khursheed-shah-tears

خورشید شاہ کے آنسو۔۔۔!

سکھر کی احتساب عدالت میں آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں دورانِ سماعت سابق اپوزیشن لیڈر اور پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما سید خورشید شاہ کے وفورِ جذبات سے آنسو نکل پڑے۔ ویسے تو ہم میں سے شاید ہی کوئی انسان ایسا ہو،جسے زندگی کے کسی مشکل مقام پر گریہ و زاری کرنے جیسے ”فطری جرم“سے بری ذمہ قرار دیا جا سکے کیونکہ جس طرح آسودگی مسکراہٹ کے بنا ادھوری ادھوری سی لگتی ہے بالکل اُسی طرح مشکلات کے خاکے میں بھی طرب کے اصل رنگ ہمارے آنسو ہی بھرتے ہیں۔ غریب لوگوں کی زندگی چونکہ ہوتی ہی مصائب و آلام میں گھری ہوئی ہے اس لیئے اُن کے سپاٹ چہرے اکثر آنسوؤں میں شرابور ہی نظر آتے ہیں دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ایک غریب شخص کو آنسو بہانے کی اتنی زیادہ عادت ہو چکی ہوتی ہے کہ اگر اِسے کبھی بھولے سے بھی کوئی خوشی میسر آجائے تو اُس کے چہرے پر مسکراہٹ آنے سے پہلے بھی اُس کی آنکھوں میں آنسوؤں کی جھڑی لگ جانا ایک معمول کی بات ہوا کرتی ہے۔ جسے ہمارا معاشرہ خوشی کے آنسو قرار دے کر غریب کو اپنی خوشی پر مزید آنسو بہانے کا بہانہ فراہم کردیتا ہے۔ بالکل اِسی مصداق ایک امیر و کبیر، صاحبِ ثروت اور صاحبِ منزلت شخص کی زندگی کا زیادہ تر حصہ چونکہ آسودگی و فارغ البالی کے دبستان میں بسر ہوتا ہے۔لہذا ایسے شخص کی جادوئی مسکراہٹ ہمیشہ کسی مؤدب دربان کی طرح اُس کے چہرے کے داخلی دروازے پر ہاتھ باندھ کر کھڑی رہتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اگر کبھی ایسے صاحبِ جلال و عظمت کے حامل شخص کی راہ کے بیچ میں مشکلات کا دریا بھی حائل ہوجائے تو اُس کا اظہار بھی یہ شخص ایک دلنواز مسکراہٹ کی صورت میں ہی کرتا ہے۔چونکہ ہم پاکستانیوں نے آج تک کسی طاقت ور اور صاحبِ جاہ حشم شخصیت کے چہرے آنسوؤں سے شرابور نہیں دیکھے اِس لیئے جیسے ہی احتساب عدالت میں سید خورشید شاہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے ویسے ہی یہ آنسو پاکستان کے میڈیا پر بریکنگ نیوزکا سیلاب بن کر بہنے لگے۔

خورشید شاہ کے احتساب عدالت میں رواں ہونے والے آنسو اُن پر لگے ہوئے کرپشن کے الزامات کو دھونے یا اُن کی ضمانت کروانے میں تو کسی صورت معاون ثابت نہیں ہوسکے لیکن بہرحال اِن آنسوؤں نے ہمارے سیاسی جمہوری نظام کے بدن پر برسوں سے چڑھے تمام کچے رنگوں کو کسی حرفِ غلط کی مانند ضرور دھوڈالا ہے۔ دورانِ سماعت سید خورشید شاہ نے جج سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ”آج میری آنکھوں میں آنسو کیوں ہیں؟کیوں کہ مجھ پر بے بنیاد الزامات لگائے گئے ہیں“۔احتساب عدالت کے معزز جج نے خورشید شاہ کے آنسوؤں سے بھرے جملہ کے جواب میں مسکراتے ہوئے بس اتنا کہنا پر ہی اکتفا کیا کہ ”شاہ صاحب آپ سے ایک غلطی یہ ہوئی کہ آپ نے اپنے دورِ حکومت میں نیب قانون ختم نہیں کیا“۔مجھ ناچیز کے خیال میں خورشید شاہ کے آنسوؤں کے مقابل اِس سے بہتر،حقیقت پسندانہ اور مدلل جواب بنتا بھی نہیں تھا۔ اُمید یہ ہی کی جاسکتی ہے کہ معزز جج صاحب کے جواب نے سید خورشید شاہ کی ڈھارس بندھاتے ہوئے اِن کے آنسوؤں کے رُکنے پر ضرور مجبور کردیا ہوگا۔جبکہ معزز جج صاحب کی یاددہانی سے سید خورشید شاہ کو اپنی یہ غلطی بھی یاد آئی ہوگی کہ نیب کے موجودہ چیئرمین جناب جسٹس ریٹائر جاویداقبال کی تعیناتی کے لیئے نام بھی اُنہوں نے ہی تجویز کیا تھا،جس کی منظوری اُس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے دی تھی۔مگر قانونِ قدرت ملاحظہ ہو کہ آج چیئرمین نیب کا نام تجویز کرنے والا اور اُسے منظور کرنے والا دونوں ہی نیب کے ملزم کی حیثیت سے حوالہ زنداں ہیں۔ کاش جتنی چابکدستی کا مظاہرہ خورشید شاہ اور شاہد خان عباسی نے چیئرمین نیب کی نامزدگی کے وقت دکھایا تھا اگر اُتنا ہی کوشش یہ دونوں زیرک سیاست دان اپنے دورِ حکومت میں نیب کے قوانین میں ترمیم کرنے میں صرف کرتے تو ہوسکتا تھا کہ آج اُنہیں احتساب عدالت کے کٹہرے میں کسی ملزم کی طرح پیش نہ ہونا پڑتا۔ کیونکہ احتساب عدالت کے جج نے نیب کا قانون کی روشنی میں اپنی عدالتی کارروئی چلانا ہوتی ہے نا کہ کسی آنسوؤں سے متاثر ہوکر اپنے فیصلے لکھنے ہوتے ہیں۔



اپنے قارئین کی دلچسپی کے لیئے بتاتے چلیں کہ خورشید شاہ کی تمام سیاسی زندگی نشیب و فراز سے بھرپور ہے۔اہم ترین امرِ واقعہ یہ ہے کہ ان کا تعلق سندھ کے روایتی سیاستدانوں کے گھرانوں سے نہیں ہے۔شاید اِسی لیئے ان کے ماضی کو ہمیشہ ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا اور انھیں قومی اسمبلی تک میں میٹر ریڈر ہونے کا طعنہ دیا جاتا رہا ہے۔ خورشید شاہ 1970 میں وہ اسلامیہ سائنس کالج میں سٹوڈنٹ یونین کے صدر بن کر عملی سیاست میں نمودار ہوئے اور بعدازاں بلدیاتی انتخابات میں کونسلر منتخب ہوگئے لیکن کچھ ہی عرصے بعد واپڈا میں میٹر ریڈر کی ملازمت اختیار کرلی۔مگر تھوڑے ہی عرصے بعد وہ میٹر ریڈر کی ملازمت سے مستعفی ہوگئے۔جب 1988 کے انتخابات میں پارٹی کارکنوں کو بھی ٹکٹ دینے کا فیصلہ ہوا تو اس میں خورشید شاہ کے نام بھی قرعہ نکل آیا اور یوں وہ سکھر سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوگئے۔ اس کے بعد سے وہ 2018 کے انتخابات تک سات مرتبہ مسلسل انتخابی کامیابیاں سمیٹ چکے ہیں۔اِن کی بنیادی شہرت ایک ملنسار سیاست دان کی ہے جس کی وجہ سے سندھ میں جہاں دیگر سیاست دان تنقید کی زد میں رہتے ہیں وہیں خورشید شاہ سندھ کی اپوزیشن جماعتوں کے لیئے ایک قابلِ قبول سیاسی شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔گزشتہ پچاس برسوں کے سیاسی دورمیں انھوں نے سیاسی میدان میں شہرت اور دولت دونوں ہی حاصل کیں لیکن یہ پہلی بارہوا کہ وہ کرپشن کے الزامات تحت گرفتار ہوئے ہوں۔

اِس لیئے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ سید خورشید شاہ کے احتساب عدالت میں آنسو کیوں نکلے ہوں گے؟یقینا جس شخص نے اپنی پوری سیاسی زندگی کو تنازعات سے بچاتے ہوئے گزارنے کی کوشش کی ہو، اُس کے لیئے کرپشن الزامات پر گرفتاری ایسی بات نہیں ہوسکتی کہ جس پر وہ چہرے پر مسکراہٹ سجائے، اپنا ہاتھ لہراتے اور وکٹری کا نشان بناتے ہوئے سینہ تان کر اپنے پیروکاروں کے درمیان میں سے گزرے۔ بلاشبہ خورشید شاہ کے آنسوؤں میں کرپشن زدہ سیاست دانوں کے لیئے بہت سے اسباق پوشیدہ ہیں،اگر کوئی سیکھنا چاہے تو۔
ہر ایک عہد نے لکھا ہے اپنا نامہئ شوق
کسی نے خون سے لکھا، کسی نے آنسو سے

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 17 اکتوبر 2019 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں