کہنے کو بارش اللہ کی رحمت ہوتی ہے لیکن ہمارے حکمرانوں کے نزدیک بارش ایک ایسی قدرتی آفت ہے، جو آن کی آن میں اُن کے عظیم ترقیاتی منصوبوں کو بہا کر لے جاتی ہے۔ یعنی ہمارے حکومتی منصوبہ ساز وں کا بنایا گیا انتظامی ڈھانچہ بارش کی چند بوندیں بھی نہیں سہار سکتااور وطن عزیز کے جس شہر میں بھی معمول سے ذرا زیادہ بارشیں برس جائیں تو وہاں ہنگامی حالت نافذ کرکے اُس شہر کو فوری طور پر آفت زد ہ علاقہ قراردے دیا جاتاہے۔ گویا بارش اور آفت ہمارے نزدیک ایک ہی شئے کو دو نام بن چکے ہیں اور بارش برسنے کی خبر سُن کر ہم اتنا خوش نہیں ہوتے کہ جتنا فکر مند ہوجاتے ہیں۔شاید اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمیں بارش کی دلفریب خوب صورتی سے لطف اندوز ہوئے ایک طویل مدت گزر چکی ہے۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہم بارش کو آفت کے علاوہ قاتل بھی سمجھتے ہیں اور ہماری حکومتیں ہر برس ساون، بھادوں کے مہینوں میں بے شمار قیمتی اور معصوم انسانی جانوں کے قتل کا براہ راست مجرم”زیادہ بارش“ کو قرار دے کر اپنی انتظامی ذمہ داریوں سے صاف گلو خلاصی حاصل کرلیتی ہیں۔ یقینا بارش کے بے ضرر سے قطرے کسی معصوم انسان کی جان نہیں لے سکتے، مگر جب ”زیادہ بارش“ اور حکومتی لاپرواہی آپس میں باہم مل جاتے ہیں تو پھر بارش کی چند نرم و نازک بوندیں بھی شہریوں کے لیئے سخت عذابِ جاں بن جاتی ہیں۔ بالخصوص بڑے شہروں میں بارش اور حکومتی نااہلی کا ملاپ عام شہریوں پر ایک قہر بن کر ٹوٹتا ہے۔ چونکہ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔اس لیئے ساون،بھادوں کے مہینوں میں جس آسمانی اور زمینی قہر کا سامنا اہلیانِ کراچی کو درپیش ہوتا ہے،اُسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔
ہماری اِس بات کی سچائی اندازہ اُن سرکاری اعدوشمار سے بخوبی لگایا جاسکتاہے،جن کے مطابق شہر کراچی میں حالیہ بارش میں کرنٹ لگنے سے 15 اور دیگر واقعات میں بچوں سمیت 9 افراد نے جان کی بازی ہارچکے ہیں۔یعنی کُل 24 معصوم جانیں دیکھتے ہی دیکھتے راہی ملک عدم ہوگئیں اور یقینا حکومت اہلکاروں کے نزدیک اِس کی براہ راست ذمہ داری ”زیادہ بارش“ پر ہی عائد ہوتی ہے۔حالانکہ ہماری دانست میں کرنٹ لگنے سے بہادر آباد، گارڈن، نیو کراچی صنعتی ایریا، درخشاں اور سہراب گوٹھ میں ہونے والی ہلاکتیں کے الیکٹرک کی لاپرواہی کا نتیجہ ہیں۔نیز ملیر، لیاقت آباد، سہراب گوٹھ، گڈاپ، بلوچ کالونی اور دنبہ گوٹھ میں ڈوبنے سے ہونے والے حادثات کی براہ راست ذمہ داری بلدیہ عظمی کراچی پر عائد ہوتی ہے۔جبکہ نیو کراچی،گلبرگ اور چمڑا چورنگی میں بارش کے دوران مکانات منہدم ہونے کے واقعات کی اصل ذمہ دای سندھ بلڈنگ کنڑول اتھارتی پر عائد ہونی چاہیے۔
دوسری جانب حالیہ بارشوں سے شہر قائد کا انفرااسٹرکچر تباہ و برباد ہونے،شہری زندگی مفلوج ہونے اور متعدد مقامات پر سیوریج لائنز ٹوٹنے اور بارش کے پانی سے اہم ترین شاہرائیں زمین میں دھنس جانے کی تمام تر ذمہ دارسندھ حکومت ہے۔ یاد رہے کہ کراچی شہر کی اکثر سڑکوں پر جگہ جگہ کئی کئی فٹ گہرے گڑھے پر چکے ہیں اور اِن میں سے بعض سڑکیں تو وہ ہیں جنہیں کچھ عرصہ قبل ہی تعمیر کیا گیا تھا۔ کیا کراچی میں تعمیر کی گئیں سڑکیں ایک بار ش کی شدت کو بھی سہار نہیں سکتیں؟۔ واضح رہے کہ عید الاضحی کے موقع پر غیر معمولی بارشوں کی پیشین گوئیاں ملکی ذرائع ابلاغ پر بہت پہلے سے کی جا رہی تھیں اور انتظامیہ کے دعوے تھے کہ صورت حال سے نمٹنے کی ساری تیاریاں کرلی گئی ہیں۔ تاہم دو دن کی بارش میں شہر کے بیشتر علاقوں میں سیوریج کا نظام جواب دے گیااور کئی نشیبی علاقوں میں گھروں کے اندر تک بارش کاپانی داخل ہوگیا۔جبکہ بارش کے پانی میں مردہ جانوروں کی آلائشیں اور سیوریج کا پانی مل جانے سے شہر کے کئی علاقوں میں ناقال برداشت تعفن پھیل گیا ہے۔
اچھی بات یہ ہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سعودی عرب سے براہ راست کراچی پہنچ کر بارشوں سے پیدا ہونے والی صورت حال کا فضائی جائزہ لیا اور آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل محمد سعید کو خاص طورپر ہدایت کی کہ وہ اور اُن کی ٹیم اس بات کو یقینی بنائے کہ عوام کو آسانیاں فراہم کرنے کیلئے تمام تر کوششوں اور وسائل کو بروئے کار لایا جائے۔آرمی چیف کی خصوصی احکامات کے بعد کراچی شہر میں سیلابی صورتحال کے نمٹنے کے لیئے پاک بحریہ نے”آپریشن مدد“شروع کردیا۔نیزپاک بحریہ نے سندھ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے اشتراک سے حالیہ طوفانی بارشوں سے پیدا ہونے والی سیلابی صورتحال میں ہر ممکن امداد فراہم کی اور سیلاب زدہ گھروں میں پھنسے مقامی لوگوں کو بچا کر محفوظ مقامات پر منتقل کرنے میں سول انتظامیہ کو بھرپور مدد فراہم کرنا بھی شروع کردی ہے۔علاوہ ازیں پاک فوج کے دیگر ادارے بھی پوری طرح سے متحرک ہیں۔
قارئین! کراچی بارش کے پانی میں پہلی بار نہیں ڈوبا ہے بلکہ یہ تو وہ بدقسمت شہر ہے کہ جو گزشتہ کئی دہائیوں سے ہر برس باقاعدگی کے ساتھ بارش کے پانی میں مسلسل ڈوبتا آ رہاہے۔ اَب تو کراچی کی عوام بارش برسنے کی خبر سننے کے بعد بارش میں نہانے کے بجائے، بارش کے پانی میں ڈوبنے سے بچنے، کرنٹ لگنے سے محفوظ رہنے اور اپنے مکان کی چھت کے ملبے تلے دبنے سے مامون رہنے کے لیئے پیشگی تیاری کرنا شروع کردیتے ہیں۔ واضح رہے کہ دنیا کے دوسرے بڑے شہروں میں بارشیں ایسے ہول ناک اور بدترین مسائل کا سبب اس لیے نہیں بنتیں کیونکہ وہاں بااختیار اور فرض شناس حکومتی انتظامیہ سال بھر فعال رہتی ہے۔جبکہ کراچی میں حکومتی انتظامیہ شہر کے اچھی طرح ڈوبنے کے بعد شاہراؤں پر جمع ہوئے بارش کے پانی میں تصویریں کھنچوانے کے لیئے ”آسمانِ اقتدار“سے بڑی مشکل سے زمین پر اُترتی ہے۔ سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ کراچی کے ڈوب جانے کے بعد اچانک حکومتی منتظمین جتنا حرکت میں آتے ہیں اگر وہ اتنا متحرک اور فعال بارش برسنے سے پہلے ہوجائیں تو کچھ شک نہیں کہ کراچی کو بھی بارش میں ہونے والی تباہ کاریوں سے باآسانی بچایا جاسکتاہے۔
حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 14 جولائی 2022 کی اشاعت میں شائع ہوا۔
- آزادی اظہار رائے کی آڑ میں -جون30, 2023
- عید قرباں کی حقیقی روح -جون27, 2023
- بلدیہ عظمی کراچی کا قلعہ پیپلزپارٹی نے کیسے فتح کیا؟ -جون19, 2023