sultan-nihan

عربوں کی محبت میں

دو دسمبر 1971 کو متحدہ عرب امارات کا وجود عمل میں آیا لیکن پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے تعلقات کی تاریخ اِن ریاستوں کے آپس میں قائم ہونے اتحاد سے بھی بہت زیادہ پرانی ہے۔ جس کا آغاز صدر پاکستان فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان اور متحدہ عراب امارات کے بانی شیخ زید بن سلطان النہیان کے دور سے ہوا تھا۔یہ اُن دنوں کی بات ہے جب موجودہ یو اے ای یعنی متحدہ عرب امارات کے چاروں طرف صرف اور صرف ایک لق و دق صحر ا ہوا کرتا تھا اور یہاں کے باسی تختِ برطانیہ کے زیرِ نگیں ہونے کے باعث زندگی کی بنیادی ضروریات سے بھی محروم تھے جبکہ دنیا تو ایک طرف عرب ممالک کے بھی امارات کے ساتھ تعلقات انتہائی کشیدہ تھے۔اِن نازک حالات میں شیخ زید بن سلطان النہیان نے صدرِ پاکستان جناب ایوب خان سے درخواست کی کہ وہ انہیں اس عالمی تنہائی سے نجات دلانے میں اپنا شخصی اثرورسوخ استعمال میں لائیں۔ایوب خان نے شاہ ایران کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کا استعمال کرتے ہوئے شیخ زید بن سلطان النہیان کے لیئے دورہ تہران کا بندوبست کیا۔ یہ ہی وہ تاریخی اور فقیدالمثال دورہ تھا جو نہ صرف ایران و ابو ظہبی کے تقریبا ختم شدہ تعلقات کی بحالی کا باعث بنا بلکہ پاکستان اور عرب امارات کے مضبوط و دیرپا تعلقات کی اولین وجہ بھی قرار پایا۔اس کے علاوہ بھی بے شمار مواقعوں پر پاکستان نے متحدہ عرب امارات کی ہر ممکن مدد کی۔ جیسے 1968 میں شیخ زید بن سلطان النہیان نے حکومت پاکستان سے درخواست تھی کہ پاکستانی فورسز کے ٹرینر ابوظہبی بھیجے جائیں تاکہ اماراتی فورسز کے لوگ ٹریننگ کے بعد برٹش کمانڈروں سے چارج لیں سکیں۔اس درخواست پر پاکستان آرمی کے ٹرینر ابوظہبی بھیجے گئے جس سے امارات کی فوج کو اپنے قدموں پر کھڑے ہونے کا سنہری موقع ملا،آج متحدہ عرب امارات کی فوج عرب دنیا کی جدید ٹیکنالوجی سے لیس ایک ماڈرن فوج تصور کی جاتی ہے۔نیز یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ ”ایمرٹس ائیر لائن“ بھی پی آئی اے نے ہی بنا کر بطور تحفہ یو اے ای کو ہدیہ کی تھی، جسے اس وقت دنیا کی سب سے کامیاب ترین ائیر لائن میں سے ایک ائیر لائین خیال کیاجاتاہے۔اِن چیدہ چیدہ وجوہات کے باعث سمجھا جاتا ہے کہ اماراتیوں کو ترقی کا راستہ دکھانے والوں میں سب سے بڑاہاتھ پاکستان کا ہے۔

مگر افسوس دوسروں کو ترقی کا راستہ دکھاتے،دکھاتے پاکستان کے اپنے ساتھ ہی ہاتھ ہوگیا اور ہمارے ملک پر اسلام کے لافانی رشتہ کے نام پر عربوں سے محبت کرنے والے حکمرانوں کے بجائے ایسے حکمران مسلط ہوگئے جنہیں عربوں سے کہیں زیادہ ”اربوں“ سے محبت تھی۔’گزشتہ 35 سالوں سے ’اربوں“ کی محبت نے ہی ہمارے حکمرانوں کو عربوں سے دوستانہ تعلقات قائم رکھنے پر مجبور رکھا۔ عرب ”سعوی عرب“ کے ہوں یا”متحدہ عرب امارات“کے جلد یا بدیر بخوبی جان ہی گئے تھے کہ پاکستان کے شریف جمہوری حکمران صرف ”اربوں“ کے لیئے ہی اُن سے محبت کرتے ہیں اس لیئے وہ بھی اُنہیں دل کھول کر وقتاً فوقتا وافرمقدار میں ”ارب ہا ارب“ کبھی ریال اور کبھی ڈالروں کی شکل میں فراہم کرتے رہے یہ سوچ کر کہ پاکستانی حکمران اُن کے دیئے گئے ”اربوں“کی مدد سے پاکستانی عوام کی تقدیر بدلنا چاہتے ہیں۔مگر اُس وقت تو عربوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اُنہیں خبر ہوئی کہ اُن کی طرف سے پاکستانی عوام کی ترقی و بہبود کے لیئے دئیے گئے ”اربوں“ ڈالر اور ریال سے پاکستانی حکمران سرزمین عرب پر اپنی آل اولاد کے لیئے جائیدادیں اور کاروبار بنا رہے ہیں۔حد تو یہ ہے کہ پاکستان کی کئی صوبائی حکومتوں کے ماہانہ اجلاس بھی دبئی میں ہی ہوتے تھے۔کیا منظر تھا کہ پاکستانی وزراء جوق در جوق درجنوں کی تعداد میں حکومتی اُمور چلانے کے لیئے احکامات لینے سرزمین عرب پر ڈیرے دال لیتے تھے۔سچی بات ہے کہ ان سب باتوں سے عربوں کو دُکھ تو بہت ہوتا ہوگا لیکن وہ کر بھی کیا سکتے تھے اگروہ انہیں زیادہ نصیحتیں کرتے تو دو ملکوں کے آپسی تعلق میں فرق آسکتا تھا اس لیئے وہ لاتعلق ہوکر ایک طرف چپ چاپ بیٹھ کر تماشا دیکھتے رہے کہ کس طرح پاکستانی حکمران دو اسلامی حکومتوں کے ”برادرانہ تعلقات“ کو اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیئے استعمال کررہے ہیں۔

پھر یکدم حالات نے پلٹا کھایا اور پاکستان میں 35 سالہ ”جمہوری شاہی خاندان“ کے اقتدار کا سورج غروب ہوا۔تبدیلی کی حکومت کا نیا آفتاب عمران خان کی صورت میں نمودار ہونے کی دیر تھی کہ عربوں کی باچھیں کُھل گئیں اور اُنہیں لگا کہ اب ”اربوں“ کی آڑ میں ہم سے جھوٹی محبت کا دم بھرنے والوں سے ہماری بھی جان چھوٹنے والی ہے۔پس انہوں نے ایک لمحہ کی بھی تاخیر کیے بغیر اپنے اپنے سفیروں کو یکے بعد دیگرے اس یقین دہانی کے ساتھ بنی گالا بھیجنا شروع کردیاکہ ”ہم پاکستان اور پاکستانی عوام کے ساتھ دلی محبت رکھتے ہیں اور اس ضمن میں ہم سے جو ہوسکا وہ ہم کریں گے“۔اپنی اسی بات کا پاس نبھانے کے لیئے وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کو خصوصی سرکاری دوروں پر باربار سرزمینِ عرب پر مدعو کیا جارہا۔متحدہ عرب امارات کا حالیہ دورہ بھی اسی سلسلے کی ایک مضبوط کڑی تھی۔اس دورہ میں پاکستان کی حکومتی و ریاستی قیادت جس طرح باہم شیر وشکر نظر آئی۔یہ اشارہ ہے کہ خطہ عرب کے ساتھ پاکستان کے برادرانہ تعلقات کا ایک نیا جہان دریافت ہونے والا ہے۔بعض لوگ سوال کرتے ہیں متحدہ عرب امارات کے دورہ سے وزیراعظم پاکستان اور اُن کے ساتھ جانے والے وفد کو کیا حاصل ہوا تو جناب عرض یہ ہے کہ اُنہیں وہ ”اعتماد“ حاصل ہوا جسے کئی دہائیوں سے انتہائی بے دردی کے ساتھ تباہ و برباد کردیا گیا تھااور عربوں کے ساتھ پاکستانیوں کی محبت میں باہمی اعتماد ہی وہ قیمتی ترین شئے ہے جس پر فخر کیا جاسکتاہے۔اس لیئے متحدہ عراب امارات اور پاکستان کی عوام کو اعتماد کی واپسی مبارک ہو۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 21 نومبر 2018 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں