the-weirdest-cold-treatments-from-around-the-world

ٹھنڈ پروگرام

ہمارے ہاں ٹھنڈ کا موسم نہ تو دستک دے کر آتا ہے اور نہ ہی کبھی تنہا اور اکیلا وارد ہوتاہے۔ یعنی سرد موسم کے تما م رشتہ دار اور دوست احباب بن بلائے مہمانوں کی مانند اُس کی ہمرا ہی میں اچانک سے ہی آدھمکتے ہیں۔یادر رہے کہ یخ بستہ ٹھنڈکے سب سے قریبی واسطے اور تعلق داروں میں نزلہ،زکام، بخار، گلے میں خراش اور کھانسی سرفہرست شمار کیئے جاتے ہیں۔جبکہ سچ بھی یہ ہی ہے کہ یہ سب نہ ہوں تو سردی ہمیں جسم کے رگ و پے میں محسوس تو ضرور ہو گی لیکن شاید ہمارے چہرے بشرے سے ویسے نظر نہ آسکے جیسے کہ آج کل ہردوسرے شخص کی سرخ آنکھوں،بہتی ناک اورلال انگارہ دہکتے رخساروں سے جھلک رہی ہوتی ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ گرم علاقوں میں رہنے پہلے تو پورے آٹھ ماہ”سردی کا موسم“ آنے کا بڑی بے صبری سے انتظار کرتے ہیں لیکن جب یخ بستہ ہوائیں چل پڑتی ہیں تو پھر ایک دوسرے سے ملنے کے بعد جو پہلا جملہ کپکپاتے ہونٹوں سے ادا کرتے ہیں،وہ کچھ یوں ہوتاہے کہ ”یار! آج سردی کتنی زیادہ ہے؟“۔حد تو یہ ہے کہ ایک دوسرے سے جدا ہوتے وقت اپنی گفتگو کی تان بھی اسی جملے پر توڑتے ہیں۔

دراصل ہم پاکستانیوں کو سردی جتنی اچھی لگتی ہے،اُس سے کہیں زیادہ ہمیں سرد موسم کے اِن موذی رشتہ داروں سے ڈر بھی لگتاہے۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ موسمِ سرما میں ہمارے ہاں، ٹھنڈ لگ جانے سے خود کو بچانے کے لیے ”احتیاطی تدابیر“اور ”ٹونے ٹوٹکوں“کا ذکر خیر ہر گھر کا سب سے مرغوب ترین موضوع گفتگو ہوتاہے۔ مثال کے طور پر سوئیٹر پہن کر باہر جاؤ۔۔۔، لحاف اُوڑھ کر آرام سے بیٹھو۔۔۔، تم نے پھر جرابیں اُتار دیں۔۔۔،دیکھو! بھائی کا گلا کس قدر خراب ہوگیا ہے، اسے ایک کپ ادرک کا قہوہ بنادو اور خود جوشاندہ بنا کر پی لو۔۔۔،اُبلے ہوئے دیسی انڈے کی زردی سردی میں بہت اچھی ہوتی ہے۔۔۔، گاجر کا حلوہ اتنی ٹھنڈ میں بھی نہیں کھاؤ گے تو آخر!کب کھاؤ گے۔۔۔،یہ اور ان سے ملتے جلتے نہ جانے کتنے ہی جملے ٹھٹھرتی سردی کے بارے میں ہمارے فطری خوف کا کھلم کھلا اظہار ہیں۔لیکن اطمینان رہے کہ سرد ی کے نام سے فقط ایک ہم ہی نہیں بلکہ ساری دنیا ہی خوف زدہ اور لرزہ براندام رہتی ہے۔ بلکہ دنیا نے تو سردی سے بچنے کے لیئے ایسے ایسے عجیب و غریب، انوکھے،بدمزہ اور مضحکہ خیز قسم کے نسخے ایجاد کرکیے ہوئے ہیں کہ جن کے بارے میں سُن اور پڑھ کر آپ کے جسم کے رونگٹے بھی کھڑے ہو جائیں گے۔ یقین نہ آئے تو ذرا ایک بار زیرِ نظر مضمون میں پیش کردہ ”ٹھنڈ پروگرام“ کا مکمل مطالعہ فرمالیں۔اگر کلیجے میں ٹھنڈ نہ پڑجائے، پھر کہیے گا۔

سردی کی دشمن ”گیلی جرابیں“
”پاؤں میں گیلی جرابوں کو پہن رات بھر پہن کر، نرم و گدازبستر میں لحاف اُوڑھ کر سونے سے بھی خود کو سردی سے بچایا جاسکتاہے“۔غالب امکان ہے کہ بہت سے قارئین اس جملے کو کسی دیوانے کی یاوہ گوئی سمجھتے ہوئے ہنسی،مذاق میں اُڑانے کی کوشش کریں گے۔لیکن سچ یہ ہے کہ دنیا میں بے شمار افراد انتہائی سرد راتوں میں اپنے آپ کو کڑکڑاتی سردی سے بچانے کے لیئے گیلی جرابیں پاؤں میں پہن کر سونا ہرگز نہیں بھولتے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ گیلی جرابوں سے سردی کا علاج کرنے والوں اِس ضمن میں کچھ احتیاطی تدابیر اور رہنما اُصول بھی بتاتے ہیں۔جیسے جرابیں نائلون وغیرہ کے مصنوعی ریشوں سے بنی ہوئی نہ ہوں بلکہ صرف خالص کپاس یا اون سے بنی ہوئی ہونی چاہئیں۔اگر ایسی جرابیں دستیاب ہوجائیں تو پھر اِن کی ایک جوڑی لے کر برف کے سرد پانی میں کم ازکم پانچ منٹ کے لئے اچھی طرح بھگو کر رکھیں۔ بعدازاں گیلی جرابوں کو اپنے ننگے پاؤں میں پہن کر لحاف اوڑھ کر اطمینان کے ساتھ بستر پر سونے کے لیئے لیٹ جائیں۔ جب آپ صبح نیند پوری کرکے جاگیں گے تو نہ صرف گیلی جرابیں مکمل طور پر خشک ہوچکی ہوں گی بلکہ سرد موسم کے مضر اثرات سے محفوظ و مامون بھی ہوچکے ہوں گے۔

دراصل گیلی جرابیں پہن کر رات بھر سونے کے متعلق بعض سائنسی ماہرین کی بھی یہ رائے ہے کہ رات بھر پاؤں کے گرم اور نم رہنے سے انسانی جسم کا دورانِ خون کی گردش سست نہیں ہونے پاتی،جس کی وجہ سے جسم کے فاضل مادوں کا اخراج ہوتا رہتاہے۔ نیز نظام تنفس اور دماغ میں آکسیجن کی فراہمی میں بھی کسی قسم کا تعطل واقع نہیں ہوتا۔ سب سے بڑھ کر گیلی جرابوں کے ساتھ محواستراحت ہونے سے سرد رات میں نیند بھی پرسکون آتی ہے۔دوسری جانب ایسے طبی ماہرین کی بھی کمی نہیں ہے جو گیلی جرابیں پہن کر سردی کے مضراثرات کا علاج کرنے کے سارے عمل کو ہی مضحکہ خیز اور مشکوک قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”سخت سردی میں گیلی جرابیں پہن کر سونے سے بعض افراد شدید بیمار بھی پڑسکتے بالخصوص وہ لوگ جنہیں جلد کی حساسیت یا الرجی جیسے عوارض لاحق ہوں۔ چونکہ ماہرین گیلی جرابوں اور سردموسم کے درمیان نفع اور ضرر کے معاملہ پر منقسم آراء رکھتے ہیں۔اس لیئے قارئین کو بھی اس عجیب و غریب ٹوٹکے پر عمل پیرا ہونے سے حتی المقدور اجتناب ہی برتنا چاہئے۔تاآنکہ طبی ماہرین ”سردی کی دشمن گیلی جرابیں“ کے بارے میں کسی متفقہ نتیجہ پر نہیں پہنچ جاتے۔ ہاں! اُس وقت تک آپ خشک جرابیں پہن کر ضرور سو سکتے ہیں۔

موسیقی بجائیں، سردی کو بھگائیں
یہ مشہور مقولہ تو آپ نے ضرور سنا ہی ہو گا کہ موسیقی روح کی غذا ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ موسیقی سردی کا توڑ بھی ہے؟۔حیران کن طور پر جرمن سائنس دانوں کی جانب سے کئی گئی ایک تحقیق کے نتیجے میں معلوم ہوا ہے کہ ”سخت سرد ی کے موسم میں اچھی موسیقی سننے سے سردی کی شدت میں واضح کمی لائی جاسکتی ہے۔کیونکہ موسیقی سماعت کرنے سے سامع کے جسم میں امونوگلو بولن(Immunoglobulin) کی سطح بڑھنا شروع ہوجاتی ہے۔جس کے باعث جسم کا درجہ حرارت معمولی ہی سہی بہرحال بڑھ جاتاہے۔ تحقیقی رپورٹ کے مطابق”امونو گلوبولن، انسانی جسم میں پیدا ہونے والا ایک ایسا قدرتی پڑوٹین ہے،جو جسم کو انفیکشن کے خلاف مزاحمت میں مدد فراہم کرتاہے۔ نیز اچھی موسیقی سننے سے Cortisol نامی ہارمون جسے طبی اصطلاح میں اسٹریس یا پریشانی کا ہارمون بھی کہا جاتاہے کی مقدار بھی جسم میں تیز رفتاری کے ساتھ کم ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ جس کی وجہ سے جسم آہستہ آہستہ آرام دہ اور پرسکون حالت میں آنا شروع ہوجاتاہے“۔ واضح رہے کہ جرمن ماہرین کی یہ تحقیق جاز موسیقی (Jazz Music) کے سرد موسم میں انسانی جسم پر پڑنے والے اثرات کے خاص موضوع پر کی گئی تھی۔
بہرکیف اس سائنسی تحقیق سے ذرا سا علمی اجتہاد اور استنباط کرتے ہوئے کہا جاسکتاہے کہ اچھی اور مدھر موسیقی کی دیگر اصناف بھی سخت سردی کے موسم میں اپنے سامع کو ٹھنڈ،سے بچانے اور خون گرمانے کی کچھ نہ کچھ صلاحیت تو ضرور رکھتی ہی ہوں گی۔ مزید قارئین اگر چاہیں تو سخت سردی کے موسم میں اپنی پسند کی کوئی بھی اچھی سی موسیقی سُن کر جرمن سائنس دانوں کی مذکورہ تحقیق کو اپنے ذاتی تجربہ کی روشنی میں درست یا غلط ہونے کی خوب اچھی طرح سے جانچ اور پرکھ کر سکتے ہیں۔ نیز ساتھ ہی یہ بھی پتا لگاسکتے ہیں سردی کے خلاف کلاسیکل موسیقی مثلاً غزل، گیت،ٹھمری وغیرہ زیادہ موثر ہے یا پھر جدید پاپ موسیقی۔ جبکہ ہماری دانست میں، صوفیانہ موسیقی مثلاً قوالی وغیرہ بھی شدید سردی میں گرم ماحول پیدا کرنے کے لیئے کافی مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

پیاز،سرد بھی گرم بھی
برصغیر پاک و ہند میں ہمیشہ سے پیاز کو موسم گرما کی ایک ایسی سبزی یا غذا تسلیم کیا جاتا رہاہے،جو قدرتی طور پر انسانی جسم کو ٹھنڈا رکھ کر گرمی کے جملہ مضر اثرات سے بچاتی ہے۔پیاز کو کچا اور پکاکر دونوں طرح سے تناول کیا جاتاہے۔ نیز ہمارے ہاں،پیاز کو گرم دوپہر میں چلنی والی بادِ سموم یعنی لُو سے بچنے کے لیئے بطور ٹوٹکا بھی استعمال کی جاتی ہے۔اکثر بزرگ افراد جون،جولائی کی تپتی دوپہر میں گھر سے باہر کسی ضروری کام سے نکلنے والوں کو اپنے ساتھ پیاز ہمراہ لے جانے کا مشورہ دینا ہر گز نہیں بھولتے، کیونکہ ان کے نزدیک پیاز کو صرف اپنے پاس اورقریب رکھنے سے بھی لُو کے مہلک اور مضر اثرات سے بچا جا سکتاہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ صحت کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والی ایک طبی تحقیقاتی ادارے ”بولڈ اسکائی‘‘نے حال ہی میں اپنی آفیشل ویب سائٹ پر پیاز کے طبی فوائد پرمبنی ایک خصوصی تحقیقی رپورٹ شائع کی ہے۔جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ”پیاز کو سرد موسم کے خلاف بھی بطور ایک”طبی ٹوٹکے“ کے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ پیاز میں سلفر سمیت کئی ایسے جراثیم کش مرکبات شامل ہیں۔جو انسانی جلد پر براہ راست اثرانداز ہوکر جسم پر حملہ آور ہونے والے مضر صحت جراثیم، بیکٹریاز کو ختم کرنے اور انفیکشن سے نجات دلانے کا موثر ترین ذریعہ بن سکتے ہیں اور شاید یہ ہی وجہ ہے کہ قدیم زمانے میں بھی پیاز کی قاشیں پاؤں کے نیچے رکھ کر کئی بیماریوں کاعلاج کیا جاتا تھا“۔

مذکورہ رپورٹ میں ماہرین صحت کایہ بھی کہنا تھا کہ”رات کے وقت سونے سے قبل پیاز کی ایک قاش کسی پلاسٹ کے لفافے یا کپڑے کے ساتھ پاؤں کی نچلی ہتھیلی پر باندھ لیں۔ اَب اس کے اُوپر جراب پہن کر سوجائیں اور صبح جاگنے کے بعد اسے اتار دیں۔ اس طریقہ استعمال سے نزلہ،زکام،سردی اور بخار سے فوری افاقہ میسر آئے گا۔نیز پیاز کو ہاتھ کی ہتھیلی پر باندھنے سے بھی کئی ضمنی فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔ یعنی رات کو سونے سے قبل ہاتھ کی ہتھیلی پر پیاز کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا کسی کپڑے وغیرہ سے باندھ کر سونے سے جسم کی قوت مدافعت میں بہتری میسر آئے گی۔

علاوہ ازیں پاؤں کے نچلے حصے پر رات کو پیاز کی قاش باقاعدگی کے ساتھ باندھ کر سونے سے کان کے درد میں کمی،جسم کے اندر موجود فاسد مادوں کے اخراج اور معدے کی تیزابیت سے بھی راحت ملتی ہے“۔واضح رہے کہ درج بالا رپورٹ کے نتائج کا تمام تر انحصار صرف اُن تجربات و مشاہدات پر ہے،جو ”بولڈ اسکائی“ نے بھارت بھرمیں موجود اپنے کلینکس پر آنے والے مریضوں سے گفت و شنید کے بعد اخذ کیئے تھے۔ لہٰذا دنیا کے دیگر خطوں میں پیاز،موسم سرما سے مدافعت کے لیئے کس قدر موثر ثابت ہوسکتی ہے۔اس پر ابھی وسیع سائنسی تحقیق کی ضرورت ہے۔

سیپ کے پکوان، سردی سے اَمان
سیپ اور سیپیاں کراچی کے ساحل سمندر پر جابجا بکھری ہوتی ہیں اور یہاں آنے والے مقامی اور غیر مقامی سیاح ساحل سمندر کی گیلی ریت سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ ساحل پر بکھری ہوئی رنگ برنگی سیپیوں کو بھی مختلف مقاصد کے لیئے جمع کرتے ہیں۔ مثلاً بعض افراد سیپیوں سے گھر کی سجاوٹ کے لیئے فوٹو فریم، گل دان،کشتیاں یا وغیرہ بناتے ہیں جبکہ بچے اکثر جمع کردہ سیپیوں کی مدد سے مختلف اقسام کے کھیل بھی کھیلتے ہیں۔ لیکن حیران کن طور پر دنیا کے کئی علاقوں مثلاً شمالی امریکا،یورپ اور براعظم افریقہ کے ساحل پر آباد ممالک میں سیپ اور سیپوں کو شدید سردی میں ٹھنڈ سے بچاؤ کے لیئے روزمرہ کے کھانے میں ایک اہم غذائی عنصر کے طور پر باقاعدگی کے ساتھ استعمال کیا جاتاہے۔

طبی ماہرین کے مطابق سیپ میں زنک کی مقدار، وافر پائی جاتی ہے، جس کے باعث اسے شدید سرد موسم کے باعث انسانی جسم کو لاحق ہونے والے وائرل اور بیکٹیریل انفیکشن کے خلاف انتہائی موثر پایا گیا ہے۔ نیز سیپ کے بنے ہوئے تمام کھاجے خون میں سفید خلیات میں اضافہ کرکے جسم میں بہترین قوت ِ مدافعت پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ یاد رہے کہ شمالی امریکا میں سردیوں کا آغاز ہوتے ہی سیپ کو انواع و اقسام کے کھانوں میں ایک لازمی جز کے طور پر شامل کردیا جاتاہے۔خاص طور پر تازہ سیپیوں سے تیار کردہ کڑاھی اور سوپ کو شدید نزلہ و زکام میں انتہائی سریع التاثیر خیال کیا جاتا ہے۔ مگر یہاں ایک بات اچھی طرح سے ذہن نشین رہے کہ چونکہ سیپ میں زنک کا وافر ذخیرہ پایا جاتاہے،اس لیئے دل،سانس اور دمے کے امراض میں مبتلا افراد کو سیپ کابطور غذا استعمال کرنے سے پہلے اپنے معالج سے طبی مشورہ ضرور لے لینا چاہئے۔

چھپکلی کا سوپ، حرارت کا بہروپ
تمام پاکستانی سردی کے موسم میں اپنے جسم میں حرارت پیدا کرنے کے لیئے چائنیز چکن سوپ خوب رغبت اور شوق سے پیتے ہیں مگر حیران کن بات یہ ہے کہ چائنیز یعنی ہمارے چینی بھائی سردی سے بچنے کے لیئے چکن سوپ کے مقابلہ میں (Lizard Soup) یعنی چھپکلی کا سوپ نوش جاں کرنا زیادہ پسند فرماتے ہیں۔ کیونکہ چینی عوام کی اکثریت سمجھتی ہے کہ چھپکلی کا سوپ سردی لگنے کے وجہ سے پیدا ہونے والی تمام بیماریوں مثلاً کھانسی، بخار، نزلہ و زکام اور گلی کی خراش کے علاج میں اکسیر کا درجہ رکھتاہے۔ نیز اُن کی نزدیک چھپکلی کاسوپ انسانی جسم میں جس قدر حرارت اور گرمائش پیدا کرسکتاہے، چکن سوپ اس کے مقابلے عشر عشیر بھی نہیں ہے۔

شاید یہ ہی وجہ ہے کہ کھانے،پکانے کی تراکیب بتانے والی جتنی چینی ویب سائٹس ہیں، وہاں چھپکلی کا سوپ بنانے کے لیئے نت نئی کی تراکیب کثیر تعداد میں ملاحظہ کے لیئے دستیاب ہیں۔ لیکن یہاں اُن میں سے ایک بھی ترکیب ضبط تحریر میں لانے کے قابل نہیں ہے۔ کیونکہ جس چھپکلی کے سوپ کی ”ترکیب تیاری“ کا صرف ابتدائیہ پڑھتے ہوئے ہی، پڑھنے والے کا متلی ہونے کا اندیشہ لاحق ہوجائے،یقینا، اُسے لکھنے سے اجتناب کرنا ہی زیادہ بہتر اور مناسب طرزعمل ہو گا۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں