weirdest things that have been stolen

نیا دور، نئی وارداتیں

دنیاکے ہر الہامی مذہب میں ہی نہیں بلکہ ہرتہذیب اور ثقافت میں بھی چوری کو ایک سنگین جرم سمجھا جاتا ہے اور اس فعل قبیح کے مضراثرات سے معاشرتی زندگی کو محفوظ و مامون رکھنے اور چوری کی حوصلہ شکنی کے لیئے ہر معاشرے میں سخت قوانین اور سزائیں بھی رائج ہیں۔ نیز ہر گھر میں بچوں کو ہوش سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے یہ ہی اہم ترین نصیحت کی جاتی ہے کہ ”چور ی کرنا بالکل غلط کام ہے“۔لیکن بعض افراد پر نہ تو پند و نصائح کے کچھ مثبت اثرات مرتب ہو پاتے ہیں اور نہ سزا کا ڈر، اُنہیں چوری سے باز رکھ پاتاہے۔لہٰذا وہ جب موقع پاتے ہیں چوری کرگزرتے ہیں۔ چوری کی انسانی ”عادتِ بد“ کے متعلق عام خیال یہ ہی پاجاتاہے کہ اسے کسی ضرورت کے پیش نظر ہی کیا جاتاہے۔مگر ماہرین نفسیات کے مطابق ضرورت،مالی منفعت،لالچ اور جلد ازجلد امیر بننے کی خواہش کے علاوہ بھی بے شمار ایسی وجوہات ہیں،جن کے باعث کوئی بھی فرد،چوری جیسی بُری عادت میں مبتلا ہوسکتاہے۔ بہرحال ایک بات طے ہے کہ چوری چاہے کتنی بے ضرر، معمولی،چھوٹی یا کسی بھی وجہ سے کیوں نہ کی جائے، کہلاتی چوری ہی ہے۔ زیرنظر میں مضمون میں چند عجیب اور منفرد وارداتوں کا احوال پیش خدمت ہے۔

گھر کے چور
ایک لمحہ کے لیئے ذرا تصور کریں کہ آپ دفتر سے چھٹی کے بعد جلدی جلدی اپنے گھرکے لیئے روانہ ہوتے ہیں کیونکہ آج بیگم کی سا ل گرہ ہے۔ لیکن جب عین اس مقام پر پہنچتے ہیں،جہاں آپ کا گھر ہے تو وہ جگہ بالکل سپاٹ ہموار اور خالی میدان نظر آتی ہے۔ آپ پریشانی کے عالم میں قریب کھڑے پڑوسی سے اپنے گھر کے اچانک غائب ہونے کے بارے میں دریافت کرتے ہیں تو وہ دکھ بھرے گلوگیر لہجے میں کہتاہے کہ ”جناب،آج دوپہر کو جب آپ کی بیگم خریداری کے لیئے بازار گئی ہوئی تھیں تو پیچھے سے کچھ چور آئے اور آپ کے گھر کو چرا کر لے گئے“۔عین ممکن ہے کہ آپ اس فرضی منظر کشی کو تصور میں بھی اپنی ذات پر منطبق نہ کرسکیں کیونکہ گھر پر قبضہ ہونا،گھر میں موجود سامان کا چوری ہونا،حتی کہ زلزلے یا محکمہ تجاوزات کی مہربانی سے گھر کا مسمار ہونا بھی سمجھ آتاہے۔لیکن بھرے پرے گھر کا چوری ہو جانا عجیب ہی نہیں بلکہ ناقابلِ یقین بھی لگتاہے۔بہر حال کوئی مانے یا نہ مانے اَب دنیا میں گھر بھی چوری ہونے لگے ہیں۔ امریکا کے دارلحکومت واشنگٹن کے علاقے ہیمپیل میں رہائش پذیر ایک خاندان کے ساتھ یہ انہونی واردات ہو بھی چکی ہے۔

قصہ کچھ یوں ہے کہ 2015 میں ایک دن یہ خاندان چند گھنٹے کے لیئے تفریح کے لیے کہیں گھومنے پھرنے کے لیئے گیا تو پیچھے سے چور اِن کا گھر چوری کر کے چلتے بنے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ کسی پڑوسی نے چوروں کو ان کا گھر چوری کر کے لے جاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ بہرحال مذکورہ خاندان کی جانب سے گھر چوری کی شکایت مقامی پولیس کے پاس درج کروائی تو گئی،پولیس اہلکاروں نے حیران ہونے بجائے چور اور مال مسروقہ یعنی گھر کی تلاش شروع کردی۔ کیونکہ پولیس کو یقین تھا کہ اتنے بڑے گھر کو چور،ابھی زیادہ دور تک نہیں لے جاسکے ہوں گے۔ پولیس کا اندازہ درست ثابت ہوا اور تقریباً 16 کلومیٹر دور انہوں نے چوروں کو ایک دیو ہیکل ٹرالر میں گھر چوری کر کے لے جاتے ہوئے گرفتار کرلیا۔ دراصل امریکا میں کسی قدیم، خستہ حال اور تاریخی عمارت کو بنیاد سمیت دیو ہیکل ٹرالر کی مدد سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیئے باقاعدہ رجسٹرڈ کمپنیاں موجود ہیں۔ ایسی ہی ایک کمپنی کے مالک اور ملازمین کی نیت خراب ہوئی اور انہوں نے ایسے قیمتی گھروں کو چوری کرنے کا منصوبہ ترتیب دیا،جو کم آبادی والے علاقے میں موجود ہوں اور جن کے گھر مقفل کر کے مالک سیرسپاٹے کے لیئے گئے ہوئے ہوں۔

ساحل سمندر کی چوری
ساحل ِسمندر کتنی بڑی تفریحی نعمت ہے، یہ آپ کبھی اُن ممالک کی عوام سے معلوم کریں،جنہیں یہ قدرتی سہولت سرے سے دستیاب ہی نہیں ہے۔ خاص طور پر گرم،مرطوب، آب و ہوا رکھنے والے ممالک میں ساحل سمندرکی نرم،گیلی ریت پر سرشام چہل قدمی کرتے ہوئے غروب آفتاب کے حسین منظر کو اپنے کیمرے کی آنکھ میں قید کرنا،کس بندہ بشر کی خواہش نہیں ہوتی۔ ویسے تو جدید ٹیکنالوجی کی بدولت اَب مصنوعی ساحل سمندر تخلیق کرنا ممکن ہوچکا ہے اور دنیا کے بے شمار تفریحی مقامات پر مصنوعی ساحلِ سمندرکے نظارے سیاحوں کی تفریحی طبع کے لیئے دستیاب بھی ہیں۔ لیکن انہیں ہر گز حقیقی ساحلِ سمندر کا متبادل یا ہم پلہ قرار نہیں دیاجاسکتا۔ شاید اسی لیئے سال 2008 میں ایک چور نے جمیکا کے سمندر کے قریب واقع معروف فائیو اسٹار ”کورل اسپرنگ“ نامی ساحل ِ سمندر کو چرانے کی کوشش کی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ چور،درج بالا ساحل کو چرانے میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوگیا تھا۔

دراصل جمیکا کے ساحل سمندر پر،گرم ایام میں جیسے جون، جولائی اور اگست کے مہینوں میں سیرو تفریح کے لیئے آنے والے مقامی افراد کابہت زیادہ ہجوم اکٹھا ہوجایا کرتاتھا، جس کی وجہ سے جمیکا میں آنے والے غیر ملکی سیاحوں کو ساحلِ سمندر پرگھومنے،پھرنے کے لیئے کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور ”کورل اسپرنگ“ میں تل دھرنے کی جگہ بھی نہیں رہتی۔ اسی صورت حال سے مالی منفعت اُٹھانے کے لیئے ”کورل اسپرنگ“ کے کاروباری حریف سمجھے جانے والے نجی ہوٹل مالکان نے غیرملکی سیاحوں کی اس پریشانی کا حل یہ نکالا کہ انہوں نے اپنے ہوٹلز میں مصنوعی ساحل سمندر کے ریزورٹ قائم کردیے۔ بظاہر غیر ملکی سیاحوں کو اپنی جانب راغب کرنا کا یہ اچھا کاروباری خیال تھا،لیکن مصنوعی ریت میں سمندرکی قدرتی ریت جیسی خصوصیات نہ ہونے کے باعث یہ منصوبہ کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکا۔ ایک ہوٹل مالک نے اس مسئلہ کچھ اس انداز میں حل کرنا چاہا کہ ”کورل اسپرنگ“ کے ساحل سمندر کی ریت چوری کرکے اپنے ریزورٹ میں منتقل کرنا شروع کردی۔جب تک جمیکا کی انتظامیہ کو ساحل سمندر کی چوری کی خبر ہوئی اُس وقت تک چور 500 سے زائد ٹرک سمندری ریت کے ساحل سے چوری کرنے میں کامیاب ہوچکا تھا۔

ساحل سمندر کی ریت چوری کرنے والے چور کی گرفتاری کے بعد تحقیقاتی اداروں کو معلوم ہوا کہ سمندری ریت کی چوری میں ایک پوری مافیا ملوث ہے،جس کا کام ہی جمیکا اور دیگر شہروں میں قائم نجی ریزورٹ میں بنائے گئے مصنوعی ساحل سمندروں کی ریت پوری کرنا تھا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ساحل سمندر سے ریت کی چوری عالمی بلیک مارکیٹ میں نفع بخش کاروبار کی فہرست میں شمار کیا جاتاہے۔

انسانی بالوں کے لٹیرے
چونکہ انسانی شخصیت کو خوب صورت، سحر انگیز اور پرکشش بنانے میں نرم،ملائم، ریشمی،گھنگھریالے اور لمبے بال فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لیئے بال ایک انتہائی قیمتی شئے ہوسکتے ہیں، خاص طور پر اُن لوگوں کے لیے جن کے سر پر بال بہت کم یا پھر بالکل نہ ہوں۔ ویسے تو گنج پن کے روگ سے مستقل چھٹکارا پانے کے لیئے ہیئر ٹرانسپلانٹ کی جدید ترین تیکنیک دنیا بھر میں کئی برسوں سے کامیابی کے استعمال کی جاری ہے۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ ہیئرٹرانسپلانٹ کے ذریعے بال واپس حاصل کرنا ایک انتہائی مہنگا سودا ہے، جس کا بھاری بوجھ ہر شخص کی جیب برداشت نہیں کرسکتی۔ اس لیئے زیادہ تر افراد کے نزدیک آج بھی مصنوعی بال یعنی وگ کا استعمال ہی اپنے گنج پن کو چھپانے کے لیئے سب سے سہل،سستا اور محفوظ طریقہ ہے۔

لہٰذا عالمی سطح پر وگ بنانے کی صنعت کو انتہائی منافع بخش کاروبار تسلیم کیا جاتاہے۔ چونکہ وگ کی تیاری میں انسانی بال کی ضرورت ہوتی ہے۔لہٰذا وگ بنانے والی بڑی کمپنیاں اچھے انسانی بال انتہائی مہنگے داموں پر خریدتی ہیں۔شاید یہ وجہ ہے کہ 2013 میں وینزویلا کے شہر ماراکو بو میں ”پراناس“ نامی ایک ایسے لٹیرے گروہ یا گینگ کی بازگشت سنائی دی۔ جو راہ گیروں سے اسلحہ کے زور پر اُن کے پاس موجود قیمتی سامان لوٹنے کے بجائے راہ گیر کے سر سے اُس کے خوب صورت اور لمبے بال کاٹ کر لے جاتاتھا۔ابتدا میں تو شہر کی مقامی انتظامیہ نے ”بال چوری“ کی عوامی شکایات کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ لیکن جب ایک ہفتے میں ”بال چوری“ہونے کی درجن بھر سے زائد وارداتیں ہونے کی شکایات سامنے آئیں اور مقامی میڈیا نے اِن وارداتوں کہ شہ سرخیوں میں شائع کرنا شروع کیا تو وینزویلا کی حکومت نے لوگوں کے بال چوری کرنے والے گروہ کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کافیصلہ کیا۔

انتظامیہ کے کریک ڈاؤن کے نتیجے اس گروہ کے گرفتار ہونے والے مجرمان سے ہونے والے والی تفتیش میں بڑے دلچسپ انکشافات سامنے آئے،مثلاً یہ گروہ زیادہ تر لمبے بالوں والی خواتین کو اپنا شکار بناتاتھا۔ نیز یہ گروہ،دو یا تین افراد کی ٹولیوں کی شکل میں وارت کرتے تھے۔ یعنی ایک مجرم راہ گیر پر اسلحہ تانتا تھا، دوسرا، اُسے دبوچ لیتا اور تیسرا شخص چند منٹوں میں استرے یا بلیڈ سے بال اُتار لیتا تھا۔ سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ یہ گروہ مکمل طور پر خواتین پر مشتمل ہے اور اس کی سربراہ بھی ایک خاتون ہے۔جسے تادمِ تحریر گرفتار نہیں کیا جاسکا۔یاد رہے کہ حکومتی کارروائیوں کی وجہ سے اس گروہ کی سرگرمیاں میں کمی ضرور واقع ہوئی ہے لیکن ”بال چوری“ کے وارداتیں بدستور جاری ہیں۔ اس لیئے اگر آپ کا مستقبل قریب میں وینزویلاجانے کا ارادہ ہوتو، وہاں گلیوں میں مٹر گشت کرتے ہوئے اپنے بٹوے اور موبائل فون سے زیادہ خوب صورت اور دراز لفوں کی حفاظت کے بارے میں زیادہ فکر کیجئے گا۔

گٹر کے ڈھکن چرانا
آپ سوچ رہے ہوں گے گٹر کے ڈھکن چرانے کو بھلا کیسے عجیب اور انوکھی چوری کے زمرے میں شامل کیا جاسکتاہے۔ اس معاملے میں ہمیں بھی آپ سے کامل اتفاق ہے کیونکہ پاکستان کے ہرچھوٹے،بڑے شہر میں گٹر کے ڈھکن چرانا معمولی واردات کی ذیل میں شمار ہوتاہے۔حالانکہ اس چوری کے نتیجے بعض اوقات عام افراد کھلے گٹر میں گر کر شدید زخمی بھی ہوجاتے ہیں۔ لیکن عجیب اور انوکھی خبر یہ ہے کہ صرف ہمارے وطن عزیز میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں گٹر کے ڈھکن چرائے جاتے ہیں اور بعض ممالک میں تو اِس عجیب چوری کی شرح پاکستان سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر دنیا کا سب سے مہذب کہلائے جانے والے برطانوی شہرلندن میں صرف ایک سال میں 200 گٹر کے ڈھکن چوری کی شکایات اسکاٹ لینڈ یارڈ پولیس کے دفتر میں درج کروائی گئیں۔ دلچسپ با ت یہ ہے کہ ان میں 93 گٹر کے ڈھکن صرف ایک ہفتے میں چرائے گئے تھے۔ لندن کے شہریوں پر آخر ایسی کیا افتاد پڑی تھی کہ انہوں نے ایک ہفتہ گٹر کے ڈھکن چرانے کے لیئے علاوہ کسی دوسرے کام میں دلچسپی ہی نہ لی؟۔اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیئے برطانوی حکومت نے تحقیقات کروائی تو انکشاف ہوا کہ مذکورہ ہفتے میں اسٹیل کی قیمت میں ہوش ربا اضافہ ہواتھا، چونکہ لندن میں گٹر کے ڈھکن اسٹیل کے بنے ہوئے ہوتے تھے۔ اس لیئے اہلیانِ لندن میں سے بعض افراد نے گٹر کے ڈھکن چرا کر راتوں،رات امیر ہونے کا سوچا۔

دوسری جانب اسی برس چین کے دارلحکومت بیجنگ کی سڑکوں سے 6 لاکھ سے زیادہ گٹر کے ڈھکن چرانے کی واردتیں ریکارڈ ہوئیں۔ بیجنگ کی گلیوں سے اتنی بڑی تعداد میں گٹر کے ڈھکن چوری ہونے کے بعد چین میں گویا بھونچال آگیااور اس مسئلہ کے فوری سدباب کے لیئے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد کیا گیا، جس میں طے پایا کہ آئندہ سے گٹر کے ڈھکن اسٹیل کے بجائے کسی دوسرے بے قیمت خام مواد سے بنائے جائیں۔ تاکہ گٹر کے ڈھکن دیکھ کر چوروں کا دل نہ للچائے۔واضح رہے کہ جس میدان میں چین کی کارکردگی متاثر کن ہوتو بھلااُس شعبہ میں عالمی سپر پاور امریکا کیسے پیچھے رہ سکتاہے۔جی ہاں! امریکا کے چور بھی گٹر کے ڈھکن چرانے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ خاص طور پر لاس اینجلس میں سال 2011 کے دوران بہت بڑی تعداد میں گٹر کے ڈھکن چرانے کی شکایت مقامی پولیس کو موصول ہوئیں۔جس کے بعد امریکا نے بھی برطانیہ اور چین کے تجربے سے سیکھتے ہوئے اسٹیل،لوہے اور لکٹری کے بنے ہوئے گٹر کے ڈھکن ترک کر کے کچرے کی ری سائیکلنگ سے حاصل ہونے والے خام موادسے گٹر کے ڈھکن بنانے کی راہ اختیار کرنے میں ہی امریکی عوام کی بہتری جانی۔

دماغ کی چور ی اوروہ بھی آئن سٹائن کے
ٓ آئن سٹائن کا شمار،20 ویں صدی کے عظیم سائنس دانوں میں ہوتاہے۔ نظریہ اضافت کی دریافت آئن سٹائن کی سب سے اہم ترین دریافت سمجھی جاتی ہے، جس پر انہیں نوبل انعام کا حقدار بھی قرار دیا گیاتھا۔چونکہ آئن سٹائن کو اپنے وقت کا ایک ذہین ترین انسان بھی سمجھا جاتا تھا، اس لیئے زندگی میں ہی نہیں بلکہ بعد ازمرگ بھی آئن سٹائن کا دماغ اور دماغی صلاحیتیں سائنس دانوں کے نزدیک تواتر کے ساتھ موضوع بحث بنی ہوئی ہیں۔لیکن آئن سٹائن کے چاہنے والوں کو اس بات کا گمان ہرگز نہیں ہوگا کہ کوئی سائنس دان آئن سٹائن کا دماغ چوری بھی کرسکتاہے۔ جی ہاں! یہ بالکل سچ ہے کہ 1955 میں جب آئن سٹائن کا انتقال ہوا تو،اُس کے جسدِ خاکی کا پوسٹ مارٹم کرنے والی ٹیم میں شامل ایک ڈاکٹر تھامس سٹولز ہاروے نے خاموشی کے ساتھ آئن سٹائن کی کھوپڑی کھولی اوراُس میں سے نوبل انعام یافتہ سائنس کا دماغ چرا لیا تھا۔ بظاہر یہ چوری مالی منفعت کے بجائے سائنس کی بہتری کے لیئے کی گئی تھی۔ لیکن چونکہ تھامس سٹولز ہاروے نے آئن سٹائن کی کھوپڑی سے دماغ نکال کر اپنے پاس رکھنے کی اجازت آئن سٹائن کے خاندان سے نہیں لی تھی۔ اس لیئے قانونی لحاظ سے یہ ایک چوری ہی تھی۔

شاید یہ ہی وجہ ہے کہ جب آئن سٹائن کے گھر والوں کے علم میں سٹولز ہاروے کی یہ مذموم حرکت آئی تو انہوں نے اپنے شدید غم و غصہ کا اظہار کیا۔ جبکہ آئن سٹائن کے صاحب زادے ”ہنس البرٹ“ نے اپنے والد کے دماغ کی واپسی اور سٹولز ہاروے کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے لیے عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ بھی کرلیا تھا کہ اسی دوران سٹولز ہاروے کو نادانستگی میں کیئے گئے اپنے جرم کا احساس ہوگیا اور انہوں نے آئن سٹائن کے خاندان والوں سے رابطہ کرکے اپنے جرم پر باضابطہ طورپر معافی مانگتے ہوئے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ”دراصل وہ آئن سٹائن کے غیر معمولی دماغ کا مطالعہ کرنا چاہتا ہے تاکہ دنیا کو آئن سٹائن کے غیر معمولی دماغ کے متعلق معلومات حاصل ہوسکیں جو یقینا آئن سٹائن کی زندگی میں ممکن نہ تھیں“۔ جواب میں آئن سٹائن کے گھر والوں نے نہ صرف سٹولز ہاروے کو معاف کردیا بلکہ اُسے تحقیقات کی غرض سے آئن سٹائن کا دماغ اپنی لیبارٹری میں رکھنے کی تحریری اجازت بھی دے دی۔لیکن ڈاکٹر سٹولز ہاروے کو اپنے اس جرم کی پاداش میں نوکری سے ہاتھ دھونا پڑگیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈاکٹر تھامس سٹولز ہاروے نے آئن سٹائن کے دماغ پر کئی گئی تحقیقات کے نتائج پر مختلف سائنسی رسالوں میں کئی تفصیلی مضامین لکھے اور یہ ثابت کیا کہ ”آئن سٹائن کے دماغ کی ساخت میں، عام انسانی دماغ کے برعکس چند ایسے گوشے پائے گئے تھے، جو آئن سٹائن کو جینئس بناتے تھے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 24 اکتوبر 2021 کے خصوصی شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں