Daeesh K Bachay

داعش کے بچے

یہ تین سال پہلے کی بات ہے،اُس وقت میر ی عمر نو سال تھی،گاؤں میں داعش کے قابض ہونے کے بعد میرا اسکول میں آج پہلا دن تھا۔اسکول کا منظرنامہ کچھ بدلا بدلا محسوس ہو رہا تھایہ وہ اسکول نہیں تھا جہاں میں پہلے آیا کرتا تھا۔اُستاد وہی تھے مگر ان کی وضع قطع بدل چکی تھی،آنکھوں میں اپنائیت کے بجائے ایک انجانا سا خوف دکھائی دے رہا تھاجسے سمجھنا اُس وقت میرے لیئے آسان نہیں تھا۔

اسکول کے اسمبلی ہال میں ہمیں سب سے پہلے داعش کے بارے میں تقصیل سے بتایا گیا جس کا لب لباب جو مجھے سمجھ آیا وہ یہ تھا کہ ”اس وقت پوری دنیا میں اسلامی تعلیمات اور فکر و عمل کی اصل نمائندہ صرف داعش ہی ہے“اور یوں اُس دن ہماری ایک نئی طرز کی تعلیم کا باقاعدہ آغاز ہوا جس میں ہمیں سمجھایا جاتاتھا کہ ”داعش یا اُس کی فکر کا مخالف جو کوئی بھی ہو اُسے مارنا کسی بھی مسلمان کے لیئے ایک اعزاز سے کم نہیں اس لیئے جو اس اعزاز کو بار با ر حاصل کرے گا اس سے بڑھ کر اسلام سے محبت کرنے والا اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا“۔

یہ مضمون بھی پڑھیئے: چین اور امریکا کے مابین “خلائی جنگ” ہونے کو ہے؟

ہمیں دوران تعلیم بہت سے ہتھیار چلانے کی تربیت بھی دی جاتی مگر سب سے اچھا مجھے اپنے اس نئے اسکول کی تعلیم کا وہ حصہ لگتا جب ہمیں فلمیں دکھائی جاتیں تھی یہ کوئی عام فلمیں نہیں تھی،یہ حقیقی فلمیں تھیں جن میں داعش کے سپاہیوں کو لڑتے ہوئے اور دشمنوں کو سخت سے سخت موت مارتے ہوئے دکھایا جاتا تھا۔سب بچوں کو یہ فلمیں دیکھ کر اس لیئے بھی مزہ آتا تھا کہ ہم میں سے کسی نے بھی اس سے پہلے ایسے مناظر والی فلمیں نہیں دیکھیں تھیں۔فلم کے اختتام پر ہم سے ہمارے استاد فلم کے متعلق مختلف قسم کے سوالات بھی کرتے جن کے درست جوابات دینے والے بچوں کو انتہائی خوبصورت انعام بھی دیئے جاتے۔کچھ انعام کا لالچ اور کچھ فلم سے رغبت۔۔۔۔،ہمیں اس بات پر مجبور کرتی کہ ہم فلم کے ایک ایک منظرکو انتہائی انہماک اور دلچسپی سے دیکھیں۔

میں نے پہلے کافر کا قتل اپنے استاد کے کہنے پر ہی کیا تھا،حالانکہ وہ کافر کہنے کو ایک شامی مسلمان ہی تھا مگر ہمیں اُس کے بارے میں یہ بتا یا گیا تھا کہ چونکہ یہ شخص داعش کا دشمن ہے اس لیئے اسے قتل کرنا ایک اہم اور قومی فریضہ ہے۔

ہر دس یا پندرہ دن بعد کسی نہ کسی شخص کو ہمارے اسکول میں قیدی بنا کر لایا جاتا تھاجہاں ہم میں سے بڑے بچوں کو جو زیادہ بہادر اور نڈر ہوتے تھے اُن کے سامنے یا اُن کے ذریعے سے اُسے قتل کردیا جاتا تھا یہ ہماری تعلیم کا وہ حصہ تھا جس سے سرخرو ہونے کے بعد ہمیں اگلے درجے میں ترقی دے دی جاتی تھی اور پھر ہمیں داعش کے ہر اول دستے کا سپاہی بننے کا اہل بھی سمجھ لیا جاتا تھا۔آپ میری عمر پر نہ جانا میں اب تک گیارہ لوگوں کو قتل کر چکا ہوں۔

یہ کہانی محمد صالح کی ہے جو اس نے ترکی کے جنوبی دیہات ریہانلی میں قائم شامی مہاجرین کے کیمپ میں ایک صحافی کو سنائی۔مگر یہ صرف ایک محمد صالح کی کہانی نہیں بلکہ اس کیمپ میں موجود ہر بچے کی داستان کم و بیش اس سے ملتی جلتی ہی ہے جنہوں نے داعش کے زیر انتظام اسکولوں میں کئی کئی سال تعلیم حاصل کی۔محمد صالح اس وقت بارہ سال کا اور اسے داعش کے اسکول کو چھوڑے ہوئے نو مہینے ہوچکے ہیں مگر وہ آج بھی داعش اور اسکے جنگجووں کو پسند کرتا ہے۔ جس کے بارے لزبتھ وین در ہیدی(سربراہ خصوصی بین الاقوامی بحالی مرکز برائے متاثرینِ دہشت گردی، ھیگ) کا کہنا ہے کہ ”محمد صالح یا اس جیسے دیگر بچوں کو داعش کے تشدد آمیزخیالات سے چھٹکارے کے لیئے ابھی مزید وقت لگے گا کیونکہ دماغ کوئی کمپیوٹر نہیں ہے کہ جس میں داخل کی جانے والی معلومات کوصرف ایک بٹن دبانے سے مٹا دیا جائے۔“

لزبتھ وین در ہیدی کا مزید کہنا ہے کہ”داعش کے پاس ایسے بہت سے وسائل اور مواقع ہیں کہ جن کو استعمال کرتے ہوئے وہ اپنے زیرِ انتظام علاقوں میں رہائش پذیر بچوں کو اپنی مرضی کے مطابق تعلیم دے سکے۔ داعش حقیقی معنوں میں ایک ریاست چلارہی ہے جہاں وہ شہریوں کو تعلیم، صحت کی بنیادی سہولیات اور قانونی امدادجیسی بنیادی ضروریات فراہم کر رہی ہے۔جس وجہ سے داعش کے لیئے یہ ایک آسان کام ہے کہ وہ بچوں کی ذہن سازی کر کے اُنہیں اپنے لیئے استعمال کرلے اور سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ انٹرنیٹ اورجدید ذرائع ابلاغ کے استعمال کی وجہ سے دنیا بھر کے بچے اور نوجوان اُن کے نشانے پر آگئے ہیں“۔
داعش نے اپنے زیرِانتظام علاقوں میں قائم اسکولوں کے اساتذہ کے لیئے بھی لازمی تربیتی کورس ترتیب دیا ہوا ہے جس میں انہیں سکھایا جاتاہے کہ بچوں کیا پڑھانا اور کس طرح پڑھانا ہے۔بہت سے نصابی کورس جن میں پہلے تاریخ اور ادب شامل تھے، انہیں نصاب سے خارج کردیا گیا ہے جبکہ حساب، عربی اور اسلامی تاریخ کے مضامین کو، گو کہ برقرار رکھا گیا ہے مگر داعش کی طے کردہ نصابی ترجیحات کے مطابق۔تمام اسکولوں میں صرف داعش کی طرف سے چھپائی کردہ نصاب اور درسی کتب ہی فراہم کی جارہی ہیں۔داعش کی طرف سے فراہم کردہ اساتذہ کے لیئے تربیتی نصاب ہو یا بچوں کی لیے درسی کتب سب میں صرف اور صرف شدت پسند نظریات کی ہی تکرار ہے جس میں جگہ،جگہ ایک ہی بات پر زور دیا جاتا ہے کہ داعش مخالف ہرشخص کو قتل کرناعین قومی و ملی فریضہ ہے۔حد تو یہ ہے کہ بچوں کو حساب میں ایک سیب جمع دو سیب برابر تین سیب کے بجائے پڑھایا جارہا ہے کہ ایک گولی جمع دو گولی برابر ہے تین گولیوں کے۔درسی کتب اور نصاب میں شدت پسندانہ نظریات کا یہ غلبہ بچوں کے والدین کے لیے بھی سخت تشویش کا باعث ہے۔

بچوں کے ذہنوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیئے ایک اور ہتھیار جسے درسی نصاب میں بہت زیادہ استعمال کیا جارہا ہے وہ فلمیں ہیں جن میں داعش کے جنگجوؤں کو ”سپر ہیرو“یعنی مافوق الفطرت ہستیوں کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ان فلموں میں مختلف النوع طریقوں سے لوگوں کو قتل کرنا اور قتل کرنے کے بعد ان کی نعشوں اور اعضا ء کی بے حرمتی کرنے کے نت نئے انداز دکھائے جاتے ہیں۔یہ فلمیں نہ صرف اسکولوں میں دکھائی جاتی ہیں بلکہ بچوں کو آئی فون،آئی پیڈ اور میموری کارڈ کی شکل میں بھی بطور تحفہ فراہم کی جاتی ہیں اور بچے ان تحائف اور فلموں کو پسند بھی بہت کرتے ہیں۔جب کم عمر بچے داعش کے جنگجو ؤں کا پرتعیش طرزِ زندگی دیکھتے ہیں کہ وہ گاڑی،روپیہ پیسہ اور طاقت کا کس طرح بے دریغ استعمال کررہے ہیں، اس سے ان کے ذہنوں میں بھی یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ وہ ان جیسا بنیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ 2014 سے اب تک صرف ایک شہر”دری زور“ سے ایک ہزار سے زائد بچوں کا داعش میں باقاعدہ بھرتی ہونے کا انکشاف ہو اہے ان بچوں کو داعش چوری،منشیات،اسمگلنگ،اغواء اور خودکش حملوں سمیت دیگر مہلک کارروائیوں میں استعمال کرتی ہے اس کے علاوہ ان بچوں کو دیگرہم جماعت اور ہم عمر بچوں کو داعش میں شمولیت کے لیئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

دیمان محمد بائذ نامی ایک خاتون داعش کی تعلیمات اور نظریات سے متاثرہ بچوں کے لیئے ایک ادارہ چلاتی ہیں جس میں ایسے بچوں کی دیکھ بھال کی جاتی ہے جو کسی نہ کسی طریقے سے بھاگ کر یا داعش کے زیرانتظام شہروں سے ملحقہ ممالک کی سرحدوں سے گرفتار ہوکر شامی مہاجرین کے کیمپوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ دیمان محمد بائذ بیان کرتی ہیں کہ”جب میں نے پہلی مرتبہ ان بچوں کو دیکھا تو میں ڈر گئی تھی،بکھرے بال،داعش جنگجوؤں کی مخصوص وردی زیب تن کیئے ہوئے،زرد چہرے کے حامل یہ بچے۔۔۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ قابلِ رحم ہیں یا قابلِ نفرت۔جب میں ان بچوں کے چہرے دیکھتی تو مجھے ان پر ترس آتا اور جب میں ان کے کارنامے یا جرائم ان کے منہ سے سنتی تو مجھے خوف محسوس ہوتا تھا۔ان کی ذہنی و اعصابی صلاحیتیں داعش کے زیرِ سایہ رہنے سے تباہ ہو چکی تھیں۔ہم نے انہیں نہ صرف اپنے ہاں پناہ دی بلکہ انہیں ماضی سے واپس ایک صحت مند اور پرامید معاشرہ کا حصہ بننے میں مدد بھی فراہم کی۔اس وقت ہمارے پاس 475 سے زائد ”داعش کے یہ بگڑے بچے“موجود ہیں۔ہم ان کے لیئے مختلف تقریبات منعقد کرتے ہیں جس میں دستاویزی فلموں کے ذریعے اسلام کی درست تعلیمات اور اصل چہرہ دکھا کر کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح ان کے معصوم ذہنوں سے داعش کے مذموم اثرات ختم کیئے جاسکیں“۔

مزید یہ مضمون بھی پڑھیں: حلال میڈیا، ایک علمی محاکمہ۔ ۔ ۔ سمجھنے کا بھی اور سمجھانے کا بھی

جان ایلان کزلیان جو کہ سائیکالوجی انسٹیوٹ آف عراق کے سربراہ ہیں داعش سے متاثرہ بچوں کی ذہنی و نفسیاتی بحالی کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ”داعش کی فکری تعلیمات سے متاثرہ بچوں کے لیئے مثالی علاج تو یہ ہے انہیں دو سے تین سال عام زندگی کا ماحول فراہم کیا جائے جس میں یہ صرف اسکول جائیں،مختلف طرح کے کھیل کھیلیں اور روزانہ ماہرِ نفسیات سے گھنٹہ،آدھا گھنٹہ عام دلچسپی کے موضوعات پر گفتگو کریں۔یہ طرز زندگی اگر باقاعدگی سے بچوں کو فراہم کیاجائے تو ان کی بحالی کے لیئے کافی ہے“۔
قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ ابھی بھی ہزاروں بچے داعش کے زیرِ تسلط علاقوں میں رہ رہے ہیں جنہیں داعش کے رہنما اپنا مستقبل کاسرمایہ قرار دیتے ہیں۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 21 ستمبر 2017 کے شمارے میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں