Shab e Barat

شب برات، بخشش اور رزق طلب کرنے کی مقدس رات

ماہ شعبان کی پندرہویں رات کوشب برات کہاجاتا ہے،یہ رات چودہ شعبان کا دن گذار کر پندرہویں رات کو آتی ہے۔ شب کے معنی ہیں رات اوربرأت کے معنی بری ہونے،قطع تعلق اور بیزاری کرنے کے ہیں‘چونکہ اس رات مسلمان توبہ کرکے گناہوں سے قطع تعلق کرکے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں اوراللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت سے بے شمار مسلمان جہنم سے نجات کا پروانہ حاصل کر کے گویاہر طرح کے عذاب سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے بری ہوجاتے ہیں۔ اس لئے اس رات کوشب برأت کہتے ہیں۔ اس رات کولیلتہ المبارکہ یعنی برکتوں والی رات، لیلتہ الصک یعنی تقسیم امور کی رات اور لیلتہ الرحمتہ یعنی رحمت نازل ہونے کی رات بھی کہاجاتا ہے۔جلیل القدر تابعی حضرت عطاء بن یساررضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ”لیلتہ القدر کے بعد شعبان کی پندرہویں شب سے افضل کوئی رات نہیں“۔سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کا قولِ معروف ہے کہ ”جس طرح مسلمانوں کے لئے زمین میں دوعیدیں ہیں اسی طرح فرشتوں کے لئے آسمان میں دوعیدیں ہیں ایک شب برأت اوردوسری شب قدر جس طرح مومنوں کی عیدیں عیدالفطر اورعیدالاضحی ہیں فرشتوں کی عیدیں رات کواس لئے ہیں کہ وہ رات کوسوتے نہیں جب کہ آدمی سوتے ہیں اس لئے ان کی عیدیں دن کوہیں“۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ”رسول کریمﷺ نے فرمایا کیا تم جانتی ہوکہ شعبان کی پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے؟ میں نے عرض کی یارسول اللہﷺ آپ فرمائیے۔ارشادہوا آئندہ سال میں جتنے بھی پیدا ہونے والے ہوتے ہیں وہ سب اس شب میں لکھ دیئے جاتے ہیں اورجتنے لوگ آئندہ سال مرنے والے ہوتے ہیں وہ بھی اس رات میں لکھ دیئے جاتے ہیں اوراس رات میں لوگوں کے(سال بھرکے)اعمال لکھے جاتے ہیں اوراس رات میں لوگوں کامقررہ رزق اتاراجاتاہے“۔ علامہ قرطبی مالکی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”تمام امور کے لوح محفوظ سے نقل کرنے کاآغاز شب برأت سے ہوتا ہے اوراختتام لیلتہ القدر میں ہوتاہے“۔یہاں کسی کے ذہن میں ایک شبہ یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ یہ امورتوپہلے ہی سے لوح محفوظ میں تحریر ہوتے ہیں تو پھر اس شب میں ان کے لکھے جانے کا کیامطلب ہے؟جواب یہ ہے کہ یہ امور بلاشبہ لوح محفوظ میں تحریر ہوتے ہیں لیکن اس شب میں مذکورہ امور کی فہرست لوح محفوظ سے نقل کرکے ان فرشتوں کے سپرد کی جاتی ہے جن کے ذمہ ان اُمور کی انجام دہی کا فریضہ ہوتا ہے۔

شب برأت کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس شب میں اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے بے شمارلوگوں کی بخشش فرمادیتا ہے،جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں کہ”ایک رات میں نے حضوراکرمﷺ کواپنے پاس نہ پایا تو میں آپ کی تلاش میں نکلی میں نے دیکھاکہ آپﷺ جنت البقیع میں تشریف فرما ہیں، آپ نے فرمایا کیا تمہیں یہ خوف ہے کہ اللہ تعالیٰ اوراس کارسولﷺ تمہارے ساتھ زیادتی کریں گے میں نے عرض کی یارسول اللہﷺ مجھے یہ خیال ہوا کہ شاید آپ کسی دوسری اہلیہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں آقا ومولیٰﷺ نے فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب آسمان دنیا پر(اپنی شان کے مطابق) جلوہ گرہوتا ہے اورقبیلہ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے“۔ ایک اور حدیث شریف میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آقامولیٰﷺ نے فرمایا”شعبان کی پندرہویں شب میں اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر(اپنی شان کے مطابق) جلوہ گرہوتا ہے اوراس شب میں ہرکسی کی مغفرت فرمادیتا ہے سوائے مشرک اور اپنے رشتہ داروں سے بغض اور نفرت رکھنے والے کے“۔جبکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ”ہمیں غیب بتانے والے آقا ومولیٰ ﷺ نے فرمایا جب شعبان کی پندرہویں شب ہوتو رات کوقیام کرواوردن کوروزہ رکھو کیونکہ غروب آفتاب کے وقت سے ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت آسمان دنیا پرنازل ہوجاتی ہے اوراللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے‘ہے کوئی مغفرت کاطلب کرنے والاکہ میں اسے بخش دوں‘ ہے کوئی رزاق مانگنے والاکہ میں اس کورزق دوں ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اسے مصیبت سے نجات دوں‘یہ اعلان طلوع فجر تک ہوتارہتاہے“۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ”میں نے آقاومولیٰﷺ کوماہ رمضان کے علاوہ ماہ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے رکھتے نہیں دیکھا“۔آپ ؓ نے ایک اور جگہ ارشاد فرمایا کہ ”نبی کریمﷺ چند دن چھوڑ کرپورے ماہ شعبان کے روزے رکھتے تھے“آپؓ سے ہی سے ایک اور حدیث میں مروی ہے کہ ”سرکار دو عالمﷺ نے فرمایا شعبان میرا مہینہ ہے اوررمضان میری امت کامہینہ ہے“۔نبی کریم ﷺ کا یہ بھی ارشاد گرامی ہے کہ”جن لوگوں کی روحیں قبض کرنی ہوتی ہیں ان کے ناموں کی فہرست ماہ شعبان میں ملک الموت کو دے دی جاتی ہے اس لئے مجھے یہ بات پسند ہے کہ میرانام اس وقت فہرست میں لکھاجائے جب کہ میں روزے کی حالت میں ہوں“۔

اس مقدس رات میں مسجد میں جمع ہوکرعبادات میں مشغول رہنا اور شب بیداری کااہتمام کرنا تابعین کرام کاطریقہ رہا ہے،شیخ عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ فرماتے ہیں جوشخص شعبان کی پندرہویں رات میں شب بیداری کرے تویہ فعل احادیث کی مطابقت میں بالکل مستحب ہے،رسول کریمﷺ کایہ عمل بھی احادیث سے ثابت ہے کہ شب برأت میں آپ مسلمانوں کی دعائے مغفرت کے لئے قبرستان تشریف لے گئے تھے۔آقاومولیٰ ﷺ نے زیارت قبورکی ایک بڑی حکمت یہ بیان فرمائی ہے کہ اس سے موت یادآتی ہے اورآخرت کی فکر پیدا ہوتی ہے۔شب برأت میں زیارت قبور کاواضح مقصد یہی ہے کہ اس مبارک شب میں ہم اپنی موت کویاد رکھیں تاکہ گناہوں سے سچی توبہ کرنے میں آسانی ہو، شب بیداری کااصل مقصدِ وحید بھی یہ ہی ہے۔اس مقدس شب میں کچھ ایسی باتیں بھی ہیں جن سے مکمل طورپر ہمیں احتراز کرنا چاہیے۔گو کہ اکثر لوگ اس رات شب بیداری کرتے ہیں اورتمام دن اطاعت الہٰی میں گزارتے ہیں جب کہ اس کے برعکس بعض ایسے کم نصیب لوگ بھی جابجا نظر آتے ہیں جواس مقدس رات میں فکر آخرت اورعبادت ودعا میں مشغول ہونے کی بجائے مزید لہو ولعب میں مبتلاہوجاتے ہیں اور آتش بازی، پٹاخے اوردیگربُرے کاموں میں مبتلاہوکر وہ اس مبارک رات کاتقدس پامال کرنے کا موجب بنتے ہیں حالانکہ آتش بازی اورپٹاخے نہ صرف ان لوگوں اور ان کے بچوں کی جان کیلئے خطرہ ہیں بلکہ اردگرد کے لوگوں کی جان کیلئے بھی خطرے کاباعث بنتے ہیں۔ہمیں چاہئے کہ ایسے آلودہ کاموں سے خود بھی بچیں اوردوسروں کوبھی بچائیں اوربچوں کوسمجھائیں کہ ایسے فضول کاموں سے اللہ تعالیٰ اورا س کے پیارے حبیبﷺ سخت ناراض ہوتے ہیں۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 26 اپریل 2018 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں