World-Ocean-Day

اچھا سمندر، پر کتنا گندا

سمندر انسانی زندگی کی بقاء میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، سمندر ہماری زمین کا دل اور پھیپھڑے ہیں کیونکہ یہ زمین پر 75 فیصد آکسیجن پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ 30 فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب بھی کرتے ہیں۔ہماری زمین کا 70 فیصد حصہ سمندر پر مشتمل ہے، جبکہ ہمارے سیارے پر بسنے والی جاندار مخلوقات میں سے بلحاظ تعداد 99 فیصد جاندار اجسام سمندروں میں ہی پائی جاتی ہیں۔اب تک کی تحقیقات کے مطابق دولاکھ کے قریب سمندر میں پائے جانے والے جانداروں کی نسلیں دریافت ہو چکی ہیں جبکہ اصل میں ان کی اقسام کئی ملین سے بھی زیادہ ہوسکتی ہیں۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق کرہ ارض کے تقریباً3 بلین لوگوں کا روزگارکسی نہ کسی طرح سمندر کے ساتھ براہ راست منسلک ہے۔صرف ماہی گیر ی کی صنعت سے 200 ملین سے زائد افراد اپنا روزگار حاصل کرتے ہیں۔اسکے علاوہ بلاواسطہ طو ر پر سمندر سے سیاحت،معدنیات اور آئل کی مد میں ہونے والی پیداوار بھی بین الاقوامی تجارت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔عالمی سطح پر سمندری صنعت اور بندرگاہوں کا کل پیداوری مالیاتی حجم 3 ٹریلین ڈالر سالانہ ہے، جو کہ دنیا بھر کے کل جی۔ڈی۔پی کا 5 فیصد بنتا ہے۔

مگر سمندر کی ان تمام انسان دوست عادتوں کے باوجود یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ دنیا کے سمندروں کا 40 فیصد سے زائد حصہ انسان کی غیر معیاری طرزِ حیات اور غیر قانونی سرگرمیوں سے بری طرف متاثر ہے، بالخصوص ماحولیاتی آلودگی،ماہی گیری کے غیر محتاط طریقے اور بندرگاہوں کی ابتر حالت کے باعث سمندری آبی حیات تیزی سے مر رہی ہے اور متعدد اقسام ناپید ہوتی جارہی ہیں۔ سمندروں میں بہایا جانے والا پلاسٹک کھانے سے ہر سال سینکڑوں سمندری پرندے،مچھلیاں اورکچھوے مر جاتے ہیں ایک اندازے کے مطابق 34 فیصد سمندری مچھلیوں،86 فیصد سمندری کچھووں اور 44 فیصد سمندری پرندوں کے پیٹ میں پلاسٹک پایا جاتا ہے یا ان کے گرد لپٹا ہوتا ہے۔سمندری جہازوں سے رسنے والا تیل اور سمندری حادثات کی صورت میں بڑی تعدار میں بہنے والا تیل بھی سمندری آلودگی کی اہم وجہ ہے۔ یہ ہی وہ بنیادی مسائل ہیں جن کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے1992ء میں برازیل کے شہر ریوڈی جنیریو میں ہونے والے ”ارتھ سمٹ“ میں 8 جون کو سمندروں کے عالمی دن کے طور پر منانے کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔نیز یہ دن اقوامِ متحدہ کے تحت بھی 2008 ء سے ہر سال منایا جارہا ہے۔ اس دن کو عالمی سطح پر دنیا بھر میں منانے کابنیادی مقصد انسانی زندگی میں سمندر کی اہمیت،آبی حیات کا تحفظ اور سمندری آلودگی پر قابو پاناہے۔امسال بھی گزشتہ برسوں کی طرح 8 جون کو World Ocean Day یعنی سمندر کے عالمی دن کے طور منایا جارہا ہے۔اس سال کا موٹو (عنوان) ”سمندر کو کہیں ہائے اور پلاسٹک کوبائے بائے“تجویز کیا گیا ہے۔



ماحولیاتی آلودگی کے باعث آنے والی غیر متوقع تبدیلیاں قدرتی نظام کو انتہائی سرعت سے تباہ کررہی ہیں جس کی وجہ سے زمین پر رہنے والے انسانوں‘ جانوروں‘ پرندوں اور ہر ذی حیات کے لئے خطرات اندازے سے کہیں بہت پہلے ہی سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ماحولیاتی تبدیلیاں سمندر وں پر کسی طرح اثرات انداز ہورہی ہیں اس کی ایک ہلکی سی جھلک آپ حال ہی میں جاری ہونے والی تحقیقاتی رپورٹ سے ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سائنس دانوں کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق دو سو برسوں کے دوران سمندر کی سطح میں ایک میٹر یا اس سے بھی زیادہ اضافہ ناگزیر ہو چکا ہے۔ گرین لینڈس اور انٹار کٹیکا یا قطب جنوبی میں برف کے تودے اب تک کی سب سے زیادہ رفتار سے پگھل رہے ہیں جبکہ گزشتہ برسوں کے مقابلے میں سمندروں کا درجہ حرارت اور ان میں انسان کی طرف سے پھینکی جانے والے آلودگی میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ امریکی خلائی ادارے ناسا کے مطابق سمندر کی سطح میں اضافہ کے دنیا بھر میں گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ زمین کے اس حصہ پر جو سمندر کی سطح میں ایک میٹر اضافہ کی وجہ سے غرق ہوجائے گا 150 ملین افراد رہتے ہیں۔ سطح سمندر سے کم اونچائی پر موجود علاقوں میں امریکی ریاست فلوریڈا بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کے بعض بڑے شہر جیسے سنگاپور اور ٹوکیو کی بھی غرقابی کے سنگین خطرات سے دوچار ہیں نیز سمند کی سطح میں اضافہ کی وجہ سے بحر الکاہل کے کئی جزائر پانی میں چلے جائیں گے اور ان کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ ناسا کے ماہرین سمندر کی سطح میں اضافہ کے اعداد و شمار کے مطالعہ کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ آنے والے برسوں میں دنیا کے تمام ساحلوں کی ہیئت میں اچانک تبدیلی آسکتی ہے۔ اس تبدیلی پر مسلسل نظر رکھنے والی ٹیم کے سربراہ اور کولوراڈو یونیورسٹی کے ماہر کا کہنا ہے کہ ”گزشتہ چند برسوں میں عالمی حدت میں جو اضافہ ہوا ہے اس سے سمندر کی سطح میں 3 فٹ تک اضافہ ہوچکا ہے۔ اگر کرہ ارض کی حدت اسی رفتار سے مسلسل بڑھتی رہی تو مستقبل میں صورت حال مزید خراب ہوسکتی ہے“۔

یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ پاکستان بھی اُن ممالک میں سے ایک ہے جو وسیع و عریض سمندر کا حامل ہے۔پاکستان کا ساحل سمندر 1050 کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے اس میں 700 کلو میٹر کا رقبہ بلوچستان کے ساتھ جبکہ 350 کلو میٹر کی حدود سندھ کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔یہاں آپ کی معلومات میں اضافہ کی غرض سے ضمناً ایک انتہائی دلچسپ بات یہ بھی عرض کرتے چلیں کہ پاکستان نے اپنی سمندری حدود میں اضافہ کے لیئے2009ء میں وزارت سائنس وٹیکنالوجی بشمول پاکستان نیوی کے ہائیڈرو گرافر ز اور نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اوشیانو گرافی کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ کی جانب سے مطلوب فارمیٹ اور تفصیلات کے عین مطابق بہت ہی پیچیدہ قسم کا ڈیٹا جمع کرایا تھا جسے اقوام متحدہ کے کمیشن برائے کانٹینٹل شیلف حدود نے منظور کرتے ہوئے پاکستان کے سمندر ی حدود بڑھانے کا مطالبہ قبول کر لیا اور اب پاکستان کی سمندری حدود 200 ناٹیکل میل سے بڑھ کر 350 ناٹیکل میل ہو گئی ہے۔جس کے نتیجے میں پاکستان کو اپنے ساحل کے ساتھ موجود 2 لاکھ 90 ہزار مربع کلومیٹر کی سمندری اراضی پر معدنیات اور ہائیڈروکاربن کی دریافت اور استعمال کے حقوق حاصل ہو گئے ہیں۔یہ رقبہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کے رقبہ کے بعد دوسرا بڑا رقبہ ہے۔پاکستان ہر سال سمندر سے پکڑی جانے والی کروڑوں روپے کی آبی حیات بیرون ملک فروخت کرتا ہے۔ہمارے ملک کے 40 لاکھ سے زائد افراد ماہی گیری کے پیشے سے منسلک ہیں۔مگر اب اس میں تیزی سے کمی آرہی ہے،جس کی وجہ بڑھتی ہوئی آبی آلودگی ہے۔پاکستان کی سمندری حدود میں آلودگی کی سب سے بڑی وجہ مچھیروں کی جانب سے ڈالی جانے والی مردہ مچھلیاں،جہازوں اور لانچوں کا بہنے والا گندا تیل اور بغیر ٹریٹمنٹ کے فیکٹریوں سے آنے والا فضلہ ہے۔کراچی میں 500 ملین گیلن سے زائد گندا پانی روزانہ بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے سمندر میں پھینکا جارہا ہے حالانکہ شہر میں دو سے تین ٹریٹمنٹ پلانٹ موجود ہیں مگرحکومتی اداروں کی عدم توجہی کی بناء پر عرصہ دراز سے یہ غیر فعال ہیں۔کراچی شہر میں 2 ندیاں،13 بڑے اور 250 کے لگ بھگ چھوٹے برساتی نالے ہیں جن کے ذریعے شہر بھر کی غلاظت،گٹرکا پانی، اسپتالوں اور فیکٹریوں کا کچرابلا روک ٹوک سمندر بُرد ہو رہا ہے۔درمیان میں کوئی ایسا ٹریٹمنٹ پلانٹ نہیں جو اس کچرے کو سمندر میں جانے سے روک سکے۔نیزہمارے سمندری ساحلوں پر قائم پاکستان کی دو فعال ترین بندر گاہیں کراچی پورٹ ٹرسٹ اور بن قاسم پورٹ بھی سمندری آلودگی کو بڑھانے میں اپنا حصہ برابر ڈالتی ہیں۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ (KPT) کے حکام یوں تو یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم تو سمندر کو صاف رکھنے کے لیئے دن رات کوشاں ہیں مگرحقیقت اس کے برعکس ہے، پاکستان گیم فش ایسوسی ایشن کے مطابق یہ بندر گاہ شاید دنیا بھر میں آلودہ ترین بندرگاہ ہے کیونکہ اس بندرگاہ کے قرب و جوار میں تیل بہنے کے واقعات عام ہیں اور 2003 ؁ء میں تسمان سپرٹ کا تیل بہنے کا واقعہ تو دنیا بھر کے بدترین واقعات میں شمار کیا جاتا ہے۔کراچی پورٹ ٹرسٹ کے قریب تسمان سپرٹ نامی یونانی جہاز کے پھنس جانے اور جہاز سے ہزاروں ٹن خام تیل بہنے سے ساحل آلودہ ہوگیاتھا اور علاقے میں ہزاروں کی تعداد میں مچھلیاں اور پرندے جان سے گئے تھے۔قرب و جوار میں اس حادثے کے اثرات آج بھی محسوس کیئے جاسکتے ہیں۔
سمندر کے سینے میں دفن پوشیدہ خزانوں تک رسائی وقت کی اہم ضرورت ہے۔گو کہ پاکستان میں بھی سمندری سروے اور زیرِ سمندر موجود قدرتی وسائل کی مقدار کا درست اندازہ لگانے اور نکالنے کے لیئے مناسب وسائل اور تکنیک کے حصول کی کوششیں جاری ہیں لیکن اس میں ہمیں مناسب منصوبہ بندی اورحقیقی حکومتی دلچسپی کی اشد ضرورت ہے تاکہ گہرے سمندر میں موجود وسائل سے بھر پور فائدہ اُٹھایا جاسکے۔زیر سمندر وسائل تک رسائی کے ساتھ ساتھ سمندر اور آبی حیات کی بقاء کی ذمہ داری بھی ہم پر ہی عائد ہوتی ہے۔اسٹاک ہوم ڈیکلیریشن کے مطابق ہر ملک اس بات کا ذمہ دار ہے کہ وہ اپنے معاشی فائدے اور اپنی آئندہ نسلوں کی خاطر محتاط منصوبہ بندی اور مناسب انتظامی اقدامات کے ذریعے اپنی سمندری حدود میں موجود قدرتی وسائل کا تحفظ یقینی بنائے مگر ہمارے ملک میں بدقسمتی سے ماحول کی بہتری کے مناسب اقدامات کی طرف حکومتوں کی توجہ نہ ہونے کے باعث بہت سے سنگین ماحولیاتی مسائل پیدا ہوچکے ہیں۔سمندر کا عالمی دن منانے کااولین مقصد بھی یہ ہے کہ ہر سطح پر سمندر اور آبی حیات کی حفاظت کے ساتھ ساتھ سمندری آلودگی کو کم سے کم کرنے کے لیئے شعور و آگہی پیدا کی جائے تاکہ ہماری زمین پر رہنے والا ہرشخص ”سمندر کو کہے ہائے اور پلاسٹک کو بائے بائے“۔

سمندر سے دوستی نبھانے کا ایک سنہرا موقع
کیا آپ کو سمندر اچھا لگتا ہے؟ کیا آپ سمندر کو اپنا ایک دیرینہ دوست خیال کرتے ہیں؟اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو پھر دنیا کو آپ کی کہانی کی #WorldOceansDayنامی مہم کے لیے اشد ضرورت ہے۔اگر آپ نے بھی کبھی کراچی کے ساحل سمندر کی صفائی میں حصہ لیا ہے، یا کسی ساحلی قطعے کی حفاظت کی مہم چلائی ہے یا محض ایک سمارٹ فِن کے ساتھ سرفنگ کی ہے تو اس طرح آپ نے بے خبری میں سہی زمین پرسب سے قیمتی وسائل میں سے ایک وسیلے کی حفاظت کرنے میں بھرپور مدد کی ہے۔لیکن آپ کی سمندر سے دوستی کی یہ کہانی اب مزید بے خبر ی میں نہیں رہنی چاہیئے۔ سمندر کی حفاظت اور اس کی بقا کے لیئے اُٹھایا گیا ہر قدم،بنایا گیا ہر پروجیکٹ اور اپنی ہر کہانی#WorldOceansDay مہم میں شرکت کرکے دوسرے لو گوں تک پہنچائیے اور یوں عین ممکن ہے کہ آپ کے سمندر دوست خیالات اور کام سے متاثر ہوکر #WorldOceansDay کی انتظامیہ کی طرف سے آپ کویوتھ ایڈوائزری کونسل کا عالمی لیڈر منتخب کرلیا جائے۔ #WorldOceansDay اپنے منتخب کیئے گئے لیڈران کو نہ صرف دنیا بھر میں سمندر کے سفیر کے طور پر پیش کرتی ہے بلکہ سمندر کی حفاظت کے حوالے سے ہونیوالی والی عالمی کانفرنسوں میں شرکت کے لیئے مدعو بھی کرتی ہے۔ اس کے لیئے آپ ورلڈ اوشین ڈے کی آفیشل ویب سائیٹ پر جاکر یا اس مختصر لنک http://wi.cr/CKwtnuv پر کلک کر کے با آسانی یوتھ ایڈوائزری کونسل کی رکنیت کے لیئے خود کو رجسٹرڈ کرواسکتے ہیں۔اس کے علاوہ یہاں سے آپ کو سمندر کی حفاظت کے حوالے سے مختلف پروجیکٹ کی معلومات بھی مل سکتی ہے۔

گہرے سمندر کے، چندگہرے حقائق
سمندر کی گہرائی اپنے اندر کئی پراسرار اور خوفناک راز چھپائے ہوئے ہے جبکہ زمین پر موجود سائنسدان صدیاں گزرنے کے باوجود بھی ان تمام رازوں سے پردہ اٹھا نہیں پائے۔ تاہم ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ زمین کا تو ایک بہت بڑا حصہ دریافت کیا جاچکا ہے جبکہ اب تک سمندر کا جتنا بھی حصہ دریافت کیا گیا ہے وہ 5 فیصد سے بھی کم ہے۔ آئیں ہم آپ کو سمندر کے کچھ دلچسپ اور کچھ خوفناک حقائق سے آگاہ کریں۔
1۔ سمندر کا زیادہ تر حصہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے کیونکہ روشنی سمندر میں صرف 300 میٹر کی گہرائی تک پہنچ سکتی ہے۔ اس کے بعد کا تمام سمندری حصہ تاریک ہوتا ہے جسے Aphotic Zone یا Deep Sea کہا جاتا ہے۔
2۔ گہرے سمندر میں پانی کا دباؤ آٹھ ٹن فی انچ تک ہوتا ہے جو انسان کی دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت سے ہزارہا گنا زیادہ ہے۔سمندر میں گہرے پانی کا ہلکا سا بھی دباؤ انسان کے اندرونی اعضاء کو باآسانی توڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ دباؤ انسانی پھیپھڑوں کو اپنا براہ راست شکار بناتا ہے۔نیز سمندر کی انتہائی گہرائی کا دباؤ کسی شخص پر ایک ساتھ 50 جمبو جیٹ 747 طیارے رکھ دینے کے برابر ہے۔
3۔ سمندری پانی کے دباؤ کی وجہ سے ہی سمندر کی بہت زیادہ گہرائی میں ڈوب جانے والی چیزوں جیسے جہاز وغیرہ کو نکالنا تقریبا ناممکن ہوتا ہے۔ جیسے ہزار کوشش کے باوجود ٹائی ٹینک جہاز کو سوسال بعد بھی نکالا نہیں جاسکا کیونکہ وہ سمندر میں تقریبا چار کلومیڑ نیچے پڑا ہے جہاں تک کسی غوطہ خور انسان کی رسائی ممکن نہیں۔ اب تک سمندری سنار گاڑی ہی وہاں تک پہنچ پائی ہے وہ بھی صرف تصویریں اور ویڈیوز بنانے کے لیئے۔
4۔ اگر سمندری لہروں سے پیدا ہونے والی توانائی کا صرف 0.1 فیصد استعمال کریں تو ہم اتنی بجلی پیدا کرسکتے ہیں جو کہ پوری دنیا کی بجلی کی طلب سے بھی 5 گنا زائد ہوگی۔
5۔ آپ کو یہ جان کر ضرور حیرت ہوگی کہ دنیا بھر کے سمندری پانی میں تقریباً 20 ملین ٹن خالص سونا پایا جاتا ہے لیکن اب تک ایسا کم لاگت کا حامل طریقہ کار دریافت نہیں کیا جاسکا جس کی مدد سے یہ قیمتی سونا حاصل کیا جاسکے۔
6۔سمندر کا اوسط درجہ حرارت 17 سینٹی گریڈ یعنی 60.6 ڈگری فارن ہائیٹ ہوتا ہے۔
7۔سمندر میں آواز انتہائی تیزی سے سفر کرتی ہے۔زیرزمین آواز کے سفر کرنے کی رفتار 1435 میٹر فی سیکنڈ ہے۔ جو ہوا میں آواز کے سفر کرنے کی بہ نسبت پانچ گنا زیادہ ہے۔
8۔ سمندر کا گہرا ترین مقام جسے انسان نے اب تک دریافت کیا ہے وہ Mariana Trench کہلاتا ہے،یہ مقام 36,000 فیٹ گہرا ہے۔اگر دنیا کی بلند ترین عمارت ایمپا ئر اسٹیٹ بلڈنگ جیسی 30 عمارتوں کو اُوپر تلے رکھیں تو شاید ہم سمندر کی اس گہرائی کا مشاہدہ کرسکیں گے۔ جبکہ ایک انسان غوطہ خوری کا جدید ترین لباس پہن کر بھی سمندر کی 2000 فیٹ گہرائی تک ہی جاسکتا ہے۔سمندر کی دنیا انسان کی سوچ سے کہیں زیادہ وسیع ہے یعنی ہم زمین پر موجود تمام مال و اسباب سمندر برد کر کے بھی سمندر کی گہرائی ختم نہیں کر سکتے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 03 جون 2018 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں