Mian Mawahra

میاں محاورہ

سچی بات تو یہ ہے کہ محاورہ کے بارے میں میرا علم اُتنا ہی ہے جتناآپ کو محاورے بنانے والوں کا علم ہے لیکن میرے ایک دوست ہیں جن کا اصل نام تو خود اُنہیں بھی پسند نہیں ہے (کیونکہ اُنہیں شکایت ہے کہ اُن کے والدین نے اُن کا با محاورہ نام نہیں رکھا) لیکن وہ محلے بھر میں میاں محاورہ کے با محاورہ نام سے مشہور ہیں۔اُن کا دعوی ہے کہ نہ صرف وہ دنیا بھر کے محاوروں کی تاریخ جانتے ہیں بلکہ ضرورت پڑنے پر وہ محاورے ازخود ایجادکرنے کی خداد صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔یہ میاں محاورہ کا ہی کہنا ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں نہیں ہو سکتی،اُس پر یہ صاحب یہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر ضرورت ایجاد کی ماں ہے تو ایجاد کے والد بزرگوار کون ہیں؟

میں نے ایک مرتبہ میاں محاورہ سے اسفسار کیا کہ ”علم کا خزانہ کیا بات ہے کہ چوری نہیں ہوتا“
تو انہوں نے فرمایا ”اصل میں دراصل(یہ اُن کا محاورہ ہے)بات یہ ہے کہ علم بھاری بہت ہوتا ہے۔دلیل کے لیئے آپ کسی نرسری کلاس کے بچے کا بستہ اُٹھا کر دیکھ سکتے ہیں۔۔۔۔ اگر آپ کی صحت اجازت دے تو۔
اس مثال سے آپ علم اور عالم کے خزانہٗ علم کے وزن کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں“۔



میاں محاورہ کی ان ہی بامحاورہ دلیلوں کا جواب دینا کم از کم مجھ بے محاورہ شخص کی بساط سے تو باہر ہی ہے۔میاں محاورہ کو محاوروں پر تنقید کا بھی خاص ملکہ حاصل ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ اُن کی تنقید کی دستبرد سے صرف چند ہی محاورے بچ پائے ہیں۔اُن میں بھی زیادہ تر وہ محاورے ہیں جو انہوں نے خود ہی ایجاد کیئے ہیں اور ان کے اپنے ہی ذہن ِ رسا کی پیداوار ہیں۔

کل کی بات ہے کہ میاں محاورہ میرے پاس حاضر ہوئے۔آج خلافِ توقع صورت سے کچھ پریشان پریشان نظر آ رہے تھے کیونکہ اس سے پہلے تو میں نے ہمیشہ اُن کو ہی دوسروں کے لیئے پریشانی کا باعث بنتے دیکھا تھا۔
میں نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے اُن سے کہا!
”نصیب ِ دشمناں! آج آپ کچھ پریشان،پریشان سے دکھائی دے درہے ہیں،آخر بات کیا ہوئی ہے“۔
جواباً میاں محاورہ تقریباً چیختے ہوئے بولے ”عزیز! بات کیا ہونی ہے۔اصل میں دراصل لوگوں کی عقل بالکل ہی سلب ہوگئی ہے۔ذرا کوئی ان سے عقل کی بات کردے تو جاں سے مارنے کو دوڑتے ہیں۔وہ اپنے پروفیسر شریف ہیں نا۔۔۔!
جنہیں اپنے نام کا بھی ذرا لحاظ نہیں،اُن کا نام پروفیسر شریف کے بجائے پروفیسر بدمعاش ہونا چاہیئے تھا،ہر وقت لڑائی منہ زبانی چاہیتے ہیں کہ مصداق اہلِ علم کی دلیلوں کو اپنی ھٹ دھرمی کی غلیلوں سے رد کرتے رہتے ہیں“۔

”اصل کہانی کیا ہوئی تھی جو اتنا غصہ کر رہے ہو“۔میں نے عین بیچ گفتگو میں لقمہ دیتے ہوئے کہا۔
میاں محاورہ نے اپنا سلسلہ گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا ”ہاں!! تو میں پروفیسر شریف کے گھر بیٹھا ہوا تھا،میرے علاوہ وہاں پر علم الدین،وقار احمد اور کشور صاحب بھی موجود تھے،وہاں پر موضوع بحث چل رہا تھا”تعلیم“۔
حالانکہ یہ وہ موضوع ہے جس پر اُنہیں بحث کرنے کے بجائے اُسے حاصل کرنے کی کوشیش کرنی چاہیئے۔
ساری بات وقار احمد نے شروع کی تھی کہنے لگے ”مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ لوگ تعلیم کیوں حاصل کرتے ہیں“
جس پر پروفیسر شریف کہنے لگے ”بھئی تعلیم حاصل کرنے کا مقصد ہماری نظر میں اپنی شخصیت کو زیورِ علم سے آراستہ کرنے کے تصور سے عبارت ہے“۔
محاورے کے بارے میں پروفیسر شریف کی کم علمی کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے بطورِ اصلاح کہا کہ”جناب زیورِ علم نہیں،ہتھیارِ علم ہوتا ہے“۔
بس میرا یہ کہنا تھا وہ فوراً سیخ پا ہوگئے کہنے لگے۔

”ہم بچپن سے زیورِ علم پڑھتے آرہے ہیں آخر کیسے کہہ سکتے ہو کہ زیورِ علم نہیں بلکہ ہتھیارِ علم ہوتا ہے“۔
میں نے اُن سے کہا اصل میں دراصل بات یہ ہے کہ صرف میں ہی نہیں دنیا کے تمام بڑے بڑے دانشور علم کو دنیا کا سب سے بڑا ہتھیار قرار دیتے ہیں،میری دلیل یہ ہے کہ اگر علم زیور ہے تو جناب زیور عورتوں کی آرائش کے لیئے ہوتا ہے اور مردوں کے زیور پہننے کی اسلام نے ویسے بھی حوصلہ شکنی کی ہے۔اس مثال کی رو سے شخصیت کو زیورِ علم سے نہیں ہتھیارِ علم سے آراستہ کرنا تعلیم کا اولین مقصد اور منتہائے کمال ہے۔

اب تم خود ہی انصاف کرو میں نے کچھ غلط کہا“۔
میاں محاروہ نے جواب طلب نظروں سے مجھے تقریباً گھورتے ہوئے دیکھا
میں نے میاں محاروہ کی تیکھی نظروں اور سوال کو قطعی نظر انداز کرتے ہوئے کہا”بھئی میاں محاروہ! میرے جواب کو اپنے سوال کو فی الحال چھوڑو بس صرف اتنا بتاؤ آگے کیا ہوا۔
میاں محاورہ نے اپنا سلسلہ کلام وہیں سے آگے بڑھاتے ہوئے کہا ”بھئی ہونا کیا تھا،میری اس دلیل کو سننے کو بعد تو جیسے پوری محفل کو سکتہ ہوگیا، میری اس دلیل کو علم الدین،وقار اور کشور نے بلاکم وکاست فوراًتسلیم کر لیا بلکہ کشور نے تو مجھے یہاں تک کہہ دیا کہ”یار میاں محاورہ!تمہاری محاورہ دانی کا تو جواب نہیں“۔
”اچھا اس پر پروفیسر شریف نے کیا رد عمل ظاہر کیا“۔میں نے استفسارکیا۔
”میری دلیلوں کے بعد اُن سے کوئی جواب بنتا تو بولتے نا!
چپ چاپ بیٹھے سیخ کباب کی طرح بھنتے رہے۔اُوپر سے اُن پر ظلم یہ ہوا کہ اُن کا چھوٹا صاحبزادہ آگیااپنے ابو کو مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگا۔
”ابو جان!میری امتحان سے جان کب چھوٹے گی“۔
میں نے بچے کی تکلیف محسوس کرتے ہوئے اسے اپنے پاس بلایا اور اسے پچکارتے ہوئے کہا
”بیٹا میں تو امتحانوں کے سخت خلاف ہوں۔اصولی طور پر اگر دیکھا جائے تو آپ کے امتحان سرے سے ہونے ہی نہیں چاہیئں“۔
کشور نے بیچ میں میری بات اُچکتے ہوئے کہا”یار امتحان سے تو بچے کی قابلیت کا اندازہ ہوتا ہے۔پھر بھلا امتحان ہونا اصولی طور پر کیسے غلط ہو سکتا ہے“۔
”دیکھو کشور! اُصول اُسے کہتے ہیں جو سب کے لیئے یکساں ہو،اب تم ہی مجھے بتاؤ کیا ایک اچھے بڑھئی کے لیئے امتحان دینا ضروری ہے،کیا ایک کار مکینک اپنی قابلیت کو امتحان کے ذریعے ثابت کرتا ہے،کیا ہم کسی مستری سے مکان بنوانے سے پہلے اُس کا امتحان لیتے ہیں۔۔۔؟ یاکیا کوئی حجام دُکان کھولنے سے پہلے کسی ادارے میں امتحان دیتا ہے۔جب ان میں سے کسی کے لیئے بھی امتحان کی ضرورت نہیں ہوتی تو آخر ان معصوموں نے کونسا ایسا جرم کیا ہے جو ان سے ہر سال امتحان لیا جائے“۔
پروفیسر شریف نے یہ سننا تھا کہ فوراً مجھ سے کہا ”کھڑے ہوجاؤ“۔
”میں سمجھا شاید میری باتوں سے وہ کافی متاثر ہوگئے ہیں اور اب وفورِ جذبات سے مجھے اپنے گلے لگائیں گے۔
مگر میں جیسے ہی کھڑا ہوا،
اُنہوں نے چیختے ہوئے مجھ سے کہا:”یہاں سے فوراً دفع ہوجاؤ آئندہ کبھی یہاں کا رُخ بھی نہیں کرنا“۔
”بھری محفل میں میری اتنی تذلیل شاید ہی کبھی ہوئی ہو۔ بہر حال میں نے یہ سوچتے ہوئے کہ جاہل کے سامنے خاموش رہنا علم کی زکوۃ ہے۔اس لیئے میں بغیر کچھ کہے اُن کے گھر سے واپس آگیا۔اب یار تم ہی بتاؤ مجھ جیسے جوہر ِ قابل کے ساتھ اگر ایسا سلوک ہو گا تو کیا مجھے پریشان ہونے کا بھی اختیار نہیں“۔
میاں محاورہ کی اس مدلل و بامحاورہ گفتگو کے بعد تو میں بھی پریشان ہوگیا ہوں،میں کیوں پریشان ہوں اس کا جواب اب آپ نے تلاش کرناہے۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں