرعام پھانسی دی جارہی تھی تو اس نے موت سے عین قبل پوری قوت سے چیخ چیخ کر لوگوں کو اپنے دفن شدہ خزانے کے بارے میں بتایا اورلوگوں کو انہیں ڈھونڈنے کی دعوت عام دی۔ اس نے یہ خزانہ دیگر کئی قزاقوں کی طرح برصغیر سے یورپ جانے والے بحری بیڑوں کو لوٹ کر جمع کیا تھا۔ واضح رہے کہ اٹھارہویں صدی میں قیمتی مال و اسباب سے لدے تجارتی جہاز براعظم افریقہ کے گرد چکر کاٹتے ہوئے یورپ جاتے تھے اور اکثر قزاق بحر ہند میں ان پر حملہ آور ہوکر بحری جہازوں میں موجود تمام دولت لوٹ لیتے تھے۔ اولیویر نے ایک برطانوی قزاق ٹیلر کے ساتھ مل کر بے شمار بحری جہازوں کو لوٹا لیکن جب اس نے فرانسیسی ایسٹ انڈیا کمپنی کے دو جہازوں اور پرتگال سے تعلق رکھنے والے ایک پادری اور اس کے ذاتی خزانے سے لدے جہاز کو لوٹا تو فرانسیسی حکومت نے اسے سبق سکھانے کا فیصلہ کرلیا۔

اولیویر نے اپنی موت سے تھوڑی دیر قبل واضح اشارہ دیا تھا کہ اس نے برطانوی، فرانسیسی، ولندیزی اور پرتگالی بحری جہازوں سے لوٹا گیا کروڑوں سونے کے سکوں اور ہیرے جواہرات پر مشتمل اپنا خزانہ بحر ہند کے سی شیلز جزیرے پر چھپایا تھا۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ اولیویر نے اپنے خزانے کے مقام کی درست نشان دہی کے لیئے اپنے خون سے تیار کیا گیا نقشہ پھانسی سے پہلے لوگوں کی طرف اُچھال دیا تھا۔ جو تقریباً ایک شخص سے دوسرے شخص سے ہوتا ہوا بالآخر ایک صدی بعد ایک برطانوی ریٹائرڈ گارڈ کے ہاتھ لگ گیا۔ ولکنزر نامی اس شخص نے جزیرے پر تلاش کا کام شروع کیا اور جزیرے کی حکومت نے بھی اس کی مالی مدد کی۔ نقشے میں دئیے گئے اشاروں کے مطابق ولکنزکچھ سرنگوں کا سراغ لگانے میں کامیاب بھی ہوگیا تھا اور اسے خزانے تک پہنچنے کے لیئے ایک خفیہ دروازہ بھی مل گیا لیکن ابھی کام جاری تھا کہ شدید سمندری طوفان نے سب کچھ تہہ و بالا کرکے رکھ دیا۔طوفان کی شدت نے ولکنز کو بھی شدید متاثر اور تھوڑے ہی دن بعد اس کی موت بھی موت واقع ہوگئی۔ اگرچہ تاحال اس خزانے کو تلاش نہیں کیا جاسکا لیکن دنیا بھر ٹریزر ہنٹرز کو پختہ یقین ہے کہ خزانہ ابھی بھی وہیں دفن ہے اور وہ کسی دن اسے ضرور ڈھونڈنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

نپولین بونا پارٹ کا خزانہ
فرانسیسی شہنشاہ نپولین بونا پارٹ نے 1812 میں اپنی افواج کے ہمراہ روس پر لشکرکشی لیکن شدید ترین سرد موسم کے سبب فرانسیسی افواج کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا اور شکست خوردہ فرانسیسی افواج کو اُلٹے قدموں واپس فرانس کی جانب لوٹنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس وقت فرانسیسی شہنشاہ نپولین نے فیصلہ کیا کہ سارا خزانہ جو سینکڑوں گھوڑا گاڑیوں اور ریل کی بوگیوں میں بھرا ہوا تھا ایک مقام پر پگھلاکر اس کو زیر زمین دبادیا جائے، اس مقصد کیلئے نپولین بونا پارٹ نے اپنے دست راست کمانڈر فلپ ڈی سیگر کو مقرر کیا تھا جس نے کسی نامعلوم مقام پر اس خزانہ کو دفنانے سے قبل تمام سونا پگھلا کر اُس کی اینٹیں بنالیں اور بعد ازاں سونے کی ہزاروں اینٹوں کو زیر زمین دفن کردیا۔حیران کن طور پر کمانڈر فلپ سیگر نے ایک فوجی کے ذریعہ اس بات کا انکشاف بھی کیا کہ اس تمام خزانہ کو فرانس جانے والے راستے سے مغربی سمت کے مخالف ایک مقامی خطے ”سیمو لنسک“ میں واقع مقامی جھیل ”سملیوو“ کے پاس دفنا دیا گیا تھا اور مذکورہ جگہ کا انتخاب فرانسیسی شہنشاہ نپولین کی ہدایت پر کیا گیا تھا کیونکہ نپولین کا یہ خیال تھا کہ وہ حالات ساز گار ہوجانے پر اس خزانہ کو خاموشی کے ساتھ واپس اپنے قبضہ میں لے لے گا، مگر شومئی قسمت کہ نپولین کو زندگی نے اتنی مہلت ہی نہ دی کہ وہ اپنا چھپائے ہوئے خزانے واپس حاصل کرپاتا۔

تاہم بہت سے افراد نے فرانسیسی شہنشاہ نپولین کے دست راست کمانڈر اور خزانہ کے نگراں فلپ سیگر کی مرنے سے قبل کہی گئی اس بات کو اپنے پلے میں باندھ لیا کہ”میں نے نپولین کا تمام طلائی خزانہ سیمولنسک میں واقع ایک جھیل سملیوو کے آس پاس دفنایاتھا“۔ ٹریزر ہنٹر ز کی اَن گنت ٹیموں نے پورے سیمولنسک خطے میں اور بالخصوص جھیل سملیوو کے اطراف تمام علاقوں کو اچھی طرح سے چھان مارا ہے، لیکن کوئی بھی شخص یا گروہ نپولین بونا پارٹ کے خفیہ خزانے کو تلاش کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ کروڑوں ڈالرز مالیت کا خزانہ آج بھی متعدد روسی کھوجیوں اور کمپنیوں کیلئے باعث دلچسپی ہے اور درجنوں روسی کمپنیاں اس خزانے کی تلاش میں متعدد مقامات پر تلاش میں مشغول ہیں۔

حیران کن بات یہ ہے کہ روسی تاریخ دان ”ویاچیسلاف ریزکوف“ نے گزشتہ برس روسی جریدے ”روبوچی پت“ میں لکھے گئے ایک مضمون میں دعوی کیا تھا کہ نپولین کا خزانہ جس مقام یعنی سملیوو جھیل کے اطراف دو سو برس سے تلاش کیا جارہا ہے، وہ غلط مقام ہے۔ چھپائے گئے خزانے کا اصلی مقام بیلا روس کی ایک جھیل ”بولشایا روتا ویک“ ہے، جہاں آج بھی نپولین کا اسّی ہزار کلو گرام کاطلائی خزانہ مدفون ہے۔ فرانسیسی شہنشاہ نپولین کے کمانڈر فلپ سیگر نے دریائے سملیوو کا نام دراصل سبھی کو گمراہ کرنے کیلئے لیا تھا اور حقیقی بات یہ ہے کہ انہوں نے اس جھیل کی مخالف سمت میں ایک مقام پر خزانہ دفنا دیا تھا اور ایک خبری کی مدد سے یہ بات پھیلا دی کہ تمام خزانہ جھیل سملیوو کے اطراف یا اس کی تہہ میں جگہ بنا کر دفنایا تھا۔ فلپ سیگر کی اس حکمت عملی کا مقصد یہ تھا کہ تمام لوگوں کی توجہ جھیل سملیوو کی جانب مبذول کروا دی جائے تاکہ سبھی لوگ خزانہ تلاش کرنے میں لگ جائیں اور کوئی بھی کھوجی درست مقام پر نہ پہنچ سکے، جو بیلا روس کا دریائے بولشایا روتاویک ہے جہاں اس خزانہ کی تلاش کی جانی چاہئے تھی۔

اس خبر کے ذرائع ابلاغ میں افشا ہونے کے فوراً بعد روسی ماہرین ارضیات نے سرکاری سرپرستی میں مذکورہ بالا مقام پر خزانے کی تلاش کا کام از سرنو شروع کردیا۔ روسی ماہرین ابتدئی طور پر اس جھیل کے پانی کا کیمیائی تجزیہ کر کے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس جھیل کے پانی میں سونے اور چاندی کے ذرات کی بڑی تعداد موجود ہے، جس سے یقین کیا جا سکتا ہے کہ یہیں نپولین کا خزانہ مدفون ہے۔ اس جھیل کی تہہ اور اطراف میں جدید سینسرز کی مدد سے ماہرین نے کھدائی مگر کئی مہینوں کی تلاش بسیار کے بعد بھی خزانہ دریافت نہ ہوسکا۔

دوسری جانب خزانے کا کھوج لگانے کے ایک اور روسی ماہر ولادیمیر پوریویو اس نئی تحقیق سے شدید اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”یہ ایک افسانہ ہے، جسے ”ویاچیسلاف ریزکوف“ نے سستی شہرت کے حصول کے لیئے تراشاہے۔ صدیوں سے تاریخ دانوں نے نیپولین کی روسی مہم کی روزمرہ پیش رفت کو دستاویز میں محفوظ کیا ہے۔۔۔اس لیئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ اپنی فوج کو چھوڑ کر 400 گھوڑا گاڑیوں پر مشتمل سونے سے لدے قافلے کے ساتھ بیلا روس فرار ہو گئے ہوں، اس لیئے خزانہ ابھی بھی روسی علاقے میں ہی موجود ہے“۔

جیسی جیمز کا خزانہ
جیسی جیمز کہنے کو تو ایک ڈاکو تھا،لیکن جیسا کہ ہمارے برصغیر پاک و ہند میں ”پھولن دیوی“ کو ایک ڈاکو ہوتے ہوئے بھی فقیدالمثال عوامی مقبولیت اور شہر ت حاصل ہوگئی تھی۔کچھ ایسی ہی غیر معمولی شہرت ایک زمانے میں ”جیسی جیمز“ کو امریکا میں حاصل تھی۔ جیسی جیمز نے ”جیمز کنفیڈریٹ“کے نام سے امریکا بھر میں ڈکیتی کے لیئے ایک مسلح گروہ بنایا ہوا تھا۔ جو عام اور غریب امریکیوں میں ”جیمز گروپ“ کے نام سے جانا جاتا تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جیسی کی ڈکیتیوں کو امریکی عوام کی جانب سے مہم جوئی اور کارناموں کی اساطیری داستانوں میں بدل کر نجی محفلوں میں ایسے تذکرہ کیا جاتاتھا جیسے وہ کوئی ”رابن ہوڈ“ ہو۔ دراصل جیسی جیمز امیروں سے چوری کرتا تھا اور لوٹی ہوا مال و دولت کا کچھ حصہ غریبوں میں تقسیم کردیا کرتا تھا۔ جیسی جیمز کے اس طرز عمل نے اسے امریکی عوام میں ”ہیرو“ بنادیا تھا۔ ایک ایسا ہیرو جس کے گن گاتے ہوئے عام عوام تھکتی نہ تھیں۔

حیران کن طور پر 3 اپریل 1882کو جیسی جیمز اپنی پناہ گاہ میں ناشتہ کررہا تھا کہ رابرٹ کی مخبری پر حکام نے دھاوا بول دیا۔ جیسی جیمز چونکہ رابرٹ کی محبت پر حد درجہ اعتبار کرتا تھا۔لہٰذا اس نے اپنے تمام ساتھیوں کو حکام سے مقابلہ کرنے کے لیئے باہر بھیج دیا جبکہ خود رابرٹ کے ساتھ ایک کمرے میں محدود ہوگیا۔جب رابرٹ فورڈکو احساس ہوا کہ حکام،جیسی جیمز کو زندہ گرفتار بھی کرسکتے ہیں تو اس نے حکام کے ساتھ طے پاجانے والے معاہدے کو خفیہ رکھنے کے لیئے عین اُس لمحے جیسی جیمز کی پیٹھ میں اپنی پستول سے گولی مار کر ہلاک کردیا کہ جس وقت وہ دیوار پر آویزاں ایک ٹیڑھی تصویر کو ٹھیک کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ جیسی جیمز فقط 34 برس کا تھا،جب اُس کے اپنے ساتھی نے ہی اُسے گولیوں کا نشانہ بنا کر ہلاک کردیا۔

چونکہ جیسی جیمز کی ہلاکت کے بعد اُس کی پناہ گاہ سے لوٹے ہوئے مال اسباب کا تھوڑا سا حصہ برآمدہوسکا تھا۔ اس لیئے عام خیال پایا جاتاہے کہ جیسی جیمز کا خزانہ اوکلاہوما کے ویکتیا پہاڑی سلسلے میں واقع کیچی پہاڑوں کی کسی غاز میں خفیہ طور پر محفوظ ہے۔ جس کے بارے میں جیسی جیمز کے ساتھیوں کو بھی کچھ معلوم نہ تھا۔ اس مقبول عام داستان پر یقین رکھنے والے ”خزانے کے شکاری“اُس علاقے موجود غاروں میں پر پائی جانے علامتوں اور بے معنی اشاروں کے بل بوتے پر آج بھی جیسی جیمز کا مدفون خزانہ تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ ایکسپریس کے سنڈے میگزین میں یکم اگست 2021 کے خصوصی شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں