AD Khawaja vs PPP

اے ڈی خواجہ کی واپسی، سندھ حکومت کے لیئے بڑا دھچکہ

حالات کا کیسا جبر ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی سندھ اسمبلی میں دو تہائی اکثریت اور سندھ کے جاگیرداروں، سیاسی خاندانوں،کاروباری افراد کے ساتھ ساتھ تمام سرکاری افسران کو اپنی جیب میں رکھنے کے باوجود بھی ایک اکیس گریڈ کے افسر اے ڈی خواجہ کے ساتھ محاذ آرائی کی خودساختہ صورت حال پیدا کر کے اپنے آپ کو دنیا بھر کے سامنے مسلسل تماشہ بنائے جارہی ہے۔ملک کی ہر گلی اور ہر کوچہ و بازار میں لوگ مذاق اُڑا رہے ہیں کہ بھٹو سیاست کے وارث،بے نظیر کے جانشین آخر کب تک ایک آئی جی کے ہاتھوں شکست پر شکست کی ہزیمت برداشت کرتے رہیں گے۔آخرآئی جی سندھ کی من پسند تعیناتی کے ساتھ پیپلزپارٹی کی اعلی قیادت کے ایسے کونسے سیاسی مفادات وابستہ ہیں کہ سندھ کے سینکڑوں سرکاری افسرن اپنے سیاسی آشرم میں جمع رکھ کر بھی پیپلزپارٹی کو سندھ میں قرار نہیں آرہا کہ اب وہ ایک آئی جی سندھ کو بھی اپنی مرضی اور منشاء کے خلاف آزادی سے اپنے فرائض کی انجام دہی کرتے ہوئے برداشت نہیں کر پارہی۔آپ خود تصور کریں کہ جس صوبے میں ننانوے فیصد افسران روز اول ہی سے صبح وشام زرداری ہاؤس اور بلاول ہاؤس کی حاضریاں بھرنا اپنے لیئے باعثِ صد افتخار سمجھتے ہوں، وہاں ایک اے ڈی خواجہ کیا واقعی پیپلزپارٹی کی سیاسی مملکت کو تاراج کر کے رکھ دے گا؟ معلوم نہیں کونسا ایسا خوف ہے کہ جس کی وجہ سے سندھ حکومت کئی ماہ سے اپنی تمام تر توانائیاں صرف اور صرف اے ڈی خواجہ کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اپنی تمام سیاسی طاقت،اثررسوخ اور بیش بہا وسائل استعمال کر کے بھی اس ایک سرکاری ملازم کے خلاف پیپلزپارٹی ذرہ برابر بھی کامیابی حاصل نہیں کر پارہی بلکہ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے ساتھ روا رکھے جانیوالی مہم جوئی کا الٹا اثر یہ ہوا ہے کہ اے ڈی خواجہ،سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پہلے سے بھی زیادہ با اختیار اور طاقت ور بن کر پیپلزپارٹی کی حکومت اور سیاسی طاقت کو چیلنج کرنے کے لیئے پوری طرح خم ٹھونک کردوبارہ سے میدانِ عمل میں آگئے ہیں اور یوں سندھ حکومت کی جانب سے آئی جی پولیس اللہ ڈنو خواجہ کی جگہ سردار عبدالمجید دستی کو تعینات کرنے کی ایک اور کوشش بری طرح ناکام ہوگئی ہے اورسندھ ہائی کورٹ کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی اے ڈی خواجہ کو آئی جی سندھ برقرار رکھنے کا حکم دے دیا۔چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کی تبدیلی سے متعلق سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف صوبائی حکومت کی اپیل کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران سندھ حکومت کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ سندھ ہائی کورٹ نے پولیس ایکٹ 2011 کو آئینی قراردیا، عدالت سندھ ہائی کورٹ نیآئی جی کو پولیس میں تبادلوں کا اختیار بھی دے دیا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ سندھ ہائی کورٹ نے بہت خوبصورت فیصلہ دیا ہے، یہ فیصلہ دوتین بار پڑھنے کے لائق ہے۔سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف صوبائی حکومت کی اپیل سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے اے ڈی خواجہ کو آئی جی سندھ برقرار رکھنے کا حکم دے دیا۔ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ سندھ میں آئی جی کی تقرری کامعاملہ مکمل طور پر عدالتی فیصلے سے مشروط ہوگا، تقرری کے معاملے پر وفاقی حکومت کے کسی اقدام کی قطعاًکوئی حیثیت نہیں ہوگی۔

آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کی ایک بار پھر سے واپسی جہاں سندھ حکومت کے لیئے مستقبل میں لوہے کے چنے ثابت ہوسکتی ہے وہیں اے ڈی خواجہ کے لیئے بھی اُن کی واپسی کانٹوں کی سیج سے کم نہیں ہوگی کیونکہ سندھ کی عوام نے اے ڈی خواجہ کے ساتھ کچھ زیادہ ہی اُمیدیں وابستہ کر لی ہیں، ایسی اُمیدیں کہ جو آج تک سندھ میں تعینات ہونے والے کسی سرکاری افسر سے وابستہ نہیں کی گئیں۔عوام کی ان اُمیدوں کو بڑھاوا دینے میں تھوڑا بہت کردار اے ڈی خواجہ کا اپنابھی رہا ہے کیونکہ جب اُن کا سندھ حکومت کے ساتھ اس کشیدگی اور تنازعہ کا آغاز ہوا تھا تو انہوں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اگر وہ سندھ ہائی کورٹ کی طرف سے دوبارہ بحال ہوگئے تو سہیل انور سیال اور انور مجید کو فوری طور پر گرفتار کر کے دکھائیں گے۔اُن کے اس بیان نے سندھ کی عوام کی آنکھوں میں اُمید کی چمک پیدا کردی تھی کہ کتنا دبنگ سرکاری افسر ہے جو سندھ حکومت کو ببانگ دہل للکار رہا ہے شایدیہ سندھ کے عوام کی اُمیدیں اور دعائیں ہی ہیں کہ جو آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ سندھ حکومت کی پوری کوشش کے بعد بھی ہر باراپنے پورے طمطراق سے واپس آجاتے ہیں مگر کیا وہ واقعی لوگوں کی ساری اُمیدیں پوری کریں گے جو لوگ اُن سے وابستہ کرچکے ہیں؟ کیا وہ آنے والے دنوں میں اپنے بیان کے عین مطابق سہیل انور سیال اور انور مجید کو گرفتار کر سکیں گے؟ یا ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو اُن کے عہدے سے سبکدوش کروا سکیں گے۔بظاہر یہ تمام کام انتہائی مشکل نظر آتے ہیں کیونکہ سہیل انور سیال اور انور مجید پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کی سیاسی طاقت کے اہم ترین سیاسی ستون تسلیم کیئے جاتے ہیں جن پر ہلکی سی بھی ضرب پیپلزپارٹی کے لیئے برداشت کرنا شاید آسان نہ ہو۔ماضی گواہ ہے کہ اس سے پہلے بھی جب چند ماہ قبل سہیل انور سیال اور سیکورٹی ایجنسیوں کے مابین ایک تنازعہ پیدا ہوا تھا تو پیپلزپارٹی نے سہیل انور سیال کو پشت پناہی فراہم کرنے کے لیئے اپنی تمام سیاسی طاقت جھونک دی تھی جس کی وجہ سے بالآخر سیکورٹی ایجنسیوں کو ہی ایک قدم پیچھے ہٹنا پڑا تھا۔ جبکہ انورمجید جن کے بارے میں عام شہرت ہے کہ وہ سابق صدر آصف علی زرداری کا دایاں بازو ہیں۔ایسی صورت حال میں آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے لیئے انتہائی مشکل ہے کہ وہ سہیل انور سیال اور انور مجید کو گرفتار کر سکیں،بہرحال اے ڈی خواجہ کی موجودہ حیثیت کو دیکھتے ہوئے اس کا م کو ناممکن بھی قرار نہیں دیا جاسکتاکیونکہ اکثر سیاسی ماہرین کا خیال ہے جس طرح اس بار پھر تمام توقعات کے برخلاف اے ڈی خواجہ نے واپسی کی ہے اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بہت جلد سندھ حکومت کو اپنے طرزعمل سے حیرانی کے ساتھ ساتھ پریشانی میں بھی مبتلا کر سکتے ہیں۔
یہاں ہمارا سندھ حکومت کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ جتنی جلد ہوسکے اس تنازعہ سے اپنے آپ کو لاتعلق کر لے تو اُس کی سیاسی ساکھ کے لیئے زیادہ بہتر ہوگا کیونکہ اگر آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ اپنے فرائض کی ادائیگی مکمل آزادی اور سندھ حکومت کی مداخلت کے بغیر انجام دیں گے تو اس سے سندھ حکومت اور پاکستان پیپلزپارٹی کے بارے میں لازماً ایک اچھا اور مثبت تاثر پیدا ہوگا جو یقینا آنے والے دنوں میں سندھ میں پیپلزپارٹی کے ممکنہ سیاسی اہداف حاصل کرنے کی راہ ہموار کرے گالیکن اگر پیپلزپارٹی نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے ساتھ بدستور محاذآرائی کا چلن برقرار رکھا تو اس سے مقتدر حلقوں میں بھی یہ خیال مزید تقویت پاسکتا ہے کہ سندھ میں دہشت گردی کے خلاف سیکورٹی اداروں کی کامیابی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سندھ حکومت خود ہے۔اس تاثر کا پیدا ہونا پیپلزپارٹی کے سیاسی مستقبل کے لیئے زہرہلاہل کے برابر ہوگا۔

حوالہ: یہ مضمون سب سےپہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 25 جنوری 2018 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں