Silicon-Valley

ٹرمپ کی جارحانہ پالیسیاں سلیکون ویلی کا مستقبل خطرے میں!

ہم میں سے کون ہے جو نہیں جانتا کہ امریکا اس وقت ایک عالمی طاقت ہے۔لیکن اکثر لوگ اس بات سے بے خبر ہیں کہ سپر پاور امریکا کی تمام تر طاقت کا اصل منبع اورمرکز ”سلیکون ویلی“ نامی ایک شہر ہے۔ جسے دنیا بھر میں ”ٹیکنالوجی کی کائنات“ بھی کہا جاتا ہے۔دنیائے ٹیکنالوجی کے تمام بڑے بڑے اداروں کے صدر دفتر اسی شہر میں قائم ہیں۔جبکہ ہر سال ہزاروں نئی کمپنیاں بھی اسی شہر سے اپنے کاروبار کا آغاز کرتی ہیں۔امریکی معیشت میں ایک تہائی مالیاتی حجم کا حامل یہ شہر الف لیلوی داستان کے اس طوطے کی طرح ہے جس میں ایک جادوگر کی جان تھی۔اگر لمحہ بھر کے لیئے امریکہ کو آپ اقوام ِ عالم کا جادوگر تصور کر لیں تو ”سلیکون ویلی“ وہ طوطا ہے جس میں امریکہ کی جان قید ہے۔شاید اسی لیئے ایک چینی دانشور نے اپنی قوم کو نصیحیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ”امریکہ کو آپ نہ تو ہتھیاروں سے شکست دے سکتے ہیں،نہ سیاست سے اور نہ ہی ٹیکنالوجی کی چکاچوند سے، اسے اگر شکست دینی ہے تو چین کو”سلیکون ویلی“تباہ کرنا ہوگی یا پھر اس سے بڑھ کر ایک ”سلیکون ویلی“ چین میں بنانا ہوگی“۔ڈونلڈ ٹرمپ کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد امریکی عوام کے لیئے بہت سے بری خبروں کے بیچ،ایک اور بری خبر یہ بھی ہے کہ امریکہ کا معاشی ہب کہلانے والی یہ”سلیکون ویلی“ اب ٹرمپ انتظامیہ کے ہاتھوں اُجڑنے جارہی۔ ٹرمپ کے عہدہ صدارت سنبھالنے سے لے کر اب تک ”سلیکون ویلی“ مسلسل شدید ترین معاشی دباؤ کا شکار ہے۔

یہ بھی پڑھیئے: کرپشن کی دلدل میں دھنستا ہوا امریکہ

امریکی ماہرین معاشیات کے مطابق اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ”سلیکون ویلی“میں قائم ہزاروں اداروں میں دنیا بھر سے منتخب کیئے گئے لاکھوں ذہین ترین افراد اپنی ذہانت اور ذکاوت سے اس شہر کو اس قابل بناتے ہیں کہ دن ہو یا رات منافع کی شکل میں یہاں ہروقت سونا ہی برستا رہتا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ویزے کی سخت پالیسیوں کے نفاذ کے بعد جس میں یہ شق بھی شامل ہے کہ غیر ملکی ملازمین اور ان کے اہلِ خانہ کی امریکہ میں قیام کی سخت حوصلہ شکنی کی جائے گی۔اس سلیکون ویلی میں کام کرنے ہزاروں افراد نے امریکہ میں اپنے مستقبل کے حوالے سے پیدا ہونے والی اس غیر یقینی صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے کسی اور ملک میں ملازمت کے لیئے اپنا رختِ سفر باندھنا شروع کر دیا ہے۔جس کی وجہ سے ”سلیکون ویلی“ میں قائم بڑی بڑی کمپنیاں جن میں فیس بک، گوگل،اوبر، ایپل،فورڈ، وغیر ہ شامل ہیں۔ انسانی ذہانت کے شدید ترین افلاس کا شکار ہوتی جارہی ہیں۔ جس کا ابتدائی نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ یہ کمپنیاں دنیا بھر میں جو خدمات فراہم کر رہی ہیں اُن کے معیار میں شدید ترین ابتری آنا شروع ہو گئی ہے۔

اس کی ایک واضح مثال Uber کمپنی ہے۔اوبر کمپنی دنیا کے بے شمار ممالک میں جدید طرز پر ٹیکسی کے سہولیات فراہم کرنے والی سب سے بڑی کمپنی تصور کی جاتی ہے۔برطانوی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ اگلے ماہ سے لندن بھر میں اوبر کمپنی کو کام کرنے کی مزیداجازت نہیں دے گی جبکہ برطانیہ کے دیگر شہروں میں بھی جیسے ہی اوبر کمپنی کے ساتھ کیئے گئے معاہدے اپنی مدتِ اختتام کو پہنچیں گے انہیں ہمیشہ کے لیئے ختم تصور کیا جائیگا جن کی کسی صورت بھی دوبارہ تجدید نہیں کی جائے گی۔اوبر کمپنی کے مالک Travis Kalanick نے برطانوی حکومت کے اس فیصلے پر شدید مایوسی کا اظہار کیا ہے اُن کا کہنا تھا کہ”ڈونلڈ ٹرمپ کے ایڈونچر ازم نے اوبر کو شدید ترین مالیاتی بحران میں مبتلا کر دیا ہے جس کی وجہ سے اب تک ہمیں 70 بلین ڈالر کا خسارہ ہو چکا ہے۔ہمیں ڈر ہے کہ برطانوی حکومت کے اعلان کے بعد کہیں دیگر ممالک بھی مستقبل میں ہمارے ساتھ اپنے کاروباری معاہدوں کی تجدید سے انکار نہ کردیں“۔

”سلیکون ویلی“ میں شروع ہونے والے اس معاشی بحران کی شروعات نے چین کے لیئے ٹیکنالوجی کے میدان میں دنیا کا نیا حکمران بننے کی راہ ہموار کرنا شروع کردی ہے۔چینی حکومت نے صورت حال کی نزاکت کو بروقت بھانپتے ہوئے ”سلیکون ویلی“ کے دماغوں کو اپنے لیئے استعمال کرنے کی غرض سے ایک اے آئی پلان ترتیب دیا ہے۔جس کے لیئے بلین آف ڈالرز کی رقم مختص کی گئی ہے۔اس کا مقصد چین کو ٹیکنالوجی کی دوڑ میں امریکہ سے آگے نکالناہے۔اسے آپ چین کی خوش قسمتی کہیں یا امریکی عوام کی بدقسمتی کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کے اس منصوبہ میں جان پیدا کردی ہے۔چینی ٹیک کمپنیوں نے ”سلیکون ویلی“ میں کام کرنے والے غیر ملکیوں کواپنی جانب کھینچنا شروع کردیا ہے۔اوبر کے متبادل کے طور پر کام کرنے والی چینی کمپنی Didi Chuxing نے اپنی ابتدا ء کے پہلے سال ہی دس بلین ڈالر کا کاروبار کر لیا ہے۔جو امریکی کمپنیوں خاص طور پر اوبر کے لیئے تشویش ناک ہے۔

امریکی معاشی ماہرین کے مطابق فی الحال فوری طور پر ایسا کوئی خطرہ نہیں ہے کہ ”سلیکون ویلی“راتوں رات یا دو چار کمپنیوں کے بند ہو جانے یا اُن کے خسارے میں چلے جانے سے تباہ ہوجائے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم اپنی آنکھیں بند کر کے سوئے رہیں۔ہمیں امریکی حکومت،خاص طور پر ٹرمپ انتظامیہ کو یہ باور کرانا ہوگا کہ اُن کے عجلت اور تھوڑے سے سیاسی فائدے کے لیئے کئے گئے احمقانہ فیصلے ”سلیکون ویلی“ کے لیئے مستقبل میں تباہ کن ثابت ہوسکتے ہیں،اگرایک بار ہمارے قدم لڑکھڑاگئے تو پھر امریکہ کو اپنے دشمنوں کے قدموں میں گرنے سے کوئی نہیں روک سکے گا“۔

حقیقت بھی یہ ہی ہے کہ ٹیکنالوجی اپنی طاقت اور اثرو رسوخ سے دنیا کی ایک نئی صورت گری کررہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ذہانت کا سرخیل کہلانے والے امریکہ میں کوئی ایسا فرد،گروہ یا ادارہ موجود ہے جو ٹیکنالوجی کی طاقت سے مکمل طور پر نابلد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو احمقانہ فیصلوں سے روک سکے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ امریکی عوام جس نے ایک صدی کی ان تھک محنت سے 52 مختلف ملکوں کو ایک ملک بنایا تھا۔ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ دوبارہ سے اس ملک کو اپنی ناقص پالیسیوں کی بدولت پوری دنیا سے کاٹ کرا یک جزیرہ نہ بنادے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 19 اکتوبر 2017 کے شمارے میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں