دیباچہ کسی کتاب کے ابتدا میں لکھے ہوئے تعارفی الفاظ کو کہا جاتا ہے، دیباچہ ہمیشہ کتاب کا مصنف ہی لکھتا ہے لیکن اگر کتاب کے بارے میں کوئی اور ابتدائیہ الفاظ لکھے تو پھر اُسے دیباچہ نہیں بلکہ پیش لفظ کہا جاتا ہے۔دیباچے میں اکثر کتاب کے نفسِ مضمون کااجمالی سا تذکرہ ہوتا ہے جس کی مدد سے پوری کتاب کی غرض و غایت کو بخوبی سمجھا جاسکتاہے۔ اس لیئے بہت سے پڑھنے والوں کے نزدیک محض دیباچہ کا پڑھ لینا ہی کافی ہوتاہے۔گویا کتاب کا دیباچہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔اس کے برعکس پیش لفظ میں نفسِ کتاب سے زیادہ صاحبِ کتاب کی جھوٹی سچی مدح سرائی فرمائی جاتی ہے۔اس لحاظ سے کہا جاسکتا کہ پاکستانی سیاست میں جب بھی”جمہوری کتابِ اقتدار“ عوامی مطالعہ کے لیئے پیش کی گئی اُس پر کبھی صاحبِ کتاب یعنی ”جمہوری حکمران“ کی طرف سے دیباچہ لکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی بلکہ صاحب کتاب یعنی”جمہوری حکمران“ نے اپنے قریبی حلقہ میں موجود کسی صاحبِ عرفان سے اپنی جھوٹی سچی تعریف سے مرقع ایک ”پیش لفظ“ لکھوا ڈالا۔پاکستانی سیاست میں یہ پہلا موقع ہے کہ 2018 ء میں ”جمہوری کتابِ اقتدار“ لکھنے والے کسی صاحبِ کتاب یعنی ”جمہوری حکمران“ جنہیں آپ وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کے نام سے جانتے ہیں نے باقاعدہ اہتمام کے ساتھ ایک ”100 روزہ دیباچہ“ لکھ کر اُس کے نیچے اپنے دستخط بھی ثبت فرمادیئے۔مگر مصیبت یہ ہوئی کہ چونکہ آج سے پہلے ”جمہوری کتابِ اقتدار“ کے کسی مصنف نے دیباچہ نہیں لکھاتو اس لیئے یار لوگ ”100 روزہ دیباچہ“ کو ہی پوری کتاب سمجھ بیٹھے اور شکوہ کرنے لگے کہ ”100 روزہ دیباچہ“میں صاحب کتاب یعنی عمران خان کی طرف سے کیئے گئے سیاسی وعدوں کا اختتامیہ اُنہیں نہیں مل رہا،صرف آغاز مل رہا ہے۔حالانکہ اچھی نیت سے اس ”100 روزہ دیباچہ“ کو پڑھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ اس دیباچہ کی زبان انتہائی شستہ، شگفتہ اور سلیس ہے اور اس میں بنیادی موضوع کی اہمیت کا کچھ اس طرح تذکرہ ہوا ہے کہ قارئین کے دل ودماغ میں پوری کتاب کے قابل مطالعہ ہونے کا شدید احساس پیدا ہوجاتاہے۔یوں پاکستانیوں کے لیئے یہ ممکن ہی نہیں رہا وہ اس دلچسپ دیباچہ کے مطالعہ کے بعد پوری ”جمہوری کتاب اقتدار“کو آنے والے پانچ سالوں میں مزے مزے لے لے کر نہ پڑھیں۔
”100 روزہ دیباچہ“ کو ہی پوری کتاب سمجھنے والوں کے لیئے عرض ہے کہ وہ ازسرِ نو دیباچہ کا مطالعہ فرمائیں تاکہ اُنہیں معلوم ہوسکے کہ کون کون سے وعدے ”صاحب کتاب“ یعنی عمران خان نے اس دیباچہ میں پورے بھی کردیئے ہیں۔مثلاً وہ وعدے جن پر ”100 روزہ دیباچہ“ میں مکمل عملدرآمد کیاگیاہے اُن کی تفصیلات وطنِ عزیز کے مایہ ناز صحافیوں جناب طاہر خلیل اور تنویر ہاشمی صاحب کی تحقیق کی روشنی میں کچھ یوں ہے۔ 1۔کرپشن کے خاتمے کیلئے لوٹی گئی قومی دولت کی واپسی کیلئے خصوصی ٹاسک فورس کا قیام 2۔ بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا وعدہ بھی پورا کیا گیا 3۔کابینہ کے پہلے اجلاس میں صدر، وزیراعظم، وزراء کے فرسٹ کلا س پر سفر پر پابندی عائد کی گئی 4۔ صدر، وزیراعظم اور وزراء و ارکان پارلیمان کے صوابدیدی فنڈز کا اجراء روک دیاگیا 5۔ کفایت شعاری کی مہم کے تحت وزیراعظم ہاؤس میں رکھی گئی اضافی گاڑیوں کی نیلامی6۔عوام کو سفری سہولیات کی فراہمی کیلئے وزیر ریلوے شیخ رشید کی قیادت میں 10نئی ٹرینیں چلانے کا ہدف مکمل کیا گیا 7۔عوام کی شکایا ت سننے اور فوری جواب کیلئے وزیراعظم کے دفترمیں سیٹزن پورٹل کا قیام اور مقررہ ایام میں 36ہزار سے زائد شکایات موصول ہوئیں جن کے ازالے کیلئے نظام وضع کیا گیا8۔ صنفی مقدمات نمٹانے کیلئے شبینہ عدالتوں کا قیام 9۔ہیلتھ کارڈ کا اجراء10۔انسانی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ آبی قلت کے سنگین مسئلے کے حل کیلئے وزیراعظم اور چیف جسٹس کے مشترکہ فنڈز میں 1600ارب روپے کی خطیر رقم عوامی تعاون سے جمع کرانے کیلئے مہم شروع کی گئی 11۔ توہین آمیز خاکوں کا معاملہ ایک عرصے سے عوام کی بے چینی کا سبب رہا، موجودہ حکومت نے ایک سخت موقف اختیار کیا اور امریکااور ہالینڈ کی حکومتوں کو اس حوالے سے اپنا موقف بدلنا پڑا۔
اس کے علاوہ جن وعدوں پر جزوی عمل ہوا،اُن میں 1۔کم لاگت گھروں کی تعمیرکیلئے پالیسی فریم ورک پر عملدرآمد کا آغا ز 2۔توانائی کے شعبے میں دیہات میں متبادل توانائی کیلئے بجلی کی فراہمی 3۔ سیاحت کے فروغ کیلئے سرکاری گیسٹ ہاوسز کو عوام کیلئے کھولنے کا وعدہ 4۔ ملک کے ہر ضلع میں معذور افراد کی سہولت کیلئے مراکز کا قیام۔ جبکہ ایسے وعدے جن پر عملدرآمد کا آغاز کر دیا گیا،وہ یہ ہیں۔1۔چھوٹے ڈیموں کی تعمیر 2۔پانچ سال میں ایک کروڑ ملازمتوں کی فراہمی کیلئے اقدامات3۔دیامربھاشا ڈیم کی تعمیر اور فیزیبلٹی سٹڈی کی تیاری 4۔جنگلا ت کی بحالی کیلئے 10ارب درخت لگانے کیلئے کلین و گرین مہم کا آغاز 5۔ 10تکنیکی یونیورسٹیوں کے قیام کا آغاز6۔ معذورا فراد کیلئے خصوصی امدادی پروگرام کا آغاز7۔چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کی ترقی کے تحت لائیو سٹاک کے شعبے کی بحالی اور گوشت کی پیداوار میں اضافہ8۔ارکان پارلیمان کے سوالات کے جوابات کیلئے وزیراعظم نے ایک گھنٹہ مختص کر نے کا فیصلہ9۔خیبرپختونخوا کے پولیس ایکٹ 2017 کے تحت وفاق اور صوبوں میں پروفیشنل آئی جی پولیس کی تعیناتی 10۔جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کیلئے قومی مفاہمت کا حصول 11۔صاف پینے کے پانی اور صفائی کی صورتحال میں بہتری کیلئے خصوصی پروگرام کا اجراء 12۔بیرون ملک پاکستانیوں کو سرمایہ کاری پر راغب کرنے کیلئے مالیاتی شعبوں میں بہتری کا آغاز13۔ احتساب کے عمل میں بہتری کیلئے وسل بلور(مخبر کے ذریعے اطلاعی پروگرام)کا قیام14۔ جرائم پر قابو پانے کیلئے پولیس تک عوام کی آسان رسائی15۔ بڑے ٹیکس چوروں کو پکڑنے کیلئے نوٹسز کا اجراء16۔عدالتی اصلاحات کے تحت زیر التوا کیسزکو تیزی سے نمٹانے کیلئے اقدامات 17۔میڈیا اصلاحات کے تحت پیمرا کو خودمختار ادارہ بنانے کیلئے اقدامات 18۔ پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن اورسرکاری ٹی وی کو خود مختار ادارہ بنانے کے اقدامات19۔کراچی میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کیلئے ڈیسلینیشن پلانٹ کے قیام کیلئے کام کا آغاز 20۔کراچی میں ماس ٹرانزٹ نظام کی استعداد کار میں اضافے کیلئے اقدامات21۔ مدرسوں کی رجسٹریشن اور مدرسوں کے نصاب کو سرے سے مرتب کرنا۔
حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 02 دسمبر 2018 کی اشاعت میں شائع ہوا
- آزادی اظہار رائے کی آڑ میں -جون30, 2023
- عید قرباں کی حقیقی روح -جون27, 2023
- بلدیہ عظمی کراچی کا قلعہ پیپلزپارٹی نے کیسے فتح کیا؟ -جون19, 2023