17-june-14-khoon

سترہ جون، 14 خون

پاکستان کی سیاسی و سماجی تاریخ المناک سیاسی سانحات اور سماجی حادثات سے بھری ہوئی ہے۔جن میں سے بیشتر کو تو ہم نہ جانے کب سے من حیث القوم یکسر فراموش ہی کربیٹھے ہیں۔17 جون 2014 کو زندہ دلان شہر لاہور کے سب سے متمول اور معروف علاقہ ماڈل ٹاؤن میں تحریک منہاج القرآن کے 14 معصوم کارکنان کا سیاسی قتل عام کا دل خراش واقعہ بھی ہمارے سماج کے چہرے کا ایساہی ایک بدنما اور بھیانک سانحہ تھا۔ جسے ہم نے اپنے تئیں تو بھلانے کی بہت کوشش کی لیکن کیا کریں تحریک منہاج القرآن کے پر اُمید کارکنان نے ہر گزرے برس کی طرح اِس سال بھی 17 جون کی پرآشوب تاریخ آنے سے پہلے ہی سوشل میڈیا پر”مظلومانہ احتجاج“کا ایسا ”طوفانِ آہ و بکا“ برپا کردیا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی کشت و خون سے لبریز تصویریں بارِ دگر نگاہوں کے سامنے گھومنے لگی ہیں کہ کس طرح ایک سیاسی خاندان کی شریفانہ سیاست کا خوف عام لوگوں کے قلوب میں بٹھانے کے لیئے نہتی باپردہ خواتین کے سینے گولیوں سے چھلتی کئے جارہے ہیں،کیسے عمررسیدہ باریش بزرگوں کو سڑکوں پر گھسیٹا جارہاہے اور کیسے کم عمر نوجوانوں کو اُن کے ہی خون میں نہلایا جارہا ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن شریف خاندان کی جانب سے دکھایا جانے والا ”سیاسی طاقت“ ایک ایسا شرمناک مظاہر ہ تھا،جسے یاد کرتے ہوئے کسی کمزور دل شخص کے رونگٹے آج بھی کھڑے ہوجاتے ہیں۔مگر خدا جانے میاں شہباز شریف اور رانا ثنا ء اللہ کس ”سیاسی مٹی“سے بنے ہیں کہ جنہیں نہ تو کل اپنی اِس”انتظامی حرکت“ پرکوئی احساسِ شرمندگی تھا اور نہ آج ذرہ برابر احساسِ ملامت ہے۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن کو پورے چھ برس بیت چکے ہیں،اِن چھ برسوں میں تین برس تو اُسی نام نہاد خادمِ اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف اور اُن کے برادر میاں محمد نواز شریف کے دورِ حکومت کے رہے ہیں،جسے باقر نجفی رپورٹ میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا گیا ہے،اِس لیئے اِن تین برسوں میں تو کسی بے وقوف سے بے وقوف شخص کو بھی ذرہ برابر اُمید نہیں تھی کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مظلوموں کو انصاف کی بھنک بھی مل سکتی ہے۔اتفاق کی بات یہ ہے کہ ہوا بھی ایسا ہی اور شریف خاندان نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی کالک کو اپنے چہرے سے مٹانے کے لیئے اپنے دورِ اقتدار میں ہر جائز و ناجائز ہتھکنڈہ کا بھرپور انداز میں استعمال کیا۔ یعنی کبھی ماڈل ٹاؤن کے شہدا کے لواحقین کومال و زر سے خریدنے کی کوشش کی گئی تو کبھی شہدا کے متعلقین پر عرصہ حیات تنگ اور دشوار کرنے کا انتظامی بندوبست کیا گیا۔مگر سلام! ہے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے اُن مظلومین پر کہ جنہوں نے شریف خاندان کے کسی بھی طرح کے ظلم و استبداد کے سامنے اپنا سرتسلیم ِ خم نہیں کیا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کی یہ ثابت قدمی ہی ہے کہ آج چھ برس بعدبھی الیکٹرانک میڈیا،پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے خون آلود نقوش زندہ و جاوید ہیں۔



یادش بخیر! کہ گزشتہ دو برس سے تو زمامِ اقتدار تحریک انصاف کے سربراہ جناب عمران خان کے پاس ہے۔ جنہیں ایک زمانے میں کبھی سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مظلوموں کا ”سیاسی کزن“ بھی کہا جاتاتھااور یہ عمران خان ہی تھے جنہوں نے2014 کے دھرنے میں کنٹینر پر کھڑے ہوکر منہاج القرآن کے سربراہ علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر عہد کیا تھا کہ وہ اقتدار کے منصبِ جلیلہ پر فائز ہونے کے بعد سب سے پہلے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہدا ء کے لوحقین کو انصاف مہیا کریں گے اور تحریک منہاج القرآن کے جملہ متعلقین نے عمران خان کے اِس اعلان پر آنکھ بند کرکے یقین بھی کرلیا تھا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ دھرنے کے دوران جب ایک رات ”شریف انتظامیہ“نے افراتفریح پھیلا کر عمران خان کو اُن کے کنٹینر سے گرفتار کرنے یا مارنے کی مبینہ کوشش کی تو ایسے نازک حالات میں اپنی جانے ہتھیلی پر رکھ کر عمران خان کی رات بھر حفاظت کرنے والے بھی منہاج القرآن کے کارکن ہی تھی۔ دھرنے کے دوران رونما ہونے والی یہ وہ واقعاتی حقیقت ہے جس کا اعتراف خود عمران خان بھی ایک سے زائد بار کرچکے ہیں۔ مگر افسوس تحریک انصاف کے دوسالہ دورِ حکومت میں بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین ہنوز ”جائز انصاف“ کے منتظر ہیں۔ویسے تو تحریک انصاف کے اقتدار کا سورج طلوع ہونے کے بعد ”شریف خاندان“ کے ساتھ احتساب اور جواب دہی کے نام پر بہت کچھ ہوا اگر کچھ نہ ہوسکا تو بس سانحہ ماڈل ٹاؤن کے 14 شہداء کے خون کا معاملہ کسی بھی سطح پر اُٹھایا نہ جاسکا۔بقول اکبر الہٰ آبادی۔
پہنچنا داد کو مظلوم کا مشکل ہی ہوتاہے
کبھی قاضی نہیں ملتے، کبھی قاتل نہیں ملتا

حالانکہ تحریک انصاف کی حکومت اگر تھوڑی سی سیاسی دانش مندی کا مظاہرہ کرتی تو سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کو زیادہ مناسب انداز میں شریف خاندان خاص طور پر میاں محمد شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کے خلاف استعمال کرسکتی تھی۔کیونکہ کرپشن اور لوٹی ہوئی دولت واپس وصول کرنے کے مقابلے میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے کیس میں شریف خاندان کے منطقی امکان تک جلد پہنچنے کے زیادہ امکانات تھے۔ جبکہ شریف خاندان کی کرپشن کے معاملات اگر نیب کے لیئے ہی چھوڑ دیئے جاتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔اگر ایسا ہوجاتاتو آج میاں شہباز شریف ہنستے مسکراتے نیب کے سامنے ”ڈرامائی پیشیاں“ بھگتنے کے بجائے پابجولاں کسی کال کوٹھڑی میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مضمرات پر غور و فکر فرمارہے ہوتے جبکہ اُن کے دستِ راس رانا ثنا ء اللہ منشیات کیس میں ضمانت ملنے کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے ساتھ سیاست سیاست نہیں کھیل رہے ہوتے بلکہ اپنے کردہ سیاسی گناہوں کی معافی کے لیئے رب سے مناجات میں محو ہوتے۔بہرحال ابھی بھی اتنی تاخیر نہیں ہوئی ہے کہ شریف خاندان کے خلاف سانحہ ماڈل ٹاؤن کا پھندا کسا نہ جاسکے،ویسے بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن ہی واحد ایسا کیس ہے جو مسلم لیگ ن کے سیاسی تابوت کی آخری کیل ثابت ہوسکتاہے۔ شاید یہ ہی مناسب وقت ہے کہ جب وزیراعظم پاکستان عمران خان کو اپنا سیاسی مستقبل ایک طویل مدت تک محفوظ بنانے اور شہدائے ماڈل کے لواحقین کو انصاف دلانے کے لیئے سانحہ ماڈل ٹاون کیس کی کیل فوری طور مسلم لیگ ن کے سیاسی تابوت میں ٹھونک دینی چاہئے۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 11 جون 2020 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں