Future-War-On-Water

مستقبل کی جنگ پانی پر ہوگی؟

پانی زندگی ہے۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ دنیا کی ہرتہذیب اور معاشرے میں کسی پیاسے کو پانی پلانا بہت بڑا کارِ ثواب ہے۔لیکن صرف اُس وقت تک جب تک کہ پانی طلب کرنے والے افراد کی تعداد دو،چار یا چند ہزار نفوس تک محدود ہوتو انہیں بخوشی پانی جیسی نعمت وافر مقدار میں فراہم کی جاسکتی ہے۔مگر اگر کوئی قوم کسی دوسری قوم سے اپنی سرزمین کی سیرابی کے لیئے مکمل دریا ہی طلب کرنے کی غلطی کر بیٹھے تو عین ممکن ہے کہ اُسے پانی کے بجائے آگ اور خون کے سمندر میں غرق کر دیا جائے۔یا د رہے کہ پانی پر جنگیں انسانوں کے مابین ماضی میں بھی ہوتی رہی ہیں اور مستقبل میں بھی مختلف اقوام کے درمیان پانی پر جنگ ہونے کے شدید ترین خطرات بدستور پائے جاتے ہیں۔

خاص طور پر جنوبی ایشیا کے بارے میں تو ماہرین عسکریات ایک مدت سے پیش گوئی کرتے آرہے ہیں کہ یہاں آئندہ جنگ جب بھی ہوگی،پانی پر ہی ہوگی۔اَب وہ پانی ٹھنڈا ہو یا گرم اُس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔یہاں یہ وضاحت کرنا اشد ضروری ہے کہ جدید سیاسیات کی اصطلاح میں سمندر کو ”گرم پانی“ (Hot Water) گلیشیئریا پہاڑوں پر موجود آبی سوتوں کو ”ٹھنڈ اپانی“ (Cold Water) بھی کہا جاتاہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ عظیم متحدہ روس اگر پاکستان سے متصل گرم پانی تک بذور طاقت رسائی حاصل کرنے کی حماقت نہ کرتا تو امریکا کو روسیوں کو جنگ کی دلدل میں دھکیلنے کا سنہری موقع مشکل ہی میسر آنا تھا۔اس لیے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ امریکا اور روس کے درمیان ہونے والی سرد جنگ کا بنیادی محرک گرم پانی ہی تھااور اَب اُسی گرم پانی تک روس کو رسائی پاکستان کی جانب سے اس لیئے فراہم کردی گئی ہے کہ روسیوں کو سمجھ آگیا ہے کہ پاکستانیوں سے پانی صرف محبت سے سے حاصل کیا جاسکتاہے۔

سرد جنگ کے اختتام کے بعد روس کے ساتھ گرم پانی کا تصفیہ طے پایا تو اچانک بھارت کے ساتھ پاکستان کا ٹھنڈے پانی کا تنازعہ سراُٹھانے لگا اور بھارتی حکمرانوں کی جانب سے پاکستانیوں کو ہمالیہ پہاڑ کی فلک بوس چوٹیوں سے براستہ کشمیر سے ہوکر دریا سندھ تک بہہ کر آنے والے صاف و شفاف دریائی پانی کو روک دینے کی کھلم کھلادھمکیاں دی جانے لگیں اور سندھ طاس عالمی معاہدے کو سبوتاژ کرنے کے لیئے سنجیدہ بہانے تلاش کیئے جانے لگے۔ المیہ تو یہ ہے کہ گزشتہ انتخابات میں نریندر مودی نے اپنی عوام سے ووٹ بھی اس وعدے پر لیئے تھے کہ ”میں اگلی بار اقتدار میں آتے ہی پاکستان کا پانی بند کر کے اُسے بے آب و گیاہ صحرامیں تبدیل کر کے اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردوں گا“۔مگر پاکستان دشمنی کے زہر آلودہ جذبات سے لتھڑا ہوا نریندر مودی یہ بھول گیا کہ پاکستان کو سیراب کرنے والا پانی، بھارت کے دریاؤں گنگا اور جمنا سے نہیں بلکہ ہمالیہ پہاڑ کی چوٹیوں سے بہہ کر آتاہے اور ہمالیہ پر چین کو مکمل دسترس حاصل ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق چین اپنے جنوب مغربی علاقے تبت میں ایک بہت ہی بڑا ڈیم تعمیر کرنے جا رہا ہے جس کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد چین حقیقی معنوں میں اس قابل ہوجائے گا کہ وہ جب چاہے بھارت کا پانی بندکردے۔صرف یہ ہی نہیں اس ڈیم کی بل بوتے پر چین پورے جنوبی ایشیا کو میسر پانی کی سپلائی بھی باآسانی کنٹرول کرنے کی غیر معمولی صلاحیت حاصل کرلے گا۔

واضح رہے کہ یہ ڈیم جسے دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں ”میگا ڈیم“ کے نام سے پکارا جارہاہے۔ تبت، بھارت اور بنگلہ دیش سے گزرنے والے برہم پتر دریا پر تعمیر کیا جائے گا۔ جو دنیا کے سب سے بڑے پاور سٹیشن’’تھری گورجز“ ڈیم کے مقابلے میں تین گنا زیادہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کا حامل ہوگا۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ برہم پتر دریا پر تعمیر ہونے والے اس میگا ڈیم سے سالانہ 300 ارب کلو واٹ بجلی پیدا ہوگی۔یاد رہے کہ اس میگا ڈیم کا منصوبہ چین کے 14ویں سٹریٹیجک پانچ سالہ منصوبے میں شامل ہے جو گزشتہ ماہ چین کی نیشنل پیپلز کانگریس کے سالانہ اجلاس میں پیش کیا گیا تھا۔بظاہر اس پانچ سالہ منصوبے میں ڈیم کی تعمیر کی مدت اور اس پر آنے والے اخراجات سے متعلق تفصیل کسی کو بھی فراہم نہیں کی گئی ہے۔لیکن ماہرین کی جانب سے امکان یہ ظاہر کیا جارہاہے کہ چین دفاعی اہمیت کے حامل اپنے اس عظیم الشان ڈیم کو پانچ سال کی مدت میں مکمل کر کے خطے میں اپنی دھاک بٹھانے کا قوی ارادہ رکھتاہے اور اگر یہ میگا ڈیم اپنی مقررہ مدت میں تیار ہوجاتاہے تواس کی بدولت خطے میں بھارت کے تیزی سے بڑھتے ہوئے توسیع پسندانہ عزائم انتہائی محدود یا پھر مکمل طور پر اختتام پذیر بھی ہوسکتے ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ خاص طور پر امریکی حکام کی جانب سے چین کے اس میگا ڈیم کے منصوبے شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے چین سے مطالبہ کیا جارہاہے کہ وہ فی الفور اس منصوبہ کو ترک کردے۔ لیکن چینی منصوبہ سازوں نے میگا ڈیم پر ہونے والی ہرقسم کی تنقید کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اس کی جلد ازجلد تعمیر کے لیئے کمر کس لی ہے۔

دوسری جانب بھارتی ذرائع ابلاغ کے ایک حلقے میں یہ دہائی دی جارہی ہے کہ”چین کی جانب سے یہ میگا ڈیم پاکستان کی خواہش اور سی پیک کے تحفظ کے لیئے خصوصی ”عسکری بندوبست“کے طور پر تعمیر کیا جارہاہے اور اس منصوبہ کی تکمیل کے بعد چین اور پاکستان کی طرف سے بھارت کو آبی جارحیت کا نشانہ بنایا جائے گا“۔یہاں الفاظ کا چناؤ ملاحظہ ہو کہ میگا ڈیم چین بنا رہا ہے،لیکن بھارتی میڈیا اپنی عوام کو یہ باور کروانے کی کوشش کررہا ہے کہ متذکرہ بالا ڈیم سے بھارتیوں کا پانی پاکستانی حکومت بند کردے گی۔حالانکہ اگر ہمالیہ بھارت کے ابتدائی سرے پر واقع ہے تو پاکستان اُس کے آخری سرے پر موجود ہے اور آخری مقام پر بیٹھ کر پاکستان کس طرح سے بھارت کا پانی بند کرسکتاہے؟۔سمجھ سے بالا تر ہے۔ ہاں! جہاں تک چین کا سوال ہے تو بلاشبہ چین اپنے میگا ڈیم کی تکمیل کے بعد جب چاہے بھارت کی آبی گزرگاہوں کو ریت اُڑاتے صحراؤں میں تبدیل کرسکتاہے۔لیکن اگر بھارت چاہتاہے کہ چین یہ ”آبی اقدام“ نہ کرے تو پھر اُسے کچھ اور کچھ دو کی پالیسی کے تحت چین سے مبنی بر اخلاص نتیجہ خیز مذاکرات کا آغاز ابھی سے کر دینا چاہئے۔ لیکن اگر مودی سرکار،امریکی آشیر باد سے چین کو نیست و نابود کرنے کی خفیہ سازشوں میں مسلسل مصروف عمل رہی گی تو پھر چین کو بھی اپنے دفاع کے لیئے ہر قسم کے حفاظتی اقدامات اُٹھانے کا حق بدستور حاصل رہے گا۔

ویسے بھی پاکستان سے گزرنے والی سی پیک راہ داری کو چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے میں مرکزی اور کلیدی حیثیت حاصل ہے۔اس لیئے چین پاکستان کی زراعت میں انقلابی جدت لانے میں اعلانیہ دلچسپی لے رہا ہے۔ دراصل سی پیک منصوبہ کی تمام تر کامیابی کا دارمدار لہلاتے ہوئے سر سبز پاکستان میں ہے اور سی پیک کے زرعی منصوبوں کی کامیابی کے لیے دریا کے پانی تک رسائی ناگزیر ہے۔اس لیئے چین بھارت کے کسی بھی ایسے منصوبے کو کبھی بھی کامیابی سے ہمکنار ہونے نہیں دے گا،جس کی وجہ سے پاکستانی سرزمین بنجر ہونے کی خدشات پیدا ہوں۔ اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو برہم پتر میں ”میگا ڈیم“ بنانے کا منصوبہ براہ راست پاکستانی بقا کا ضامن ہے اور چین نے میگا ڈیم کے عظیم الشان منصوبہ کا آغاز کرکے ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے پاکستان کو بھارت کی آبی جارحیت سے تحفظ فراہم کرنے کا خاطر خواہ بندوبست کردیا ہے۔

نیز چین کے لیے قیمتی ہیرے کی حیثیت رکھنے والی گوادر بندرگاہ سے اسے صرف بحر ہند کا تجارتی کنٹرول ہی نہیں ملتا بلکہ یہ بندرگاہ چین کی میری ٹائم خواہشات کے لیے ایک”دفاعی لکیر“ بھی ہے۔یاد رہے کہ چینی صدر ژی جنگ پنگ عالمی برداری کو مخاطب کرتے ہوئے واضح طور پرکئی بار کہہ چکے ہیں کہ”چین سمندر میں دلچسپی لے گا، اسے سمجھے گا، اور اسٹریٹجک بنیادوں پر سمندر کا انتظام سنبھالے گا اور میری ٹائم طاقت طاقت کے حصول کے لیے چین انتھک محنت اور زیادہ سے زیادہ کام کرتا رہے گا“۔اس مقصد کے حصول کے لیے پیپلز لبریشن آرمی نیوی (پی ایل اے این) 2030ء تک ’99 آبدوز، 4 چار ائیرکرافٹ بردار بحری جہاز، 102 ڈسٹرائر اور فریگیٹ جہاز، 26 کارویٹ، 73 پانی اور خشکی پر چلنے والے ایمفی بئیس شپ اور 111 میزائل کرافٹ‘ کو اپنے بحری قوت میں شامل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

شاید اسی لیئے اکثر ماہرین عسکریات سمجھتے ہیں کہ اگر چین اپنے آبی دفاع کو اسی رفتار سے منظم اور محفوظ بناتا رہا تو آج سے 10 برس بعد چین کے پاس کم ازکم 415 بحری جہازوں کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی بحری فوج ہوگی۔علاوہ ازیں ایک درجن سے زائدمیگا ڈیمز کی صورت میں دنیا کے سب سے بڑے آبی ذخیرے بھی چین کے پاس ہی موجود ہوں گے۔جبکہ تجارتی اثر و رسوخ تو چین کا آج بھی دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک سے کہیں زیادہ ہے۔ صرف امریکا میں اتنی چینی مصنوعات موجود ہیں کہ اگر اُن کی رسد کی فراہمی معطل کردی جائے،تو امریکی دُکانیں کھانے پینے کی اشیاء سے خالی ہوجائیں گی۔ یعنی سادہ لفظوں میں یوں سمجھ لیجئے کہ مستقبل میں کس ملک کو کتنا پانی دیا جائے گا عین ممکن اس کا فیصلہ چین اور پاکستان مل کر کریں۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 15 اپریل 2021 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں