پاکستان پیپلز پارٹی نے رواں برس اپنے قیام کے پچاس سال پورے کر لیئے۔پچاس سال مکمل ہونے کی خوشی میں گولڈن جوبلی سلسلے کی مرکزی تقریب کا انعقاد پیپلزپارٹی کی قیادت کی طرف سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں کیا گیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس عظیم الشان یومِ تاسیس کی صورت میں اسلام آباد میں پی پی نے اپنی بھرپور سیاسی طاقت کا مظاہر ہ کیا لیکن اس سب کے باوجود سندھ کے عوام پی پی کے پچاس سال مکمل ہونے کی مرکزی تقریب اسلام آباد منعقد کرنے پر کچھ خاص خوش نہیں ہیں بلکہ وہ اس پر بے شمار تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اُن کی طرف سے دیا جانے والا سب سے اہم موقف یہ ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کا جنم اسلام آباد میں نہیں ہوا تھا بلکہ لاہور میں ہوا تھا تو کیا یہ بہتر نہیں ہوتا کہ گولڈن جوبلی سلسلے کی مرکزی تقریب لاہور میں منعقد کی جاتی اور اگر کسی ناگزیر وجوہ کی بناء پر وہاں اس تقریب کا منعقد ہونا ممکن نہیں تھا تو پھر اسے سندھ میں منایا جاتا تاکہ پیپلزپارٹی کے عام کارکنان کو بھرپور طریقے سے اس اہم ترین تقریب میں شرکت کا موقع ملتا۔
یہ مضمون بھی پڑھیئے: پرویز مشرف اور پیپلزپارٹی کے درمیان الزامات کی جنگ
بعض سیاسی تجزیہ کاروں کی بھی یہ ہی رائے ہے کہ پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت کو اپنے اس اہم ترین ایونٹ کے انعقاد کو وقتی سیاسی فائدے کے حصول کا ذریعہ بنانے کی بہ نسبت عام کارکنان کے جذبات اور احساسات کو بہر طور مقدم رکھنا چاہیئے تھا۔پچاس سال کے سفر میں پی پی کی کامیابیوں کا جائزہ لیا جائے تو صرف ایک ہی ایسی کامیابی ہے جو آج تک برقرار ہے اور وہ ہے صوبہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت۔جس کا دائرہ اب پیپلزپارٹی نے دیہی علاقوں سے شہری علاقوں تک بھی بڑھا لیا ہے آج سے ایک دہائی پہلے پیپلزپارٹی سندھ میں صرف دیہی علاقوں تک محدود سمجھی جاتی تھی لیکن گزشتہ دس سال کا جائزہ لیا جائے تو یہ ایک حقیقت ہے کہ کراچی کو چھوڑ کر سندھ کے تمام شہری علاقوں میں پیپلزپارٹی اپنی تمام مخالف جماعتوں کے مقابلے میں بہت زیادہ مضبوط ہوئی ہے۔جس کی کئی بنیادی نوعیت کی وجوہات ہیں جس میں سے سب سے اہم وجہ سندھ کے شہری علاقوں میں اُردو بولنے والے طبقہ کا ایم کیوایم کے طرزِ سیاست سے نالاں ہونا ہے۔
اگر حیدرآباد،نواب شاہ،سکھر اور میرپورخاص کی حالیہ سیاست کا جائزہ لیا جائے تو بجا طور پر کہا سکتا ہے پاکستان پیپلز پارٹی نے کافی حد تک ایم کیو ایم کو شہری سیاست کے منظر نامہ سے آؤٹ کردیا ہے، کبھی ان اہم ترین شہری علاقوں میں بلدیاتی چیئر مین اور کونسلرز وغیرہ تو بہت چھوٹی بات ہے ممبر صوبائی اسمبلی تک کی اکثریت بھی ایم کیوایم کے انتخابی نشان پر باآسانی منتخب ہوجاتی تھی لیکن گزشتہ دس سالوں سے ہر سطح کے انتخابی معرکوں میں پاکستان پیپلزپارٹی نے ایم کیوایم کے طرزِ سیاست کو بری طرح شکست دی ہے۔جس کی وجہ سے آج ان شہروں سے منتخب ہونے والے صوبائی اسمبلی کے اراکین کی تو بات ہی کیا کرنا بلدیاتی نمائندوں کی بڑی اکثریت بھی پاکستان پیپلزپارٹی کو منتقل ہوگئی ہے۔ دیکھنے والی سیاسی آنکھ ہو تو باآسانی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ سندھ کے تمام شہری علاقوں میں پاکستان پیپلزپارٹی بھاری ترین مینڈیٹ کے ساتھ موجود ہے اور اس میں زیادہ کردار سابق صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپر اور اُن کے خاص دستِ راس صوبائی وزیر قانون ضیاء الحسن لنجار کا ہے۔جنہوں نے ایم کیوایم پاکستان کی طرف سے پیدا ہونے والے سیاسی خلا کو بروقت محسوس کیا اور شہری علاقوں میں اُن تمام افراد سے اپنے سیاسی رابط استوار کیئے جو شہری سیاست میں ایم کیوایم کے لیئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے۔ کل تک شہری علاقوں میں رہنے والی جو برادریاں ایم کیوایم کے لیئے کام کرنا فخر محسوس کرتی تھیں آج وہ پاکستان پیپلزپارٹی کی صفوں میں انتہائی اعلیٰ عہدوں پر براجمان نظر آتی ہیں اور رہی سہی کسر متحدہ قومی موومنٹ کی حالیہ سیاسی تقسیم نے پوری کردی ہے۔
غالب گمان یہ ہی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ مہاجر سیاست کے جتنے زیادہ حصے بخرے ہوتے جائیں گے اس کا براہِ راست فائدہ سندھ کے شہر ی علاقوں میں پاکستان پیپلزپارٹی کو ہی جائے گا۔کیوں کہ صورت حال اُس سے قطعاً مختلف ہے جو ٹی وی اسٹوڈیوز میں بیٹھے ہوئے سیاسی تجزیہ کار اپنے ناظرین کے سامنے پیش کر رہے ہوتے ہیں۔اُن میں سے اکثر عموماً ایک ہی بات پوری شد و مد کے ساتھ دہراتے نظر آتے ہیں کہ اُردو بولنے والوں کا ووٹ صرف الطاف حسین کا ہے حالانکہ اگر معروضی حالات کا جائزہ لیا جائے تو ایسا بالکل بھی نہیں ہے سندھ کے شہری علاقوں میں اُردو بولنے والا طبقہ تیزی کے ساتھ اپنا دستِ تعاون پاکستان پیپلزپارٹی کی طرف بڑھاتا جارہا ہے۔کیونکہ اب اُسے اچھی طرح ادراک ہوگیا ہے کہ مستقبل میں ایم کیوایم کے نصیب میں صرف اپوزیشن بنچوں کی سیاست کرنا ہی رہ گیا ہے۔شہری علاقوں میں بسنے والے لوگوں کے اس بدلتے موڈ کا اندازہ ایم کیوایم کے تمام دھڑوں کے قائدین کو بھی بخوبی ہوگیا ہے جب ہی وہ اپنے ہر بیان میں بار بار اُردو بولنے والے طبقہ کے ووٹ بنک کو تقسیم ہونے سے بچانے کی باتیں کرتے نظر آتے ہیں۔لیکن ووٹ کی تقسیم کا جس طرف وہ اشارہ کر رہے ہوتے ہیں اُس سے یہ تا ثر لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہو رہا ہوتا ہے کہ شاید اُردو بولنے والے طبقہ کا ووٹ ایم کیو ایم کے دھڑوں کے درمیان تقسیم ہو جائے گاجبکہ اصل بات یہ ہے کہ ایم کیوایم کا ووٹر بڑی تیزی کے ساتھ پاکستان پیپلزپارٹی کی طرف رُخ کر رہا ہے۔جسے پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے بھی ہاتھوں ہاتھ لیا جارہا ہے۔اگر سندھ کے سیاسی منظرنامے میں احتساب کی رفتار مستقبل میں بھی یہ ہی رہتی ہے اور اس میں کوئی غیر معمولی ہلچل پیدا نہیں ہوتی تو پھر آئندہ الیکشن میں پاکستان پیپلزپارٹی سندھ کے شہری علاقوں میں بھی ایسے سیاسی سرپرائز دے سکتی ہے جس کے بارے میں سیاسی پنڈتوں نے شاید کبھی خواب میں بھی نہ سوچا ہو۔
حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 21 دسمبر 2017 کو سب سے پہلے شائع ہوا
- آزادی اظہار رائے کی آڑ میں -جون30, 2023
- عید قرباں کی حقیقی روح -جون27, 2023
- بلدیہ عظمی کراچی کا قلعہ پیپلزپارٹی نے کیسے فتح کیا؟ -جون19, 2023