Hot Tea Cup

اِک گرم چائے کی پیالی ہو۔۔۔

ہم پاکستانیوں کو چائے بہت پسند ہے،یہ بات ایسی ہے جسے بیان کرنے کی بھی شاید کوئی ضرورت نہیں۔کہا جاتا ہے کہ ہر سال پاکستانی تقریباً 120 ارب کپ چائے پی جاتے ہیں یعنی فی کس اوسطاً ہمارے ہاں ایک شخص 900 کپ سالانہ۔یہ اعدادو شمار شاید بوڑھوں اور بچوں سب کو ملا کر بنتا ہوگا یعنی اعداد و شمار میں شامل کیئے گئے بہت سے چھوٹے بچے تو یقینا ایسے ہوں گے جو چائے نہیں پیتے ہوں گے اگر انہیں گنتی سے نکال دیا جائے تو آپ اندازہ لگالیں ایک دن میں ایک پاکستانی کتنے چائے کے کپ پیتا ہوگا۔ ہم میں سے کسی کو سبز چائے چائے پسند ہے تو کسی کو کڑک چائے،کسی کو دم پخت چائے چاہئے اور کوئی دودھ پتی کا متوالا ہے، تو کسی کو لیموں والی چائے چاہئے اورکسی کو الائچی والی چائے سے عشق ہے جبکہ کوئی بغیر چینی کی چائے پیتا ہے تاکہ شوگر کا لیول کنٹرول میں رہے بہرحال کچھ بھی ہو ایک بات طے ہے کہ ہم چائے خوب پیتے ہیں۔ہماری کوئی بیٹھک،کوئی میٹنگ،کوئی تقریب چائے کے بغیر مکمل نہیں۔ہمارا چائے کے ساتھ والہانہ عشق اور وارفتگی کا تو یہ عالم ہے کہ تعزیت کے لیئے آنے والوں کی بھی ہم چائے ہی سے تواضع کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ہم کوئی کام شروع کرنے سے پہلے بھی چائے پیتے ہیں اور اگر کام کرتے کرتے تھک کر بے حال ہوجائیں تو پھر تھکن اُتارنے کے لیئے بھی چائے ہی کو اپنے لبوں سے مس کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔لیکن یہ سب ایک ہم ہی پر موقوف نہیں ہے اس ظالم چائے نے تو ایک عالم کو اپنی زلف کا بے دام اسیر بنایا ہوا ہے۔اسی لیئے تو دنیا بھر میں ہر سال 15 دسمبر کو ”چائے کا عالمی دن“ منایا جاتاہے۔آپ نے ”جنگ سنڈے میگزین“ کے ساتھ چائے تو کئی بار لی ہی ہوگی آئیں آج اس دن کی مناسبت سے چائے کے ساتھ ”جنگ سنڈے میگزین“کا مطالعہ کریں اور چائے کے پرلطف ذائقہ کے ساتھ چائے کی حقیقی چاہ کو بھی دل سے محسوس کریں۔

چائے کی بھی ایک کہانی ہے
آج سے کم و بیش ڈیڑھ ہزار سال پہلے قدیم چین میں کیمپفر نامی ایک بدھ بھکشو آبادی سے دور تن تنہا ایک گھنے جنگل میں نروان کے حصول میں گیان دھیان میں مصروف رہتا تھا۔اس صوفی منش مردم بیزار نے دنیا کا تما م سکھ چین اپنے اُوپر حرام کیا ہوا تھا،کھانا صرف زندہ رہنے کے لیئے کھاتا،کسی سے بات کیئے تو کئی سال بیت چکے تھے اور نیند کا یہ عالم تھا کہ اپنی اکثر راتیں مسلسل جاگ کر سخت تپسیا میں بسر کرتا تھامگر ایک رات وہ نیند کی دیوی کے آگے اتنا مجبور ہوا کہ سخت ریاضت کا عادی ہونے کے باوجود بھی اپنی نیند پر قابو نہ رکھ سکا اور نیند کی دیوی کی گود میں سر رکھ کر سو گیا جب آنکھ کھلی تو اپنی نفسانی غفلت پر سخت طیش میں آگیا اور اپنے نفس کو سزا دینے کے لیئے اس نے اپنی دونوں پلکیں نوچ کر زمین پر پھینک دیں۔پلکوں کا زمین پر گرنا تھا کہ وہاں ایک پودا پھوٹ پڑا۔ کیمپفر نے اس پودے کو خدائی انعام سمجھتے ہوئے اس کے چند پتے توڑے اور اپنے منہ میں رکھ لیئے۔اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب ان پتوں کے چباتے ہی اسے اپنے جسم و روح میں ایک نئی توانائی محسوس ہونے لگی اور نیند کی دیوی چیختی چلاتی اس سے کوسوں دور بھاگ گئی۔کیمپفر نے نیند بھگانے کا یہ پودا بعد میں اپنے شاگردوں کے حوالے کردیا۔اس طرح سے پورے قدیم چین کو چائے جیسی انمول چیز ہاتھ آگئی۔یہ دیومالائی داستان موجودہ چین اور جاپان میں زبان زدِ عام ہے۔لفظ چائے چینی زبان کا لفظ ہے،جو دو لفظوں ”چا“ اور ”ئے“ کامرکب ہے۔”چا“ اُس گرم پانی کو کہا جاتا ہے جس میں اس پودے کے پتے کو جوش دیا جاتا ہے اور ”ئے“اُس پتی کو کہتے ہیں جو پینے کے لیئے نہیں بلکہ پھینکنے کے لیئے ہوتی ہے۔دنیا بھر میں چائے کے لیئے بولے جانا والا لفظ تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ یا من و عن چینی زبان سے ہی اخذ کیا گیا ہے۔چائے کے پودے کا سائنسی نام ”کیمیلیا سائنسس“ ہے۔چائے کی ایک ہزار سے زیادہ اقسام پائی جاتی ہیں لیکن تین زیادہ معروف ہیں یعنی سفید،سبز اور سیاہ چائے۔شاید آپ کے لیئے یہ بات حیرانی کا باعث ہوکہ چائے کی تمام اقسام ایک ہی پودے سے تیار کی جاتیں ہیں۔اگر اس کے پودے سے سبز چائے تیار کرنی ہو تو اسے سائے میں اُگایا جاتا ہے پھر چائے کی پتیوں اور کلیوں کو توڑ کر پہلے انہیں خشک کیا جاتا ہے۔ انہیں کتنا سکھانا ہے یہ ہی اس بات کو طے کرتا ہے اس سے کونسی چائے بنے گی۔سفید چائے بنانی ہو تو ان پتیوں کو بہت کم سکھایا جاتا ہے۔سبز چائے بنانے کے لیئے پتیوں کو صرف ایک دن سکھایا جاتاہے اور اگر سیاہ چائے یعنی بلیک ٹی تیار کرنا مقصود ہوتو پھر ان پتیوں کو کئی روز تک سکھایا جاتاہے۔ سیاہ چائے یعنی بلیک ٹی ہی دنیا میں سب سے زیادہ استعمال کی جاتی ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں چائے کی مجموعی کھپت کا 78 فیصد حصہ سیاہ چائے کا ہی ہے۔دنیا میں سب سے مہنگی چائے کی قسم ”دا ہونگ پاؤ“ کہلاتی ہے۔اس کی قیمت ایک ملین امریکی ڈالر فی کلوگرام ہے یعنی پاکستانی کرنسی میں یہ قیمت دس کروڑ باون لاکھ روپے بنتی ہے۔

چائے بنانے کے عجیب و غریب طریقے
روسی طریقے سے چائے بنانے کااب پھر دنیا بھر میں رواج ہو رہا ہے اور حقیقت میں اس سے زیادہ فرحت دینے والی اورکیا چیز ہوسکتی ہے کہ سادہ اور صاف چائے کی پیالی ہو اور اس میں لیموں کی ایک قاش تیر رہی ہو۔اس میں شکر حسبِ ذائقہ ملالی جاتی ہے اور یہ عموماً مصری کی صورت میں پیش کی جاتی ہے۔ڈاکٹر سگمنڈ فرائڈ نے اپنی سیاحتِ روس کے حالات بیان کرتے ہوئے ایک مرتبہ کہا تھا کہ میں نے اپنی عمر میں بہترین چائے ایک روسی کے ہاں سے پی تھی جس نے ایک پتیلی میں پانی اور چائے ڈال کر چولہے پر رکھ دیا اور جب وہ اُبلنے لگی تو اُس نے کہا کہ چائے تیار ہے اور اس میں کوئی اور چیز نہیں ملائی گئی۔مگر اس قسم کی چائے کی پتیاں پہلے ہی سے کئی کئی ہفتوں تک گلِ یاسمین یا دیگر خوشبودار پھولوں میں بسائی جاتی ہے۔
شام کے لوگ چائے کا جوشاندہ تیار کرلیتے ہیں اور مصری کی ایک ڈلی اپنے منہ میں رکھ کر چائے پینا شروع کردیتے ہیں۔مگر چینی جو چائے سے زیادہ اس کی خوشبودار مہک حاصل کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں چائے کے چند پتوں پر گرم پانی انڈیل کر جلد ہی پیالیوں میں ڈال لیتے ہیں۔چین کے مشہور ادیب لن یوتانگ نے ایک جگہ چائے بنانے کا سنہری اُصول بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پینے والا خود ہی اپنے لیئے چائے بنائے اور ایک وقت میں ایک برتن میں دو سے زیادوہ چائے کی پیالیاں قطعاً نہ بنائی جائے۔اگر آج کے مصروف دورمیں اس طریقہ کار پر عمل کر لیا جائے تو شاید پھر چائے پینے کے لیئے وقت ہی نہ میسر آسکے۔
تبت کے لوگ سب سے عجیب طریقے کی چائے پیتے ہیں وہ پہلے چند گھنٹوں تک چائے کو ایک برتن میں اُبالتے رہتے ہیں یہاں تک کے اُس کا رنگ گہرا سیاہ ہوجاتاہے اور بعض اوقات تو چائے پانچ پانچ دن تک آگ پر چڑھی رہتی ہے پھر اس میں سے تھوڑا سا رس لے کر اس میں تازہ گرم پانی ملاتے ہیں اور شکر کے بجائے اس میں تھوڑا سا سوڈا اور مکھن کی ایک گولی ڈال لیتے ہیں۔چائے میں ڈالنے کا مکھن بھی اُن کے ہاں انتہائی عجیب طریقے سے تیار ہوتا ہے۔اس مکھن کو زمین میں دفن کردیا جاتاہے یہاں تک کے اس میں انتہا درجے کی بدبو پیدا ہوجاتی ہے جن گڑھوں میں دلائی لامہ یا تبت کے اہم ترین افراد کے لیئے مکھن تیار ہوتا ہے وہ مکھن پچاس پچاس سال بلکہ اس سے بھی پرانا مکھن ہوسکتا ہے۔چنانچہ جس چائے میں یہ مکھن ملایا جاتا ہے اُس کی ”مہک“صرف تصور میں آسکتی ہے،بیان سے باہر ہے۔
چائے بنانے کے یہ طریقے شاید اہلِ مغرب کو کچھ عجیب سے معلوم ہوتے ہوں گے لیکن خود اُن کے ہاں بھی چائے بنانے کے کچھ کم انوکھے طریقے رائج نہیں ہیں۔مثلاًاہلِ مغرب جنہوں نے چائے کو ہم سے متعارف کروایا اور جو اپنے آپ کو عقل و دانش کا سرچشمہ سمجھتے ہیں وہ برسہا برس چائے استعمال کرنے کا درست طریقہ نہ جان سکے۔وہ چائے کو پانی میں پکا کر اس کے عرق والا پانی پھینک دیتے تھے اور پتی نوش جاں کر لیتے تھے۔سالہا سال کے بعد انہیں اپنی اس حماقت کا ادراک ہوا پھر انہوں نے چائے کو چائے کے طریقہ سے پینا شروع کیا۔معروف مصنف وکٹرہیوگو نے چائے میں تھوڑی سی شراب ڈالنے کا فیشن نکالااور لارڈ ملٹن ہمیشہ چائے میں ٹھنڈے پانی کی ایک پیالی ملا کر یکدم چڑھا جایا کرتے تھے۔
معروف مصنف ولیم ہیزلٹ اپنی چائے ہمیشہ نہایت احتیاط سے تیار کیا کرتا تھا۔پہلے وہ اپنی چائے دانی کو نہایت قیمتی سیاہ چائے سے آدھی کے قریب بھر لیتا تھا پھر اس پر کھولتا ہوا پانی ڈال لیتا تھا اور پھر فوراً پیالی میں اُلٹ کر بہت سی شکر اور بالائی ڈال کر پی جاتا تھا۔

چائے کی پیالی میں ”سیاسی“طوفان
ویسے تو ہمارے ہر سڑک کنارے قائم چائے خانے سیاسی گفتگو اور بحث و مباحثے کا مرکز گردانے جاتے ہیں لیکن کم از کم دنیا میں دو چائے خانے ایسے ضرور ہیں۔ جنہیں اس حوالے سے خاص شہرت ِ دوام حاصل ہے۔ایک تو لاہور میں قائم ”پاک ٹی ہاؤس“ اور دوسرا مصر کے شہر قاہرہ میں قائم ”ڈی رچ کیفے ٹیریا“ جسے مصری لوگ ریش کیفے ٹیریا بھی کہتے ہیں۔یہ دونوں چائے خانے اپنے قیام سے ہی ہر احتجاجی تحریک کا نمائندہ مرکز رہے ہیں۔”پاک ٹی ہاؤس“لاہور قیام پاکستان سے لے کر نوے کی دہائی تک ایک ادبی،تہذیبی،ثقافتی اور سیاسی علامت کے طور قائم رہا۔یہاں صبح سے لے کر رات تک کیسی کیسی شاندار محفلیں جمی رہتی اس کا آج کے دور میں تصور بھی محال ہے۔اُردو کی بہترین غزلیں،بہترین نظمیں،بہترین ڈرامے اور شاہکارمضامین یہیں لکھے گئے۔یہاں آنے والی نابغہ روزگار شخصیات میں فیض احمد فیض،ابنِ انشاء،احمد فراز،سعادت حسن منٹو، انتظار حسین،سید قاسم محمود اور اشفاق احمد شامل تھیں۔ جو اپنے سامنے رکھی چائے کی پیالی میں وہ،وہ طوفان برپا کرتی کہ جن کی شدت اُس دور کے حکومتی ایوانوں میں بھی واضح طور پر محسوس کی جاتی۔ جب جب پاکستان کی تہذیبی و ثقافتی تاریخ کو قلمبند کیا جائے گا ”پاک ٹی ہاؤس“ کانام تب تب سنہرے حرفوں سے لکھا جائے گا۔
جو کردار ہماری ملّی تاریخ میں ”پاک ٹی ہاؤس“ نے ادا کیا،بالکل ایسے ہی کردار قاہرہ میں ”ڈی رچ کیفے ٹیریا“کا بھی رہا ہے۔یہ کیفے ٹیریا 1919 ؁ء سے اب تک ہر بڑی سیاسی واحتجاجی تحریک کا نقطہ آغاز رہاہے۔مصر میں اپنے عہد کے مقبول ترین ادیب،شاعر،ڈرامہ نگار،صحافی اور سیاست دان اپنا زیادہ تر وقت یہیں گزارتے تھے۔80 ء کی دہائی میں نوبل انعام یافتہ ناول نگار نجیب محفوظ اسی کیفے میں پائے جاتے تھے۔آج بھی تحریر اسکوائر میں ہونے والے مظاہروں میں شامل نوجوان طالب علم،فن کار، اور کئی نامور شاعر ادیب بھی مظاہرے کے دوران چائے پینے اور نئی سیاسی حکمت عملیاں ترتیب دینے کے لیئے اس ”ڈچ رچ کیفے ٹیریا“ کا رخ کرتے ہیں جو تحریر اسکوائر کے بالکل ساتھ ہی واقع ہے۔

چائے کی پیالی میں قسمت
چائے کی پیالی میں قسمت پڑھنے کا آغاز قدیم چین میں ہوا۔قسمت کا حال جاننے کے لیئے استعمال کی جانے والی چائے کی پیالیاں کشادہ دہانے اور ڈھلوانی دیواروں کی ہونی چاہئیں۔ان کی اندرونی سطح بالکل ہموار اور کسی بھی قسم کے نقوش سے پاک ہونی چاہئے۔رنگت سفید یا پھر ہلکی ہو۔گہر ی رنگت کی پیالیاں غیرموزوں تصور کی جاتی ہیں۔اس بات کو نہایت اہمیت کا حامل خیال کیا جاتا ہے کہ جس شخص کی قسمت کا حال معلوم کرنا مقصود ہو چائے وہی پئے اور آخر میں صرف اتنی چائے ضرور چھوڑ دے،جس میں پتیوں کو ہلایا جاسکے۔اس کے بعد چائے کی پیالی کا دستہ بائیں ہاتھ میں پکڑ کر چائے کی بچ جانے والی پتیوں کو تین مرتبہ گھڑی وار گردش دے۔دورانِ گردش اس بات کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے کہ چائے کی پیالی میں بچی ہوئی چائے گردش کرتے،کرتے پیالی کے کناروں تک ضرور آجائے۔اس کے بعد پیالی کو پرچ میں اُلٹ دیا جاتا ہے۔اب قسمت کا حال بتانے والا،پیالی کو سیدھا کرتا ہے،دستے کا رخ اپنی طرف رکھتا ہے اور چائے کی پتیوں سے مستقبل بینی کا مطالعہ شروع کردیتا ہے۔سب سے پہلے وہ پتیوں کی بننے والی شکل یا علامت کا جائزہ لیتا ہے بہت سی پتیوں ایک ہی جگہ جمع ہونا بھرپور اور مکمل زندگی کی علامت ہوتا ہے جبکہ بکھری پتیاں غیرمنظم ذہن کا پتا دیتی ہیں۔کپ کا دستہ صاحبِ قسمت کی حالیہ زندگی سے وابستہ خیال کیا جاتا ہے۔چائے کی پیالی سے قسمت معلوم کرنے کافن مستقبل بینی کے دیگرتمام علوم کے مقابلے میں انتہائی دلچسپ علم تصور کیا جاتاہے۔دنیا کے کئی ممالک اور کئی اقوام بالخصوص چینی قوم اس علم پر بہت زیادہ اعتقاد رکھتی ہے۔

چائے اور شاعری
شاعروں کو چائے سے خاص اُنس اور محبت ہوتی ہے اور جس شئے سے شاعروالہانہ محبت کرے اور اُس پر شعر نہ کہے ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔ویسے تو شاعروں نے چائے پر پوری پوری غزلیں اور نظمیں لکھیں ہیں لیکن تنگی داما ں کی وجہ سے ہم یہاں صرف چند اشعار آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نظر کررہے ہیں۔
ہنس پڑی شام کی اُداس فضا
اس طرح چائے کی پیالی ہنسی (بشیر بدر)
……
تجھ میں کس بل ہے تو دنیا کو بہا کر لے جا
چائے کی پیالی میں طوفان اُٹھاتا کیا ہے (شہزاد احمد)
……
گھی،مصری بھی بھیج کبھی اخباروں میں
کئی دنوں سے چائے ہے کڑوی یا اللہ (ندافاضلی)
……
چھوڑ آیا تھا میز پر چائے
یہ جدائی کا استعارہ تھا (توقیر عباس)
……
ذرا سی چائے گری اور داغ داغ ورق
یہ زندگی ہے کہ اخبار کا تراشہ ہے (عامر سہیل)
……
شب ڈھلی اُٹھنے لگے ہوٹل سے لوگ
چائے کا یہ دور اُس کے نام پر (ناصر شہزاد)
……
قمقموں کی طرح قہقہے جل بجھے
میز پر چائے کی پیالیاں رہ گئیں (خالد احمد)
……
کن خیالات میں یوں رہتی ہو کھوئی کھوئی
چائے کا پانی پتیلی میں اُبل جاتا ہے (کفیل آزر امروہوی)
……
چائے کی ٹیبل پہ بھی یکجا نہیں ہوتے ہیں ہم
سوچتی ہوں ایک گھر کے کتنے خانے ہوگئے (ریحانہ قمر)
……
بکھرتا جاتا ہے کمرے میں سگرٹوں کا دھواں
پڑا ہے خواب کوئی چائے کی پیالی میں (نذیر قیصر)

رنگ میں ہیں سارے گھر والے کھنک رہے ہیں چائے کے پیالے
دنیا جاگ چکی ہے لیکن اپنا سویرا نہیں ہوا ہے (شارق کیفی)
……
اپنی زوجہ کے تعارف میں کہا اک شخص نے
دل سے ان کا معترف ہوں،میں زبانی ہی نہیں
چائے بھی اچھی بناتی ہے میری بیگم مگر
منہ بنانے میں تو ان کا کوئی ثانی ہی نہیں (انور مسعود)

چائے ہو اور لطیفہ نہ ہو۔۔۔
چائے اور لطیفہ کا بڑا گہرا رشتہ ہے،اکثر لوگوں کو چائے کا کپ ہاتھ میں تھامتے ہی لطیفے یاد آنا شروع ہو جاتے ہیں۔صرف یہ ہی نہیں ہمارے ملک میں ایک ایسا بھی چائے خانہ پایا جاتا ہے جہاں ایک چائے کے کپ کے ساتھ تین لطیفے مفت میں سننے کو ملتے ہیں۔یہ چائے خانہ قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں غازی بیگ کے مقام پر لبِ سڑک واقع ہے جہاں صوبہ خیبر پختونخواہ کا معروف مزاحیہ فنکار اور شاعر ”میر اوس“اپنے ہاں چائے پینے والوں کو مفت میں لطیفے سنا کر محظوظ کرتاہے۔ کچھ لطیفے چائے نوش کرتے کرتے بھی بن جایا کرتے ہیں۔چائے اور لطیفوں کے باہمی رشتہ کو سمجھے کے لیئے کچھ منتخب لطیفے پیش خدمت ہیں۔
جگن ناتھ آزاد اٹلانٹا تشریف لے گئے تو چائے دیتے ہوئے میزبان نے پوچھا کہ آزاد صاحب چینی کتنی لیں گے؟جواب دیا۔”اپنے گھر میں تو ایک ہی چمچ لیتا ہوں،لیکن باہر چائے پینے پر ۲،۳ چمچ سے کم چینی نہیں لیتا۔“ اس پر میزبا ن نے ایک چمچ چینی ان کی چائے میں ڈالتے ہوئے کہا”آزاد صاحب اسے اپنا ہی گھر سمجھئیے“۔
……
جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ایک تقریب میں مخصوص شعرا ء کو مدعو کیاگیا جن میں علی سردار جعفری اور فرقت کاکوروی بھی شامل تھے۔مشاعرے سے پہلے بے تکلف گفتگو کا دور چل رہا تھا۔سردار جعفری سب دوستوں کو چائے بنا کر پیش کر رہے تھے۔فرقت صاحب کو گفتگو میں منہمک دیکھ کر جعفری صاحب کو مذاق سوجھا۔انہوں نے فرقت صاحب کی پوری پیالی شکر سے بھر دی اور اس میں چند قطرے چائے کے ڈال کر پیالی فرقت صاحب کی طرف بڑھادی۔فرقت صاحب گفتگو میں منہمک رہے اور پیالی ہونٹوں تک لے گئے جس میں چائے ندارد صرف شکر ہی شکر تھی۔فرقت صاحب فوراً سمجھ گئے اور معاًکہا”اچھا جعفری صاحب کوئی بات نہیں،آج میں پھیکی چائے ہی پی لوں گا“۔
……
اسلام آباد میں جوش صاحب کی کوٹھی میں شعرائے کرام کی نشست تھی۔خواتین میں پاکستان کی مشہور شاعرہ پروین شاکر بھی موجود تھیں۔کچھ دیر بعد مہمانوں کے لیئے چائے لائی گئی تو پروین شاکر مہمانوں کے لیئے چائے بنانے کا فریضہ سرانجام دینے لگیں۔وہ ہر ایک سے دودھ اور چینی کا پوچھ کر حسبِ منشا چائے بنا کر دے رہی تھی۔آخر میں انہوں نے جوش صاحب سے دریافت کیا :”آپ کے لیئے کتنی چینی؟“
”ایک چمچ“ جوش صاحب نے جواب دیا۔دوبارہ پروین شاکر نے پوچھا:”جوش صاحب اور دودھ کتنا؟“
”بس دکھا دو“جوش صاحب نے جواب دیا اور اس پر محفل میں ایک زوردار قہقہہ بلند ہوا اور پروین شاکر جھنیپ کر رہ گئیں۔
……
ایک بار معروف بھارتی ادیب خشونت سنگھ اپنے ایک دیہاتی دوست کو چائے پلانے کے لیئے کسی فیشن ایبل ہوٹل میں لے گئے اور ویٹر سے چائے پینے کی خواہش ظاہر کی،ویٹر چائے کی چھوٹی سی دو پیالیاں لے آیا اور ایک چائے کی پیالی خشونت سنگھ اور دوسری اُن کے دیہاتی دوست کے سامنے رکھ دی۔خشونت سنگھ کے دیہاتی دوست نے ایک گھونٹ میں ہی چائے ختم کردی اور خشونت سنگھ سے مخاطب ہوا۔”بھئی! میٹھا بالکل ٹھیک ہے،اب چائے منگوالو“۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 10 دسمبر 2017 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں