money-laundering_sindh

دنیا کا سب سے مشکل کام؟

ہم تو بچپن سے ہی اپنے بزرگوں سے یہ سنتے آئے تھے کہ پیسہ کمانا آسان کام نہیں ہوتا اور زندگی میں تھوڑے سے پیسے بھی کمانے کے لیئے بڑے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں چونکہ ہمیں بچپن سے ہی بیلن چلانا نہیں آتا تھا یعنی مطلب یہ ہے کہ پاپڑ بیلنے نہیں آتے تھے اس لیئے ہم نے کبھی پیسہ کمانے میں دلچسپی ہی نہیں لی۔یہ سوچ کر کہ جب بڑے کہتے ہیں کہ پیسہ کمانا مشکل کا م ہے،تو ہوگا مشکل کام۔اب صرف بزرگوں کی ایک بات کی تصدیق کے لیئے اپنے آپ کو اتنی مشکلوں میں کون ڈالے؟ لیکن سندھ میں منی لانڈرنگ کے حوالے سے پکڑے جانے والے بنک اکاؤنٹس کی ہوشربا داستانیں ٹی وی اسکرین پر سُن اور دیکھ کر لگتا ہے کہ بچپن میں ہمارے بزرگوں نے ہمیں کم از کم پیسہ کے متعلق جو معلومات بھی بتائیں تھیں وہ انتہائی ناقص اور جدید زمانے کے حساب مکمل آؤٹ آف ڈیٹ تھیں۔ اب جب اُن باتوں کے بارے میں سوچتے ہیں تو بیگم کے سامنے سر شرم سے کچھ زیادہ ہی جھک جاتا ہے کیونکہ آج ہم کم علموں پر یہ عقدہ کھل رہا ہے کہ پیسہ کمانے سے زیادہ مشکل کام تو اسے چھپا کر رکھنا ہوتا ہے اور یہ کام تو اتنا زیادہ مشکل ہے کہ سندھ دھرتی کے امیر ترین افراد بھی لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ پر ماہرین معاشیات کی فوج طفر موج کو بھرتی کرنے کے باوجودبھی پیسہ چھپانے میں کامیاب نہیں ہو پارہے۔ حالانکہ پیسہ چھپانے کے لیئے انہوں نے جتنے بڑے بڑے پاپڑ بیلیں ہیں اُن پاپڑوں کی درست لمبائی کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔ مثال کے طور پر پیسہ چھپانے کے لیئے انہوں نے سب سے پہلے ایک نہیں، دو نہیں بلکہ تین تین ذاتی بنک بھی بنائے اور پھر اُس میں اُوپر سے لے کر نیچے تک خوب اچھی طرح چھان پھٹک کر ایسے ایسے نمونے چُن چُن کر بھرتی کیئے جو پیسہ چھپانے کے ماہر کیا بلکہ جادوگر خیال کیئے جاتے تھے۔یہ اُن یکتہ روزگار نمونوں کی جادوگری کا ہی توکمال تھا کہ سبزی والے، چاٹ والے،بریانی والے،رکشہ والے،فالودے والے حتی کے مر جانے والوں کے نام پر بھی اِن بینکوں میں راتوں رات اکاؤنٹ کھول کر اُن کو کروڑوں،اربوں روپوں سے کچھا کھچ اس نیت سے بھر دیا گیا تاکہ اسے قانون کے نظروں سے چھپایا جاسکے۔
گزشتہ 35 سالوں سے پیسہ چھپانے کے لیئے یہ امیر لوگ دنیا بھر میں کتنا خوار ہورہے ہیں اس خواری اور خجالت کا ذرہ سا احساس بھی شاید کسی عام آدمی کو نہیں کہ ان نودولتیوں نے دنیا کے ہر ملک میں پیسہ چھپانے کی حتی المقدور کتنی کوششیں کیں،بیچارے سات سمندر پار سوئزرلینڈ تک پیسہ چھپانے گئے،جب بات نہیں بنی تو پیسہ امریکہ کے بینکوں میں ٹرانسفر کردیا لیکن جب یہاں سے بھی پکڑے گئے تو اپنا سارا سرمایہ برطانیہ لے گئے مگر برطانیہ کی سرزمین بھی ہمارے حکمرانوں کی دولت کو زیادہ دیر تک اپنے سینے میں چھپا کر نہ رکھ سکی تو یہ اپنی ساری دولت بذریعہ ماڈل گرل برادر اسلامی ملک متحدہ عرب امارات لے کر پہنچ گئے،شوقئی قسمت اسلامی بھائی چارہ بھی ان بدنصیبوں کے کچھ کام نہ آسکا اور یہاں بھی پیسہ چھپانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔صرف یہ ہی نہیں اِن کے نام نہاد معاشی جادوگروں نے پیسہ چھپانے کے لیئے سینکڑوں کے حساب سے جعلی کمپنیاں بھی بنائیں اور وہ جعلی کمپنیاں ایسی تھیں کہ اُن میں سے ہر جعلی کمپنی کے پیٹ میں 56 مزید کمپنیاں تھیں۔افسوس بات پھر بھی نہ بن پائی اور اتنی محنت سے بنائی گئیں یہ تما م کی تمام جعلی کمپنیاں بھی پیٹ کی ہلکی نکلیں۔ان کمپنیوں میں جو نمونے پیسہ چھپانے کی غرض سے بھرتی کیئے گئے تھے آج کل سب کے سب گرفتار ہیں اور خبریں گرم ہیں کہ اپنے بھرتی کرنے والوں کو عنقریب گرفتار کروانے کے لیئے ضرورت سے کچھ زیادہ ہی تعاون کررہے،اب اس تعاون کے بدلے میں عنقریب گرفتار ہونے والوں کو اور کتنا تاوان بھرنا پڑے گا کوئی نہیں جانتا۔اوپر سے اِن کے مخالف یعنی ہمارے ملک کے غریب لوگ ان پر تہمت دھر رہے ہیں کہ انہوں نے منی لانڈرنگ کی،حالانکہ حقیقت صرف اتنی سی ہے کہ ان بے چارو ں نے منی لانڈرنگ کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکے اور یوں اِن کا وہ کالا پیسہ جو لانڈر ہونے کے بعد سفید ہو کر قانون کی نظروں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے چھپ سکتا تھا۔آج سب کے سامنے سڑک پر پڑا ہے اور ہر راہ چلتے کی نظر اُس پر ہے۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھیئے کہ جن لوگوں کو یہ نہیں معلوم اُن کے اپنے بنک اکاؤنٹ میں کتنی رقم موجود ہے اس وقت وہ لوگ بھی کم از کم یہ ضرور جانتے ہیں کہ ملک سے باہر پیسہ چھپانے والوں کے کس کس ملک میں کتنے کتنے اکاونٹ ہیں اور اُن میں کس کس کے نام پر کتنے کتنے پیسے موجود ہیں۔اگر اسے منی لانڈرنگ یا پیسہ چھپانا کہتے ہیں تو حیف ہے ملک لوٹنے والوں پر کہ جنہوں نے ملک کی دولت لوٹنا تو سیکھ لیا لیکن لوٹی ہوئی دولت کو چھپاتے کس طرح ہیں یہ نہ سیکھ سکے اور اب ایک کے بعد دوسرا اس بُرے طریقہ سے گرفتار ہورہا ہے کہ جیل کے بجائے سیدھا اسپتال جا رہا ہے۔اللہ سبحانہ ُ تعالیٰ نے اپنی کتابِ حکمت بالکل سچ فرمایا تھا کہ ”کثرت کی خواہش انہیں قبروں تک لے گئی“۔ بس فرق یہ ہے کہ وطنِ عزیز پاکستان کو لُوٹنے والے براستہ اسپتال اور براستہ جیل قبروں تک جارہے ہیں۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 01 نومبر 2018 کی اشاعت میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں