pti-election-wins

سیاست میں ہار، جیت کا فلسفہ

غالب امکان ہے کہ میری طرح آپ نے بھی کبھی نہ کبھی یہ ضرور سوچا ہوکہ ریسلنگ،فٹبال،تیر اندازی،باکسنگ غرض کسی بھی کھیل سے تعلق رکھنے عالمی سطح کے کھلاڑی عموماً یکساں جسمانی طاقت کے مالک ہوتے ہیں،اِن کی تربیت بھی یکساں معیار کی ہوتی ہے اور تو اور اِن تمام کھلاڑیوں میں اپنے اپنے وطن کے لیے جیت کا جذبہ بھی یکساں معیار کا ہی ہوتا ہے۔آخر پھر اِن میں ہار،جیت کا بنیادی سبب کیا ہوتاہے۔یعنی ایک کھلاڑی ہر بار ہی جیت کیوں جاتا ہے جبکہ دوسری ٹیم کا کھلاڑی ہر بار اپنی ٹیم کے مقدر میں ہار ہی کیوں لکھنے کا باعث بن جاتاہے۔یہ ہی وہ سوال تھا جو گزشتہ کئی برسوں سے امریکی سائنسدانوں کی ایک تحقیقاتی ٹیم کا بنیادی موضوع بھی تھا۔اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیئے اس تحقیقاتی ٹیم نے پورے پانچ سال تک دنیا کے بہترین ریسلنگ لڑنے والوں،بہترین باکسنگ کرنے والوں اور بہترین فٹبال کھیلنے والے کھلاڑیوں کی جسمانی طاقت اور اِن کی نفسیاتی صلاحیت کا بغور مشاہدہ کیا اور کھلاڑیوں کے کھیل کے عملی و طویل جائزہ کے بعد وہ اِس نتیجے پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے کہ جیتنے والے کھلاڑیوں اور ہارنے والے کھلاڑیوں میں ایک خاص فرق ہوتاہے۔مگر عجیب بات یہ ہے کہ یہ فرق کھلاڑی کی جسمانی قوت کا نہیں بلکہ نفسیاتی صلاحیت کا ہوتاہے۔ بر س ہا برس کی تحقیق نے ثابت کیا کہ کسی بھی کھلاڑی کی ذہنی حالت ہی وہ واحد بنیادی فر ق جو اِس کے یا اِس کی ٹیم کے لیئے ہار جیت کا فیصلہ کرتی ہے۔ تحقیق میں حصہ لینے والے تمام تر ماہرین نفسیات اپنے تحقیقی تجربہ میں کم و بیش اس ایک نتیجہ پر متفق تھے کہ ہارنے والے کھلاڑی مقابلے سے پہلے ہی بددل اور پریشان تھے اور دورانِ کھیل باربار قوانین کی خلاف ورزی کرنے کی کوشش کرتے یا اپنے مخالف پر شور مچاتے جبکہ جیتنے والے کھلاڑی، کھیل کے آغاز سے اختتام تک پراعتماد، مطمئن اور خاموش رہنے کی کوشش کرتے تھے۔یہ ہی بات سیاست کے میدانِ کارزار میں مقابلہ کرنے کے لیئے بھی درست ہے۔سیاست کے میدان میں جب اقتدار کی رسہ کشی یا سیاسی اثرونفوذ کا زور ثابت کرنے کے لیئے دو سیاسی گروہوں کا آپس میں مقابلہ ہوتا ہے تو کامیاب ہونے یا نہ ہونے میں اصل فیصلہ کُن چیز یہ نہیں ہوتی کہ کس کے پاس سیاسی طاقت زیادہ ہے اور کس کے پاس کم یا کون زیادہ سیاس تجربہ رکھتا ہے اور کون سیاست میں نو وارد ہے۔بلکہ اصل فیصلہ کُن چیز سیاسی جماعتوں کی سربراہی کرنے والے سیاسی رہنماکی دلی و دماغی حالت ہوتی ہے۔ یعنی جس سیاسی رہنما کے اندر قلبی و ذہنی اوصاف زیادہ ہوتے ہیں وہ کامیاب ہوجاتاہے اور جس کے اندر اِن اوصاف کا فقدان ہوتاہے وہ سیاسی ناکامی سے دوچار ہوجاتاہے۔خواہ اس کے پاس سیاسی طاقت کتنی زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔اپنے سیاسی نظریے کی صحت پر کامل یقین اور ہمیشہ بااُصول رہنا ہی فقط دو ایسے رہنما سیاسی اُصول ہیں جو سیاست میں یقینی جیت کا سبب بن جاتے ہیں۔
ہار،جیت کے اس فارمولے کا عملی مظاہرہ کچھ عرصہ سے ہمیں اپنی ملکی سیاست میں بھی دیکھنے کو مل رہاہے۔یاد کریں وہ وقت جب مسلم لیگ ن کے طاقتور ور ترین وزراء کس قدر غرور و نخوت سے میڈیا پر مسکرا مسکرا کر عمران خان کو طعن و تشنیع کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ ”اگر پاکستان کے سارے سیاستدان بھی نااہل ہوجائیں تب بھی عمران خان وزیراعظم نہیں بننے والے“۔جبکہ ایک وزیر باتدبیر تو ترنگ میں یہاں تک کہہ گئے تھے کہ ”عمران خان کے ہاتھ میں وزیراعظم کی لکیر ہی نہیں ہے“۔کاتبِ تقدیر کا لکھا دیکھیئے کہ آج وہی عمران خان بقول مسلم لیگ ن کے ترجمانوں کے جن کے ہاتھ میں وزیراعظم بننے کی لکیر ہی نہیں تھی وہ پاکستان کے ایک منتخب وزیراعظم کی صورت میں ایک ناقابلِ تردید حقیقت کے روپ میں مسلم لیگ ن کے سامنے موجود ہیں۔ حیرت تو یہ ہے ایک نووارد سیاسی جماعت اور سیاسی طور پر ناتجربہ کار کھلاڑی کے ہاتھوں چاروں شانے چت ہونے کے باوجود بھی مسلم لیگ ن نے بطور سیاسی جماعت کوئی سبق نہیں سیکھا اور اب بھی وہ جو سب سے بڑا طعنہ تحریک انصاف کی حکومت یا اِس کی قیادت کو دیتے ہیں وہ ناتجربہ کاری اور اناڑی پن کا ہی ہوتاہے۔جبکہ اُنہیں یہ سوچنا چاہیئے کہ اگر سیاسی تجربہ کاری ہی اقتدار کے تخت ِشاہی پر ہمیشگی براجمان رہنے کے لیئے حرفِ آخر ہوتی تو پھر ایسا کیا ہوا ہے کہ مسلم لیگ ن 35 سالہ سیاسی تجربہ اور اقتدار کی بھرپور طاقت رکھنے کے بعد بھی اقتدار کی راہِ داریوں سے ایسی رسوائی سے نکالی گئی، جس کی مثال کم ازکم پاکستان کی 71 سالہ سیاسی تاریخ میں تو دستیاب نہیں۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ مسلم لیگ ن کی قیادت اپنی تمام تر سیاسی ہار کا ملبہ دوسروں پر ڈالنے کے بجائے،ایک بار اپنی اداؤں پر بھی ذرا غور کرتی اور اپنی اُن سیاسی و غیر سیاسی غلطیوں کا محاسبہ کرنے کی کوئی مخلصانہ کوشش کرتی،جن کی وجہ سے مسلم لیگ ن جیسی پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت کو آج یہ بُرے دن دیکھنے کومل رہے ہیں۔ ہر وقت صرف اپنے مدِمقابل کو کُوسنے سے دل کی بھڑاس تو نکالی جاسکتی ہے مگر فقط اِس طرزِ عمل سے سیاسی شکست کو فتح میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ مسلم لیگ ن کی قیادت کا موجودہ طرزِ سیاست تحریک انصاف کی حکومت کے لیئے انتہائی سازگار ہے کیونکہ لگ ایسا رہا ہے حکومت کے مقابل تمام سیاسی قوتیں ذہنی طور پر مکمل پسپائی اختیار کرچکی ہیں اور اُن کے سیاسی بیانات سُن کر تو محسوس ہوتاہے کہ اُنہیں پختہ یقین ہے چونکہ پاکستان کے تمام اداراے حکومت کے پشت پر کھڑے ہیں اس لیئے حکومت سے سیاسی معرکہ آرائی کارِفضول سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ ڈر تو اس بات کا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کا یہ مظلومیت سے پُر سیاسی رویہ کہیں اُنہیں سیاست کے صفحہ سے حرفِ غلط کی طرح ہی نہ مٹا دے اور مستقبل میں پاکستانی سیاست فقط ایک سیاسی جماعت تک نہ محدود ہوکر رہ جائے اور اگر ایسا ہوا تو اس کی تمام تر ذمہ داری موجودہ اپوزیشن جماعتوں پر ہی عائد ہوگی کہ جو سیاسی کھیل میں اپنے حریف کو بہترین سیاسی داؤ پیچ سے شکست دینے کے بجائے امپائر،کوچ،کمنٹیٹر اور تماشائیوں کو دھمکا کر،ڈرا کر اور للچا کر کھیل کو جیتنا چاہتی ہیں۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 09 مئی 2019 کی اشاعت میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں