sugar-crisis-in-sindh

سندھ میں چینی کا بحران

سندھ میں ابھی ایک بحران پوری طرح ختم ہوتا نہیں ہے کہ دوسرا سر اُٹھانا شروع کر دیتا ہے۔یہ بحران در بحران کی کیفیت سندھ میں کب تک جاری گی اس کا کسی کے پاس بھی تسلی بخش جواب نہیں ہے۔اس وقت سندھ میں چینی کا بحران پوری طرح سر اُٹھا چکا ہے اُفسوس تو اس بات کا ہے چینی کا بحران سندھ میں ہر سال تسلسل کے ساتھ نمودار ہوتا ہے جیسے چینی کا بحران بھی سالانہ کلینڈر کا کوئی مہینہ ہے کہ اگر نہ آیا تو سندھ کا سال مکمل نہیں ہوگا۔ویسے بھی سندھ میں شوگر ملز مالکان سندھ حکومت کے احکامات کو تماشہ بنانے کے پرانے عادی مجرم ہیں۔چاہے شوگر ملز کو مقررہ تاریخ پر چلانے کا معاملہ ہویا گنے کے سرکاری نرخ مقرر کرنے کا مسئلہ۔سندھ حکومت شوگر کین ایکٹ نافذ العمل ہونے کے باوجود بھی اپنے احکامات عمل کرانے میں کیوں ناکام رہتی اس کی آج تک کسی کو سمجھ نہیں آئی۔شوگر ملز مالکان کسانوں سے بھی سندھ حکومت کے مقرر کردہ نرخ پر گنا خریدنے کے بجائے اپنے مقررہ کردہ نرخ پر ہی گنا خریدتے ہیں،جبکہ کسانوں سے من مانی قیمتوں پر گنا خریدنے کے باوجود بھی اُن کو ادائیگی کبھی بھی وقت ِ مقررہ پر نہیں کرتے۔دونوں ہاتھوں سے منافع سمیٹنے کے باوجودبھی جب دل کر تا ہے شوگر ملز مالکان چینی کی قیمتوں میں من مانا اضافہ کر دیتے ہیں۔جیسے کہ اس بار اچانک 7 روپے سے لے کر 10 روپے تک فی کلو چینی کی قیمت میں اضافہ کردیا گیاہے اور صرف اسی پر بس نہیں کیا ہے بلکہ سندھ بھر میں چینی کی ترسیل روک کرمصنوعی قلت کا بحران بھی پیدا کیا جارہاہے۔ جس کی خبر گیری کرنے والا سندھ میں کوئی ادارہ یا محکمہ نہیں۔عام طور پر مہنگائی کی موثر روک تھام کے لیئے حکومتوں کی طرف سے بنایا گیا ایک مربوط اور نتیجہ خیز نظام ہوتا ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ سندھ حکومت ہمیشہ سے ملز مالکان، ہول سیلروں اور ذخیرہ اندوزوں کے سامنے بے بسی کی تصویر بنی رہی ہے۔ایک کلو چینی کی قیمت میں اچانک 7 روپے سے لے کر 10 روپے تک کا اضافہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ جسے عوام کی طرف سے نظر انداز کر دیا جائے۔اس کے علاوہ ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اگر یہ بحران یوں ہی جاری رہا تو چینی کی قیمت میں 5روپے سے 7 روپے تک کا مزید اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔



کراچی میں قائم پاکستان کی سب سے بڑی ہول سیل مارکیٹ کے تاجروں کا کہنا ہے کہ شوگر ملز مالکان کی طرف سے چینی کی فراہمی بالکل بند ہے اگر شوگرملز کے طرف سے ایک دو روز تک چینی کی فراہمی شروع نہیں کی گئی تو چینی کا کراچی اور پھر سندھ سے شروع ہونے والا یہ بحران آئندہ چند ہفتوں میں پورے ملک کو بھی بری طرح اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔جبکہ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے اپنی جاری کردہ ایک پریس ریلز میں یہ گھساپٹاسالوں سے آزمودہ موقف اپنایا ہے کہ”ملک میں چینی کی کھپت 51 لاکھ ٹن ہے لیکن ملک میں چینی کے ذخائر 70 لاکھ ٹن کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئے ہیں،حکومت کی جانب سے سوا چار لاکھ ٹن چینی کی برآمد کے باوجود 14 لاکھ 75 ہزار ٹن چینی ملکی ضرورت سے زائد ہے۔دوسر ی جانب عالمی مارکیٹ میں چینی کی گرتی ہوئی قیمتوں کے باعث برآمد کنندگان کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ناقص حکومتی پالیسی کے نتیجے میں پاکستان گندم کے بعد اب چینی کے بھی اضافی بحران کی دلدل میں پھنس گیا ہے۔کچھ عرصہ قبل عالمی منڈی میں چینی کی قیمت 500 ڈالر فی ٹن تھیں اگر اس وقت حکومت کی طرف سے چینی برآمد کرنے کی اجازت دے دی جاتی تو آج اضافی چینی کے بحران کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔اس وقت عالمی منڈی میں چینی کی قیمت 440 ڈالر فی ٹن سے بھی کم سطح پر آگئی ہیں۔جس کے لیئے ہمیں حکومت کی طرف سے سبسڈی فراہم کی جائے،اُس کے بعد ہی ہم چینی کی بلاتعطل فراہمی کا آغاز کریں گے“۔
جبکہ ایوان زراعت سندھ کے ذمہ داروں کی طرف سے پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے ذمہ داران پر الزام عائد کیا جارہا ہے کہ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کی طرف سے پیش کی گئی تمام وجوہات اور اعدادو شمار گمراہ کن ہیں۔جن کا مقصد حکومت سے غیر ضروری سبسڈی حاصل کرنا ہے کیونکہ کئی سالوں سے اُن کے منہ کو سبسڈی کا خون لگا ہواہے،اس لیئے انہوں نے جان بوجھ کر یہ چینی کا بحران پیدا کیا ہے۔پچھلے سال 182 روپے من گنا، ان تمام شوگر ملز مالکان نے کسانوں سے اُٹھایا تھا اگر تمام اخراجات بھی شامل کرلیئے جائیں تو ہول سیل مارکیٹ میں چینی کی قیمت 44 روپے فی کلو سے زیادہ نہیں بنتی اگر اس قیمت پر یہ چینی فروخت کریں تب بھی انہیں ٹھیک ٹھاک منافع حاصل ہوگا مگر چونکہ انہیں ناجائز منافع کی ہوس ہے اس لیئے حکومت سے فی کلو چینی پر 15 روپے تک سبسڈی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔اس وقت ملک میں 20 لاکھ ٹن سے زائد چینی موجود ہے، جس پر شوگر ملز مالکان کی خواہش ہے کہ وہ حکومت کو بلیک میل کر کے ہول سیل مارکیٹ اور عام دُکانداروں سے بھی تین سے چار گنا زیادہ منافع کمائیں۔ جس کی وجہ سے انہوں چینی کا مصنوعی بحران پیدا کیا ہے۔

وفاقی حکومت اور سندھ حکومت سے بیک وقت یہ اُمید ہی کی جاسکتی ہے کہ وہ عوام کے وسیع تر مفاد میں جلد از جلد چینی کے اس بڑھتے ہوئے بحران کو سنجیدگی سے حل کرنے کے لیئے کچھ عملی اقدامات اُٹھائیں گے،ورنہ دوسری صورت میں چینی کا یہ بحران پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔

حوالہ : یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور میں 08 اگست 2017 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

سندھ میں چینی کا بحران” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں