land-mafia

قبضہ مافیا اعلیٰ عدلیہ کے شکنجہ میں

سندھ اس حوالے سے انتہائی بدقسمت واقع ہوا ہے کہ اس صوبہ کی کسی بھی سیاسی جماعت نے کبھی بھی یہاں کے باسیوں کو ایک پل کے لیئے بھی سکھ کا سانس لینے نہیں دیا۔یہ ہی وجہ ہے کہ اس وقت سندھ کے حالات قبائلی علاقوں سے بھی بدتر نہج پر پہنچ چکے ہیں۔سندھ میں سیاست قبضہ مافیا کا دوسرا نام بن چکی ہے۔سندھ میں زمینوں کے قبضوں کے ایسے ایسے طریقے متعارف ہوچکے ہیں۔جن کی تفصیلات کے بارے میں سن کر ایک عام شخص کی روح بھی کانپ جاتی ہے۔چائنہ کٹنگ،رشین کٹنگ اور امریکن کٹنگ وہ خوبصورت نام ہیں جو صوبہ بھر میں مختلف قسم کے قبضوں کے لیئے رائج ہیں۔زمینوں پر قبضوں کی اس جنگ میں کتنے معصوم اور بے گناہ لوگ قبضہ مافیا کے ہاتھوں اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں اُس کا درست اندازہ لگانا ممکن نہیں۔

یہ مضمون بھی پڑھیئے: خوب و دہشت کی علامت، پاکستانی سسلین مافیا

معاملہ کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب میڈیا کے دن رات چائنہ کٹنگ کا راگ الاپنے کے بعد بھی کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی تو آخر کار عدلیہ کو ہی سندھ کے باسیوں کو قبضہ مافیا کے عفریت کے چنگل سے بچانے کے لیئے حرکت میں آنا پڑا۔جب سپریم کورٹ نے چائنہ کٹنگ اورزمین پر ناجائز قبضوں سے متعلق کیس کی سماعت کی تو پورے سندھ کو ایک طرف رکھیں صرف شہر قائد کراچی میں 35 ہزار رفاعی پلاٹوں کی چائنہ کٹنگ کا انکشاف ہوا۔ سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جج جسٹس گلزار احمد نے کے ڈی اے افسران کو کراچی کی حالت زار پر سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کو چائنہ کٹنگ اور قبضوں نے برباد کرکے رکھ دیاہے اور کوئی جگہ عوام کی تفریح کے لیئے نہیں چھوڑی گئی۔ آخری بار ایوب خان کے زمانے میں تجاوزات کے خلاف کارروائی ہوئی تھی تو کراچی صاف ہوگیا تھا اور یورپ کا شہر لگتا تھا، لوگ لندن جانے کے بجا ئے کر اچی گھومنے پھرنے کو ترجیح دیتے تھے۔

تاہم اب اگر اس بدنصیب شہر میں کسی بھی طرف نظر دوڑائی جائے تو شہر غلاظت اور گندگی کا بدبودار منظر پیش کرتاہے۔ کیا آپ نے کبھی اپنے دفتروں میں بیٹھ کر کچھ سوچا ہے کہ کراچی کا کیا بنے گا۔ معزز جج نے اپنے ریمارکس میں سیکریٹری لینڈ پر بطور خاص سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تم جیسے لوگ کراچی کے دشمن ہیں تمہیں شرم نہیں آتی، جو حالات چل رہے ہیں،اس میں عام آدمی کے لیئے سانس لینا مشکل ہوگیا ہے، کراچی کی زمین کو کیا آپ سب نے اپنی ذاتی میراث سمجھا ہوا ہے جب چاہا جسے چاہتے ہو پلاٹ الاٹ کردیتے ہو اور افسوس یہ ہے کہ کراچی کا سبزہ بھی ختم کرکے رکھ دیاہے، اب گلی محلوں میں بچے بھی کرکٹ کھیلتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ کچھ تو خیال کریں اپنے دفاتر سے باہر بھی نکلا کریں۔ گلشن اقبال میں آپ لوگوں نے کیبنزلگوادیے ہیں، ڈسکو بیکری کے باہردیکھیں کیا حال ہے، وہاں دلپسند مٹھائی والا بیٹھا ہے کیا یہ کوئی غریب آدمی؟۔ کیا اب ہم یہ بھی بتائیں کہ آپ کی کیا ذمہ داری ہے۔ جسٹس گلزار نے کراچی کے اوریجنل ماسٹر پلان کی روشنی میں رفاہی پلاٹوں کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے بلدیاتی اداروں کو کراچی میں چائنہ کٹنگ کے 35 ہزار پلاٹوں کو واگزار کرنے اور تمام رفاہی پلاٹوں کی الاٹمنٹ فوری منسوخ کرنے اور چائنہ کٹنگ کے پلاٹس ہر صورت خالی کرانے کے احکامات جاری کردیئے۔

بظاہر عدالت عظمیٰ کے احکامات پر ادارہ ترقیات کراچی کی جانب سے شہر میں 50ارب رو پے کی زمین واگزار کرانے کے لیے بڑے پیمانے پر کارروائی شروع کردی گئی ہے اوراب تک 73شادی ہالوں کو مسمار بھی کیاگیا ہے لیکن رفاہی پلاٹوں پر قائم بااثر افراد کے شادی ہالوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جارہی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نیپا چو رنگی پر قائم شادی ہال جہاں اب نجی تعلیمی سرگرمیاں جا ری ہیں، یہ بھی ایک ر فاہی پلاٹ پر قائم ہے لیکن کے ڈی اے حکام کی ملی بھگت سے اس کی تجارتی سرگرمیوں کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ گلشن چورنگی پر قائم شادی ہال اور ایک نجی اسکول بھی کئی سال سے مال کمانے میں لگا ہوا ہے اور یہ بھی رفاہی پلاٹ پر تعمیر ہے لیکن اب تک اس کے خلاف بھی کاررو ائی نہیں کی گئی۔ان واقعات سے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کے ڈی اے حکام رفاہی پلاٹوں کی سرکاری زمین واگزار کرانے میں پسند اور ناپسند اور سیاسی اثررسوخ کا بطورِ خاص خیال رکھ رہے ہیں۔ قبضہ کی گئیں وہ تمام جگہیں جو بااثر افر اد کے زیر استعمال ہیں، اُن تمام غیر قانونی تعمیرات کو کے ڈی اے حکام کی جانب سے ٹیکنیکل طریقے سے بچانے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔جس سے عوام لناس میں یہ تاثر تقویت پا رہا ہے کہ یہ تمام کاروائیاں صرف نمائشی تو نہیں ہیں؟جنہیں وقتی طور پر عدلیہ کے دباؤ میں آکر انجام دیا جارہا ہے اورجیسے ہی عدلیہ کی توجہ دوسرے اُمور کی طرف مرکوز ہو گی قبضہ مافیا کو دوبارہ سے فری ہینڈ دے دیا جائے گا۔

اس لیئے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ اعلیٰ عدلیہ چائنا کٹنگ کے خلاف ہونے والی ایک ایک کارروائی کا بذاتِ خود باریک بینی سے معائنہ کرے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کے ڈی اے کے حکام قبضہ مافیا اور بااثر سیاسی افراد اپنی آپس کی ملی بھگت سے قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔سندھ کی عام عوام کی جانب سے اعلیٰ عدلیہ کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں سے بھی اُمید لگائی جا رہی ہے کہ قبضہ مافیا کے خلاف ہونے والی کاروائیوں کا دائرہ کار اب صرف کراچی تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اسے جلد از جلد پورے سندھ میں پھیلایا جائے گا کیونکہ قبضہ مافیا نے کراچی شہر سے کہیں زیادہ برا حال تو باقی سندھ کا کیا ہوا ہے۔

اندرون ِسندھ میں تو یہ حال ہے کہ پوری کی پوری ہاؤسنگ اسکیمیں ہی قبضہ کی زمینوں پر بنائی جارہی ہیں۔قبضہ مافیا کو سندھ کے شہروں میں کہیں بھی پرکشش تجارتی جگہیں نظر آتی ہیں وہ اُس پر قبضہ کر کے اپنی مرضی کی تعمیرات کرنا شروع کر دیتے ہیں۔اندرونِ سندھ میں قبضہ مافیا کی دہشت اور غنڈہ گردی کا اندازہ تو صرف اس ایک بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں دنیا کے سب سے بڑے فلاحی ادارے ایدھی فاؤنڈیشن کے تحت چلنے والے ”ایدھی سینٹرز“ کو بھی نہیں بخشا ہے۔سندھ کے شہروں میں قائم بیشتر ایدھی سینٹرز سے ایدھی کے رضاکاروں کو بزورِ طاقت بے دخل کر کے اُن پر قبضہ کیا جاچکا ہے۔یہ تمام تر صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ قبضہ مافیا کے خلاف شروع ہونے والی اس کارروائی کا دائرہ کار جلد ازجلد پورے سندھ تک پھیلایا جائے تاکہ کئی دہائیوں سے ظلم کی چکی میں پسنے والے سندھ کے عوام بھی سکھ کا سانس لے سکیں۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 14 دسمبر 2017 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں