Fazal Ur Rehman

پھر کسی اور وقت مولانا

مشہور و معروف شاعر جناب جوش ملیح آبادی ایک بار جون کے مہینے میں سخت گرمی کے موسم میں مولانا ابوالکلام آزاد سے ملاقات کی غرض سے ان کی گھر پر جا پہنچے۔ اتفاق کی بات ہے کہ وہاں ملاقاتیوں کا ایک جم غفیر، مولانا سے ملنے کے لیئے پہلے سے ہی موجود تھا۔ کافی دیر تک انتظار کے بعد بھی جب ملاقات کے لئے جوش صاحب کی باری نہ آئی تو انہوں نے آخر تنگ آکر ایک چٹ پر یہ شعر لکھ کر چپڑ اسی کے ہاتھ مولانا کی خدمت میں بھیجوادیا۔

نامناسب ہے خون کھولانا
پھر کسی اور وقت مولانا

مولاناابوالکلام آزاد نے جیسے ہی یہ شعر پڑھا تو زیر لب مسکرائے اور فی الفور جوش صاحب کو ملاقات کے لیئے اندر طلب کرلیا۔ واقفانِ حال بتاتے ہیں بالکل ایسی ہی ایک چٹ وزیراعظم پاکستان عمران خان کی طرف سے مولانا فضل الرحمن کو بھی پہنچا دی گئی ہے۔ اُس مختصر لیکن پر اثر چٹ کی برکت سے مولانا کے آزادی مارچ پر بھی بند ہونے والے سارے راستے ایک ایک کر کے وا ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ جبکہ آزادی مارچ جس نے کراچی سے چیونٹی کی رفتار سے اپنے سفر کا آغاز کرنا تھا، اَب اُس آزادی مارچ کو آہستہ آہستہ پر بھی لگنا شروع ہوگئے ہیں اورمارچ نے کسی دیوانے گھوڑے کی طرح سرپٹ اسلام آباد کی جانب دوڑ لگادی ہے۔ اِس وقت آزادی مارچ کی رفتار اتنی زیادہ تیز ہے کہ مارچ کا ساتھ مولانا فضل الرحمن بھی نہیں دے پارہے اور وہ آزادی مارچ کے راستہ سے الگ ہوکر متبادل راستے سے اپنے آزادی مارچ کا پیچھا کرنے کی کامیاب کوشش کررہے ہیں۔اگر آزادی مارچ اِسی تیز رفتاری سے اپنی منزل مقصود کی جانب گامزن رہا تو پھر جب آپ ان سطور کا مطالعہ کررہے ہوں گے تو ہوسکتا ہے کہ اُس وقت تک آزادی مارچ اسلام آباد کو بھی کراس کر کے غریب پاکستانیوں کی دسترس سے بہت دُور کہیں اُفق میں گم ہوچکا ہوگا۔



سچ تو یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن، آزادی مارچ کے آغاز میں بطور مہمان اداکار کے ہی شریک ہوتے ہوئے نظر آئے اور سندھ میں کنٹینر پر آزادی مارچ کی پیشوائی کرنے کی تمام تر ذمہ داری جمعیت علمائے اسلام سندھ کے صدر راشد محمود سومرو کے ناتواں کندھوں پر دھری رہی۔بس وقتافوقتا دو ایک بار مولانا فضل الرحمن کنٹینر پر مختصر سے خطاب کے لیئے نمودار ضرور ہوئے تھے تاکہ آزادی مارچ کے شرکاء یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ مولانا نے انہیں تنہا چھوڑ دیا ہے۔ جب بعض ٹی وی چینلز پر مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ سے الگ ہوکر سفر کرنے کی بریکنگ نیوز چلائی گئی تو یہ خبر آزادی مارچ کے شرکا ء خاص طور پر راشد محمود سومرو کو ایک آنکھ نہ بھائی اور انہوں نے دورانِ مارچ ہی شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے خبر چلانے والوں کو دھمکی لگائی کہ اگر انہوں نے اپنا قبلہ درست نہ کیا تو یہ مقدس کام آزادی مارچ کے شرکاء ڈنڈے کے زور پر کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔اِس دھمکی کا اچھا اور بروقت اثر ہوا،یوں اَب ہر ٹی وی چینل نے اپنی براہِ راست نشریات کا رُخ آزادی مارچ کی طرف کر کے اپنا قبلہ مکمل طور پر درست کرلیا ہے۔ یقینا یہ پہلی کامیابی ہے جو آزادی مارچ کے شرکاء نے ابتداء میں ہی بہت آسانی سے حاصل کرلی ہے۔

بہرحال یہ چھوٹی سی کامیابی آزادی مارچ کے شرکاء کو اسلام آباد میں دھرنا دینے سے باز رکھنے کے لیئے بالکل ہی ناکافی ہے۔بقول مولانا فضل الرحمن اسلام آباد کا دھرنا صرف ایک مطالبہ کے پورا ہونے کے بعد ہی ٹل سکتا ہے اور وہ مطالبہ ہے وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کا استعفا۔ یہ وہی استعفا ہے جس کی بابت پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی زبانِ حال سے ارشاد فرما یا ہے کہ ”بہت جلد عمران خان استعفا دینے والے ہیں“۔اگر بلاول بھٹو زرداری صاحب کی معلومات کو بالکل درست تسلیم کرلیا جائے تو اِس کا سادہ سا مطلب یہ ہی لیا جائے گا کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے آزادی مارچ کراچی سے شروع ہوتے ہی استعفا لکھ کر اپنی واسکٹ کی اُوپر والی جیب میں رکھ لیا تھا۔ اب بس انتظار ہے تو آزادی مارچ کے اسلام آباد پہنچنے کا۔ جوں ہی مولانا فضل الرحمن آزادی مارچ کے 15 لاکھوں شرکاء کو لے کر اسلام آباد کے داخلی راستے پر پہنچے گے عین اُسی وزیراعظم پاکستان عمران خان اپنا استعفا جیب سے نکال کر مولانا کی خدمت میں پیش کردیں گے اور مولانا فضل الرحمن ایک نعرہ فاتحانہ لگا کر اعلان عام کریں گے کہ ”چونکہ آزادی مارچ کا مقصد ِ وحید پورا ہوچکا ہے اور 1973 کے آئین کے تناظر میں وزیراعظم پاکستان عمران خان اپنا استعفا بھی اُن کی خدمت میں پیش کرچکے ہیں۔لہذا اَب سب لوگ ہنسی خوشی، آزادی مارچ کی کامیابی کا جشن مناتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کی جانب واپس روانہ ہو سکتے ہیں لیکن جاتے ہوئے تمام شرکاء دھرنے کے نام پر جمع کیئے ہوئے چندہ میں سے اپنا واپسی کا کرایہ آزادی مارچ کے منتظمین سے وصول کرنا ہر گز نہ بھولیں، اِس یاد دہانی کے ساتھ کہ اگر اگلے الیکشن میں بھی عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کامیاب ہوجاتی ہے تو پھر ہر کارکن کو وصول کی گئی یہ رقم مع کچھ اضافی چندہ کے جماعت کو واپس کرنا ہوگی تاکہ عمران خان سے ایک بار پھر سے استعفا لینے کے لیئے آزادی مارچ اور دھرنے کے لیئے زادِ راہ کا انتظام کیا جاسکے“۔

اگر مولانا فضل الرحمن کے انسٹنٹ قسم کے آزادی مارچ یا دھرنے کے نتیجے میں وزیراعظم پاکستان کاانسٹنٹ قسم کے استعفا حاصل ہوجاتاہے تو یقینا اِس عظیم الشان”جمہوری واقعہ“کے بعد کون کافر ہے جو آئندہ اسلام آباد میں سیاسی دھرنوں کی مخالفت کرے گا لیکن اگر خدانخواستہ مولانا فضل الرحمن اِس بار بھی اپوزیشن کی ”سیاسی استقامت“ کی وجہ سے وزیراعظم پاکستان عمران خان سے شکستِ فاش کھا گئے تو پھر آخر مولانا کی ”عزتِ سادات“ کا کیا ہوگا؟۔کیا اتنی بڑی ناکامی کے بعد بھی”پھر کسی اور وقت مولانا“ اسلام آباد میں دھرنا کرنے کی اپنی پرانی ضد پر قائم رہ پائیں گے؟۔ اِن سوالات کے جوابات بس چند دنوں میں ہی سب کو ملنے والے ہیں۔ حالانکہ بقول مظہر امام
جواب کا تو پتا تھا ہمیں مگر پھر بھی
لب سوال ملا تھا، سوال کرنا تھا

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 31 اکتوبر 2019 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں