Pakistan-and-Corruption-of-Fighting-Political-Corruption

وبا کے دنوں میں سیاست

سیاست کے جنگی معرکوں میں غازی اور شہید کے منصبِ جلیلہ پر فقط وہی لوگ فائز ہوتے ہیں جو اگلے مورچوں پر اپنی جان ہتھیلی پرر کھ کر دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اُس سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔ صوبائی وزیر تعلیم اور محنت سعید غنی بھی حالیہ دور میں انسانیت کے سب سے بڑے دشمن کورونا وائرس کے خلاف لڑنے والے پاکستان کے ایک ایسے ہی سیاسی مردِ مجاہد ہیں۔ جنہوں نے کورونا وائرس کی ہلاکت خیزی کی ذرہ برابر بھی پرواہ کیئے بغیر سندھ حکومت کے ایک اہم ترین سپاہی کی حیثیت سے روزِ اوّل سے ہی اِس مہلک وائر س کا صوبہ سندھ میں پھیلاؤ روکنے کے لیئے اپنا بھرپور انتظامی اور سیاسی کردار ادا کیا۔ سعید غنی کی انتظامی و سیاسی کاوشیں تو کسی حد رنگ لا رہی ہیں اور سندھ میں مکمل لاک ڈاؤن ہوجانے کے بعد کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں تسلی بخش حد تک روک بھی لگادی گئی ہے۔ لیکن اِسی دوران سعید غنی نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ٹوئٹ کرتے ہوئے اطلاع دی کہ ”اُن کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا ہے اور انہوں نے خود کو چودوہ ایام کے لیئے مکمل طور پر قرنطینہ کرلیا ہے“۔کورونا کے خلاف ہماری قومی جنگ میں سعید غنی کو پاکستان میں اوّلین”سیاسی غازی“ قرار دیا جاسکتا ہے۔ یقینا جس طرح سے سندھ کابینہ نے کورونا وائرس کے عدم پھیلاؤ کے لیئے بھرپور انداز میں کام کیا ہے،اُسے دیکھتے ہوئے مزید کابینہ ارکان کے کورونا وائرس کے ٹیسٹ نتائج مثبت آنے کے اِمکان کو کسی بھی صورت رد نہیں کیا جاسکتا۔ مگر اُمید یہ ہی کی جارہی ہے کہ جس طرح سعید غنی نے کورونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد بھی اِس جان لیوا وائرس کے خلاف اپنی جنگ ابھی تک ترک نہیں کی بالکل ویسے ہی کورونا وائرس کی شکست کے آخری لمحات تک پوری سندھ کابینہ وزیراعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ کی قیادت میں یونہی نبرد آزما رہے گی۔

جتنا کورونا وائرس پیچیدہ اور پراسرارہے بالکل ایسے ہی اِس کے خلاف لڑنے والے بھی پشاور سے لے کر کراچی تک متحد اور یکجان ہوچکے ہیں۔ خاص طور سندھ میں سیاسی منظرنامہ مکمل طور پر بدل چکا ہے اور کل کے سیاسی مخالف آج ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے کورونا وائرس کے خلاف باہم مل کر سیاسی و انتظامی حکمت عملی ترتیب دے رہے ہیں۔ سندھ حکومت اور پاکستان پیپلزپارٹی نے انتظامی محاذ بھرپور انداز میں سنبھالا ہواہے اور لاک ڈاؤن کا بروقت فیصلہ کر کے صوبہ بھر میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو جہاں ہے جیسے ہی کی بنیاد پر روک دیا ہے۔ جبکہ جماعت اسلامی اور اِس کا ذیلی فلاحی ادارہ الخدمت صوبہ بھر میں سیاست سے بالاتر ہوکر لاک ڈاؤن سے متاثر ہونے والے ہزاروں خاندانوں کو مالی و طبی امداد اُن کے گھروں تک پہنچانے میں پیش پیش ہے۔ تقریباً صوبہ کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں خدمت خلق فاؤنڈیشن کے سینکڑوں رضاکار پوری تندہی کے ساتھ مصروف عمل ہیں۔ دوسری جانب سیلانی ویلفیئر انٹرنیشنل کراچی، حیدرآباد اور اِس کے گردو نواح میں ہزاروں کی تعداد میں دیہاڑی دار مزدوروں کودو درجن سے زائد مختلف مقامات پر تین وقت کا کھانا مفت میں میں فراہم کررہی ہے۔ اس کے علاوہ ایدھی فاؤنڈیشن اپنی ایمبولینس سروس کی صورت میں کسی بھی طبی ہنگامی صورت حال میں لاک ڈاؤن کے دوران شہریوں کو بروقت ابتدائی طبی امداد کے لیئے قریبی ہسپتال تک لے جانے کے لیئے 24 گھنٹے بلا کسی تعطل ایک فون کال پر مفت میں دستیاب ہے۔ صرف یہ ہی نہیں صوبہ سندھ کے کم و بیش ہر چھوٹے،بڑے قصبے اور شہر میں دردِ دل رکھنے والے مخیر اور اہلِ ثروت حضرات کی طرف سے بے شمار رضاکارانہ کمیٹیاں قائم کردی گئی ہیں جو نہ صرف سفید پوش غریب طبقہ کی نگہہ داری کررہی ہیں بلکہ اُنہیں روز مرہ ضرورت کی ہر شئے فراہم کرنے کی اپنی سی سعی بھی کر رہی ہیں۔



اگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بات کی جائے تو بلاشبہ اُن کا کردار مشکل کی اِس گھڑی میں لائقِ تحسین ہے اور یہ ہی وہ طبقہ ہے جو اِس وقت سب سے زیادہ مشکل صورت حال سے دوچار ہے۔ کیونکہ عام لوگ تو پھر بھی لاک ڈاؤن کی وجہ سے اپنے اپنے گھروں میں محفوظ ہو گئے ہیں لیکن یہ لوگ سرکاری فرائض کی بجاآوری میں کھلی فضا میں سڑکوں پر پوری طرح سے چوکس کھڑے ہیں اور مختلف مقامات پر انہیں چاہتے ہوئے اور نہ چاہتے ہوئے بھی عام لوگوں سے قریبی روابط قائم کرنے پڑ جاتے ہیں، جس کی وجہ اِن کے کورونا وائرس کا شکار ہونے کے ممکنہ خطرات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ ویسے تو صوبہ سندھ کی نوے فیصد عوام سندھ حکومت کے لاک ڈاؤن کے فیصلہ کے آگے سرتسلیم خم کرتے ہوئے بھرپور انداز میں تعاون کررہی ہے لیکن دس فیصد ناعاقبت اندیش افراد ابھی بھی ایسے ضرور موجود ہیں جو صوبہ بھر میں قانون نافذ کرنے والوں کے لیئے ایک صبر آزما امتحان بنے ہوئے ہیں اور بلاوجہ ہی ایڈونچر ازم کے شوق میں بار بار لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سڑکوں پر آجاتے ہیں۔اچھی با ت یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھرپور صبر و تحمل کا مظاہر ہ کرتے ہوئے لاک ڈاؤن کی بلاکسی ضرورت کے خلاف ورزی کرنے والوں کو بھی پیار اور شفقت سے سمجھانے کی حتی المقدور کوشش کررہے ہیں اور چھوٹی موٹی سزایا پھر تنبیہ کر کے اُنہیں چھوڑ دیتے ہیں۔لیکن آخر کار اِن غیر سنجیدہ افراد کو بھی سمجھنا ہوگا کہ اُن کی ایک غلط حرکت یا ایڈونچر ازم کا خمیازہ بعدازاں اُن کے پورے گھرانے کو کورونا وائرس کا شکار ہوکر بھگتنا پڑ سکتا ہے۔یاد رہے کہ کورونا وائرس سے بچاؤکے لیئے دنیا بھر میں ابھی تک صرف ایک ہی ہتھیار کارگر ثابت ہوسکاہے اور اُس کا نام مکمل سماجی تنہائی ہے۔لہٰذا من چلے اور غیر سنجیدہ حضرات سے التماس ہے کہ وہ سندھ حکومت کی لاک ڈاؤن اپیل کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے انتہائی احتیاط کا مظاہرہ کریں کیونکہ صرف آج کی گئی ذرا سی احتیاط ہی آپ اور آپ کے خاندان کو کورونا وائرس کا شکار ہونے سے بچا سکتی ہے۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 26 مارچ 2020 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں