Unique-Lockdown-in-coronavirus

ایسا بھی ہوتا ہے لاک ڈاؤن

ساری دنیا کورونا وائرس سے اِس وقت جس ایک ہتھیار سے نبرد آزما ہے،اُس کا نام ہے ”لاک ڈاؤن“۔کورونا وائرس کے خلاف سب سے پہلے مکمل لاک ڈاؤن کا تجربہ چین کے شہر ووہان میں کیا گیا،یہ لاک ڈاؤن جس کی ابتداء میں بہت بھد اُڑائی گئی مگر آخر میں چینی حکومت کا اُٹھایا گیا یہ غیر جمہوری اور سخت اقدام انتہائی نتیجہ خیز ثابت ہوا اوردو ماہ کے سخت ترین لاک ڈاؤن کی بدولت ووہان شہر کو کورونا وائرس کی وبائی آفت سے نجات حاصل ہوگئی۔ مگر شومئی قسمت کہ پھر یہ وائرس دنیا کے دیگر ممالک میں تیزرفتاری کے ساتھ پھیلنا شروع ہوگیا۔ ابتداء میں تو ہر ملک نے ہی کورونا وائرس کے انسداد کے لیئے لاک ڈاؤن کے نفاذ کا فیصلہ لینے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا،مگر بعدازاں کچھ کورونا وائرس کے سرعت انگیز پھیلاؤ اور کچھ ووہان میں لاک ڈاؤن کے کامیاب تجربے نے رفتہ رفتہ ہر سربراہ ِ مملکت کو اپنے ملک میں مکمل یا جزوی طور لاک ڈاؤن نافذ کرنے پر پوری طرح سے مجبور کردیا۔ اِس وقت یہ عالم ہے کہ ایک تہائی دنیا مکمل طور پر لاک ڈاؤن ہوچکی ہے۔یادرہے کہ لاک ڈاؤن کو کرفیو کی مانندفقط ایک حکم پر آسانی کے ساتھ کوئی بھی حکومت نافذ نہیں کرسکتی کیونکہ لاک ڈاؤن اور کرفیویکسر مختلف قسم کے دو انتظامی معاملات ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر کرفیومیں ہر طرح کے انسانی حقوق مکمل طور پر معطل ہوجاتے ہیں جبکہ تمام انتظام و انصرام بھی سول انتظامیہ سے پیرا ملٹری فورس کے پاس چلا جاتاہے۔جس کی وجہ سے کرفیو زدہ علاقے میں انسان تو بہت دور کی بات ہے،کوئی چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی۔ اس کے برعکس لاک ڈاؤن میں جہاں بہت کچھ بند کردیا جاتاہے وہیں کچھ ضروری اور اہم اُمور رواں دواں رکھنے کی مکمل آزادی بھی دے دی جاتی ہے جبکہ لاک ڈاؤن میں تمام انسانی حقوق بھی مکمل طور پر بحال رہتے ہیں اور انتظامی اُمور بھی چونکہ بدستور عام حکومتی مشینری کے اختیار میں ہی رہتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ عام لوگ لاک ڈاؤن کو کچھ زیادہ درخو اعتنا نہیں سمجھتے اور جب چاہتے ہیں لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی بھی کر گزرتے ہیں۔اِسی لیئے کہا جاتاہے کہ ہر حکومت ِوقت کو لاک ڈاؤن کی روح برقرار رکھنے کے لیئے اپنی پوری انتظا می طاقت استعمال کرنا پڑتی ہے تب کہیں جا کر کسی علاقے میں لاک ڈاؤن کا کامیاب انعقاد ممکن ہوپاتاہے۔
کورونا وائرس کے خلاف بھی لاک داؤن کو کامیاب بنانے میں کم و بیش دنیا کے ہر ملک کو شدید انتظامی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔جس کا حل بعض ممالک نے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے پر بھاری جرمانے عائد کر کے نکالا جبکہ کچھ ممالک نے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے والوں کو بیچ چوراہے میں کھڑا کر کے چھوٹی موٹی سزائیں مثلاً مرغا بنانا،اُٹھک بیٹھک کروانا یااُن کی گاڑیوں کے ٹائروں کی ہوا نکال کر انتباہ کر کے چھوڑدیا اور اگر کہیں زیادہ ضرورت پڑی تو لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے والوں پر باقاعدہ مقدمات درج کر کے اُنہیں حوالہ زنداں بھی کردیا۔ یقینا ان تادیبی اقدامات سے لاک ڈاؤن کی عملداری بحال ہونے میں کافی مدد حاصل ہوئی ہوگی لیکن دنیا میں کچھ ممالک ایسے بھی ہیں،جنہوں نے کورونا وائرس کے خلاف لاک ڈاؤن کو زیادہ سے زیادہ کامیاب اور نتیجہ خیز بنانے کے لیئے انتہائی منفرد انتظامی طریقے اختیار کیئے،جن میں سے چند کا تذکرہ زیرِ نظر مضمون میں پیش خدمت ہے۔

صنفی امتیازپر کیا جانے والا لاک ڈاؤن
پانامہ جزیرہ وسطی امریکا کا ایک ملک ہے،جس کی مجموعی آبادی 40 لاکھ سے کچھ زیادہ ہے۔پانامہ کی حکومت کو بھی دنیا کے دیگر ممالک کی طرح اپنے ملک میں کورونا وائرس کے تیزی سے بڑھتے ہوئے مریضوں کا سامنا تھا اور 6 اپریل تک یہاں کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 1988 سے زائد ہوچکی تھی،جب کہ وہاں ہلاکتوں کی تعداد 54تک جاپہنچی تھی۔ پانامہ کی حکومت نے بھی کورونا کے پھیلاؤ سے بچنے کے لیے مارچ کے وسط کے بعد ہی جزوی لاک ڈاؤن کا نفاذ کرکے لوگوں کے باہر نکلنے پر سخت پابندیاں عائد کردی تھیں، مگر عوام کی جانب سے ہدایات پر عمل نہ کیے جانے کے بعد حکومت نے یکم اپریل سے کچھ منفرد انداز میں لاک ڈاؤن نافذ کرنے کا سوچا۔ پاناما کی حکومت نے یکم اپریل سے صنفی امتیاز پر لاک ڈاؤن کا اعلان کرکے ملک کے مرد و زن کے ایک ساتھ باہر نکلنے پر مکمل پابندی عائد کردی اور دونوں صنفوں یعنی مردو خواتین کے لیئے گھر سے باہر نکلنے کے لیئے الگ الگ دن مختص کردیے۔ پانامہ حکومت کے نئے سرکاری حکم نامے کے مطابق بدھ کے روز سے مرد اور خواتین ایک ہی وقت میں صرف دو گھنٹے کے لیے اپنے گھروں کو چھوڑ سکیں گے اور ایسا بھی مختلف دنوں میں ہو گا۔پاناما کی حکومت نے خواتین کو پیر، بدھ اور جمعہ جب کہ مرد حضرات کو منگل، جمعرات اور ہفتے کو گھر سے نکلنے اور ضروری چیزیں لانے کی اجازت دی ہے۔ جب کے اتوار کے روز مرد ہو یا خاتون کسی کو بھی گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہو گی۔صنفی امتیاز کی بنیاد پر کیئے جانے والے لاک ڈاؤن کے اِس حکم نامے میں شہریوں پر یہ بھی پوری صراحت کے ساتھ واضح کردیا گیا ہے کہ وہ محض 2 گھنٹے میں تمام چیزیں خرید کر اپنے گھروں کوواپس آجائیں اور باقی پورا وقت گھر میں ہی رہیں۔فی الحال اِس حکم نامے یہ واضح نہیں ہوسکا کہ حکومت نے گھروں میں بھی مرد و خواتین کو الگ الگ رہنے کی ہدایات کی ہیں یا نہیں، تاہم حکومت نے تمام لوگوں کو گھر سے باہر ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنے کی سخت ہدایات ضرور کی ہیں۔ صنفی لاک ڈاؤن کا اعلان کرتے ہوئے پانامہ کے وزیر سکیورٹی نے پریس کانفرنس میں اِس بات کا بھی اعادہ کیا ہے کہ ”صنفی لاک ڈاؤن“ کا یہ فیصلہ انتہائی سوچ و بچار کے بعد صرف اور صرف اپنے شہریوں کی زندگی بچانے کے لیے کیا جارہاہے۔لہٰذا عوام سے التماس ہے کہ اس کی سختی سے پابندی کریں“۔دلچسپ با ت یہ ہے کہ اِس منفرد لاک ڈاؤن نے پانامہ حکومت کو حسب ِ منشا نتائج بھی دینا شروع کردیئے ہیں اور جب سے یہ منفرد نوعیت کا صنفی لاک ڈاؤن ملک میں نافذ ہوا ہے پانامہ کی عوام تیکنیکی طور پر ہی سہی بہرحال اَب گھر وں سے باہر بہت کم نظر آرہے ہیں۔اِس کے علاوہ پیرو کے صدر مارٹن وزکرا کی حکومت نے بھی کورونا وائرس کی وبا سے مؤثر انداز میں نبرد آزما ہونے کے لیئے پانامہ میں کیئے گئے کامیاب تجربہ کی مکمل پیروی کرتے ہوئے اپنے ملک میں بھی صنفی امتیاز کی بنیاد پر لاک ڈاؤن کا نیا ضابطہ متعارف کروادیا ہے۔



حسابی لاک ڈاؤن
کولمبیا براعظم جنوبی امریکہ کے شمال مغرب میں واقع ہے اور یہاں بھی کورونا وائرس کا شکار افراد میں بڑی تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہاہے۔6 اپریل2020 تک کولمبیا میں 1485 مصدقہ کیسز موجود تھے جبکہ متاثرہ مریضوں میں سے 35 افراد ہلاک ہوچکے تھے۔ کولمبیا کی حکومت نے بھی کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیئے ملک بھر میں لاک ڈاؤن کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن کولمبیا کے اربابِ اختیار نے لاک ڈاؤن کے لیئے روایتی طریقہ اختیار کرنے بجائے ایک منفرد تخلیقی انداز اپناتے ہوئے ملک بھر شناختی نمبرز کی بنیاد پر لاک ڈاؤن کا اعلان کی ہے۔ جس کے مطابق کولمبیا کے تمام شہری لاک ڈاؤن کے دوران اپنے شناختی کارڈ نمبر پر درج آخری ہندسے کی بنیاد پر گھر سے باہر نکلنے کے اہل ہوں گے اور وہ بھی مخصوص دنوں کے حساب سے۔مثال کے طور پر کولمبیا کے ایسے تمام شہری جن کے شناختی کارڈ کے آخر میں صفر،7 یا 4 کاہندسہ آتا ہے،وہ سوموار کے روز اپنے گھر سے لاک ڈاؤن کے دوران اشیائے ضروریہ کی خریداری کے لیئے باہر جاسکتے ہیں جبکہ وہ تمام افراد جن کے شناختی کارڈ کے میں 1، 8 یا 5 کا ہندسہ درج ہو گا۔ایسے تمام خوش قسمت لوگ منگل کے روز گھر سے باہر جا سکتے ہیں۔یہ منفرد ”حسابی لاک ڈاؤن“ کولمبیا کی حکومت نے اپنے ملک کے ماہر ریاضی دانوں کے مشورہ اور تجویز سے نافذ کیا ہے۔ جن کا ماننا ہے کہ شناختی کارڈ کے آخری ہندسوں کی بنیاد پر عوام لاک ڈاؤن کے دوران باہر آنے کی اجازت دی جائے گی تو اِس طرح کولمبیا میں سماجی دوری کو قائم رکھنے میں غیر معمولی معاونت و مدد حاصل ہوگی۔ حیرت انگیز با ت یہ ہے کہ کولمبیا میں ”حسابی لاک ڈاؤن“کے نفاذ سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کے سلسلے میں انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں اور اَب کولمبیا میں لاک ڈاؤن کے کامیاب تجربہ کو دیکھتے ہوئے، پڑوسی ملک بولیویا میں بھی کورونا وائرس کے خلاف لاک ڈاؤن کو مؤ ثر بنانے کے لیئے اپوزیشن رہنماؤں کی طرف سے بولیویا کی حکومت کوبھی ”حسابی لاک ڈاؤن“کا ہی طریقہ کار اپنا نے کی تجویز دی جارہی ہے۔

سائی بورگ لاک ڈاؤن
شمالی افریقی ملک تیونسیا کے دارلحکومت تیونس میں کورونا وائرس کے باعث سخت لاک ڈاؤن کیا گیا ہے،جس کی عمل دراری کو یقینی بنانے کے لیے پولیس نے شہر بھر میں روبوٹس تعینات کردیئے ہیں اور تیونس کے مختلف علاقوں میں اِن روبوٹس کو اُن شہریوں پر نظر رکھنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے جو بلاوجہ لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ روبوٹس کی تعیناتی کے باعث سوشل میڈیا پر تیونس کے لاک ڈاؤن کو ”سائی بورگ لاک ڈاؤن“ کا نام دیا جارہا ہے۔یہ روبوٹس گلیوں میں گھومنے والے افراد سے پوچھ گچھ بھی کرلیتے ہیں اور ان سے گھروں سے باہر نکلنے کی وجوہات بھی دریافت کرلیتے ہیں۔تیونس کے شہریوں کو روبوٹ کے کیمرے کے سامنے اپنا شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزات کو رکھنا پڑتا ہے،تاکہ اِن روبوٹس کو کنٹرول کرنے والے پولیس افسران شہریوں کی دستایزات کا جائزہ لے سکیں۔تیونس کی انتظامیہ نے یہ اقدام قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو کورونا وائرس سے بچانے کے لیئے کیا ہے۔ کیونکہ دنیا بھر میں پیرا میڈیکل اسٹاف کے بعد سیکورٹی اہلکار تیزی سے کورونا وائرس کا شکار ہو تے جارہے ہیں۔ خیال رہے کہ تیونس میں ملکی سطح پر لاک ڈاؤن کو دو ہفتے سے زائدوقت گزر چکا ہے جبکہ ملک میں اب تک کورونا وائرس سے متاثرہ 574 افراد زیرِ علاج ہیں اور کووڈ 19کی بیماری سے 22 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔تیونس میں تعینات کیئے گئے اِن روبوٹس کو پی گارڈز کہا جاتاہے اور انہیں تیونسیا کی وزارت داخلہ نے سڑکوں میں تعینات کیا ہے تاہم یہ واضح نہیں کہ ان کی تعداد کتنی ہے۔کیونکہ اِن روبوٹس کو تیار کرنے والی کمپنی اینووا روبوٹکس کا کہنا ہے کہ”یہ تیونسیا کی حکومت اور اُن کی کمپنی کے درمیان طے پانے والا ایک خفیہ معاملہ ہے،لہٰذا تیونس میں تعینات کئے گئے روبوٹس کی تعداد اور اُن کی قیمت کے حوالے کچھ بھی نہیں بتایا جاسکتا“۔یاد رہے کہ تیونس میں لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے والے شہریوں کی نگرانی کے لیے تعینات روبوٹس میں جدید کیمرہ، لائٹ ڈی ٹیکشن اور رینجنگ ٹیکنالوجی نصب ہے جو ریڈار کی طرح کام کرتا ہے تاہم یہ روبوٹس بجلی کے بجائے شمسی توانائی استعمال کرتے ہیں۔سوشل میڈیا میں گردش کرنے والی کئی ویڈیوز میں صاف ملاحظہ کیا جا سکتا ہے کہ تیونس کے شہریوں کی بڑی تعداد روبوٹ کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی شناخت کروارہے ہیں اوراپنی دستاویزات بھی دکھا رہے ہیں جب کہ روبوٹ تعاون کرنے والے شہریوں کو معمولی پوچھ گچھ کے بعد فوری طور پر گھروں میں جاکر بیٹھنے کی ہدایت کرتا ہے۔ اگر آپ بھی پی گارڈ نامی روبوٹ کو تیونس کی گلیوں میں لاک ڈاؤن عملداری قائم کرواتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں تو اِس مختصر لنک کو ابھی وزٹ کریں۔ https://bit.ly/2wbGQkP

عوامی لاک ڈاؤن
عام طور پر لاک ڈاؤن کے بارے یہ ہی سمجھا جاتاہے کہ اِسے حکومت وقت اور اِس کے انتظامی ادارے ہی نافذ العمل بناتے ہیں جبکہ عوام عموماً لاک ڈاؤن کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوا کرتے ہیں۔ لیکن سویڈن کی حکومت نے اپنے ملک میں کورونا وائرس کے خلاف ”حکومتی لاک ڈاؤن“ کے بجائے ”عوامی لاک ڈاؤن“ نافذ کرنے کا عجیب و غریب اور ناقابلِ یقین فیصلہ کیا ہے۔سوئیڈن میں اَب تک کورونا وائرس کے6830 سے زائد مصدقہ مریض سامنے آچکے ہیں جن میں 401 افراد ہلاک بھی ہوچکے ہیں۔”عوامی لاک ڈاؤ ن“ کا اعلان سوئیڈن کے وزیر اعظم سٹیفان لووین نے ٹی وی کے ذریعے قوم سے اپنے خطاب میں کیا،اُن کا کہناتھا ”عوامی لاک ڈاؤن“ کے نفاذ کی تمام تر ذمہ داری حکومت کے انتظامی اداروں کے بجائے سوئیڈن کی عوام کو تفویض کی جارہی ہے اوروہ بھی اِس کامل یقین کے ساتھ کہ سوئیڈن کی بالغ اور سمجھدار عوام کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں انتہائی سمجھ داری کا ثبوت دیتے ہوئے از خودہی ”عوامی لاک ڈاؤن“ کو ملک بھر میں نافذ کردیں گے۔حیران کن با ت یہ ہے کہ سوئیڈن میں قومی سطح پر جائزہ کرانے والی نامور کمپنی نووس کے منعقد کیئے ایک ملک گیر سروے کے مطابق سویڈن کے بیشتر عوام نے اپنے وزیراعظم کے اس خطاب کو نہ صرف دیکھا اور سُنا بلکہ اس سے کامل اتفاق بھی کیا۔ جب کے سوئیڈن کے عوام کو اپنی حکومت پر اِس حد تک یقین ہے کہ بغیر کسی انتظامی مداخلت کے ملک بھر میں رضاکارانہ طور پر ہی ”عوامی لاک ڈاؤن“ میں جاری کی گئی ہدایات کی مکمل پیروی کی جارہی ہے۔اِس ”عوامی لاک ڈاؤن“ کے نکات کے مطابق سوئیڈن بھر میں 16 برس سے کم عمر بچوں کے اسکول ابھی بھی کھلے ہیں،جب کہ شراب خانے اور ریستوران بھی ٹیبل سروس کی پیشکش کررہے ہیں۔اس کے علاوہ پبلک ٹرانسپورٹ،زیرِ زمین چلنے والی میٹرو ٹرین اور عام ٹرینیں بھی پوری طرح سے رواں دواں ہیں لیکن اِس کے باوجود سوئیڈن کے شہری حکومتی ہدایات کے عین مطابق انتہائی کامیابی کے ساتھ سماجی دوری کے رہنما اُصولوں پر عمل کررہے ہیں اور سوئیڈن کے ہر شہر میں خاموشی کا مکمل راج ہے لیکن اِس میں حکومتی طاقت کے بجائے عوام کی اپنی مرضی کا عمل دخل ہے۔ اس حوالے سے سوئیڈن میں سیکورٹی اہلکار اور سیاستدان یہ امید کررہے ہیں کہ دوسرے ممالک کی نسبت سوئیڈن کی عوام کا رویہ کافی عقل مندانہ اور حقیقت پسندانہ ہے۔لہٰذا سخت قوانین کے نفاذ کے بغیر ہی کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پا لیا جائے گااور سوئیڈن کی حکومت ”عوامی لاک ڈاؤن“ کے کسی بھی مرحلے پر انتظامی سختی کرنے کی ضرور ت پیش نہیں آئے گی۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 26 اپریل 2020 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں