the-most-incredibly-futuristic-weapons

کون سے ہتھیار سب سے کاری وار

کہا جاتاہے کہ جنگ کے مقاصد اور فریق کبھی بھی نہیں بدلتے یعنی جب سے یہ کائنات معرض وجود میں آئی ہے۔ تب سے ہی ہماری زمین پر ہونے والی ہر جنگ کے فریق انسان اور صرف انسان ہی رہے ہیں۔نیز اپنے سے کمتر قوم کی سر زمین پر قبضہ کرنا، یااپنی غیرمعمولی طاقت کا اظہارکرنا، یا جارحیت سے دوسری قوم کو اپنا زیرنگیں بناکر مفتوح قوم کے زرخیز وسائل کو اپنے تصرف میں لانے کی خواہش ہی جنگ کے بنیادی مقاصد میں کل بھی شامل تھی اور آج بھی شامل ہے اور گمانِ غالب ہے آئندہ بھی ان ہی مذموم مقاصد کے حصول کے لیئے جنگ و جد ل کے میدان سجائے جاتے رہیں گے۔مگر جنگ میں ایک شئے ضرور ایسی ہے،جو وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے اور وہ ہے ہتھیار۔جی ہاں! جنگی ہتھیار جنگ کی بنیادی کلید سمجھے جاتے ہیں اور اسی چابی کی مدد سے ہی جنگوں میں فتوحات کے مشکل و ناقابلِ تسخیر باب، وا کیئے جاتے ہیں۔

بلاشبہ جنگیں دنیا کے جغرافیائی نقشے تبدیل کرنے کا باعث بنتی ہیں لیکن کسی غیر معمولی ہتھیار کی ایجاد اور اُس کے بروقت استعمال سے اکثر و بیشتر جنگ کا اپنا نقشہ بھی مکمل طور پر بدل سکتاہے۔ مثال کے طور پر دست بدست جنگ کرنے والی فاتح اقوام کا سامنا جب تیرو تلوار جیسے ہتھیاروں سے ہوا تو وہ مفتوح ہوگئے۔نیز تلوار چلانے والی قوم بندوق اور بارود استعمال کرنے والے حریفوں کے مقابل آئیں تو، شکست اُن کا مقدر ٹھہری۔جبکہ توپ و تفنگ کے ماہر، بم برساتے ہوئے اُڑتے جہاز وں کے سامنے نہ ٹہر سکے۔حد تو یہ ہے کہ بحری اور فضائی طاقت پر نازاں اقوام پر جب دو ایٹمی ہتھیارچلائے گئے تو انہوں نے بھی اپنی سپر حریف کے سامنے ڈالنے میں لمحہ بھر کی تاخیر نہ کی۔ اس لیئے ہم یہ کہنے میں پوری طرح سے حق بجانب ہیں کہ جنگیں لڑتے ضرور انسان ہی ہیں لیکن جیت ہمیشہ ہتھیاروں کی ہی ہوتی ہے۔زیر نظر مضمون میں ایسے جدید اور سائنس فکشن ہتھیاروں کا اجمالی سا تذکرہ پیش خدمت ہے،جن کے متعلق ماہرین عسکریات کو گمان ہے کہ شاید اِن میں سے کوئی ہتھیار مستقبل قریب میں ”ہتھیاروں کی ڈور“ کا نیا فاتح قرار پائے۔

مائکرو ڈرون(Micro Drone)
ڈرون یا بغیر پائلٹ کے جہاز کے لیے امریکی فوج میں انگریزی زبان کا لفظ ’میِل‘ استعمال کیا جاتا ہے۔میل مخفف ہے ”’میڈیم ایلٹیٹوڈ لانگ اینڈورینس‘‘ کا۔ویسے تو ڈرون کی ایجاد مخصوص جنگی مقاصد جیسے فقط فضائی جاسوسی یا نگرانی کے لیئے ہی کی گئی تھی۔ لیکن بعدازاں ڈرون میں اے جی ایم ہیل قسم کے میزائل نصب کرکے اِسے باقاعدہ ایک مہلک ہتھیار میں تبدیل کردیا گیا۔آج کل ا یک جدیدڈرون اپنے ساتھ 2لیزر گائیڈڈ میزائل اور 350کلو گرام بارود لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔جبکہ ڈرون کے بالکل سامنے (Front) دو کیمرے لگے ہوتے ہیں جو راستے کا تعین کرتے ہیں۔ڈرون کے دونوں پروں (wings) کے درمیان نیچے کی جانب (Multi Spectrum Target System) لینز (کیمرہ)ہوتا ہے جو ڈرون کو زمین پر موجود ہدف بالکل صاف دیکھنے کی صلاحیت مہیا کرتا ہے۔

نیز ڈرون اپنے ہدف کو بہت قریب سے (Zoom In) اور دور سے (Zoom Out) کر کے بھی دیکھ سکتا ہے۔ اس میں بیم لیزر نصب ہوتی ہے جو کہ نشانہ ٹھیک باندھ کر میزائل کو ٹارگٹ کی جانب روانہ کرتی ہے۔ ڈرون کو ریڈار سسٹم سے شناخت کرنامشکل ہوتاہے کیونکہ اس کی رفتار انتہائی تیز ہوتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جنگی ڈرون صرف ایک بغیر پائلٹ کا جہاز نہیں بلکہ یہ پورا ایک نظام ہوتاہے۔جس میں کم ازکم چار ڈرونز، ایک کنٹرول اسٹیشن اور ایک سیٹیلائٹ سسٹم سے منسلک کرنے والا خاص حصہ ہوتاہے۔ ایک ڈرون سسٹم کو چلانے کے لیئے پچپن افراد کا عملہ درکار ہوتاہے۔ پینٹاگن اور سی آئی اے1980کے اوائل سے ہی جاسوسی کے لیے ڈرون طیاروں کے تجربات کر تے آرہے ہیں۔ 1990 میں سی آئی اے کو ابراہم کیرم کے بنائے ہوئے ڈرون میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ ابراہم کیرم اسرائیلی فضائیہ کا چیف ڈیزائنر تھا جو بعد میں امریکہ منتقل ہو گیا۔ڈرون1990 تک مختلف تجرباتی مراحل سے گزرتا رہا اورباالآخر1995 میں پہلی مرتبہ سی آئی اے نے بالکان میں ڈرون کو عملی طور پر استعمال کرنے کا مظاہرہ کیا۔

واضح رہے کہ ڈرون کئی اقسام کے ہوتے ہیں لیکن بطور ایک جنگی ہتھیار،مائیکرو ڈرون (Micro Drone) سب سے زیادہ مہلک اور کارآمد تصور کیا جاتاہے۔مائیکرو ڈرون جسامت میں اتنا چھوٹا ہو تا ہے کہ یہ آپ کے دونوں ہاتھوں پر بھی باآسانی لینڈ کر سکتا ہے۔ اسے کنڑولر پیڈ اورموبائل فون یا بیک وقت دونوں سے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اور یہ40 فٹ بلندی تک ویڈیواور تصویر بھی بناسکتاہے۔نیز اس کو استعمال کرنے کیلئے کسی عسکری تربیت یا مخصوص عمر کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔علاوہ ازیں مائیکروڈرون ہمہ وقت محفوظ، پائیدار اور استحکام کے ساتھ اُڑان بھر سکتا ہے اس میں 720 ایچ ڈی گرافکس کا کیمرہ نصب ہوتاہے جو 360ڈگری تک گھوم سکتا ہے۔یاد رہے کہ مائیکرو ڈرن کو فیصلہ کن جنگی ہتھیار میں بدلنے کے لیئے دھماکہ خیز مواد سے لیس کیا جا چکاہے۔ یعنی اَب چھوٹے ہتھیاروں والے مسلح ڈرون بنائے جارہے ہیں،جنہیں کوئی نہیں دیکھ سکتا ہے لیکن وہ جب چاہیں دشمن کی فوج میں گھس کر تباہی مچا سکتے ہیں۔ جنوری 2017 میں، پینٹاگون نے اعلان کیا تھا کہ اس نے چھوٹے دھماکہ خیز ہتھیاروں سے لیس 103 مائکرو ڈرون کے گروپ کا کامیابی سے تجربہ کیا ہے۔ اس مائیکرو ڈرون سسٹم میں شامل ہر ایک ڈرون کی لمبائی صرف 16 سینٹی میٹر (6 انچ) ہے۔مگر یہ مائیکروڈرون مصنوعی ذہانت سے بھی لیس ہیں،جس کی وجہ سے یہ خود مختار مائیکروڈرون اپنی مرضی سے بھی حریف کی تباہی کا فیصلہ کرنے کے اہل ہیں۔

اعصاب شکن ہتھیار
چین کے سائنسدانوں نے مائیکرو ویو ٹیکنالوجی کی مدد سے مبینہ طور پر ایسا غیر مہلک ہتھیار بنا لیا ہے جو انسانی اعصاب پر حملہ کر کے اسے مفلوج کر دیتا ہے۔اس پراجیکٹ پر کام کرنے والے ایک انجینئر نے کچھ عرصہ قبل ایک غیر ملکی جریدے کو بتایا تھا کہ”اس پراجیکٹ کا نام ”مائیکرو ویو ایکٹیو ڈینائل سسٹم ”رکھا گیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کو دو طریقوں سے استعمال کیا جا سکتا ہے، اس کا پہلا استعمال صرف ایک شخص کے مخصوص جسمانی حصے پر کیا جا سکتا ہے اور دوئم یہ کہ اس کا نشانہ وسیع آبادی کو بھی بنایا جاسکتاہے“۔چین کے محققین کے مطابق اس ہتھیار سے انسان کو کسی بھی قسم کا کوئی زخم یا کوئی مستقل تکلیف نہیں ہوتی، بس یہ تھوڑی دیر کے لیئے متاثرہ شخص کے ذہن کو ماؤف کردیتا ہے۔ یہ نظام کسی بھی گاڑی میں نصب ہو سکتا ہے اور اس ہتھیار کو ممکنہ طور پر مقامی پولیس اور چین کے ساحلی گارڈ استعمال کریں گے۔رپورٹ کے مطابق یہ ٹیکنالوجی زمینی اور بحری کارروائیوں کے لئے مساوی طور پر کارآمد ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ چین اس سے قبل 2014 میں اسی ٹیکنالوجی کے تحت پولی ڈبلیو ون نام کا میزائل بنا چکا ہے۔راکٹوں سے داغے جانے والے یہ اعصاب شکن ہتھیار بلاتفریق فوجیوں اور عام شہریوں کو ہزاروں کی تعداد میں متاثر کر سکتے ہیں۔تاہم روس نے بھی سرن، وی ایکس یا نوویچوک جیسے خفیہ اعصاب شکن بنانے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کرلی ہے۔ کہا جاتاہے کہ روس میں بنایا گیایہ اعصاف شکن ہتھیارچند برس قبل برطانیہ میں ایک خفیہ جاسوس سرگئی سکرپل اور ان کی بیٹی یولیا کے خلاف استعمال کیا گیاتھا۔لیکن روس کا موقف ہے کہ یہ فقط ایک الزام ہے اور اس کی جانب سے ابھی تک کسی بھی اعصاب شکن ہتھیار کا عملی استعمال نہیں کیا گیا۔

یاد رہے کہ اعصاب شکن ہتھیارجو جسم کے مرکزی اعصابی نظام کو متاثر کر کے اسے درست انداز میں کام کرنے سے روک دیتے ہیں۔ اگر ان ہتھیاروں کا زیادہ مقدار میں استعمال کر دیاجائے گو اس کے نتیجے میں متاثرہ شخص پر فوری طور پر تشنج کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور اس کا دم گھٹنے لگتا ہے یا دل کی دھڑکن بند ہونے کے نتیجے میں وہ ہلاک بھی ہوسکتاہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اعصاب شکن ہتھیار زیادہ تر بے رنگ مائع کی شکل میں ہوتے ہیں۔جن میں یا تو بو بالکل بھی نہیں ہوتی یا ہلکی سی خوش بو ہوتی ہے۔ اعصاب شکن ہتھیار کے بخارات فضا میں شامل ہوکر انسانی جسم میں سانس کے ذریعے داخل ہو سکتے ہیں،نیز آنکھوں اور جلد کے ذریعے جذب بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ مادے جسم کی سطح پر ٹھہرسکتے ہیں تاہم انہیں دھویا جا سکتا ہے۔دراصل اعصاب شکن ہتھیار سے نکلنے والا مادہ عام جسمانی افعال کو بے ترتیب کردیتا ہے۔جس کی وجہ سے متاثرہ شخص کی ناک بہنا شروع ہو جاتی ہے، پُتلیاں سکڑنے لگتی ہیں، متلی اور خفقان کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے، بینائی متاثر ہونے لگتی ہے، جسمانی افعال بے قابو ہو جاتے ہیں اور سینے میں درد محسوس ہوتا ہے۔اعصاب شکن مادے کی زیادہ مقدار سے متاثر ہونے کی صورت میں اینٹھن یا تشنج کی کیفیت طاری ہونے لگتی ہے جس کا نتیجہ بے ہوشی یا موت کی صورت میں نکلتا ہے۔نیز اعصاب اور نظامِ تنفس بے کار ہونے پر متاثرہ افراد ایک سے دس منٹ میں ہلاک بھی ہوسکتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق اِن اعصاب شکن ہتھیاروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا بے حد آسان ہوتاہے۔ جبکہ انہیں بموں،میزائل اور راکٹوں کی مدد سے بھی دور دراز علاقوں میں حملے کے لیئے بھی استعمال کیا جاسکتاہے۔ایک غیر مصدقہ خبر کے مطابق گزشتہ برس ملائشیا کے ایئرپورٹ پر حملہ آوروں نے شمالی کوریا کے رہنما کم جانگ ان کے سوتیلے بھائی، کم جانگ نیم کے چہرے پر وی ایکس مادہ مل کر اُنہیں قتل کر دیا تھا۔کہا جاتاہے کہ1930 میں ایک جرمن سویلین سائنس دان نے فصلوں کے لیے طاقتور کیڑے مار دوا تیار کرتے ہوئے حادثاتی طور پر پہلا اعصاب شکن مادہ دریافت کیا تھا۔ اس سے فصلی کیڑے مکوڑے تو ہلاک ہو گئے تاہم یہ جانوروں اور انسانوں کیلیے بھی مہلک ثابت ہواتھا۔

نیزجرمن فوج نے دوسری جنگ عظیم میں سارین گیس بنانے کی ایک فیکٹری قائم کرکے بڑی تعداد میں اعصاب شکن ہتھیار تیار بھی کیئے تھے۔ مگرجرمنی کی فوج کو انہیں جنگ میں اپنے دشمن کے خلاف استعمال کرنے کا موقع میسر نہ آسکا۔ اعصاب شکن ہتھیار بنانے والے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انسانی عضلات کو پرسکون بنانے والی دوائیں، مثلاایٹروپین اور پریلی ڈوکسیم کلورائیڈ کے ذریعے اعصاب شکن ہتھیار کا توڑ بھی کیا جا سکتا ہے۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ آج کل بعض ممالک کی جانب سے سرحدوں پر تعینات فوجیوں کو ابتدائی طبی امداد کے سامان میں عموماً ایسے خودکار ٹیکے بھی فراہم کیئے جاتے ہیں۔ جنہیں وہ اعصاب شکن ہتھیاروں کا حملہ ہونے کی صورت میں بطور علاج ازخود بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ تاہم اعصاب شکن ہتھیاروں کے حملے کے چند ہی منٹ یا گھنٹوں کے اندر فوری طور پر ان ٹیکوں کا استعمال نہ کیا جائے تو پھر اعصاب شکن ہتھیار کے مضر اثرات سے بچ پانا ناممکن ہوجاتاہے۔

غیر مرئی پوشاک (Invisibile Uniform)
ہوسکتاہے کہ ہماری قارئین کی اکثریت معترض ہو کہ ہم نے غیر مرئی پوشاک یعنی نہ دکھائی دینے والے لباس کو بھی جنگی ہتھیار کی فہرست میں شامل کردیاہے۔ حالانکہ غیر مرئی یونیفارم کو اپنی ساخت میں کسی بھی دوسرے فرد کے لیئے تباہ کن یا ہلاکت خیز ہر گز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن یہاں مصیبت یہ ہے کہ غیر مرئی لباس کی تیاری کرنے والے ادارے اِسے تجارتی مقصد کے بجائے، جنگی مقاصد کو پیش نظر رکھ کر ہی تیار کررہے ہیں اور اِس یونیفارم کو مختلف ممالک اپنی افواج کے لیئے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ویسے تو غیر مرئی فوجی یونیفارم کی تیاری انتہائی رازداری کے ساتھ کی جاری ہے۔ اس لیئے یقین سے تو نہیں کہا جاسکتاہے اَب تک کون کون سے ممالک اپنی افواج کے لیئے اِس غیر مرئی لباس کا بندوبست کرچکے ہیں۔ مگر کچھ عرصہ قبل عالمی ذرائع ابلاغ پر آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق ہائپرسٹیلتھ بائیوٹیکنالوجی کارپوریشن نامی کینیڈا کی ایک کمپنی نے کامیابی کے ساتھ وسیع پیمانے پر نہ دکھائی دینے والی فوجی یونیفارم تیار کرنا شروع کردی ہے۔جس کے بارے میں بتایا گیا کہ اس یونیفارم کو پہننے والا مکمل طور پر دوسروں کی نظروں سے پوشیدہ ہو سکتاہے۔

حیران کن بات تو یہ ہے کہ امریکی حکومت نے اس کمپنی کے ساتھ ایک طویل المدتی معاہدہ بھی کرلیا ہے۔جس کی مطابق یہ ادارہ اگلے کئی برسوں تک صرف امریکی افواج کے لیئے غیرمرئی فوجی یونیفارم کی تیاری کرے گا۔باقی آپ خود سوچ سکتے ہیں ایک ایسی غیر مرئی فوج اپنے حریفوں کے لیئے کس قدر خطرنا ک اور مہلک ثابت ہوسکتی ہے،جسے میدان ِجنگ میں ملاحظہ نہ کیا جاسکے۔اَب تک پوشیدہ لباس کا خیال سائنس فکشن فلموں تک ہی محدود تھا لیکن کچھ بعید نہیں آنے والی ایام میں ہم غیر مرئی فوجی یونیفارم میں ملبوس افواج کے لڑنے کی بریکنگ خبر سماعت فرمائیں۔

دوسری جانب سائنس دان غیر مرئی فوجی یونیفارم سے ایک قدم مزید آگے بڑھاتے ہوئے جنگ میں استعمال ہونے والے مختلف ہتھیاروں کو بھی غیر مرئی یا اَن دیکھا بنانے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں اور کچھ غیرمصدقہ اطلاعات کے مطابق وہ کامیاب بھی ہوچکے ہوں لیکن شاید ہمیں ابھی خبر نہ ہو۔ یعنی صرف سپاہی نہیں بلکہ جنگی ٹینکس،بحری جہاز وغیرہ تک کے لیئے ایسا پینٹ، مواد، شیٹ یا پینل تیار کرلیا جائے کہ جس کے پیچھے موجود آنے والی ہر شئے اوجھل ہوجائے۔ دراصل سائنس دانوں کا خیال ہے کہ انہیں جنگی ہتھیاروں کو چھپانے کے لیئے صرف میٹو میٹریلز ہی تو تیار کرنا ہے،جس کی مدد سے الٹرا وایلیٹ، اورکت اور شارٹ ویو اورکت موڑی جاسکیں۔

یاد رہے کہ ہائپرسٹیلتھ بائیوٹیکنالوجی کارپوریشن کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس نے پیٹنٹ کی صورت میں کوانٹم اسٹیلتھ (روشنی موڑنے والا مواد) دوسری صورت میں انویسٹیبل پوش کے نام سے تیار کرنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کرلی ہے۔ہائپر اسٹیلتھ بائیو ٹیکنالوجی کے چیف ایگزیکٹوگائی کرمرکے مطابق ”ہمارا تیار کردہ پینٹ روشنی کو اس طرح سے موڑدیتا ہے کہ صرف پس منظر ہی دکھائی دیتا ہے“۔ یعنی پینٹ کے نیچے والی شئے دیکھی نہیں جاسکتی۔کمپنی کی آفیشل ویب سائٹ پر اس حوالے سے ایک گھنٹے کی ویڈیو بھی موجود ہے۔جس میں مختلف اشیاء کو غیر مرئی یا اَن دیکھا کرنے کا عملی مظاہر ہ بھی دکھایا، یا یوں کہہ لیں کہ چھپایا گیا ہے۔یاد رہے کہ مختلف چیزوں کو نظروں سے مکمل طورپر اوجھل کرنے سے متعلق یہ ایک بڑی پیش رفت ہے۔کیونکہ اس سے قبل انسانی نظروں سے غائب کرنے کے لیے اب تک جو لباس تیار کیے گئے تھے وہ دواطراف سے چیزوں کو نظروں سے چھپا سکتے تھے۔ جس کی وجہ سے چھپی ہوئی اشیاء کا ایک سایہ سا بہر حال باقی رہ جاتا تھا، جس کا مخصوص آلات کی مدد سے سراغ لگایا جاسکتا ہے۔لیکن اَب یہ پہلا موقع ہے کہ ماہرین نے مختلف چیزوں کو تین سمتوں سے اوجھل کرنے میں کامیابی بھی حاصل کر لی ہے۔

ہائپر سونک میزائل (Hypersonic Missiles)
سادہ لفظوں میں آپ آواز کی رفتار سے تیز فاصلہ طے کرنے والے میزائل کو ہائپر سونک میزائل کہہ سکتے ہیں۔دراصل آواز ایک گھنٹے میں جتنا فاصلہ طے کرتی ہے، اسے سائنسی زبان میں ایک ”ماخ“(Mach) کہا جاتا ہے۔اس لیے سپر سونک میزائل آواز کی رفتار سے جتنے گنا زیادہ تیز رفتاری سے سفر کرتا ہے، اس کے ماخ کے آگے وہی عدد لکھ دیا جاتا ہے۔ مثلا آواز کی رفتار سے چار گنا زیادہ کا مطلب ہوا کہ مذکورہ میزائل ماخ 4 ہے۔لیکن یہاں اس بات کی وضاحت ازحد ضروری ہے کہ تیکنیکی لحاظ سے ایک ہائپر سونک میزائل صرف اس وقت ہی ہائپر سونک کے درجے پر فائز ہوسکتاہے، جب اس کی رفتار”ماخ5“ سے زیادہ ہو۔ ہائپر سونک میزائل دورِجدید کے موثر اور مہلک ترین ہتھیار میں شمار کیا جاتاہے۔کیونکہ ان میزائلوں کی رفتار، نقل و حرکت اور بلندی پر چلنے کی وجہ سے کسی بھی ریڈار کے لیئے ان کو پہچاننا اورروک پانانہایت مشکل ہوجاتا ہے۔ایک چھوٹے سے چھوٹا ہائپر سونک میزائل آواز کی رفتار سے کم ازکم 5 گنا زیادہ رفتار پر چلتے ہیں جو تقریباً 6200 کلومیٹرفی گھنٹہ کی رفتار بنتی ہے۔جبکہ ہتھیاروں پر تحقیق کرنے والے عالمی اداروں کے مطابق اکثر ہائپرسونک میزائل 25 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ تک چلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو کہ جدید ترین مسافر طیاروں کے اُڑنے کی رفتار سے بھی 25 گنا زیادہ رفتار ہے۔

یادر رہے کہ ہائپر سونک میزائل بنانے کی دوڑ میں چین اور روس اپنے حریفوں کے مقابلے کہیں آگے پہنچ چکے ہیں۔حالانکہ امریکہ کے پاس ماخ 7 سے لے کر ماخ 15 تک کے سپر سونک میزائل کثرت سے موجود ہیں۔ لیکن چین ماخ 17 کی رفتار سے مار کرنے والا ہائپر سونک بیلسٹک نیوکلیئر میزائل ”ڈی ایف 17“ بھی گزشتہ برس متعارف کرواچکا ہے۔اس سپرسونک میزائل کے بارے میں دعوی کیا گیا ہے کہ یہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی نصب کردہ تمام میزائل شکن شیلڈزکو توڑنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔بعض سینیئر امریکی حکام تو یہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ”ہائپر سپر سونک میزائل“ نصب کرنے کی دوڑ میں چین امریکا سے بہت آگے نکل چکا ہے اور اَب ہمارے پاس اس کا مقابلہ کرنے کے لیئے متبادل دفاعی نظام موجود نہیں ہے“۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا کا سب سے تیزرفتار بین البراعظمی ہائپر سونک میزائل روس نے تیارکیا ہے، جو آواز کی رفتار سے بھی ستائیس گنا یعنی ”ماخ 27“ کی تیز رفتاری سے اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔دوسرے لفظوں میں 33 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ تک کی رفتار سے کسی بھی دوسرے براعظم میں اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکنے والا یہ میزائل واقعی اپنی طرز کا انتہائی جدید ترین اور منفرد ہتھیار ہے۔روس کے صدر پیوٹن نے ”ایون گارڈ ہائپر سونک گلائیڈ وہیکل‘‘کو ٹیکنالوجی کے میدان میں گراں قدر اضافہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ”یہ ویسا ہی کارنامہ ہے جیسے سوویت یونین نے 1957ء میں پہلا سیٹلائٹ فضا میں روانہ کر کے انجام دیا تھا“۔علاوہ ازیں ایون گارڈ کو بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کے ہمراہ بھی داغا جاسکتا ہے اور یہ عام نیوکلیئر میزائل کی مانند روانہ ہونے کے بعد متعین کردہ راستے ہی پر چلتا ہے۔ ایون گارڈ اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کے لیے فضا میں غیر معمولی نوعیت کی قلابازیاں بھی کھا سکتا ہے اور اس کاسراغ لگانا کم و بیش ناممکن ہی ہے۔نیز یہ دو میگاٹن وزن کا جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت کا بھی حامل ہے۔علاوہ ازیں اس ہائپرسونک میزائل کی تیاری میں ایسا مواد استعمال کیا گیا ہے جس کی بدولت یہ 2000 سینٹی گریڈ یعنی (3632 فارن ہائٹ) کی تپش بھی برداشت کرسکتا ہے۔

دماغ سے چلنے والے ہتھیار(Mind-Controlled Weapons)
اگر آپ مشہور و معروف ہالی وڈ فلم ”آئرن مین“ دیکھ چکے ہیں توپھر آپ کے لیئے یہ سمجھ پانا، قطعی دشوار نہیں ہونا چاہئے کہ کیسے انسانی دماغ سے ہتھیار استعمال کیئے جاسکتے ہیں؟۔ یعنی انسانی دماغ کو کسی بھی ہتھیار،گاڑی،جہاز اور میزائل کے ساتھ منسلک کر اُنہیں سوچ اور خیال کی مدد سے روبوٹ کی مانند استعمال کیا جاسکتاہے۔دماغ سے چلنے والے ہتھیار کا حصول انسان کا برسوں پرانا خواب رہا ہے۔مگر دورِ جدید میں ہونے والی سائنسی پیش رفت سے یہ خواب عین حقیقت ہو چکاہے اور امریکا،روس اور چین سمیت کئی ممالک مختلف ہتھیاروں کو دماغ سے استعمال کرنے میں کامیابی حاصل کرچکے ہیں۔ امریکی دفاعی ادارے پینٹاگون کے ماہرین ایک ایسے خفیہ پروجیکٹ پر کام کررہے ہیں جس کی بدولت مستقبل قریب میں تمام امریکی افواج اپنے عسکری سامان اور اسلحے کو دماغ سے کنٹرول کرسکیں گے۔

دلچسپ با ت یہ ہے کہ نت نئے فوجی منصوبوں پر کام کرنے والی ڈیفنس ایڈوانسڈ ریسرچ پروجیکٹس ایجنسی نے ایسے افراد کی بھرتی بھی شروع کردی ہے۔جو نان سرجیکل نیوروٹیکنالوجی (این تھری) کے منصوبے میں دماغ سے مشینیں کنٹرول کرنے کے وسیع پیمانے پر سائنسی تجربات کے لیئے اپنی خدمات فراہم کریں گے۔ ڈیفنس ایڈوانسڈ ریسرچ پروجیکٹس ایجنسی نے گزشتہ برس انٹرنیٹ پر باقاعدہ ایک اشتہار شائع کیا تھا۔ جس میں دماغی انٹرفیس کے منصوبوں میں حصہ لینے کے خواہش مند افراد سے درخواستیں طلب کی گئی تھیں۔تاکہ دماغی سرگرمی سے جنگیں لڑنے کے عملی تجربات کرکے اس حوالے سے حتمی ایجادات کی جاسکیں۔ ڈیفنس ایڈوانسڈ ریسرچ پروجیکٹس ایجنسی کے منتظمین کا خیال ہے کہ بہت جلد جنگی طیارے،ڈرون، سائبر ڈیفنس اور دیگر جنگی آلات دماغ سے کنٹرول کیے جاسکیں گے۔ اس مقصد کے لیے مذکورہ ایجنسی میں ایک نیا شعبہ بایالوجیکل ٹیکنالوجیز کے نام سے قائم کردیا گیا ہے۔ اس شعبہ کے سربراہ ڈاکٹر ایل مونڈی کہتے ہیں کہ ”جنگ کو جسم سے کنٹرول کرنے کے مقابلے دماغی لہروں سے قابو کرنے کا تجربہ بہت وسیع، ہمہ گیر اور اَن گنت فوائد سے بھرپور ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اس طرح دماغ کا استعمال اگلی جنگوں میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔یوں جان لیں کہ دماغی لہروں پر مشتمل انٹرفیس کے ذریعے ایک زخمی سپاہی بھی صحتمند فوجی کی طرح جنگ لڑنے کا اہل بن سکتاہے“۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ ایکسپریس کے سنڈے میگزین میں 28 مارچ 2021 کے خصوصی شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں