Imran-khan-in-un

سفارت کاری کا ورلڈکپ

کوئی مانے یا نہ مانے لیکن مجھ ناچیز کی رائے میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کو آپ سفارت کاری کا ایک عالمی مقابلہ بھی قرار دے سکتے ہیں کیونکہ سفارت کاری کے اِس عالمی مقابلہ میں سفارت کاری کے تمام کھیل بالکل اُسی طریق پر کھیلے جاتے ہیں۔ جن اُصولوں کے عین مطابق دنیا کے کسی بھی کھیل یعنی فٹبال کا عالمی مقابلہ،کرکٹ کا عالمی کپ یا پھر ہاکی کا ورلڈ کپ منعقد ہوتاہے۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ کھیلوں کے عالمی مقابلوں اوراقوامِ متحدہ کے تحت کھیلے جانے والے سفارت کاری کے عالمی مقابلہ میں بے شمار قدرِ مشترک انتہائی آسانی سے تلاش کی جاسکتیں ہیں۔ مثلاًجیسے کھیلوں کے عالمی مقابلوں میں دورانِ میچ حریف کھلاڑیوں کے درمیان جنگ کی سی کیفیت صاف محسوس کی جاسکتی ہے بالکل اِسی طرح سفارت کاری کے عالمی کھیل میں بھی سفارتی کھلاڑیوں کے مابین جنگجویانہ قسم کے”سفارتی حالات“ کا پیدا ہوجانا بالکل عام سی بات ہے۔

دوسری مماثلت یہ ہے کہ جہاں کھیلوں کے عالمی مقابلے دنیا بھر میں براہِ راست دکھانے کے لیئے اسپورٹس چینل خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔وہیں نیوز چینل بھی سفارت کاری کے عالمی مقابلہ کی براہِ راست نشریات دنیا کے ایک ایک فرد تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں اُٹھارکھتے۔ اس کے علاوہ جس طرح کھیل کے عالمی مقابلوں میں شرکت کرنے والے ٹیموں کو عالمی درجہ بندی یا اُن کی رینکنگ کے مطابق آسان اور مشکل حریف دے دیئے جاتے ہیں۔ کچھ اِسی طرح سفارت کاری کے عالمی مقابلہ میں بھی شریک ممالک کے درمیان جاری سفارتی میچوں کے وقت اور مقام کا حتمی فیصلہ بھی اقوامِ متحدہ کی جاری کردہ عالمی سیاسی درجہ بندی کے فارمولے پر ہی کردیاجاتاہے۔حد تو یہ ہے کہ جس طرح کھیلوں کے عالمی مقابلوں میں امپائرنگ کے ناقص اور متازعہ فیصلے ”فیورٹ ٹیمیں“ اپنے حق میں استعمال کرتی ہیں بالکل ایسے ہی سفارت کاری کے عالمی مقابلہ میں بھی پانچ طاقتور ”فیورٹ“ ممالک اقوامِ متحدہ کے جانبدار امپائروں سے اپنی مرضی کے فیصلے باآسانی کروالینے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔



حسنِ اتفاق تو یہ بھی ہے کہ پاکستان اور بھارت فقط کھیل کے عالمی مقابلوں میں ہی ایک دوسرے کے روایتی حریف نہیں ہیں بلکہ سفارت کاری کے عالمی مقابلہ میں بھی اِن دونوں ممالک کی حریفانہ سفارتی کشمکش دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے اورجس طرح کرکٹ کے عالمی مقابلہ میں سب سے سنسنی خیز مقابلہ پاک بھارت ٹاکرا کہلاتا ہے۔عین اُسی طرح اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس میں جاری سفارت کاری کے عالمی مقابلہ میں بھی دنیا بھر کے بیشتر ممالک کی نظریں فقط پاکستان اور بھارت کے سفارتی میچ پر ٹکی ہوتی ہیں۔مگر شومئی قسمت کہ بھارت کی سفارتی ٹیم گزشتہ کئی برسوں سے سفارت کاری کے عالمی مقابلہ میں زبردست سفارتی کامیابیاں سمیٹتی آرہی ہے اور گزشتہ 10 برسوں سے پاکستان کی سفارتی ٹیم اِس عالمی مقابلہ میں ایک بار بھی قابلِ ذکر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے سے قاصر رہی ہے۔

ماضی میں سفارت کاری کے عالمی مقابلوں میں بھارت کے خلاف ہماری مسلسل مایوس کُن کارکردگی پر مایہ ناز سفارتی تجزیہ کاروں کی متفقہ رائے یہ ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان کی سفارتی ٹیم نے جان بوجھ کر اپنا ”فطری سفارت کاری“ کا کھیل کھیلنے کی کوشش ہی نہیں کی اور پاکستانی سفارتی ٹیم کے ناعاقبت اندیش کپتان، بھارت کی ٹیم کے کپتان کے ساتھ ”تجارتی فکسنگ“ کرکے سفارتی فتوحات کو جان بوجھ کر بھارت کو دان کرنے کے مرتکب ہوتے رہے ہیں۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ ماضی میں پے درپے ہونے والی عالمی سفارتی شکستوں سے تنگ آکر اِس مرتبہ پاکستانی عوام نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کی صورت میں ایک بالکل نیا ”سفارتی کپتان“ منتخب کرکے پاکستان کی سفارتی ٹیم کے ہمراہ سفارت کاری کے عالمی مقابلہ میں بھیجا تھا۔اِس اُمید کے ساتھ کہ وہ سفارت کاری کے اِس عالمی مقابلہ میں بھارت سے اپنی پچھلی تمام شکستوں کا بدلہ سود سمیت چکادے گا۔

پاکستانی عوام کی توقعات اور خواہشات جو بھی ہوں مگر حقیقت یہ ہی ہے کہ سفارت کاری کے عالمی مقابلہ میں کشمیر کا میچ جیتناایک بہت ہی کھٹن اور مشکل معرکہ تھا۔خاص طور اُن حالات میں جبکہ بھارت کی سفارتی ٹیم مسلسل دوسری بار اپنے سفارتی کپتان نریندر مودی کی قیادت میں سفارت کاری کے عالمی مقابلہ میں شرکت کے لیئے آئی ہوئی ہو اور اُس کے مقابل میں پاکستان کی سفارتی ٹیم ایک ناتجربہ کار”سفارتی کپتان“عمران خان کے ساتھ پہلی بار سفارت کاری کے عالمی مقابلہ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کے لیئے میدان میں اُتری ہو۔بظاہر سفارت کاری کے میچ میں تجربہ اور ناتجربہ کاری کا کوئی مقابلہ نہیں بنتا تھا مگر اُس کے باوجود پاکستان کے سفارتی ٹیم کے کپتان وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں منعقدہ سفارت کاری کے عالمی مقابلہ کے ہر میچ میں زبردست اَپ سیٹ ”سفارتی کارکردگی“ کا مظاہرہ کرنے کی حتی المقدور کوشش کی اور کئی نازک مقامات پر تو انہوں نے مخالف ٹیم کے کھلاڑیوں کے ”سفارتی چھکے“چھڑا کر اُن کے دلوں پر پاکستان کے فطری سفارتی کھیل کی دھاک بھی بٹھا دی۔اَب وہ الگ بات ہے کہ سفارت کاری کے عالمی مقابلہ کے ہر میچ میں ہمیں امپائرنگ کے جانبدارانہ اور متنازعہ فیصلوں کا بھی باربار سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے ہماری کئی یقینی سفارتی فتوحات عین آخری لمحات میں شکست میں تبدیل ہوگئیں۔

قصہ مختصر یہ ہے کہ سفارت کاری کے عالمی مقابلہ میں بھلے ہی ہم فاتح نہ ٹہرسکے لیکن اطمینان کی بات یہ ہے کہ اِس بار ہمارے سفارتی کپتان نے سفارتی جیت کا جشن بھارت کی سفارتی ٹیم کو بھی منانے نہیں دیاہے اور یوں کشمیر کی ٹرافی ایک بار پھر سے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں والی الماری میں اگلے عالمی مقابلہ کے شروع ہونے تک کے لیئے واپس سجا دی گئی ہے۔مگر ایسا صرف کشمیر کی ٹرافی کے ساتھ ہی نہیں ہوا ہے بلکہ کشمیر کی ٹرافی کے ہمراہ فلسطین،عراق،شام،میانمار اور افغانستان کی”سفارتی ٹرافیاں“ بھی فقط رونمائی کے بعد میدان سے واپس اُٹھاکر اقوامِ متحدہ کی تجوری میں قید کردی گئی ہیں۔بس کھیلوں کے عالمی مقابلوں اور سفارت کاری کے عالمی مقابلہ کے مابین اکلوتا یہ ہی فرق ہے کہ سفارت کاری کے ٹورنامنٹ کے اختتام پر حتمی فاتح کوئی بھی نہیں ہوتا یعنی اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں سفارت کاری کے عالمی مقابلہ میں شرکت کرنے والی سفارتی ٹیمیں خالی ہاتھ ہی اِس ٹورنامنٹ میں شرکت کے لیئے آئیں تھیں اوراَب ایک ایک کر کے خالی ہاتھ ہی واپس اپنے اپنے ملک لوٹ رہیں ہیں۔مقامِ فکر تو یہ ہے کہ سات اَرب آبادی والی اِس دنیا میں ہے کیا کوئی ایک بھی ایسا عقلمند شخص نہیں ہے جو دنیا کے 195 ممالک کے سربراہوں سے فرداً فرداً پوچھ سکے کہ بھئی جب آپ کی اقوامِ متحدہ نے دنیا کا کوئی مسئلہ حل ہی نہیں کرنا ہوتا تو پھرہر برس یہ سب تام جھام سجاتے کیوں ہو؟۔بہرحال ہم تو اقوامِ متحدہ کی شان میں بس اتنا ہی کچھ کہہ سکتے ہیں کہ کاش!دنیا کے195 ممالک کے سربراہوں نے جو تالا اپنی عقلوں پر لگایا ہوا ہے،ایسا ہی ایک بڑا سا تالا وہ سب مل کر اقوامِ متحدہ کے مین گیٹ پر بھی لگادیں تاکہ سفارت کاری کے نام پر ہونے والا سالانہ عالمی مذاق تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے بند ہوسکے۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 30 ستمبر 2019 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں