Taliban claims to control most of Afghanistan after rapid gains

افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوگئی؟

رواں ہفتہ ہونے والے امریکہ طالبان اَمن معاہدہ نے جہاں لاکھوں افغانوں کی آنکھوں میں اُمن،اُمید، آزادی اور خوشحالی کے دیئے روشن کیئے ہیں وہیں اِس معاہدہ نے بے شمار ناعاقبت اندیش اور نفرت،حسدوبدامنی کی خواہشات اپنے سینوں میں چھپا چھپا کر پالنے والوں کو اپنی ہی بھڑکائی ہوئی آگ میں لوٹ پوٹ ہونے پر مجبور پر کردیاہے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ ہزیمت تو اُن ہی عالمی طاقتوں کو حاصل ہوئی جنہوں نے طالبان جیسے بندہ صحرائیوں کو ہوا میں اُڑانے کی کوشش کی تھی اور آج خود ہی جدید ٹیکنالوجی کے ہتھیار طالبان کے قدموں میں سرنگوں کر کے خاک کا پیوند بننے کی دست بستہ اجازت طلب کررہے ہیں۔ افغان اَمن معاہدہ نے ایک بات تو پوری طرح سے اظہر من الشمس کردی ہے کہ دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ کی 20 سال تک طالبان جیسی سخت چٹان سے اپنا سر پھوڑنے کے بعد باالآخر عقل ٹھکانے پر آہی گئی ہے۔ لیکن امریکہ کے بہت سے نمک خوار یعنی شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداراَب بھی ایسے موجود ہیں۔جنہیں اپنے آقا کی عالمی جگ ہنسائی ہونے کے بعد بھی مجال ہے جو ذرہ برابر بھی عقل آئی ہو۔ یہ عقل و شعور سے کورے امریکہ کے بے دام غلام افغان اَمن معاہدہ سے ابھی بھی امریکہ کی شاندار فتح یعنی رسی کا سانپ برآمد کرنے کے فراق میں تجزیوں کی ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔شاید انہیں ڈر ہے کہ امریکہ چلا گیا تو ساتھ ہی اِن کار زق بھی اپنے ساتھ لے جائے گا۔

اپنے آپ کو سیکولر کہلوانے والی یہ ڈالر خور مافیا افغان اَمن معاہدہ کواپنی دانست میں ایک”سازشی دانہ“سمجھ رہی ہے جو امریکہ نے طالبان کو افغانستان میں حکومت کا لالچ دکھا کر نگلنے پر مجبور کیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ہمارے قارئین کی اکثریت بھی یہ ہی سمجھتی ہو کہ امریکہ اور افغان طالبان کے مابین ہونے والا یہ افغان اَمن معاہدہ طالبان نے افغانستان میں حکومت حاصل کرنے کے لیئے کیا ہے۔ اگر کسی کے ذہن میں یہ مغالطہ پایا جاتاہے تو چلیں، لگے ہاتھوں اِسے بھی دور کیئے دیتے ہیں۔ جی ہاں! طالبان نے امریکہ کے ساتھ افغان اَمن معاہدہ افغانستان میں اپنی حکومت قائم کرنے کے لیئے نہیں کیا۔ جیسا کہ عام طورپر رائے عامہ پائی جاتی ہے بلکہ طالبان نے امریکہ کے ساتھ یہ افغان اَمن معاہدہ گزشتہ کئی برسوں سے افغانستان میں قائم اپنی حکومت کو عالمی سطح پر منوانے کے لیئے کیا ہے۔جو لوگ بھی یہ سمجھ رہے ہیں یا سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ اِس وقت طالبان افغانستان کے دورافتادہ، تنگ و تاریک غاروں میں چھپے بیٹھے ہیں اور 14 ماہ بعد جب امریکی افواج کا افغانستان سے انخلاء مکمل ہوجائے گا تو وہ پہاڑوں سے نکل کر افغانستان کے شہروں اور دیہاتوں میں حکومت سنبھالنے کے لیئے آجائیں گے۔ بلاشبہ یہ سب کے سب احمقوں کی ایک عظیم الشان جنت میں رہتے ہیں کیونکہ طالبان گزشتہ کئی برسوں سے افغانستان کے 70 فیصد سے زائد علاقے پر باقاعدہ اپنا حکومتی نظام بحسن و خوبی چلارہے ہیں۔



افغانستان میں قائم طالبان کی حکومت سے متعلق 6نومبر 2018ء کو معروف عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز نے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ افغانستان میں امریکہ کی قائم کردہ کٹھ پتلی حکومت کے متوازی طالبان نے اپنی باقاعدہ حکومت قائم کی ہوئی ہے۔یہاں تک کہ افغانستان میں اب ٹیکس بھی طالبان اکٹھا کر رہے ہیں اور یہاں رہنے والے لوگ انہیں ٹیکس بخوشی دے بھی رہے ہیں۔جبکہ افغانستان میں بجلی فراہم کرنے والی سرکاری کمپنی”برشنا شرکت“ اپنے بلوں پر طالبان کا لوگو بھی چھاپتی ہے تاکہ لوگ بل ادا کریں اور وہ اس جمع کیئے گئے ٹیکس میں سے ایک مقرر کردہ رقم طالبان کوادا کرتے ہیں۔ رائٹر نے یہ بھی لکھا تھا کہ اس وقت افغانستان میں ٹیکس اکٹھا کرنے کا جو نظام طالبان نے مرتب کیا ہے، وہ کابل میں قائم امریکہ نواز حکومت سے کہیں زیادہ منظم اور موثر ہے یعنی طالبان کے زیرحکومت علاقوں رہنے والا کوئی شخص ٹیکس چوری نہیں کرتا۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ رپورٹ میں تو اِس بات کا بھی برملا اعتراف کیاگیا تھا کہ طالبان کو افغانستان کے ستر فیصد علاقہ پر مکمل انتظامی کنٹرول حاصل ہے اورطالبان کی متوازی حکومت میں لوگ زکوٰۃ اور عشر بھی باقاعدی کے ساتھ پورا پورااعین شرعی اُصولوں کے مطابق اداکرتے ہیں۔ اس کے علاوہ تمام سرحدوں پر برآمدات اور درآمدات پر کسٹم ڈیوٹی بھی طالبان کے متعین کردہ اہلکار ہی وصول کر رہے ہیں۔ جبکہ طالبان کا قائم کردہ عدالتی نظام بھی اُن کے زیرانتظام علاقوں میں نافذ ہے اور چونکہ یہ عادلانہ نظام انصاف سرکاری عدالتی نظام سے بہت بہتر ہے۔اسی لیے امریکہ نواز حکومت کے علاقوں میں رہنے والے لوگ بھی اپنے مقدمے طالبان کے پاس لے کر جا رہے ہیں اور طالبان کے فیصلے نافذ العمل بھی ہوتے ہیں۔

رائٹرز کی یہ رپورٹ دو سال قبل شائع ہوئی تھی،آپ اندازہ لگالیں آج کے افغانستان میں طالبان حکومت کی انتظامی مضبوطی اور اثرورسوخ کا کیا عالم ہوگا۔ دوسری جانب امریکہ افواج کے انخلاء کے واضح اعلان کے بعد خبریں موصول ہورہی ہیں کہ امریکہ کی قائم کردہ افغان فوج کے بڑے بڑے عہدے دار طالبان کے قائم کردہ گورنروں سے رات کی تاریکی میں نہیں بلکہ دن کے روشن اجالے میں جوق در جوق بیعت کرکے اپنی غیر مشروط حمایت کی یقین دہانیاں کروارہے ہیں۔ طالبان کی طرف سے اشرف غنی کے زیرانتظام افغان افواج پر پھر سے حملے شروع کرنے کا اعلان بھی اِس سمت اشارہ ہے کہ اَب افغانستان میں اشرف غنی،عبداللہ عبداللہ اور حامد کرزئی جیسے لے پالک سیاسی رہنماؤں کے اقتدار کا سورج ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے غروب ہونے کو ہے۔ کیونکہ طالبان اپنی بے مثال جدوجہد سے جس مقام تک آپہنچے ہیں، وہاں سے طالبان کے مقابل کھڑے ہونا نہ تو امریکہ اور نہ ہی بھارت نواز کٹھ پتلیوں کے لیئے زیادہ دیر تک ممکن ہوگا۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور میں 12 مارچ 2020 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں