Wall Of Bilawal

بلاول ہاؤس کی بیرونی دیوار یا عوام دشمن دیواریں؟

پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور سندھ کے نئے گورنر عمران اسماعیل کا کہنا ہے کہ ”بلاول ہاؤس کی بیرونی دیوار سے عوام پریشان ہیں اس لیئے پی پی قیادت سے گزارش ہے کہ اِسے گرادیا جائے وگرنہ اسے گرانے کے لیئے دستیاب ہر قانونی راستہ اختیار کیا جائے گا“۔ گورنر سندھ عمران اسماعیل کے اس بیان کے میڈیا پر نشر ہونے کی دیر تھی سندھ کی سیاست میں گویا ایک بھونچال آگیا اور”بلاول ہاؤس“ کی بیرونی دیوار کی آوازیں سندھ کے چپے چپے میں سنائی دینے لگیں۔ویسے بھی پاکستانی سیاست میں دیواروں کی بڑی اہمیت ہے۔ خاص طور پر اُن سیاسی دیواروں کی جن کے ساتھ کسی کو لگایا جاسکتاہے۔حالانکہ جن دیواروں کے ساتھ لگانے کا شکوہ کناں عموماً سیاسی جماعتیں دکھائی دیتی ہیں،وہ دیواریں آج تک دیکھیں کسی نے بھی نہیں ہیں بس ہمیشہ یہ ہی سنا ہے کہ ”ہمیں دیوار سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے“۔ اب معلوم نہیں ایسی کوششیں کامیاب بھی ہوتی ہیں یا نہیں یا یہ بس سیاسی جماعتوں کی صرف ایک ”سیاسی تہمت“ ہے جو وہ اپنے مخالفوں پر لگا کر مخصوص قسم کے سیاسی فوائد حاصل کرنا چاہتی ہیں کیونکہ عام طور مشاہدہ میں یہ ہی آیا ہے کہ جو جماعت خود کو دیوار کے ساتھ لگانے کا سب سے زیادہ ڈھول پیٹ رہی ہوتی ہے،میدانِ سیاست میں بھی وہ ہی جماعت دوسری سیاسی جماعتوں سے زیادہ کُھل کر اپنا ”سیاسی کھیل“ کھیل رہی ہوتی ہے اور کبھی کبھار تو ”سیاسی کھیل“ کے تمام تر اُصول و قوانین نظر انداز کر کے اتنا زیادہ کھیلنا شروع کردیتی ہے کہ پورا سیاسی ماحول ہی میدانِ کارزار کا منظر پیش کرنا شروع کردیتاہے۔اس تناظر میں اگر دیکھاجائے تونئے پاکستان میں واقعی ہی یہ ایک نئی بات ہے کہ اب کوئی کسی کو دیوار سے لگانے کی بات نہیں کررہا،بس دیوار گرانے کی بات کر رہا اور وہ بھی ”بلاول ہاؤس“کی بیرونی دیوار۔ سیاسی مفکرین کے لیئے سب سے زیادہ غورو فکر کی بات یہ ہے کہ کیا نئے گورنر سندھ عمران اسماعیل اور اِن کی جماعت کے لیئے آنے والوں دنوں میں یہ ممکن بھی ہوسکے گا کہ وہ ”بلاول ہاؤس“ کی بیرونی دیوار کو واقعی گراسکیں؟ اگر بالفرض محال ایسا ہو بھی گیا اور ”بلاول ہاؤس“ کی بیرونی دیوار گر بھی گئی لیکن اس ایک دیوار کو گرانے کے نتیجے میں کتنی نئی دیواریں معرض ِ وجود میں آئیں گی یہ سوچنے کی شاید کسی کے پاس اِس وقت فرصت نہیں۔اب گورنر سندھ عمران اسماعیل کو اُن کے کان میں جاکر کون بتائے کہ سندھ میں پہلے ہی بہت سی دیواریں ہیں،جیسے تعصب کی دیواریں،نفرت کی دیواریں،دہشت گردی کی دیواریں،بھتہ خوری کی دیواریں،اقربا پروری کی دیواریں،کچرے کی دیواریں اور سب سے بڑھ کر غربت کی دیواریں۔جن کے وزن تلے دبے سندھ کے کروڑوں عوام انتہائی کسمپرسی کے عالم میں اپنی زندگی بسر کررہے ہیں۔سندھ کی مظلوم عوام کے دُکھ درد کا مداوا کرنے کے لیئے کیا پہلے یہ دیواریں گرانا زیادہ ضروری نہیں ہیں؟۔میرے خیال میں تو کراچی کی مظلوم عوام نے اِن جان لیوا دیواروں کو گرانے کے لیئے ہی تحریک انصاف کو حالیہ انتخابات میں ہیوی مینڈیٹ سے نوازا ہے۔مگر افسوس سندھ کے نئے گورنر کو ”بلاول ہاؤس“ کی بیرونی دیوار گرانے کی فکر زیادہ ستائے جارہی ہے۔حالانکہ سادہ سی بات ہے کہ اگر محترم عمران اسماعیل پہلے عوام کے گردبنی ہوئی دیواروں کو گرانے کا محکم ارادہ کرلیں اور اپنی جماعت کے دیگراراکین کی مدد سے اِن عوام دشمن دیواروں میں سے صرف چند ایک کو بھی گرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یقین سے کہا جاسکتا ہے بلاول ہاؤس کی بیرونی دیوار تو خود بہ خود مسمار ہو جائے گی اور صرف بیرونی دیوار ہی کیوں اندرونی دیواریں بھی مسمار ہوجائیں گی بلکہ بعض جہاندیدہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر عوام دشمن دیواروں کو جلد سے جلد نہیں گرایا گیا تو ہوسکتا ہے کہ پھر بہت جلد تحریک انصاف کو ”انصاف ہاؤس“ کے گرد ایک نئی بیرونی دیوار نہ تعمیر کرنا پڑجائے اگر ایسا ہوا تو سندھ،بالخصوص کراچی کے عوام کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہوگی کیونکہ اس وقت تو اُن کے راستے میں صرف ایک بلاول ہاؤس کی بیرونی دیوار ہی حائل ہے پھر اِن کے راستے میں ”انصاف ہاؤس“ کی بیرونی دیوار بھی آجائے گی۔اس کے بعد تو عوام کے پاس کوئی گنجائش ہی نہیں رہ پائے گی وہ کسی سیاسی جماعت کو اقتدار تک جانے کاراستہ دے سکیں،جیسے کہ حالیہ انتخابات میں تحریک انصاف کو دیا۔پھر اندیشہئ فردا یہ ہی ہے کہ کہیں تنگ آئی ہوئی عوام کی اکثریت سندھ کی تمام سیاسی جماعتوں کے راستے میں نہ آجائیں۔اس سے پہلے کہ ایسا”سیاسی حادثہ“ رُونما ہو۔ ہماری سندھ کے نئے گورنر عمران اسماعیل سے گزارش ہے کہ وہ کراچی کی عوام کی طرف سے ملنے والے اس غیر متوقع طور پر اقتدار کے موقع سے بھر پور فائدہ اُٹھائیں اور ”بلاول ہاؤس“ کی بیرونی دیوار گرانے کا کام کل پراُٹھا چھوڑتے ہوئے،آج جلد از جلد اُن دیواروں کو گرائیں جن کی وجہ سے عوام کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے۔اگر گورنر سندھ عمران اسماعیل اور اُن کی جماعت اِن موذی دیواروں کو گرانے میں کامیاب ہوگئے تو اطمینان رکھیئے گا آئندہ الیکشن میں صرف کراچی کی عوام ہی نہیں بلکہ پورے سندھ کی عوام تحریک انصاف کوکُھلا راستہ فراہم کردے گی اور راستہ بھی ایسا جو عمران اسماعیل اور اِن کی جماعت کو پورے سندھ پر تن تنہا حکمرانی کا حقدار بنا سکتا ہے۔اب فیصلہ تحریک انصاف نے کرنا ہے کہ سب سے پہلے ”بلاول ہاؤس“ کی بیرونی دیوار کو گرانا ہے یا پھر عوام دشمن دیواریں۔۔۔۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 30 اگست 2018 کی اشاعت میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

بلاول ہاؤس کی بیرونی دیوار یا عوام دشمن دیواریں؟” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں