sindh-to-administer-covid-19-shots-to-students-of-grades-9-to-12-at-all-schools-colleges

ہٹو بچو ۔ ۔ ۔ ! ویکسی نیشن

آج سے ٹھیک تین برس قبل3 مارچ 2018 کوصوبہ سندھ میں خسرہ سے بچاؤ کے لیئے بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کی سرکاری مہم جاری تھی اور محکمہ سندھ کی جانب سے نامزد کردہ طبی عملہ صوبہ بھر میں گھر گھر جاکر بچوں کو خسرہ جیسی موذی مرض سے بچاؤ کے حفاظتی ٹیکے لگارہا تھا کہ اچانک الیکٹرانک میڈیا پر یہ خبر نشر ہوئی کہ سندھ کے اہم ترین شہر نواب شاہ میں حفاظتی ٹیکوں کے مبینہ ری ایکشن کے نتیجہ میں چار معصوم بچے، 5 سالہ حسنین، 4 سالہ قمر، 2 سالہ زبیر،اور 3 سالہ بچی ہانیہ جاں بحق ہوگئے ہیں۔چونکہ نواب شاہ شہر پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین جناب آصف علی زرداری کا آبائی حلقہ بھی ہے۔ اس لیئے قومی میڈیا نے اس خبر کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور اس خبر نے دیکھتے ہی دیکھتے ملکی میڈیا کے اُفق پر ایک طوفان برپا کردیا۔

یہاں تک کہ اُس وقت کی سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے اس واقعہ پر فوری طور سوموٹو ایکشن لے کر کیس کی باقاعدہ سماعت شروع کردی۔گو کہ اعلیٰ عدلیہ کے نوٹس لیئے جانے کے بعد اس سانحہ میں ملوث کئی لوگوں کو گرفتار کر کے،اُنہیں اُن کے عہدوں سے معطل کردیا گیا۔ لیکن اس واقعہ کی وجہ سے پاکستان پیپلزپارٹی بالخصوص آصف علی زرداری کی ہمشیرہ، عذرا افضل پیچوہو،جو کہ اُس وقت وزیر صحت سندھ بھی تھی، کو سخت عوامی غیض و غضب اور سیاسی دباؤکا سامنا کرنا پڑا تھااور دیکھتے ہی دیکھتے نواب شاہ شہر میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت اور محکمہ صحت سندھ کے خلاف زبردست غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔ معاملہ کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ جب پیپلزپارٹی کی مقامی قیادت یہ مسئلہ حل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی تو پھر آصف علی زرداری نے نواب شاہ کا ہنگامی دورہ کیا اور ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے اپنی نگرانی میں تمام معاملات کو منطقی انجام تک پہنچایا۔ یعنی آصف علی زرداری نے ہر وہ ممکن اقدام اُٹھایا جومتاثرہ بچوں کے لواحقین کو مطمئن کرنے کے لیئے ضروری تھا۔ یوں آصف علی زرداری کی بروقت مداخلت نے نواب شاہ میں پیپلزپارٹی کو بہت بڑے سیاسی خسارہ سے بچالیا۔

واضح رہے کہ حفاظتی انجکشن لگانے کی یہ مہم پاکستان بھر میں جاری انسداد خسرہ کی ملک گیر مہم کا ایک تسلسل تھی۔جبکہ خسرہ سے بچاؤ کے حفاظتی ٹیکوں کی افادیت کی بارے میں من حیث القوم کسی کو ذرہ برابر بھی شک نہیں ہوسکتاتھا۔ مگر پھر بھی طبی عملے کی ذرا سی غفلت سے نواب شاہ میں 4 معصوم بچے جاں بحق ہوگئے اور اس کی ساری ذمہ داری پیپلزپارٹی اور سندھ حکومت کے انتظامی و سیاسی کاندھوں پر آپڑی تھی۔ماضی کا یہ واقعہ اس لیئے پیش نظر رکھنا ضرور ی ہے کہ اخباری اطلاعات کے مطابق سندھ حکومت نے نجی و سرکاری درس گاہوں میں زیر تعلیم بچوں کی کورونا ویکسی نیشن کروانے کا ”سرکاری حکم نامہ“جاری کردیا ہے۔ فی الحال ہمارا موضوع بحث یہ نہیں ہے کہ بچوں کی ویکسی نیشن سے،کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے میں کتنی مدد ملے گی؟یقینااس بابت تو آنے والا وقت ہی کچھ بتائے گا۔

لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب سندھ حکومت بیک وقت لاکھوں بچوں کی، کورونا ویکسی نیشن کرنے کی سرکاری مہم چلائے گی تو لامحالہ بعض بچوں میں (کووڈ ویکسین کی نہیں)بلکہ کسی ذاتی مرض،موروثی بیماری یا دیگر طبی وجوہات کی بناء پر ممکنہ مضر اثرات سے جسمانی عوارض یا پیچیدگیاں بھی جنم لے سکتی ہیں۔ اگر بچوں کے والدین کی جانب سے اس کی ذمہ داری سندھ حکومت یا پاکستان پیپلزپارٹی پر ڈالنے کی کوشش کی گئی تو کیا پیپلزپارٹی کی قیادت اتنی بھاری ذمہ دار ی اُٹھا نے کے لیئے پوری طرح سے تیار ہوگی؟۔ بظاہر یہ کہا جارہا ہے کہ بچوں کی ویکسی نیشن سے پہلے اُن کے والدین کی جانب سے رضا مندی کے ایک حلف نامے پر دستخط کروائے جائیں گے۔ لیکن یہ حلف نامہ تو سندھ حکومت اور پاکستان پیپلزپارٹی کو صرف ایک حد تک قانونی تحفظ فراہم کرسکتاہے۔ مگر سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ کیا وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اپنی سیاسی جماعت کے سیاسی تحفظ کے لیئے بھی کوئی بندوبست فرمایاہے؟۔

دراصل چند ایسی وجوہات ہیں، جن پر اگر پیپلزپارٹی کی قیادت نے بروقت غور و فکر کرکے موثر سیاسی حکمت عملی مرتب نہ کی تو سندھ بھر میں بچوں کی ویکسی نیشن کرنے کا اقدام اگلے قومی انتخابات سے قبل صوبہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی سیاست کا جنازہ بھی نکال سکتاہے۔ مثلاً پہلی وجہ سندھ حکومت اور صوبہ کی عوام کے درمیان پایا جانے والا شدید ترین عدم اعتماد ہے۔ خاص طور پر سندھ کے ایسے شہری علاقے جہاں پیپلزپارٹی کا سیاسی اثرو نفوذ نہ ہونے کے برابر ہے۔وہاں یہ عام تاثر پایا جاتاہے کہ سندھ حکومت سخت کورونا پابندیوں کی آڑ میں اُن کا معاشی و سیاسی استحصال کررہی ہے۔ حالانکہ کوئی بھی ذی شعور شخص اس رائے سے مکمل طور پر اتفاق نہیں کرے گا۔ لیکن چونکہ یہ رائے عوامی حلقوں میں پائی جاتی ہے۔ اس لیئے پیپلزپارٹی کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ مستقبل میں بچوں کی ویکسی نیشن کے مبینہ مضر اثرات کو بہانہ بنا کر کوئی سیاسی حریف ممکنہ طور پر پیپلزپارٹی کے خلاف ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔

دوسری وجہ کورونا ویکسین بچوں کو دیئے جانے کے حوالے سے طبی ماہرین میں پایا جانے و الا شدید اختلاف ہے۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ ایسے ممالک بھی جہاں بالغ افراد کی ویکسی نیشن مکمل ہوچکی ہے۔وہ بچوں کی ویکسی نیشن سے متعلق شدید تذبذب کا شکار ہیں۔برطانوی حکومت کا خیال ہے کہ بارہ سال سے زائد عمر کے تمام صحت مند بچوں کو کووڈ ویکسین دی جاسکتی ہے۔ لیکن برطانیہ کی سرکاری ویکسین ایڈوائزری باڈی نے حکومتی رائے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”صرف صحت کی بنیادوں پر 12سے 15سال کے صحت مند بچوں کو ویکسین لگانے کی وہ حمایت نہیں کریں گے“۔نیز ویکسی نیشن اور حفاظتی ٹیکوں کی مشترکہ کمیٹی (جے سی وی آئی) کا بھی اصرار ہے کہ”چونکہ بچوں کو،کورونا وائرس سے کم خطرہ ہے۔لہٰذا وہ بچوں کی ویکسی نیشن کے حق میں نہیں کیونکہ اس کے فوائد بہت معمولی اور خطرات بہت زیادہ لگ رہے ہیں“۔اس طرح کی طبی و تحقیقاتی رپورٹس کے سوشل میڈیا پرکثرت سے موجود ہونے کی وجہ سے بعض حلقے بچوں کی ویکسی نیشن کے سارے عمل کو متنازعہ بنا کر سندھ حکومت کو سندھ حکومت کو ”سیاسی کٹہرے“ میں کھڑا کرسکتے ہیں۔

علاوہ ازیں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں ابھی بہت تھوڑے بالغ افراد کی ہی ویکسی نیشن کی جاسکی ہے اور صوبہ سندھ میں بھی کووڈ ویکسی نیشن کی صورت حال بلحاظ تعداد کچھ زیادہ حوصلہ افزا قرار نہیں دی جاسکتی۔ اس لیئے کیا یہ بہتر اقدام نہیں ہوگا کہ پہلے تمام بالغ افراد کی کووڈ، ویکسی نیشن مکمل کرلی جائے۔ بعدازاں بچوں کی ویکسی نیشن کی ملک گیر مہم کا آغاز کیا جائے۔ سندھ حکومت یقینا کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں وفاقی حکومت سے دو،چار قدم آگے ہی رہنا چاہتی ہے۔ مگر سیاسی دانش مندی کا تقاضا یہ ہوگا کہ صوبہ سندھ میں بچوں کی ویکسی نیشن کو اُس وقت ملتوی کردیا جائے، جب تک بالغ افراد کی ویکسی نیشن مکمل نہیں ہوجاتی یا پھر ملک کے دیگر حصوں میں بھی سرکاری سطح پر بچوں کی کووڈ،ویکسی نیشن کا باقاعدہ آغاز نہیں ہوجاتا۔ تاکہ پاکستان پیپلزپارٹی کسی متوقع بڑے سیاسی نقصان سے اپنی پیشگی حفاظت یقینی بنا سکے۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 13 ستمبر 2021 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں