usa-and-pakistan-releationship-future-in-2021

امریکا اور پاکستان کے تعلقات کا مستقبل

کیا امریکا کا پاکستان کے ساتھ برسوں پرانا ”سفارتی معاشقہ“ اپنے اختتام کو پہنچا؟ اور امریکا نے پاکستان کے ساتھ مکمل ”سفارتی قطع تعلقی“ اختیار کرتے ہوئے بھارت کو اپنا نیا ”سفارتی محبوب“ بنانے کا حتمی فیصلہ کرلیاہے؟۔ہوسکتاہے اِن سوالات کے جوابات امریکا کے لیئے اہم نہ ہوں لیکن ہم پاکستانیوں کے نزدیک امریکا اور پاکستان کے مابین قدیمی معاشقہ کی تازہ ترین حقیقت جاننا اِس لیئے بہت ضروری ہے کہ ہم نے کئی دہائیاں امریکا کے ساتھ محبت اور عشق کی پینگیں جھولتے ہوئے گزار دی ہیں۔ برسوں کی محبت کا اچانک سے اس قدر بے رخی اور بے اعتنائی میں بدل جاناکہ امریکی حکام ایک دن اعلانیہ کہہ دیں کہ ”اَب ہمیں پاکستان کی مزید ضرورت نہیں رہی“۔یہ جملہ سُن کر تو اُن پاکستانیوں کو بھی سخت اچنبھا ہوا، جو امریکا کے ساتھ دوستی کے کبھی بھی حامی نہیں رہے ہیں۔ یقینا پاکستان کے قیام کے فوراً بعد شروع ہوجانے والا دو ممالک کا یہ مثالی پیار و محبت یک طرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ ہی تھا۔

سادہ لفظوں میں یوں سمجھ لیں کہ سفارتی ضرورتوں اور مفادات کی آگ دونوں طرف ہی اِس شدت سے سلگی ہوئی تھی کہ پاکستان اور امریکا اگر ایک دوسرے سے عشق نہ کرتے تو عین ممکن تھا کہ آج امریکا عالمی طاقت نہ ہوتا اور پاکستان ایٹم بم کا مالک نہ بنتا۔اس مناسبت سے محسن نقوی کا شعر کتنا بر محل ہے کہ ”اپنے اپنے بے وفاؤں نے ہمیں یکجا کیا۔۔۔ ورنہ تو میرا نہ تھا اور میرا تیر ا نہ تھا“۔کو ئی مانے یہ نہ مانے مگر سچ تو یہ ہی ہے کہ پاکستان، امریکا کے ایما پر روس کو شکست نہ دیتا تو امریکا کبھی بھی سپر پاور نہیں بن سکتاتھا، اور تو اور امریکا افغانستان میں بھی گیارہ سال تک اگر کامیابی کے ساتھ ٹک گیا ہے تو اس میں بھی پاکستان کی دوستی کا اہم ترین کردار ہے۔

شاید اسی لیئے بعض تجزیہ کاروں کا اصرار ہے کہ جنوب ایشائی خطے میں اپنے اہداف کامیابی کے ساتھ پورے کرنے کے لیئے امریکا کو سب سے زیادہ اَب بھی اگر کسی ایک ملک کی ضرورت ہے تو وہ پاکستان ہی ہے۔ مگر امریکا کی شدت کے ساتھ خواہش یہ ہے کہ چونکہ اس خطے میں اُس کا اصل حریف چین ہے،اس لیئے پاکستان پر لازم ہے کہ وہ چین کی دوستی کو خدا حافظ کہہ کر امریکا کے ساتھ ازسر نو تجدید عہد کرے۔ دلچسپ بات یہ کہ پاکستان کو چین سے الگ کرنے کے لیئے امریکا کی جانب سے ماضی میں بھی تسلسل کے ساتھ مختلف قسم کی پرکشش پیشکش اور ترغیبا ت دی جاتی رہی ہیں۔

لیکن جب امریکا کی کوئی بھی پیشکش اور ترغیب پاکستان کو چین کے ساتھ ترک تعلقات پر آمادہ نہیں کرسکی تو بالآخر پاکستان کی دل و دماغ سے چین کی دوستی کا خناس نکالنے کے لیئے امریکی حکام نے دھونس اور دھمکی کی راہ اختیار کی ہے۔فی الحال تو صرف چند سخت سفارتی جملوں اور کچھ سفارتی اقدامات سے ہی پاکستان کی طبیعت صاف کرنے کی کوشش کی جاری ہے لیکن اگر پاکستان نے ”سفارتی کمزوری“ نہ دکھائی اور چین کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات بدستور جاری رکھے تو پھر امریکا کی جانب سے پاکستان کو بلیک میل کرنے کے لیئے دیگر ذرائع کا استعمال بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ واضح رہے کہ امریکا پاکستان کو چین کے کیمپ سے نکالنے یا یوں کہہ لیں کہ اغوا کرنے کے لیئے کسی بھی حد تک جاسکتاہے۔ یہاں اَب اصل امتحان تو پاکستانی قیادت کا ہے کہ دیکھنا ہوگا کہ وہ آنے والے مشکل ترین ایام میں امریکا کا دباؤکس طرح سے اور کس حد تک برداشت کر پاتی ہے۔

یہاں سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب امریکا کو اچھی سے معلوم ہے پاکستان،چین کا انتہائی قابل اعتماد اور قریبی دوست ہے تو اس کے باوجود بھی وہ آخر کیوں پاکستان کو چین کے خلاف اپنے کیمپ میں دیکھنا چاہتاہے؟۔دراصل اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔پہلی یہ کہ امریکا اور پاکستان برسہا برس سے ایک دوسرے کے ساتھ مختلف محاذوں پر مل کر کام کرتے آرہے ہیں۔لہٰذا اِن دو ممالک کے درمیان جس طرح سے مضبوط ورکنگ ریلیشن شپ قائم ہوچکی ہے۔ ایسی دیرپا ورکنگ ریلیشن شپ امریکا کو بھارت سے بنانے میں شاید برسوں درکار ہوں گے اور عین ممکن ہے کہ پھر بھی اُس طرح کی و رکنگ ریلیشن شپ نہ بن سکے، جو پاکستان اور امریکا کے سفارتی تعلقات کا طرہ امتیاز ہے۔

دوسری اہم ترین وجہ پاکستانی افواج کی عسکری محاذ پر غیرمعمولی قابلیت،مشاق ہنر مندی اور بے پناہ مہارت ہے۔جس کی ساری دنیا معترف ہے۔ خاص طور پر جس طرح سے 27 فروری کو پاک فضائیہ کے شاہینوں نے اپنے سے کئی گنا بڑی بھارتی فضائیہ کے دو عدد جنگی طیارے تباہ و برباد کر کے اُن کے ایک پائلٹ ابھینندن کو زندہ گرفتار کر کے بھارت کو دنیا بھر میں عبرت ناک ہزیمت اور شرمندگی سے دوچار کیا تھا۔اُس کے بعد امریکا کے نزدیک بھارت کی عددی اہمیت توضرور ہوگی لیکن عسکری اہمیت بالکل بھی باقی نہیں رہی ہے۔کیونکہ امریکا بخوبی جانتا ہے کہ چین کے خلاف کسی بھی قسم کے جنگی حالات میں بھارت کی سازشی اور مجرمانہ ذہنیت پر تو اعتبار کیا جاسکتاہے لیکن بھارتی افواج کی عسکری صلاحیت و قابلیت پر بھروسہ کرنا سخت رسوائی کا سبب بھی بن سکتاہے۔ اِن دو وجوہات کے پیش نظر امریکی انتظامیہ پاکستان جیسے طاقت ور اور سخت جان حریف کو اتنی آسانی سے چھوڑنا نہیں چاہتی۔

دوسری جانب پاکستان کی مجبوری یہ ہے کہ وہ کسی بھی ایسے ملک کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر روشن مستقبل کی شاہراہ پر نہیں چل سکتا،جو اپنا فطری اور روایتی حلیف بھارت کو سمجھتا ہو۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان اپنی بقاء کے لئے کلی طور پر امریکہ پر انحصار کی پالیسی یکسر تبدیل کرچکا ہے، خاص کر ایسے میں جب بھارت اور امریکہ کی تزویراتی شراکت داری ہر آنے والے دن کے ساتھ گہری سے گہری ہوتی جارہی ہو اور تاثر یہ پیدا ہورہا ہو کہ امریکا پاکستان کو بھارت کی ایک طفیلی ریاست بنا کر چین کے خلاف استعمال کرنا چاہتاہے۔ ویسے بھی مثل مشہور ہے کہ ”آپ کے دشمن کا دوست بھی آپ کا دشمن ہی ہوتاہے“۔جبکہ سچ بھی یہ ہی ہے کہ جس قدر امریکا بھارت کے قریب ہوتا جائے گا،اُتنا ہی وہ پاکستان سے دور ہوتا جائے گا۔

اس لیئے امریکا پاکستان اور بھارت کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے جتنا چاہے اپنا سفارتی اثرو رسوخ استعمال کرلے،اُسے کسی بھی صورت کامیابی حاصل ہونے والی نہیں ہے۔ بلکہ اِس امریکی پالیسی اُلٹا اثر یہ ہوگا ہے کہ پاکستان پہلے سے بھی زیادہ چین کے قریب ہوتا جائے گا۔ خاص طو رپر جس طرح سے امریکا نے گزشتہ چند برسوں میں بھارت کو دفاعی سازو سامان فراہم کرنے کی مہم شروع کی ہے۔اُس کے بعد تو پاکستان نے بھی چین کے ساتھ اپنے دفاعی تعاون تعلقات آخری حد تک لے جانے کے لیئے کمر کس لی ہے۔ نیز پاکستان کے عسکری اداروں کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں معاونت کے علاوہ چین نے پاک چین معاشی راہداری (سی پیک) کے ذریعے اسے باقی کی دنیا سے ملانے کیلئے منصوبہ بندی کے ذریعے پاکستان کی اہمیت کو ازسرنو اجاگر کیا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان جو پہلے ہی سے مختلف قسم کے معاشی مسائل میں جکڑا ہوا ہے۔ اَب اُس کے لیئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ امریکا بہادر کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر سی پیک سے جڑے ترقی کے امکانات سے ہاتھ دھو نے کی حماقت کرگزرے۔علاوہ ازیں سی پیک نہ صرف پاکستانی معیشت کیلئے بلکہ مجموعی طور پر پورے جنوب ایشائی خطے کیلئے ناگزیر ہے۔

بظاہر امریکا نے سی پیک کے متبادل عنقریب ایک بڑا عالمگیر تجارتی منصوبہ شروع کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ لیکن عالمی ماہرین معیشت کی اکثریت سمجھتی ہے کہ چین کا مقابلہ کرنے کے لیے کسی بھی نئے اور موثر عالمگیر تجارتی منصوبہ شروع کرنے میں امریکا نے بے حد تاخیر کردی ہے۔اس لیئے غالب امکان یہ ہی ہے کہ امریکا کی جانب سے سی پیک کے مخالف کوئی بھی تجارتی منصوبہ شروع کرنا وقت، پیسہ اور دیگر وسائل کے ضیاع کا باعث ہی ثابت ہوگا اور اس سے چین کی بڑھتے ہوئے عالمی تجارتی اثرو نفوذ پر کوئی خاص فرق پڑنے والا نہیں ہے۔ سادہ لفظوں میں یوں سمجھ لیں امریکا کو چین کا مقابلہ کرنے کے لیئے تجارت کے علاوہ کسی دوسرے میدان کا انتخاب کرنا ہوگا۔

ہمارے خیال میں امریکا چین کے خلاف بالکل ویسی ہی سرد جنگ شروع کرنے کا اراد ہ رکھتا ہے،جیسی سرد جنگ ماضی میں اُس نے روس کے خلاف لڑی تھی۔مگر امریکا کے لیے سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ چین کو اپنے علاقے میں بھارت کے علاوہ کم و بیش تمام پڑوسی ممالک کی بھرپور حمایت اور اعانت حاصل ہے۔جبکہ امریکا کو ابھی تک اس خطے میں چین کا مقابلہ کرنے بھارت کے لیئے کوئی دوسرا ملک بھی دستیاب نہیں ہوسکا۔ اَب امریکا کی پوری کوشش ہے کہ چین کے خلاف جلد ازجلد پاکستان کی حمایت حاصل کرلی جائے۔مگر مسئلہ پھر وہی ہے کہ امریکا کے پاس جواب میں پاکستان کو دینے کے لیئے کچھ بھی ایسا نہیں ہے،جس کی عوض وہ پاک چین دوستی کو سودا کرسکے۔ جہاں تک بات امریکی دھمکیوں اور دباؤ کی ہے تو پاکستان کے لیئے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پاکستان امریکا کی رَگ رَ گ سے واقف ہے اور اگر پاکستان کو زیادہ تنگ کیا گیا تو وہ جواب میں امریکا کو رگیدنے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔ کیسے؟یہ ہی تو اصل سرپرائز ہے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 21 اپریل 2021 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں