taliban-claims-to-control-most-of-afghanistan-after-rapid-gains

افسوس۔ ۔ ۔ امریکا کو افغانستان میں امن کی نہ سوجھی

انسانی تاریخ گواہ ہے کہ ہر جنگ انفرادی سطح پر لڑی جائے یا پھر قومی سطح پر، محدود پیمانے پر شروع کی جائے یا وسیع پیمانے پر بہرحال کبھی نہ کبھی ختم ضرور ہوجاتی ہے۔ لیکن کسی بھی جنگ کا ختم ہونا کبھی بھی جنگ کا”مکمل اختتامیہ“ نہیں ہوتا۔یوں سمجھ لیجیے کہ جنگ بندی ”وضع حمل“ کی مانند لمحہ بھر کا وہ مختصر سا وقفہ یا،دورانیہ ہوتاہے کہ جب جنگ کے بطن سے مستقبل میں ممکنہ طور پر بپا ہونے والی جنگوں کے بے شمار انڈے،بچے پیدا کروانے کے لیئے ساز گار ماحول مہیا کرنے کی تیاری کی جاتی ہے۔بعد ازاں جنگ بندی کے دوران جنم لینے والے یہ ہی ننھے،منے ”جنگی بچے“ بڑے ہوکر، اپنی والدہ محترمہ کے نقش قدم سے بھی دو قدم مزید آگے کی جانب بڑھاتے ہوئے کرہ ارض پر ایسی خون آشام جنگ کے نزول کا باعث بن جاتے ہیں کہ بنی نوع انساں گزشتہ جنگ کی ہولناکیوں کو فراموش کرکے نئی جنگ کے لق و دق صحر ا،میں اچانک سے گم ہوجانے والی اَمن کی سوئی ڈھونڈنے میں جُت جاتی ہے۔یعنی جس طرح صحرا میں گرجانے والی سوئی کبھی کسی کو نہ مل سکی ہے نہ مل سکے گی بالکل اسی مصداق جنگ کے سمندر میں غرقاب ہونے والا اَمن کا سکہ بھی آ ج تک تلاش نہیں کیا جاسکا۔

شاید اسی لیے بعض عسکری تجزیہ کار،سیاسی عمائدین،تھنک ٹینکوں کے دانشور حتی کے دنیا بھر میں بسنے والے عام افراد بھی افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء اور تاریخی عسکری پسپائی پرایک دوسرے سے بار باریہ ہی دریافت کر رہے ہیں کہ ”امریکا اور طالبان کے درمیان برسوں سے جاری جنگ کے اختتام کے بعد،اَب آئندہ کیا ہوگا؟“۔عسکری تجزیہ کار کچھ بھی کہتے رہیں مگر مجھ ناچیز کی رائے میں افغانستان میں امریکا کی عبرت ناک شکست اور طالبان کی فقیدالمثال فتح کے بعد ہمارے کرہ ارض پر ایک اور نئی جنگ کے لیئے میدان سجایا جائے گا اور اگلی جنگ گزشتہ 20 برسوں سے افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ سے زیاہ طویل، ہلاکت خیز، پیچیدہ حربی تدبیروں اور صبر آزما کشمکش سے عبارت ہوگی۔ مگر واضح رہے کہ یہ نئی جنگ، افغانستان کی سرزمین پر تو کسی بھی صورت نہیں لڑی جائے گی۔اس لیئے اُن تمام عسکری تجزیہ کاروں کو جو صبح و شام افغانستان میں خانہ جنگی کی گھسی پٹی پیش گوئیاں فرما رہے ہیں کو مخلصانہ مشورہ مفت میں یہ ہی دیا جاسکتاہے کہ وہ بھی امریکا کی طرح جلد ازجلد افغانستان سے اپنا ”ذہنی انخلاء“ مکمل فرما کر،اُس ممکنہ ”عسکری میدان“ کو تلاش کرنا شروع کردیں جہاں نئی عالمی جنگ کا عن قریب آغاز ہونے جارہاہے۔

ہماری دانست میں افغانستا ن سے عالمی جنگ کے بوریا بستر گول ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ گزشتہ 20 برسوں سے القائدہ اور طالبان کے خلاف امریکا کا سب سے بڑا، محفوظ اور عظیم الشان بگرام ائیربیس سے بھی امریکی افواج کا مکمل انخلاء عمل میں آچکا ہے۔ بظاہر را ت کی تاریکی میں امریکی افواج نے بگرام ائیر بیس افغان نیشنل سیکورٹی ڈیفنس فورس کے حوالے کردی ہے۔ لیکن گنتی کے اَب مزید کتنے دن یہ بگرام ائیر بیس افغان حکام کے زیر انتظام رہ پاتی ہے۔ اُسے شمار کرنے کے لیئے ہمارے ہاتھوں کی انگلیاں بھی کافی ہوں گی۔بگرام ائیر بیس سے امریکا سمیت دنیا کے 42 ممالک سے تعلق رکھنے والی افواج کی شرم ناک پسپائی اس بات کی واضح علامت ہے کہ آئندہ اس خطے میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ کیا کچھ ہونے والا ہے۔حالانکہ عالمی ذرائع ابلاغ کا دل بہلانے کو تو ابھی بھی بعض تجزیہ کار وں کا پورے شد و مد کے ساتھ اصرار ہے کہ”افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلاء کو امریکا کی مکمل شکست ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتاہے۔ کیونکہ امریکا اس خطے میں افغانستان کے قریبی ممالک میں اپنے فضائی اڈے قائم کرکے طالبان کو مستقبل میں بھی سخت دباؤ میں رکھنے کی کوشش کرتا رہے گا“۔

اس طرح کے بودے اور مزاحیہ دلائل و براہین سن او ر پڑھ کر بس یہ ہی کہا جاسکتاہے کہ بیچارے ”ڈالر کی محبت“ میں اُس آخری حد سے بھی گزر گئے ہیں جہاں سے ”لیلی کی محبت“ میں بے چارہ مجنوں بھی نہ گزر سکا تھا۔بہرحال اگر ایک لمحہ کے لیئے ان نام نہاد تجریہ کاروں کا موقف من و عن درست بھی تسلیم کرلیا جائے تو مستقبل میں زیادہ سے زیادہ امریکا کی عسکری قابلیت سمٹ،سمٹا کر بس یہاں تک باقی رہنے کی اُمید رکھی جاسکتی ہے کہ وہ بحرہند میں کھڑے ہوئے اپنے کسی بحری جنگی بیڑے یا پھر تاجکستان یا ازبکستان کے کسی چھوٹے سے مانگے،تانگے کے فضائی اڈے سے دو چار ڈرون اور ایک دو راکٹ سے افغانستان میں طالبان کو نشانہ بنانے کی ناکام سی کوشش کرسکے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ طالبان کے خلاف اس قسم کی چھوئی،موئی قسم کی عسکری کارروائیاں تو وہ بگرام ائیر بیس کو اپنے زیرانتظام رکھ کر ہزار گنا زیادہ بہتر اندا ز میں انجام دے سکتاتھا۔ لیکن بگرام ائیر بیس سے ہونے والے امریکی افواج کے انخلاء نے اس با ت پر پوری طرح سے مہر تصدیق ثبت کردی ہے کہ ایک مدت تک عالمی طاقت کہلائے جانے والے امریکا بہادر کا دانہ پانی پردیس سے مکمل طور پر اُٹھ چکا ہے۔

ہمیں صرف گمان نہیں بلکہ کامل یقین ہے کہ افغانستان کے کسی پڑوسی ملک میں امریکا کو افغانستان میں اپنی عسکری کارروائیاں جاری رکھنے کے لئے فضائی اڈے سرے سے دستیاب ہی نہ ہوسکیں گے کیونکہ امریکی صدر جو بائیڈن کے روسی ہم منصب صدر ولادی میر پیوٹن نے اپنے تمام پڑوسی ممالک کو واشگاف الفاط میں خبردار کردیا ہے کہ ”پورے وسط ایشیا میں صرف امریکا ہی نہیں بلکہ نیٹو افواج کی موجودگی بھی کسی صورت قبول نہیں کی جائے اور اگر کسی ملک نے امریکی افواج کو فضائی اڈے دینے کا فیصلہ کیا تو اُسے ”مگر“ کے ساتھ روک دیا جائے گا“۔واضح رہے کہ اس ”مگر“ کا دوسرا حصہ چینی صدر شی جی پنگ کے اُس بیان میں مضمر ہے۔جو انہوں نے چینی کمیونسٹ پارٹی کے صدسالہ جشن کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دیا ہے کہ ”چین اپنی طرف بُری نظر دیکھنے والوں کا سر دیوار چین سے مار کر پھوڑ دے گا“۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ عالمی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والے ان دو عدد تنبیہی خبروں کے بعد افغانستان کے تمام پڑوسی ممالک بری طرح سے سہم گئے ہیں اور آخری اطلاعات یہ ہی ہیں کہ پیوٹن کی زبان سے ”مگر“ اور شی جی پنگ کے منہ سے ”اگر“کا سن کر امریکا میں موجود ازبکستان اور تاجکستان کے وزائے خارجہ نے بھی امریکی حکام کی جانب سے فضائی اڈے مانگنے کی درخواست پر سوچنے کے لیے تھوڑا سا مزید وقت مانگ لیا ہے۔یعنی اتنا وقت کہ وہ ایک بار،بحفاظت اپنے اپنے ملک پہنچ جائیں تاکہ وہاں سے باضابطہ طور پر امریکا کوستھرے”سفارتی انداز“ میں کورا، اور ”صاف جواب“ دیتے ہوئے کہہ دیا جائے کہ ”فی الحال،پاکستان کی طرح ہم بھی امریکا کو فضائی اڈے فراہم نہیں کرسکتے“۔عالمی سیاسی منظرنامہ میں اچانک رونما ہونے والے اس دھول دھپے میں ہمیں تو یہ بھی ڈر ہے کہ امریکا کو اس میں خطے میں نئے فضائی اڈے ملنا تو بہت دور کی بات ہے کہیں ایسا نہ ہوکہ بحری ہند میں ایک مدت سے کھڑے ہوئے اُس کے عسکری بحری بیڑوں کو بھی واپس امریکی سمندری حدود کی جانب سمٹ جانے پر مجبور نہ کردیا جائے۔

دراصل جنگ میں شکست اکیلی فو ج کو ہی نہیں ہوتی ہے بلکہ مفتوح ملک کا نظریہ بھی ہار جاتاہے۔حتی کہ ہارنے والے ملک کی”عسکری ساکھ“بھی اپنے حریف اور حلیف ممالک کی نظروں میں دوکوڑی کی ہوکر رہ جاتی ہے اور یہ ہی کچھ تو آج کل امریکا کے ساتھ ہورہا ہے۔ یاد رہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء طالبان کی محبت میں نہیں ہورہاہے۔بلکہ نیٹو افواج کے انخلاء کے پیچھے اُن کاری زخموں کی بہیمانہ کارفرمائی شامل ہے۔ جو گزشتہ 20 برسوں میں امریکا نے طالبان کے ہاتھوں اُٹھائے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق امریکا کی اس ”جنگ بے لذت“ میں 47 ہزار افغان شہری اور 70 ہزار کے قریب افغان سپاہی ہلاک ہوئے جبکہ دو ہزار 442 امریکی سپاہی اور 3800 سے زائد امریکی نجی سکیورٹی ٹھیکیدار بھی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔

نیز اگر دیگر اتحادی ممالک کے ہلاک شدگان کے اعدادو شمار ملاحظہ کیے جائیں تو منکشف ہوتا ہے کہ اُن کے بھی 1144 فوجی بھی امریکی جنگ کے ایندھن میں جل کر خاکستر ہوگئے تھے۔ علاوہ ازیں براؤن یونیورسٹی میں کوسٹ آف وار پراجیکٹ نے افغانستان کی جنگ پر امریکی اخراجات کا تخمینہ 20 کھرب 260 ارب ڈالر کے قریب لگایا ہے۔یعنی جتنے پیسے امریکا نے افغانستان میں طالبان کو جنگ لڑنے کا سبق سکھانے پر خرچ کردیے ہیں اگر وہ یہ ہی رقم افغانستان کی عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی پر ”براستہ امن“ خرچ کرتا تو یقینا آج افغانستان پورے دل سے امریکا کی”طفیلی ریاست“ بن چکا ہوتا اور ہر ایک افغانی امریکیوں کی محبت میں اُن کا بے دام غلام بن کر ”سب سے عظیم امریکا“ کی مالا جپ رہا ہوتا۔بقول شخصے۔
یوں قتل سے معصوموں کے دنیا بھر میں بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ امریکا کو افغانستان میں امن کی نہ سوجھی

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 05 جولائی 2021 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں